اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

انسانی ارزش

38
مصنف:آیت اللہ ابراہیم امینی
انسان کی دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانی اور ایک وجود حیوانی۔ انسان کی قدر اور قیمت انسانی وجود سے ہے اور حیوانی وجود سے نہیں ہے۔ حیوانی وجود تو اس کا طفیلی ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہی اور اسے حیوانی وجود کے لئے اس کے لوازم زندگی حاصل کرنے کو اہمیت دینی بھی چاہئے۔ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانی زندگی بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنی حیوانی زندگی سے انسان زندگی کی تکمیل کرے اور اس حیوانی زندگی سے انسان زندگی کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانی حیوانی زندگی میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامی ہے پانی غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانی اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنی ہوتی ہے۔ بھوک پیاس لذت پانی اور غذا کی طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دی گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانی باقی رہے جنسی غریزہ اور بیوی کی طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے۔ انسان اپنے باقی رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگی کے باقی رکھنے میں حیوانی زندگی اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنی چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے۔ یقیناً ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنی زندگی کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے۔ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ لیکن اس مطلب کو بھی جاننا چاہئے کہ حیوانی زندگی اخروی زندگی کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کی خلقت کی غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلی ہے اصیل نہیں ہے۔ اگر کسی نے حیوانی زندگی کو ہی اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات حیوانی زندگی میں لگا رہا اور اس کی کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنی زندگی کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانی اور غرائز حیوانی کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہی میں ہی جا پڑے گا۔ کیونکہ اس نے ملکوتی روح اور عقل انسانی کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشی کے خانے میں ڈال دیا ہے، ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کی شکل و صورت میں ہے۔ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسی دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانی کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقائق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا۔ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھی گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہی نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا ۔
قرآن مجید میں ہے کہ ‘ اے پیغمبر اگر تیری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور اللہ تعالی ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کر ے گا۔(۱) قرآن مجید فرماتا ہے ۔ کہ ‘ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے۔
اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہے لیکن اس سے سمجھتے نہیں۔ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں۔ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ترین یہ غافل ہیں۔(۲)
خداوند عالم فرماتا ہے کہ ‘ وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا۔(۳)
کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتی نفس اور اپنی انسانی سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانی زندگی پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانی کو حیوانی لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروی زندگی کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے۔(۴)
آپ نے فرمایا ‘ اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ ،اگرچہ تجھے ان امور کی طرف رغبت ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا۔
اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے۔ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور کشائش حاصل نہیں ہوتی مگر سختی کے ذریعے سے۔(۵)
آپ نے فرمایا ‘ وہ بری تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کی قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے۔(۶)
انسان فقط حیوانی وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانی وجود بھی رکھتا ہے اسی حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی خواہشات کے علاوہ بھی ارزش رکھتا ہے ۔ اگر انسان اپنی باطنی ذات اور ملکوتی روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسی عالم سے سنخیت اور مناسبت رکھتا ہے۔ تو اس وقت انسان ایک اورنگاہ سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسی عالم کی صفات سےمتصف ہوگا اور اس گران بار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہٰی تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی اقدر واضح ہوجائیں گی اگر اخلاقی اقدار ،مثل علم، احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کی حمایت سچائی امانتداری کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانی بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسی وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانی وجود اور اس کی خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے۔
اخلاقی اقدار اور مکارم روحانی اور معنوی جو ملکوتی روح انسان سے متناسب ہیںکے ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کی ضرورت کو محسوس کرتا ہےاور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقی انجام دی جانے والی اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے۔ اور کمال روحانی اور بلندی مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے۔ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنی ایثار تکامل ذات اور بلندی مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضروری ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے۔ معنوی کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کی ضد کی پہچان میں مساوی خلق ہوئے ہیں۔ اگر انسان اپنی محبوب اور پاک فطرت کی طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہویٰ نفس کو دور پھینک کر خوب غور و فکر کرے تو وہ اخلاقی فضائل اور اس کی قدر و قیمت اور اس کی ضد اسی طرح اخلاقی پستیاں اور رذائل اور اس کی اضداد کو پہچان لے گا اور اس میں تمام انسان تمام زمانوں میں ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اور اگر بعض انسان اس طرح کی مقدس سوچ سے محروم ہیں تو اس کی وجہ انکی حیوانی خواہشات اور ہوی نفس کی تاریکی نے اس کے نور عقل پر پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے۔ قرآن مجید بھی فضائل اور رذائل کی پہچان اور شناخت کو انسان کا فطری خاصہ قرار دیتا ہے جیسے فرماتا ہے کہ ‘ قسم نفس کی اور اس کی جس نے اسے نیک خلق کیا ہے اور انحراف اور تقویٰ کا اسے الہام دیا ہے جس نے اپنے نفس کی تربیت کی اسے پاک و پاکیزہ قرار دیا وہی کامیابی حاصل کرے گا اور جس نے اس کو گناہوں اور برے اخلاق سے آلودہ کیا وہ نقصان اٹھائے گا۔(۷)
پیغمبرﷺ اسی غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تا کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں اور اس کے اخلاقی ناآگاہ شعور کو آگاہی میں تبدیل کریں وہ آئے ہیں تا کہ انسان کے فضائل اور کمالات کے طریقوں کو پہچاننے کی طرف متوجہ کریں اور اس پر عمل کر کے مقام قرب الہٰی کو پانے اور مدارج کمال کو طے کرنے کی مدد اور راہنمائی فرمائیں۔ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو انسانیت کے بلند مقام اور انسانی اقدار کی ضرورت اور انکی حفاظت اور زندہ رکھنے اور قدر و قیمت کی طرف متوجہ کریں۔ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو یہ نقطہ سمجھائیں کہ تو حیوان نہیں ہے بلکہ تو انسان ہے اور فرشتوں سے بالاتر ہے۔ دنیاوی امور اور حیوانی تظاہر تیرے ملکوتی بلند مقام کے شایان شان نہیں تو اپنے آپ کو اس کے عوض فروخت نہ کر۔
