امام علی علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیت

دنیا حضرت علی (ع) کی نگاہ میں

مصنف:
آیت اللہ محمد مہدی آصفی
پیغمبر(ص)واھل بیت(ع)> امیر المومنین(علیہ السلام)

دنیا کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے:
یاد رکھو:اس دنیا کا سر چشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گدلاہے،اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطرہ ناک ہیں، یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب ،بجھ جانے والی روشنی،ڈھل جانے والاسایہ اور ایک گرجانے والاستوں ہے.جب اس سے نفرت کرنے والامانوس ہوجاتاہے اور اسے براسمجھنے والا مطمئن ہوجاتاہے تو یہ ایک اچانک اپنے پیروں کو پٹخنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کانشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معارضہ حاصل کرلیتاہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتارہتاہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیردستیوں سے باز آتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں، پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں.(1)
دنیا کے بارے میں آپ ؑنے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
میں اس دار دنیا کے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فناونابودی ہے اس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب ،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے.اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ وافسردہ ہوجائے .جو اس کی طرف دوڑلگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہوجائے جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے”.(2)
اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسیؒ کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایاتھا .اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جوچھونے میں انتہائی نرم ہوتاہے لیکن اس کا زہر انتہائی قاتل ہوتاہے اس میں جوچیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو.”مَثَلُ الدُّنْیَا كَمَثَلِ الْحَیَّةِ مَا أَلْیَنَ مَسَّہَا وَ فِی جَوْفِہَا السَّمُّ النَّاقِعُ یَحْذَرُہَا الرَّجُلُ الْعَاقِلُ وَ یَہْوِی إِلَیْہَا الصَّبِیُّ الْجَاہِلُ "(3)کہ اس میں سے ساتھ جانے والابہت کم ہے.اس کے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھوکہ اس اس سے جداہونا یقینی ہے اوراس کے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں.اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ حوشیار رہو کہ اس کا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سےمطمئن ہوجاتاہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کروحشت کے حالات تک پہنچادیتی ہے.(4)
دنیا کے بارے میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا:
میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کررہاہوں کہ یہ شریں اورشاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہوئی ہے اپنی جلدمل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ مزیں ہے. نہ اس کی خوشی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کوئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز،نقصان رساں،بدل جانے والی،فنا ہو جانے والی،زوال پذیر اور ہلاک ہوجانے والی ہے.یہ لوگوں کوکھابھی جاتی ہے اور مٹابھی دیتی ہے.
جب اس کی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہوجانے والوں کی خواہشات انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو یہ بالکل پروردگارکے اس ارشاد کےمطابق ہوجاتی ہے.> كَماءٍ أَنْزَلْناہُ مِنَ السَّماءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَباتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ ہَشیماً تَذْرُوہُ الرِّیاحُ وَ كانَ اللَّہُ عَلى‏ كُلِّ شَیْ‏ءٍ مُقْتَدِرا” < یعنی دنیا کی مثال اس پانی کی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا تو زمین کی روئیدگی اس سے مل جل گئی پھر آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑادیتی ہیں اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے”(5)
اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آ نسو بہا ناپڑے اور کو ئی اس کی خوشی کو آ تے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میںجکڑ کر پیٹھ دکھلادیتی ہے اورکہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلاؤں کا دوگڑاگرنے لگتاہے.اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بد لہ لیتے آتی ہے تو شام ہو تے ہو تے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے شیر یں اور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے .کوئی انسان اس کی تازگی سےاپنی خوا ہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے در پے مصا ئب کی بنا پر رنج و تعب کا شکار ہو جا تا ہےاو رکوئی شخص شام کو امن و امان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہو تےہو تے خوف کے با لوں پر لا ددیا جاتاہے .