اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

خلوص ا و رعمل خالص

مصنف:
شھید عبدالحسین دستغیب

خالص وہ چیز ہوتی ہے جو کھری اور بے کھوٹ ہو اور اس میں اس کے غیر کی آمیزش نہ ہو مثلاً خالص سونا جوصرف سونا ہوتاہے اورسونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا.نہ اس میں تانبے کی اور نہ ہی کسی اور چیز کی کی ملاوٹ ہوتی ہے.یامثلاً خالص دودھ جس کاوصف قرآن مجید میں یوں فرمایاگیا ہے:
> نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ لَبَناً خالِصاً سائِغاً لِلشَّارِبِین‏<
ہم ان کے شکم سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکالتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے.
یعنی باوجوداس کے کہ وہ خون اور فضلات شکم میں گھراہواہے پھر بھی نہ فضلات کی بوسےمتاثر ہے نہ ان کی گندگی سے مکد رہے اور نہ خون ہی کے رنگ سےمتغیر ہے.
اسی طرح عمل بھی کدورت ہائے نفسانی سے غیر متاثرہونا چاہئے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا چاہئے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے تقرب کے ساتھ دنیاوی طلب کی شرکت جائز نہیں

دنیاوی آبروبھی اسی کے ہاتھ میں‌ہے:
عمل کے محرک کو دریافت کرنا ضروری ہے کہ کیا تقرب خالق اس کا محرک ہے یاتقرب مخلوق مثلاًاگر آپ منبر پرہو عظمت کےلئے جارہے ہیں تو کیا اللہ تعالٰی کے تقرب کے لئے جارہے ہیں یا حصول مال وجاہ کے لئے یادونوں یاتینوں کےلئے.یقین کیجئے کہ ان کا یکجا ہوناممکن نہیں کیونکہ کوئی کام یا اللہ کے لئے یاغیر اللہ کے لئے.یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے لئے بھی ہو اور غیر اللہ کے لئے بھی اور اگر پورے خلوص نیت کے ساتھ صرف اسی کے لئے انجام نہ دیاجائے اور اس میں اس کے غیر کی بھی شرکت ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کے حضور قبول نہیں ہوتا بلکہ دنیاوی مقصد بھی اس سے پورا نہیں ہوتا کیونکہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اگر وہ چاہے تو دنیاوی عزت بھی حاصل ہوسکتی ہے اور اگر اس کی مشیت میں نہ ہو تو سوائے ذات کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

مالک دینار کاقصہ:
ابتدائے عمرمیں ملاک دینار کاپیشہ صرافی تھا اور گذر اوقات بھی ان کی اچھی تھی.
مال میں زیادتی کےلالچ میں انہیں شام کی جامع مسجد اموی کی تولیت کی خواہش ہوئی ظاہر ہےکہ اس تولیت کے حصول سے بڑی بڑی رقوم ان کے ہاتھ لگتیں لیکن متولی بننے کے لئے از حد خلق یعنی سب سے زیادہ زاہد اور پرہیز گار ہونا شرط ہے‌انہوںنے تولیت کی ہوس میں اپنی ساری جائداد غرباء میں تقیسم کردی اور جامع مسجد میں گوشہ نشین ہوگئے اور جب دیکھتے کہ کوئی شخص مسجدمیں داخل ہوا ہے فوراً نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور خود پر خشوع وخصوع کی حالت طاری کرلیتے.
تعجب کی بات یہ تھی کہ ان کے پاس سے ہرگزرنے والاان سے پوچھتاکہ اے مالک کیا ارادے ہیں ،کس چکر میں ہو،اسی حالت میں کافی زمانہ گذر گیا.ایک رات وہ اس سوچ میں پڑگئے کہ یہ میں نے کیا کیا او رمال دنیا کی حرص میں متبلا ہواکر میں کس حالت کو پہنچ گیا .اپنا سارامال و متاع ہوس کی نذر کرکے آخر مجھے کیاملا.اب تو سب لوگ بھی میرے بھید سے واقف ہوگئے‌ہیں اور مجھے جینے نہیں دے رہے، میں نہ دین کا رہا نہ دنیا کا .اب تو خسرالدنیا والاخرۃ میرا مقدر ہوچکاہے….
اس رات انہوں نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ سچی نیت سے استغفار کیا،نمائشی عبادت سے توبہ کی او رصبح تک اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے.دوسرے دن وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ مسجد میں آنے والاہر شخص ان سے احترام سے پیش آتا اور ان سے التماس دعاکرتاہے او رسارے لوگ ان سے اظہار عقیدت وارادت کرتے ہیں.رفتہ رفتہ سارے شام میں مشہور ہوگیا کہ مالک دینار ازحدخلق ہیں.اب لوگ ان کے پاس آئے اور انہیں مسجد اموی کے اوقاف کی تولیت پیش کی.لیکن انہوں نے جواب دیا نہ بابا بڑی مشکل سے اللہ تعالیٰ کی کچھ ر ضا مجھے حاصل ہوئی ہے ،میرے حالات خوب سدھرگئےہیں،مجھے اب کسی چیز کی احتیاج نہیں رہی۔
وہ بدبخت انسان جو خلوص سے محروم ہو واقعی خسرالدنیا والآخرۃ سے دوچار ہوتاہے۔