امام سجاد سے پوچھا گیا کہ سب سے معزز ترین او رشریف ترین اور با اہمیت انسان کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ‘ جو انسان دنیا کو اپنے لئے اہمیت نہ دے اور اس کو اپنے لئے خطرہ قرار نہ دے۔(۸)
اگر انسان اپنی انسان شخصیت کو پہچانے اور اپنی انسانی وجود کو قوی قرار دے اورفضائل اور کمالات کو اس میں زندہ کرے اور رذائل اور پستیوں پر قابو پائے تو اس وقت انسان کو یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ انسانی اقدار کو ترک کردے اور رذائل کے پیچھے دوڑے مثلا سچائی کو چھوڑ دے اور جھوٹ کے پیچھے جائے امانت داری کو چھوڑ دے اور خیانت کی طرف جائے۔ عزت نفس کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ذلت وخواری میں ڈالے احسان کو چھوڑ دے اور لوگ کو آزار اور تکلیف دینے کے پیچھے دوڑے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘جو شخص اپنے نفس کی عزت کرے اور اسے معزز قرار دے اس کی نگاہ میں خواہشات نفسانی ہیچ اور پست ہوں گی۔
پیغمبروں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انسان کی فطرت کو بیدار کریں تا کہ وہ اپنے اس گرانقدر وجود کے جوہر کو پہچانے اور اپنا تعلق اور ربط ذات خدا سے دریافت کر لے اور تمام چیزوں کو رضا اور قرب پروردگار کے حاصل کرنے میں صرف کرے یہاں تک کہ کھانا پینا سونا جاگنا بولنا کام کرنا مرنا جینا سب کے سب پاک او راخلاقی ہوں۔ جب انسان اللہ کا بندہ ہوجائے تو پھر اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے کوئی اور اس کی غرض و غایت نہ ہوگی اس کے تمام کام عبادت اور اخلاق اور ذی قدر ہونگے۔ اسی لئے اپنے آپ کو پہچاننا اسلام میں ایک خاص قدر و قیمت رکھتا ہے۔(۹)
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘نفس کا پہچاننا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ‘ جس شخص نے اپنے آپ کو پہچانا اس کا کام بلند ہوگا۔
اپنے آپ کو پہچاننے سے مراد شناختی کارڈ نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ انسان اپنے واقعی مقام کو اس دنیا میں پہچانے اور جان لے کہ وہ فقط خاکی حیوان نہیں ہے بلکہ وہ عالم ربوبی کا عکس اور پرتو ہے اللہ کا خلیفہ اور اس کا امین ہے، وہ ایک ملکوتی وجود ہے کہ جو دانا اور مختار اور آزاد خلق ہوا ہے تا کہ کمال غیر متناہی کی طرف سیر و سلوک کرے اور اپنی مخصوص خلقت کی وجہ سے اپنے آپ کو بنانے اور اس کی پرورش کرنے کا پابند ہے انسان اپنی اس شناخت کیوجہ سے شرافت اور کرامت کو محسوس کرتا ہے اور اپنے مقدس اور پرارزش وجود کو پہچانتا ہے اور کمالات اور فضائل اس کے لئے پر معنی اور قیمت پیدا کرلیتے ہیں اس صورت میں وہ نا امیدی اور بے فائدہ اور بیہودہ خلق ہونے سے نجات حاصل کر لیتا ہے پھر زندگی اس کے لئے پر بہا اور مقدس اور غرض دار اور خوشنما ہوجاتی ہے۔
باطنی زندگی
انسان اس دنیا میں ایک ظاہری زندگی رکھتا ہے کہ جو اس کے جسم اور تن سے مربوط ہے۔ کھاتا ہے ، پیتا ہے، سوتا ہے، چلتا ہے، اور کام کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ باطن میں ایک نفسانی زندگی بھی رکھتا ہے، اس حالت میں وہ دنیا میں زندگی بسرکرتا ہے۔ باطن میں وہ کمال اور سعادت اور نورانیت کی طرف بھی سیر و سلوک کرتا ہے یا تو وہ بدبختی اور شقاوت اور تاریکی کی طرف جا رہا ہوتا ہے یا وہ انسانیت کے سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور تاریک وادی اور حیوانیت کے پست درجہ میں غلطاں ہوتا ہے یا وہ کمال کے مدارج طے کر کے نور اور سرور و کمال و جمال کے راستے طے کرتا ہے یا وہ عذاب اور تاریکی میں گر رہا ہوتا ہے گرچہ اکثر لوگ اس باطنی زندگی سے غافل ہیں لیکن وہ حقیقت اور واقعیت رکھتی ہے۔
خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ وہ ظاہری دنیاوی زندگی کا علم تو رکھتے ہیں لیکن اخروی زندگی جو باطنی ہے سے غافل ہیں۔(۱۰)
کسی چیز کا جان لینا یا نہ جاننا واقعیت میں موثر نہیں ہوتا۔ قیامت کے دن جب انسان کی آنکھ سے مادیت کے سیاہ پردے اٹھا لیئے جائیں گے تو اس وقت وہ اپنی واقعیت اور اپنے آپ کو پہچانے گا۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ قیامت کے دن انسان سے کہا جائیگا کہ تو دنیا میں اس امر سے غافل تھا لیکن آج تیری آنکھیں تیز بین ہوچکی ہیں۔(۱۱)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی امراسی دنیا میں انسان کی ذات میں موجود ہیں لیکن انسان ان سے غافل ہے لیکن آخرت میں جب غفلت کے پردے ہٹا لے جائیں گے تو اس وقت ان تمام امور کا مشاہدہ کرے گا۔
