مقالاتکربلا شناسی

کربلا مقام عبرت

(جان محمد حیدری)

کيا حالات پيش آئے تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوا؟ کربلا سے حاصل کی جانے والی عبرتيں يہ ہيں کہ انسان غور و فکر کرے کہ وہ اسلامی معاشرہ کہ جس کی سربراہی پيغمبر خدا (ص) جيسی ايک غير معمولی ہستی کے پاس تھی اور آپ (ص) دس سال تک انسانی توان و طاقت سے مافوق اپنی قدرت اور وحی الٰہی کے بحر بيکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظير اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کی راہنمائی فرمائی۔ آپ (ص) کے کچھ عرصے (پچيس سال) بعد ہی امير المومنين حضرت علی نے اُسی معاشرے پر حکومت کی اور مدينہ اور کوفہ کو بالترتيب اپنی حکومت کا مرکز قرار ديا۔ اُس وقت ایسا کيا حادثہ وقوع پذير ہوا تھا اور بيماری کا کون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن ميں سرايت کر گيا تھا کہ حضرت ختمی مرتبت (ص) کے وصال کے نصف صدی اور امير المومنين کی شہادت کے بيس سال بعد ہی اِسی معاشرے اور اِنہی لوگوں کے درميان حسين ابن علی جيسی عظيم المرتبت ہستی کو اُس دردناک طريقے سے شہيد کر ديا جاتا ہے؟!

آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے باعث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ يہ کوئی بے نام و نشان اور گمنام ہستی نہيں تھی، بلکہ يہ اپنے بچپنے ميں ايسا بچہ تھا کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) اپنی آغوش ميں ليتے تھے اور اُس کے ساتھ منبر پر تشريف لیجا کر اصحاب سے گفتگو فرماتے تھے۔(1) وہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کے بارے ميں خدا کے رسول (ص) نے يہ فرمايا کہ ’’حسين مجھ سے ہے اور ميں حسين سے ہوں‘‘ اور اِن پسر و پدر کے درميان ايک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ يہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کا شمار امير المومنين کے دورِ حکومت کي جنگ و صلح کے زمانوں ميں حکومت کے بنيادي ارکان ميں ہوتا تھا، جو ميدان سياست ميں ايک روشن و تابناک خورشيد کي مانند جگمگاتا تھا۔

اِس کے باوجود اُس اسلامی معاشرے کا حال يہ ہوجائے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا يہی معروف نواسہ اپنے عمل، تقویٰ، باعظمت شخصيت، عزت و آبرو، شہرِ مدينہ ميں اپنے حلقہ درس کہ جس ميں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنيائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شيعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجود ايسے حالات ميں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہايت بدترين طريقے سے محاصرہ کرکے اُسے پياسا قتل کر ديا جائے۔ نہ صرف يہ کہ اُسے قتل کرتے ہيں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتیٰ اُس کے شش ماھہ شير خوار بچے کو بھی قتل کر ديتے ہيں اور صرف اِسی قتل و غارت پر اکتفاء نہيں کرتے بلکہ اُس کی زوجہ، بچوں اور ديگر خواتين کو جنگی قيديوں کی مانند اسير بنا کر شہر شہر گھماتے ہيں؛ آخر قصّہ کيا تھا اور کيا حالات رونما ہوئے تھے؟ يہ ہے مقام عبرت آج بھی عصر حاضر کی کربلا ہمیں بلا رہی ہے اور آواز دے رہی ہے کہ آیئے اور اپنے زمانے کے حسین (علیہ السلام ) کی نصرت کریں اور کربلا کا انتقام لیں۔!(2)

حوالہ جات۔
1۔ کربلا کی عبرتیں رحیم پور ازغدی۔
2۔ (حُسَينُ مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسِينِ) فلسفہ قیام امام حسین، سید جواد نقوی۔

Related Articles

Back to top button