یہ دنیا دھو کہ باز ہےاور اس کےاندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے.یہ فانی ہےاوراس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونےوالا ہے.اس کےکسی زادر اہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے .اس میں سے جوکم حاصل کرتاہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جوزیادہ کے چکر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے.کتنے اس پر اعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیاگیا او رکتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیاگیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنادیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹادیاگیا. اس کی بادشاہی پلٹاکھانے والی.اس کا عیش مکدر -اس کا شریں شور- اس کامیٹھاکڑوا.اس کی غذازہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں.اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مندبیماریوں کی زدپرہے.اس کا ملک چھننے والاہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والاہے.اس کا عملدار بدبختیوں کا شکارہونے والاہے اور اس کا ہمسایہ لٹنے ولاہے .کیاتم انہیں کے گھروں میں نہیں ہوجوتم سے پہلے طویل عمر،پائیدارآثار اور دوررس امیدوںوالے تھے .بے پناہ سامان مہیاکیا،بڑےبڑےلشکرتیار کئے اورجی بھر کر دنیا کی پرستش کی اور اسے ہرچیزپرمقدم رکھالیکن اس کے بعدیوںروانہ ہوگئے کہ نہ منزل تک پہنچانے والا زادراہ ساتھ اورنہ راستہ طے کرانے والی سواری .کیا تم تک کوئی خیر پہنچی ہے کہ اس دنیانے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیاہویاان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو.؟بلکہ اس نے توان پر مصیبتوں کے پہاڑتوڑے،آفتوں سے انہیں عاجز ودرماندہ کردیا اورلوٹ لوٹ کرآنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑکررکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک کےبل پرپچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچل ڈالا،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کاہاتھ بٹایا.تم نے تودیکھاہے کہ جوذرادنیا کی طرف جھکااور اسے اختیار کیا اور سے لپٹا،تو اس نے( اپنے تیوربدل کر ان سے کیسی)اجنبیت اختیار کرلی.یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہوکرچل دیئے ،اور اس نے انہیں بھوک کے سواکچھ زادراہ نہ دیا،اور ایک تنگ جگہ کے سواکوئی ٹھہرنے کاسامان نہ کیا،اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا،توکیاتم اسی دنیاکو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہوگئے ہو یا اسی پر مرے جارہے ہو؟ جود نیاپر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطرہوکررہے اس کے لئے یہ بہت بڑاگھرہے.جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو،کہ(ایک نہ ایک دن)تمہیں دنیاکوچھوڑناہے،اوریہاں سے کوچ کرناہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جوکہا کرتے تھے کہ”ہم سے زیادہ قوت وطاقت میں کون ہے.”انہیں لادکرقبروں تک پہنچایاگیامگراس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھاجائے انہیں قبروں میں اتاردیاگیا،مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پرڈال دئے گئے اورگلی سڑی ہڈیوں کوان کا ہمسایہ بنادیاگیا ہے.وہ ایسےہمسایہ ہیں جوپکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کوروک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پرواہ کرتے ہیں .اگربادل (جھوم کر) ان پربرسیں،توخوش نہیں ہوتے اورقحط آئے توان پرمایوسی نہیں چھاجاتی.وہ ایک جگہ ہیں مگر الگ الگ ،وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگردوردور،پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں ،ان کے بغض و عناد ختم ہوگئے اورکیسے مٹ گئے.نہ ان سے کسی ضررکا اندیشہ ہے نہ کسی تکلیف کے دورکرنے کی توقع ہے انہوں نے زمین کے اوپرکا حصہ اندر کے حصہ سے اورننگے پیراور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے،ویسے ہی زمین میں(پیوند خاک)ہوگئے اور اس دنیاسے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اورسدارہنے والے گھر کی طرف کوچ کرگئے.جیساکہ خداوند قدوس نے فرمایاہے :>كَما بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْداً عَلَیْنا إِنَّا كُنَّا فاعِلِین‏<(6)
جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے.اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے پورا کرکے رہیں گے”
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