بے فائدہ عبادت:
ہم کہہ چکے ہیں کہ عبادت کی قبولیت خلوص سے مشروط ہے اور وہ عبادت جو خلوص سے عاری ہو قطعاً بیکار ہے.پست ترین اور بدترین عبادت وہ ہے جس کے ذریعے انسان خالق اور مخلوق دونوں کا تقرب چاہے .اسی میں وہ مبطل ایمان اعمال شرک وریابھی شامل ہیں جوگناہان کبیرہ میں شما ر ہوتے ہیں.اس سے بھی نچلے درجے کی عبادات وہ ہے جو حظِ نفس کے لئے بھی نہ ہو۔
کبھی انسان کی نیت میں اس کی طبعیت کامیلان کارفرماہوتاہے مثلاً جمعہ کا دن ہو او رموسم گرم ہو تو اس کے دل میں آئے کہ چل کر سوئمنگ پول (حوض)میں نہاؤں جسم بھی ٹھنڈاہوجائے گا اور غسل جمعہ بھی ہوجائے گا۔اب کون جانے کہ حقیقت میں وہ اپنا جسم ٹھنڈا کرنا چاہتاہے یا غسل جمعہ بجالانا چاہتاہے.یا مثلاً ہوا سرد ہے اور وہ گرم ہونا چاہ رہا ہے اس کے دل میں آتا ہے کہ حمام چلوں ،بدن میں گرمی بھی آجائے گی اور غسل جمعہ بھی ہوجائے گا .یہ عمل اخلاص سے عاری ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا عمل مکمل طور پر مخلصانہ ہو تو آپ کی نیت میں ذراسابھی شائبہ حظِ نفس کا نہیں ہونا چاہئے.
علاوہ از یں کسی عمل کا ضمیمہ اگرچہ مباح ہے لیکن اس کا دائمی طور پر ضمنی صورت اختیار کرجانا بھی نفس علم کو باطل کردیتاہے .اخلاص سے ہمار امقصود یہ ہے کہ عمل کے ساتھ اس کا کوئی ذیلی یاضمنی لاحقہ بھی موجود ہو مثلاً اگر کوئی شخص حقیقت میں تو غسل جمعہ ہی کرنا چاہتاہے لیکن ضمناً ٹھنڈا یا گرم بھی ہونا چاہتاہے تویہ غسل صحیح ہوگا لیکن اخلاص سے خالی ہوگا اور اگر غسل جمعہ کی نیت اور ٹھنڈایاگرم ہونے کی خواہش دونوں مساوی طور پر اس طرح غسل کے محرک ہوں کہ ان میں ایک اکیلا اسے غسل پرآمادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو غسل ہی باطل ہے.

تحسین وآفرین خلق:
بڑا نازک مقام ہے.اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنی چاہئے بعض اوقات انسان کو محسوس تک نہیں ہوتا اور دنیا کے ایک نعرۂ تحسین پر وہ اللہ تعالیٰ کونظر انداز کرکے اپنی عاقبت خراب کربیٹھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے ساتھ بقائے دوام کا معاملہ تو کرتانہیں لیکن دنیا کی ایک عارضی "واہ واہ” پر اپنی عاقبت کاسودا کرلیتاہے اور پھر اسی کا ہوجاتاہے.
اس سے بدتر یہ ہے کہ اپنی موت کے بعد صرف دعائے مغفرت پر قناعت و اکتفاء نہیں کرتا بلکہ ایسے کام کرتاہے کہ دنیا موت کے بعد بھی اس یادرکھے اور اس کی تعریف کرے.وہم وخیال میں ایسا جکڑا ہواہے او رحب جاہ اس کا اتنا بڑھاہواہے کہ سمجھتا ہے کہ موت کے بعد بھی جب وہ اس دنیا میں موجود نہ ہوگا تو اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے اس دنیا کی تعریف وتوصیف سے محفوظ ومستفید ہوگا.بےچارہ موت کے بعد بھی جاہ مقام کابھوکا ہے.
موت کے بعد نیک نامی البتہ مقید ہے بشرطیکہ اپنے اعمال سے انسان کا مقصد دنیاوی نیک نامی نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو.یہ نیک نامی اچھی ہے بشرطیکہ آپ خود بھی نیک رہے ہوں وگرنہ اگر آپ کانفس خراب اور نیت آپ کی فاسد ہوئی تو دنیا چاہے آپ کی کتنی ہی تعریف کرے آپ کو اس سے کچھ نہیں ملیےگا.