آیات او رآیات سے یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا نفس اس جہان میں کئی ایک چیزوں کو بجالاتا ہے اور جن چیزوں کو وہ بجالاتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہیں جو آخرت میں اس کی زندگی کا ماحصل اور نتیجہ آور ہوتی ہیں۔
خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ ہر نفس اس عمل کے مقابلے میں گروی ہے جو وہ بجا لاتا ہے۔(۱۲)
ارشاد فرماتا ہے ‘ ہر نفس نے جو کچھ انجام دیا ہے اسے پورےکا پورا ملے گا۔(۱۳)
خداوند فرماتا ہے کہ ‘ہم کس کو اس کی قدرت سے زیادہ حکم نہیں دیتے۔ انسان نے جو اچھائیاں انجام دی ہیں وہ اسی کے لئے ہوں گی اور تمام برائیاں بھی اس کے اپنے نقصان کے لئے ہوں گی۔(۱۴)
خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ ہر نفس نےجو خوبیاں انجام دی ہیں وہ اس کے سامنے حاضر ہوں گی اسی طرح جو برائی انجام دی ہے وہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان فاصلہ ہوتا۔(۱۵)
خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ جو شخص نیک عمل انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے انجام دیتا ہے اور جوشخص برے کام انجام دیتا ہے وہ اس کے لئے نقصان دہ ہونگے پھر تم سب اللہ کی طرف لوٹ آوگے۔(۱۶)
خداوند عالم فرماتا ہے ‘جو شخص ذرہ برابر اچھے کام انجام دیتا ہے وہ انہیں قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر برے کام انجام دیتا ہے وہ ان کو بھی دیکھے گا۔
خداوند فرماتا ہے ‘ انسان کے لئے نہیں ہوگا مگر وہ جسے تلاش اور حاصل کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش اور تلاش کو عنقریب دیکھے گا۔(۱۷)
خدا فرماتا ہے ‘ جو اچھائی تم نے آگے اپنے لئے بھیجی ہے اسے اللہ کے پاس تم پاؤ گے۔(۱۸)
خدا فرماتا ہے کہ ‘ جس دن مال اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے مگر وہ جو سالم قلب کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے۔(۱۹)
پیغمبر علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا ‘اے قیس تو مجبور ہے کہ اپنے لئے کوئی ساتھی بنائے جو قبر میں تیرے ساتھ ہوگا وہ ساتھی زندہ ہوگا اور تو اس کے ساتھ دفن ہوگا اگر تو تیرا ساتھی اچھا اور عمدہ ہوا تو وہ تیری عزت کرے گا اور اگر وہ پست اور برا ہوا تو وہ تجھے بھی پست اور ذلیل کرے گا تو قیامت میں اسی ساتھی کے ساتھ محشور ہوگا اور تجھے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، پس کوشش کر کہ تو اپنا نیک ساتھی اپنے لئے اختیار کرے کہ اگر وہ نیک اور صالح ہوا تو وہ تجھ سے انس و محبت کرے گا اور اگر ساتھی برا ہوا تو تجھے اس سے وحشت اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور وہ تیرا ساتھی تیرا عمل ہے۔(۲۰)
انسان اس دنیا میں اخروی زندگی کے لئے اپنے نفس کی تربیت کرنے میں مشغول رہتا ہے اور عقائد اور افکار اور ملکات اور عادات محبت علاق مندی اور مانوس چیزوں کی طرف توجہات اوروہ کام جو روح انسانی پر اثر انداز ہوتے ہیں تدریجاً ان سے ساختہ پرداختہ اور پرورش پاتا ہے انسان کس طرح سے ان چیزوں سے مربوط ہوتا ہے۔ معارف ،عقائد صحیح فضائل، مکارم اخلاق، محبت اور خدا سے پیوند توجہ اور اللہ سے انس، خدا کی اطاعت اور اس کی رضامندی کا حصول اور وہ نیک کام بجالانا کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے ،یہ انسان کی ملکوتی روح کو مدارج کمال تک پہنچاتے ہیں۔ اور مقام قرب الہٰی تک لے جاتے ہیں۔ انسان اسی جہان میں ایمان اور اعمال صالح کے سبب ایک پاکیزہ اور جدید زندگی حاصل کرتا ہے جو آخرت کے جہاں میں ظاہر اور آشکار ہوگی۔
خداوند قرآن میں فرماتا ہے ‘ جو بھی مرد یا عورت نیک کام انجام دے جب کہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ہم اسے پاک اور عمدہ زندگی میں زندہ کریں گے۔(۲۱)
انسان اسی دنیا میں علاوہ ان نعمتوں کے کہ جن سے اس کا جسم لذت حاصل کرتا ہے وہ اخروی نعمت سے بھی بابہرہ ہو سکتا ہے اور ان کے ذریعے روح اور نفس کی پرورش بھی کر سکتا ہے اور اپنی معنوی اور اخروی زندگی کو بھی بنا سکتا ہے کہ جس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں ظاہر ہوگا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘خدا اپنے بندوں سے فرماتا ہے اے میرے دوست بندے دنیا میں عبادت کی نعمت سے فائدہ حاص کرو تا کہ اسی سے آخرت کے جہان میں فائدہ حاصل کر سکو۔(۲۲)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘اللہ کا دائمی ذکر کرنا روح کی عذاب ہے۔(۲۳)