وَ أُحَذِّرُكُمُ الدُّنْیَا فَإِنَّہَا دَارُ قُلْعَةٍ وَ لَیْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ دَارٌ ہَانَتْ عَلَى رَبِّہَا فَخَلَطَ خَیْرَہَا بِشَرِّہَا وَ حُلْوَہَا بِمُرِّہَا لَمْ یَرْضَہَا لِأَوْلِیَائِہِ وَ لَمْ یَضِنَّ بِہَا عَلَى أَعْدَائِہِ رُبَّ فِعْلٍ یُصَابُ بِہِ وَقْتُہُ فَیَكُونُ سُنَّةً وَ یَخْطَأُ بِہِ وَقْتُہُ فَیَكُونُ سُبَّةً دَخَلَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّہِ ص وَ ہُوَ عَلَى حَصِیرٍ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقَالَ یَا نَبِیَّ اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْتَ فِرَاشاً أَوْثَرَ مِنْہُ فَقَالَ مَا لِی وَ لِلدُّنْیَا مَا مَثَلِی وَ مَثَلُ الدُّنْیَا إِلَّا كَرَاكِبٍ سَارَ فِی یَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَہَارٍ ثُمَّ رَاحَ وَ تَرَكَہَا "(7)
میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کررہاہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے.آب ودانہ کی منزل نہیں ہے .یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائشی ہی سے دھوکادیتی ہے.اس کا گھرپروردگارکی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام. خیر کے ساتھ شر،زندگی کےساتھ موت اور شریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیاہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھاہے.اس کا خیربہت کم ہے اور اس کا شرہروقت حاضر ہے.اس کا جمع کیاہوا ختم ہوجانے والاہے اور اس کا مالک چھن جانے والاہے اور اس کےآباد کو ایک دن خراب ہوجاناہے.بھلا اس گھر میں کیاخوبی ہے جوکمزور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جوزادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جوچلتے پھرتے تمام ہوجائے.
دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کوبھی شامل کرلواور اسی سے اس کے حق کے اداکرنے کی توفیق کامطالبہ کرو اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اس کے کہ تمہیں بلالیاجائے.”
دنیاکے سلسلہ میں ہی فرماتے ہیں:
عِبَادَ اللَّہِ أُوصِیكُمْ بِالرَّفْضِ لِہَذِہِ الدُّنْیَا التَّارِكَةِ لَكُمْ وَ إِنْ لَمْ تُحِبُّوا تَرْكَہَا وَ الْمُبْلِیَةِ لِأَجْسَامِكُمْ وَ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ تَجْدِیدَہَا فَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَ مَثَلُہَا كَسَفْرٍ سَلَكُوا سَبِیلًا فَكَأَنَّہُمْ قَدْ قَطَعُوہُ… ‏”(8)
بندگان خدا !میں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ اس دنیا کوچھوڑ دوجوتمہیں بہرحال چھوڑنے والی ہے،چاہے تم اس کی جدائی کوپسند نہ کرو.وہ تمہاری اور اس کی مثال ان مسافروں جیسی ہے جوکسی راستہ پر چلے اور گویا کہ منزل تک پہنچ گئے. کسی نشان راہ کا ارادہ کیااورگویا کہ اسے حاصل کرلیا اورکتنا تھوڑاوقفہ ہوتاہے اس گھوڑادوڑانے والے کے لئے جودوڑاتے ہی مقصد تک پہنچ جائے.اس شخص کی بقاہی کیاہے جس کا ایک دن مقررہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اورپھرموت تیزرفتاری سے اسے ہنکاکرلے جارہی ہو یہان تک کہ بادل ناخواستہ دنیاکو چھوڑدے.خبردار دنیاکی عزت اور اس کی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا اور اس کی زینت ونعمت کوپسند نہ کرنا اور اس کی دشواری اورپریشانی سے رنجیدہ نہ ہوتاکہ اس کی عزت و سربلندی ختم ہوجانے والی ہے اور اس کی زینت ونعمت کو زوال آجانے والاہے اور اس کی تنگی اورسختی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے.یہاں ہر مدت کی ایک انتہائی ہے اور ہر زندہ کے لئے فناہے ہے.کیا تمہارےلئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کرنہیں آتے ہیں اوربعدمیں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں؟ کیاتم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا مختلف حالات میں صبح وشام کرتے ہیں.کوئی مردہ ہے جس پرگریہ ہورہاہے اورکوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیاجارہاہے .ایک بسترپر کوئی غفلت میں پڑاہواہے توزمانہ اس سے غافل نہیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جارہے ہیں.آگاہ ہوجاؤ کہ ابھی موقع ہے اسے یاد کرو جولذتوں کوفنا کردینے والی.خواہشات کومکدر کردینےوالی اور امیدوں کو قطع کردینے والی ہے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کررہے ہو اور اللہ سے مدد مانگوتاکہ اس کےواجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرسکوجن کاشمار کرنا ناممکن ہے.”
یہ زندگی دنیا کا پہلارخ ہے چنانچہ دنیاکے اس چہر ے کی نشاندہی کرنے کے لئے ہم نے روایات کواسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیاہے کیونکہ اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑکر اس کے ظاہر پر ہی ٹھہرجاتے ہیں اور ان کی نظر یں باطن تک نہیں پہنچ پاتیں.شاید ہمیں انہیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سہارے ہم ظاہر دنیاسے نکل کر اس کے باطن تک پہنچ جائیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔نہج البلاغہ، مکتوب 2.
۲۔نہج البلاغہ، خطبہ83.
۳۔بحارالانوار، ج77،ص374.
۴۔نہج البلاغہ،خطبہ82.
۵۔کہف،آیت45.
۶۔نہج البلاغہ، خطبہ111،انبیاء آیت104.
۷۔نہج البلاغہ، خطبہ،113.
۸۔نہج البلاغہ ،خطبہ،99.

Related Articles

Back to top button