کیا مدح مفید ہے؟:
اگرکوئی شخص دنیا میں غلط کردار کامالک ہو او رکسی مغالطے کے بناء پر لوگ اس کی تعریف ومدح کریں اور اس کے معتقد ہوں تو کیا یہ تعریفیں اس کے لئے سوئی کی نوک برابر کوئی فائدہ رکھتی ہیں یا اتنی ہی تخفیف اس کے عذاب میں کرسکتی ہیں.؟
دنیا کی نیک نامی اس شخص کے لئے جوبرزخ میں ہو کیا فائدہ رکھتی ہے جوشخص عالم ملکوت میں ہواسے عالم ملک یعنی عالم محسوسات طبیعی سے کیا واسطہ ؟دونوں جگہوں کی اوضاع آپس میں مختلف ہیں.اگر کوئی یہاں سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہو ا ہے اور اپنی زندگی میں نیکوکار اور بااخلاص کے لئے انسان یقیناً نیک اجرپائے گا لیکن بصورت دیگر خواہ اس کی قبر پر چراغاں ہوتی رہے یا خاک اڑتی رہے اسے کیا فرق پڑتاہے.

احمدبن طولون وقاری قرآن:
اگر کوئی اس دنیا سے باایمان رخصت ہوا ہے اور قرآن مجید پر اس کا ایمان کامل رہاہے تو بعد مرگ اس کی قبر پر قرآن خوانی کا اسے فائدہ پہنچ سکتاہے ورنہ احمدبن طولون کا قصہ آپ نے سنا ہوگا جسے علامہ دمیری نے حیواۃ الحیوان میں لکھا ہے.
وہ شخص مصر کابادشاہ تھا.جب اس کی وفات ہوئی تو حکومت مصر کی طر ف سے ایک قاری کو اس کی قبر پر تلاوت کے لئے مامور کیا گیا اور اس کی معقول تنخواہ مقرر کردی گئی.وہ ہر وقت اس کی قبر پر تلاوت میں مصروف رہتا.
ایک دن خبر ملی کہ قاری کہیں غائب ہوگیا ہے.کافی تلاش کے بعد سپاہیوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور اس سے اچانک فرارکا سبب پوچھا .جواب کی جرأت اسے نہیں ہوئی تھی بس استعفاء کامطالبہ کئے جارہا تھا ارباب حکومت نے اس سے کہا اگر تنخواہ کم سمجھتے ہو تو جتنا کہوہم اس میں اضافہ کئے دیتے ہیں .اس نے کہا کتنے ہی گنا بڑھا دو مجھے منظور نہیں.انہوں نے حیران ہوکر کہا جب تک حقیقت بیان نہیں کرے گا ہم تجھے نہیں چھوڑ یں گے.
کہنے لگا چند روز قبل صاحب قبر مجھ سے معترض ہوا اس نے میراگریبان پکڑلیا اور کہنے لگا میری قبر پر قرآنی خوانی کیوں کرتاہے.میں نے کہا مجھے اس پر مامور کیا گیا ہے تاکہ تمہاری روح کو ثواب پہنچے . اس نے کہا مجھے اس سے فائدہ تو کوئی نہیںپہنچا البتہ تمہاری تلاوت کردہ ہر آیت میرے عذاب کی آگ کو مزید بھڑکادیتی ہے اور مجھ سے کہا جاتاہے اب سن رہاہے؟دنیاوی زندگی میں اسے کیوں نہیں سنا اور کیوں اس پر عمل نہیں ہوا،لہٰذا مجھے معاف کریں میں اس خدمت سے باز آیا.
بارگاہ خداوندی میں سچائی اور اخلاص کے سواکوئی چیزفائدہ نہیں پہنچاتی .آپ زبان سے لاکھ "قربۃ الی اللہ” کا ورد کریں لیکن اگر آپ کی نیت میں خلوص موجود ہے تو فبہا ورنہ صرف الفاظ بول دینا قطعا مفید نہیں.
غرضیکہ نفس انسانی عام طور یا تو دنیا والوں کے درمیان عزت حاصل کرنے کے لئے اور یاحظ نفس کی خاطر نیک کام انجام دیتاہے اور سمجھتا ہے کہ بڑاپارسا اور پرہیزگار ہوں.لیکن روزقیامت جب اپنا سیاہ نامہ دیکھے گا تو پتہ چلے گا کہ سب کچھ ریاکاری یا اغراض نفسانی کی وجہ سے تھا.
اگر عمل اخلاص کے ساتھ انجام دیاجائے تو اس کا ذرہ بھی انسان کے درجات میں بلندی کاسبب بن سکتاہے اور اس کی نجات کا باعث ہوسکتاہے .انسان دورکعت نمازسے بھی بہشتی بن سکتاہے بشرطیکہ پورے اخلاص اور حضور قلب سے پڑھی ہو.ورنہ ساری عمر کی بے حضور نمائشی نمازوں سے کچھ حاصل نہیں.
سید بن طاوس فرماتے ہیں کہ وہ عبادت بھی جو دوزخ کے ڈرسے یابہشت کے طمع میں کی جائے حظ نفس میں شمار ہے.وہ عمل جوخلوص سے کیا ہو اور صرف حظ نفس کے لئے کیا جائے البتہ شرعاًصحیح ہوگا اور دوسرے اعمال سے بہتر ہوگا لیکن درجات عالیہ کی نسبت سے جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑنے فرمایا:
” مَا عَبَدْتُکَ خَوْفاً مِنْ نَارِکَ وَ لَا طَمَعاً فِی جَنَّتِکَ لَکِنْ وَجَدْتُکَ أَہْلًا لِلْعِبَادَۃِ ”
میں تیری عبادت دوزخ کے ڈریا جنت کے لالچ میں نہیں کرتا بلکہ صرف اس لئے کہ تو واقعی عبادت کے لائق ہے.
وہ عمل بہت کم درجے کا ہوگا.