نیز حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘اللہ کے ذکر کو فراموش نہ کرو کیونکہ وہ دل کا نور ہے۔(۲۴)
انسان کے لئے بہشت اور بہشتی نعمتیں جہنم اور جہنم کے عذاب عقائد اخلاق اور اعمال کے ذریعے سے ہی اسی دنیا میں بنتے ہیں گرچہ انسان اس سے غافل ہے لیکن آخرت کے جہان میں یہ سب حقیقت واضح ہوجائیگی ۔ امام سجاد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ ‘ متوجہ رہو جو بھی اولیاء خدا سے دشمنی کرے اور خدا کے دین کے علاوہ کسی دین کو اپنائے اور ولی خدا کے حکم کو پس پشت ڈالے اور اپنی رائےاور فکر پر عمل کرے وہ شعلہ ور آگ میں ہوگا کہ جو جسم کو کھا جائیگی، وہ بدن کہ جنہوں نے اروح کو اپنے سے خالی کیا ہوا ہے اور بدبختی نے ان پر غلبہ کیا ہوا ہے یہ وہ مردے ہیں جو آگ کی حرارت کو محسوس نہیں کرتے اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ درد اور آگ کی حرارت کومحسوس کرتے ۔ اے صحابان بصیرت عبرت حاصل کر اور اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ خداوند عالم نے تمہیں ہدایت کی ہے۔(۲۵)
خداوند عالم فرماتا ہے ‘ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم اور ناحق سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یہ آگ عنقریب شعلہ ور ہوگی۔(۲۶)
انسان اس دنیا میں آخرت کے لئے نور و بصیرت فراہم کرتا ہے اور یا ظلمت اور تاریکی اگر اس دنیا میں اندھا اور بے نور ہوا تو آخرت میں بھی اندھا اور بے نور محشور ہوگا خدا فرماتاہے جس شخص کی اس دنیا میں دل کی آنکھ اندھی ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ محشور ہوگا۔(۲۷)
علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نجف اشرف میں ایک شخص عابد زاہدانہ زندگی بسر کرتا تھا کہ جسے شیخ عبود کہا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ ولی خدا اور اہل سیر و سلوک تھے ہمیشہ ذکر اور عبادت میں مشغول رہتے تھے کبھی قبرستان وادی السلام جاتے اور کئی گھنٹوں تک گوشہ و کنار میں بیٹھے رہتے تھے اور فکر کیا کرتے تھے اور کبھی ٹوٹی ہوئی قبروں میں چلتے اور نئی قبر کو با دقت ملاحظہ کرتے تھے ایک دن جب قبرستان میں سے واپس لوٹ رہے تھے کہ کئی ایک آدمیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان سے ان کی احوال پرسی کی اور پوچھا اے شیخ عبودی وادی السلام نے کیا خبر تھی؟ اس نے کہا کہ کوئی تازہ خبر نہ تھی ۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عجیب چیز دیکھی ہے کہ میں نے جتنا پرانی قبروں کو دیکھا ہے ان میں سانپ بچھو اور عذاب کی علامتیں نہیں دیکھیں۔ میں نے ان میں سے ایک قبر والے سے سوال کیاکہ روایات میں آیا ہے کہ میت کو قبر میں سانپ اور دوسری موذی چیزوں سے عذاب دیا جاتا ہے لیکن میں تو آپ کی قبروں میں سانپ اورعذاب کو نہیں دیکھ رہا۔ قبر والے نے جواب دیا ٹھیک ہے کہ سانپ اور بچھو ہماری قبروں میں نہیں لیکن تم خود ہو کہ دنیا سے سانپ اور بچھو اپنے ساتھ لے آتے ہو اور یہاں ان سے عذاب دیئے جاتے ہو۔
انسانی باطنی اور نفسانی زندگی ایک حقیقی اور واقعی زندگی ہوا کرتی ہے انسان اپنی باطنی ذات میں ایک واقعی راستہ طے کرتا ہے یا وہ سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے او ر یا بدبختی اور ہلاکت لے جاتا ہے وہ واقعی ایک حرکت اور سیر کر رہا ہے اور عقائد اور اخلاق اور اعمال سے انسان مدد حاصل کرتا ہے۔
خداوند عالم فرماتا ہے کہ ‘ جو شخص بھی عزت چاہتا ہے ۔ تمام عزت خدا کے لئے اور اچھے کلمات اور(پاک نفوس) خدا کے لئے صعود کرتے ہیں اور عمل صالح کو خدا اوپرلے جاتا ہے ۔(۲۸)
نفس کا فعلی ہونا کوشش اور کام کرنے کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے۔ عقائد اور اخلاق اور ملکات اور خصائل اور ہمارے اعمال سے وہ بنتا ہے جو آخرت کے جہان میں اچھا یا برا نتیجہ جا کر ظاہر ہوتا ہے۔
اپنے آپ کو کیسے بنائیں؟
علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کی روح جسمانی الحدوث اور روحانی البقا ہے یعنی اس کی ملکوتی روح کی وہی اس کی جسمانی صورت ہے کہ بالتدریج تکامل کرتے مرتبہ نازل روح انسانی تک آئی ہے اور اس کی حرکت اور تکامل ختم نہیں ہوگا بلکہ تمام عمر تک اسی طرح جاری اور ہمیشہ رہے گا۔