عالم کی عبادت:
آپ نے سناہوگا کہ عالم کی دورکعت نماز جاہل کی ایک سالہ عبادت سے بہتر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم انسان حقائق کو جانتا اور ان کاا دراک رکھتا ہے.اور حظ نفس کی سب صورتوں کو سمجھتاہے لیکن جاہل نہیں جانتاہے کہ اس کے کسی عمل کا کیا مقصد ہے.وہ عموماً یا تو خود اپنی عبادت کرتاہے یا کسی دوسرے کی لیکن سمجھتاہے کہ خدا کی عبادت کررہاہے.
اس طرح آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ عالم امام کے پیچھے نماز جماعت ادا کرنے کاثواب عام نماز کے ثواب سے ہزار گنا ہوتاہے.کیونکہ وہ آفات نفس کادانا ہوتاہے اور اخلاص سے کبھی جدانہیں ہوتا جودین کی اصل حقیقت ہے.

باپ بیٹا:
سفر کربلاکے دوران ایک منزل پر جناب امام حسین علیہ السلام کو اونگھ آگئی اس کے بعد آپ نے اپنے رفقاء سے فرمایا میں نے ایک منادی کو سنا جوفضائے آسمانی میں باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ یہ جماعت جارہی ہے اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہے .علی اکبرعلیہ السلام نے پوچھا بابا جان کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہماری موت اس کی راہ میں نہیں ہوگی.آپؑ نے جواب دیا .ہاں، تو علی اکبرؑنے عرض کیا”اذالانبالی بالموت” پھر موت کی ہمیں کوئی پروانہیں ہے.کیونکہ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے کہ حق کے لئے حق کی راہ میں شہید ہوں.یہ الفاظ ایک عبد مخلص کی دلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں.”انما جعل الکلام عل یافواد دلیلاً” اللہ تعالیٰ نے الفاظ کو دل کا ترجمان بنایا ہے. یہ اخلاص کابلند ترین مقام ہے اور یہاں مقصود صرف ذات خداہے.نہ یہاں حظ نفس کاکوئی خفیف ترین شائبہ موجود ہے اور نہ نام ونمود یاجاہ ومقام کی ذرہ بھر کوئی خواہش کارفرماہے کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ شہادت مقدر ہو چکی ہے.

Related Articles

Back to top button