ابتداء میں روح انسانی ایک مجرد اور ملکوتی موجود ہے جو عالم مادہ سے برتر ہے لیکن وہ مجرد تمام اور کامل نہیں ہے بلکہ ایسا مجرد کہ جس کا مرتبہ نازل جسم اور بدن سے تعلق رکھتا ہے یہ ایک دو مرتبے رکھنے والا موجود ہے اس کا ایک مرتبہ مادی ہے اور اس کا بدن سے تعلق ہے اور مادی کاموں کو انجام دیتا ہے اسی وجہ سے اس کے لئے استکمال اور حرکت کرنا تصور کیا جاتا ہے۔
اس کا دوسرا مرتبہ مجرد ہے اور مادہ سے بالاتر ہے اسی وجہ سے وہ غیر مادی کام دیتا ہے ایک طرف وہ حیوان ہے اور جسم دار اور دوسری طرف انسان ہے اور ملکوتی۔
جب کہ وہ صرف ایک حقیقت ہے اور اس سے زیادہ نہیں لیکن وہ حیوانی غرائز اور صفات رکھتا ہے اور حیوانات والے کام انجام دیتا ہے اس کے باوجود وہ انسانی غرائز اور صفات انسانی بھی رکھتا ہے اور انسانی کام انجام دیتا ہے۔ اس عجیب الخلقت موجود کے بارے میں خداوند فرماتا ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ ابتداء میں ایک موجود خلق ہوا کہ جو کامل نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو باتدریج بناتا ہے اور تربیت اور پرورش کرتا ہے۔
عقائد اور افکار ملکات اور عادات جو اعمال اور حرکات سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کی ذات اور وجود کو بناتے ہیں اور تدریجاً کمال تک پہنچاتے ہیں۔ ملکات ایسے امور نہیں جو انسان کے وجود پر عارض ہوں بلکہ وہی انسان کے وجود اور ہویت کو بناتے ہیں۔ تعجب انگیز یہ چیز ہے کہ افکار اور عقائد اور ملکات فقط انسان کے وجود میں موثر ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے ہونے میں بھی موثر ہیں یعنی عمل صالح کی وجہ سے جو افکار اور عقائد صحیح اور مکارم اخلاق اور عادات اور ملکات وجود میں آتے ہیں وہ انسان کو تدریجاً مراتب کمال تک پہنچاتے اور لے جاتے ہیں اور ایک کامل انسان کے مرتبہ اور قرب الہٰی تک پہنچا دیتے ہیں اسی طرح جہالت اور عقائد باطل اور رذائل اخلاق اور ملکات اور قساوتیں جو برے کاموں کے انجام دینے سے موجود ہوتی ہیں وہ انسانی روح کو ضعف اور پستی کی طرف لے جاتے ہیں اور تدریجاً اسے حیوانیت کے مرتبے تک لے جاتے ہیں اورنتیجتاً حیوانیت کی تاریک وادی میں ساقط کردیتے ہیں اور انسان ان ملکات اور صفات حیوانی اور جہالت کے انبار اور استحکام سے اپنی باطنی ذات میں ایک حیوان کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جی ہاں وہ واقعا ًحیوان ہوجاتا ہے اور حیوانی شخصیت پیدا کرلیتا ہے وہ پھر انسان نہیں ہوتا بلکہ حیوان ہوجاتا ہے بلکہ حیوانات سے بھی بدتر کیونکہ یہ وہ حیوان ہے جو انسانی طریق سے حیوان ہوا ہے گرچہ ظاہری صورت میں وہ انسانی زندگی بسر کرتا ہے لیکن اندرونی طور سے وہ حیوان ہے اور پھر اسے خود بھی نہیں جانتا۔ حیوانات کی حیوانیت ان کی شکل و صورت سے مخصوص نہیں ہوا کرتی بلکہ حیوانی نفس بغیر قید اور شرط اور تمایلات اور غرائز حیوانی کو بجالانے کا نام ہے۔ بھیڑنا اپنی شکل و صورت کا نام نہیں ہے بلکہ درندگی اور بغیر قید اور شرکے غریزہ درندگی کے بجالانے اور عدم تعقل کا نام ہے۔ عقل کی آنکھ اور اس کے درک کو اندھا کردیا ہے۔ ایسا انسان ایک واقعی بھیڑیا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ انسان ایک ایسا بھیڑیا ہے جو جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیاہ درندہ ہے کیونکہ انسان اپنی عقل اور فہم کو درندگی کی صفت میں استعمال کرتا ہے۔ بعض انسان ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جنہیں جنگل کے بھیڑیےبھی ا نجام نہیں دیتے کیا وہ بھیڑیئےنہیں ہیں؟ نہ بلکہ وہ واقعی بھیڑیےہیں لیکن خود نہیں سمجھتے اور دوسرے بھی اسے انسان سمجھتے ہیں، قیامت کے دن جب آنکھوں سے پردے ہٹادیئے جائیں گے ان کا باطن ظاہر ہو جائیگا اور یہ بھی معلوم ہے کہ جنت بھیڑیوں کی جگہ نہیں ہے بھیڑیا کبھی اولیاء خدا اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ بہشت میں نہیں رہ سکتا۔ ایسا بھیڑیا جو انسان کے راستے سے بھیڑیا ہوا ہے ضروری ہے کہ جہنم کے تاریک اور دردناک عذاب میںڈ الا جائے اور زندہ رہے۔ انسان اس دنیا میں ایک انسان غیر متعین ہے جو اپنی شخصیت خود بناتا ہے یا وہ انسان ہوجائیگا جو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی بالاتر ہوجائیگا یا باطنی صورت میں مختلف حیوانات میں تبدیل ہوجائیگا یہ ایک ایسا مطلب ہے جو علوم عالی میں بھی ثابت ہوچکا ہے اور اسے اولیاء خدا بھی کشف اورمشاہدے کا ادعا کرتے ہیں اور نیز اسے پیغمبر اکرم اورائمہ علیہم السلام نے بھی فرمایا یعنی جو حقیقی انسان کو پہچانتے ہیں انہوں نے اس کی خبردی ہے۔
رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ‘لوگ قیامت کے دن ایسی شکلوں میں محشور ہونگے کہ بندر اور خنزیر کی شکلیں ان سے بہتر ہوں گی۔ (۲۹)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘مستکبر انسان چیونٹی کی شکل میں تبدیل ہوجائیگا جو محشر کے لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلا جائیگا یہاں تک کہ لوگوں کا حساب و کتاب ختم ہوجائے۔ (۳۰)
خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘قیامت کے دن وحشی حیوانات محشور ہونگے۔ (۳۱)
بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ وحشی حیوانات سے مراد وہ انسان ہیں جو حیوانات کی شکلوں میں محشور ہونگے ورنہ حیوانات تو مکلف نہیں ہوتے کہ جنہیں محشور کیا جائے۔
خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ‘ جن دن تمہاری جدائی اور علیحدگی کا دن ہوگا کہ جس وقت صور میں پھونکا جائیگا اور تم گروہ گروہ ہوجاؤگے(۳۲)۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ قیامت کے دن انسان ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور ہر ایک انسان اپنی باطنی صورت کے ساتھ اپنے دوسرے ہم شکلوں کے ساتھ محشور ہوگا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک عمدہ حدیث پیغمبر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔
معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ اس آیت یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا کے متعلق میں نے رسول خداﷺ سے سوال کیا۔آپ نے فرمایا کہ اے معاذ تم نے ایک بہت اہم موضوع پر سوال کیا ہے آپ کے اس حالت میں آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا کہ میری امت کے دس دستے مختلف شکلوں میں محشور ہوں گے جو ایک دوسرے سے مختلف ہونگے۔ بعض بندروں کی شکل میں دوسرے بعض خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے۔ بعض کے سرزمین کی طرف اور پاؤں اوپر کی طرف ہونگے اور حرکت کریں گے۔ بعض اندھے اور سرگرداں ہونگے۔ بعض گونگے اور بہرے ہوں گے کہ کچھ نہیں سمجھتے ہونگے۔بعض اپنی زبانوں کو چباتے ہوں گے اور پیپ اور گندگی اورخون ان کے منہ سے نکل رہا ہوگا کہ جس سے محشر کے لوگ تنفر کریں گے۔بعض کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہونگے ۔ اور بعض اس حالت میں محشور ہونگے کہ آگ کے ستون سے لٹکے ہوئے ہونگے ۔ بعض مردار سے بدبوتر ہونگے ۔ بعض مس کے لباس پہنے ہوئے ہونگے جو ان کے جسم سے چپکا ہوا ہوگا۔ آپ نے اس وقت فرمایا کہ جو لوگ بندروں کی شکل میں محشور ہونگے وہ وہ ہونگے جو چغل خور اور سخن چین تھے اور جو خنزیر کی شکل میں محشور ہونگے وہ رشوت خور اور حرام تھے اور جو الٹے لٹکے حرکت کر رہے ہونگے وہ سود خور تھے اور جو اندھے محشور ہونگے وہ ہونگے جو قضاوت اور حکومت میں ظلم و جور کرتے تھے اور جو اندھے اور بہرے محشور ہونگے وہ اپنے کردار میں خودپسند تھے اور جو اپنی زبان کو چبا رہے ہونگے وہ وہ علماء اور قاضی ہونگے کہ جن کا کردار ان کے اقوال کے مطابق نہ تھا اور جو ہاتھ پاؤں کٹے محشور ہونگے وہ ہمسایوں کوآزار اور اذیت دیتے تھے اور جو آگ کے ستوں سے لٹکے ہوئے ہونگے وہ بادشاہوں کے سامنے لوگوں کی شکایت لگاتے تھے اور جن کی بدبو مردار سے بدتر ہوگی وہ دنیا میں خواہشات اور لذت نفس کی پیروی کرتے تھے اور اللہ تعالی کا جو ان کے احوال میں حق تھا ادا نہیں کرتے تھے اور جن لوگوں نے مس کا لباس پہنا ہوا ہوگا وہ مستکبر اور فخر کیا کرتے تھے۔ (۳۳)
لہٰذا اخلاقی امور کو معمولی اور غیر مہم شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ بہت اہم امور ہیں جو انسان کی انسانی اور باطنی زندگی کو بناتے ہیں یہاں تک کہ وہ کیسا ہونا چاہئے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ علم اخلاق نہ صرف ایسا علم ہے کہ جو کس طرح زندہ رہنے کو بتلاتا ہے بلکہ یہ وہ علم ہے جو انسان کو کیسا ہونا چاہئے بھی بتلاتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ فان لم یستجیبوا لک فاعلم انّما یتّبعون اہوائہم من اضلّ ممن اتّبع ہواہ بغیر ہدی من اللہ انّ اللہ لایہدی القوم الضالمین۔ قصص/ 50۔
۲۔ و لقد ذرانا لجہنم کثیراً من الجن و الانس لہم قلوب لا یفقہون بہا و لہم اعین لایبصرون بہا و لہم اذان لایسمعون بہا اولئک کالانعام بل ہم اضلّ اولئک ہم الغافلون۔ اعراف/ 179۔
۳۔ افرا یت من اتخذ الہہ ہواہ و اضلّہ اللہ علی علم و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یہدیہ من بعد اللہ افلا تذکرون۔ جاثیہ/ 23۔
۴۔ قال علی علیہ السلام: المغبون من شغل بالدنیا و فاتہ حظہ من الاخرۃ۔ غرر الحکم/ ج 1 ص 88۔
۵۔ قال علی علیہ السلام: اکم نفسک من کل دنیّہ و ان ساقتک الی الرغائب، فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا و لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرّاً و ما خیر خیرا لا ینال الا بشّر و یسر لا ینال الّا بعسر۔ نہج البلاغہ صبحی صالح/ ص 401 کتاب 31۔
۶۔ قال اامیرالمؤمنین علیہ السلام: لبئس المتجر ان تری الدنیا لنفسک ثمناً و ممالک عند اللہ عوضا۔ نہج البلاغہ / خطبہ 33۔ 75۔
۷۔ و نفس و ما سوّیہا فا لہمہا فجورہا و تقوی ہا، قد افلح من زکّیہا و قد خاب من دسی ہا۔ شمس/ 7 تا 10۔
۸۔ قیل لعلی بن الحسین علیہ السلام: من اعظم الناس خطراً؟ قال: من لم یر الدنیا خطراً لنفسہ۔ تحف العقول/ ص 285۔
۹۔ قال علی علیہ السلام: من کرمت علیہ نفسہ ہانت علیہ شہواتہ۔ نہج البلاغہ/ قصار 449۔
۱۰۔ یعلمون ظاہراً من الحیاۃ الدنیا و ہم عن الاخرۃ غافلون۔ روم/ 7۔
۱۱۔ لقد کمنت فی غفلۃ من ہذا فبصرک الیوم حدید۔ ق/ 22۔
۱۲۔ کل نفس بما کسبت رہینۃ۔ مدثر/ 38۔
۱۳۔ ثم توفی کل نفس ما کسبت و ہم لا یظلمون۔ آل عمران/ 161۔
۔ لا یؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم و لکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم و اللہ غفور حلیم۔ بقرہ/ 225۔
۱۴۔ لا یکلّف اللہ نفساً الّا وسعہا لہا ما کسبت و علیہ ما اکتسبت۔ بقرہ/ 286۔
۱۵۔ یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً و ما عملت من سوئ: تودّ لو انّ بینہا و بینہ امداً بعیداً۔ آل عمران/ 30۔
۱۶۔ من عمل صالحاً فلنفسہ و من اساء فعلیہا ثم الی ربکم ترجعون۔ جائیہ/ 15۔
۱۷۔ فمن یعمل مثقال ذرّہ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرّۃ شرّاً یرہ۔ زلزال/ 7۔
۱۸۔ و ما تقدّموا لا نفسکم من خیر تجدوہ عنداللہ۔ بقرہ/ 11۔
۱۹۔ یوم لا ینفع مال و لا بنون الّا من اتی اللہ بقلب سلیم۔ شعراء/ 85۔
۲۰۔ قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ: یا قیس لا بّد لک من قرین یدفن معک و ہو حیّ و تدفن معہ و انت میت فان کان کریماً اکرمک و ان کا ن لئیماً لا ملک ثمّ لا یحشر الّا معک و لا تحشر الّا معہ و لا تسا ل الّا عنہ فلا تجعلہ الّا صالحاً فان ان صلح آنست بہ و ان فسد لاتستوحش الّا منہ و ہو فعلک۔ جامع السعادات/ ج 1 ص 17۔
۲۱۔ من عمل صالحاً من ذکر او انثی و ہو مؤمن فلنحیینہ حیاۃ طیّبۃ۔ نحل/ 97۔
۲۲۔ قال ابو عبداللہ علیہ السلام: قال اللہ تبارک و تعالی: یا عبادی الصدیقین تنعّمو بعبادتی فی الدنیا فانکم تنعمون بہا فی الاخرۃ۔ بحارالانوار/ ج70 ص 253۔
۲۳۔ قال علی علیہ السلام: مداومۃ الذکر قوت الارواح۔ غرر الحکم/ ص 764۔
۲۴۔ قال علی علیہ السلام: علیک بذکر اللہ فانہ نور القلوب۔ غرر الحکم/ ص 479۔
۲۵۔ قرۃ العیون۔ تا لیف مرحوم فیض/ ص 466۔
۲۶۔ الذین یاکلوم اموال الیتامی ظلما انّما یاکلوم فی بطونہم ناراً و سیصلون سعیراً۔ نساء/ 100۔
۲۷۔ من کان فی ہذہ اعمی فہو فی الاخرۃ اعمی و اضلف سبیلاً۔ اسراء/ 72۔
۲۸۔ من کان یرید العزّہ فللّہ العزّۃ جمیعاً الیہ یصعد الکلم الطیّب و العمل الصالح یرفعہ۔ فاطر/ 10۔
۲۹۔ و فی الحدیث النبوی یحشر بعض الناس علی صور یحسن عندہا القردۃ و الخازیر۔ قرۃ العیون/ ص 479۔
۳۰۔ قال علی علیہ السلام: فالصورۃ صورۃ انسان و القلب حیوان، لایعرف باب الہدی فیتّبعہ و لا باب العمی فیصدّ عنہ و ذالک میّت الاحیاء۔ نہج البلاغہ خطبہ/ 87۔
۳۱۔ قال ا بو عبداللہ علیہ السلام: ان المتکبرین یجعلون فی صور الذرّ، یتوطؤہم الناس حتی یفرق اللہ من الحساب۔ بحارالانوار/ ج 7 ص 201۔
۳۲۔ تکویر/ 5۔
۳۳۔ نبا / 18۔
۳۴۔ تفسیر مجمع البیان/ ج 10 ص 423، روح البیان/ ج 10 ص 299، نورالثقلین/ ج 5 ص 493۔

Related Articles

Back to top button