اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

قرآن میں قلب

37
مصنف: آیت اللہ ابراہیم امینی

قلب کا لفظ قرآن اور احادیث میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اور اسے ایک خاص اہمیت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ خیال نہ کیا جائے کہ قلب سے مراد وہ دل ہے جو انسان کے دائیں جانب واقع ہوا ہے اور اپنی حرکت سے خون کو انسان کے تمام بدن میں پہنچاتا ہے اور حیوانی زندگی کو باقی رکھتا ہے یہ اس لئے کہ قرآن مجید میں قلب کی لفظ کی طرف ایسی چیزیں منسوب کی گئی ہیں کہ جو اس قلب کے جس صنوبری سے مناسبت نہیں رکھتیں مثلاً
فہم اور عقل:
قرآن فرماتا ہے کہ ‘کیوں زمین کی سیر نہیں کرتے تا کہ ایسا دل رکھتے ہوں کہ جس سے تعلق کریں۔(۱)
عدم تعقل و فہم:
قرآن فرماتا ہے کہ ‘ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اور وہ نہیں سمجھتے۔
قرآن فرماتا ہے کہ ‘ان کے پاس دل موجود ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے اور آنکھیں موجود ہیں۔لیکن وہ نہیں دیکھتے ۔(۲)
ایمان:
قرآن فرماتا ہے کہ ‘خداوند عالم نے ان کے دلوں میں ایمان قرار دیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید کی ہے۔ (۳)
کفر و ایمان:
قرآن فرماتا ہے۔ ‘ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کرتے ہیں اور تکبر بجالاتے ہیں۔
نیز فرماتا ہے۔ ‘کافر وہ لوگ ہیں کہ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر مہر ڈال دی ہے اور وہ غافل ہیں ۔(۴)
نفاق:
قرآن فرماتا ہے کہ ‘ منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ کوئی سورہ خدا کی طرف سے نازل ہوجائے اور جو کچھ وہ دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہوجائے (۵)۔
ہدایت پانا:
قرآن میں ہے کہ ‘جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت کرتا ہے اور خدا تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔(۶)
نیز خدا فرماتا ہے کہ ‘گذرے ہوئے لوگوں کے ہلاک کردینے میں اس شخص کے لئے نصیحت اور تذکرہ ہے جو دل رکھتا ہو یا حقائق کو سنتا ہو اور ان کا شاہد ہو۔(۷)
اطمینان اور سکون:
قرآن میں ہے کہ ‘متوجہ رہو کہ اللہ کے ذکر اور یاد سے دل آرام حاصل کرتےہیں۔(۸) اور نیز فرماتاہے ۔ خدا ہے جس نے سکون کو دل پر نازل کیا ہے تا کہ ان کا ایمان زیادہ ہو۔(۹)
اضطراب و تحیر:
خدا قرآن میں فرماتا ہے ‘فقط وہ لوگ جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور انکے دلوں میں شک اور تردید ہے وہ تم سے جہاد میں نہ حاضر ہونے کی اجازت لیتے ہیں اور وہ ہمیشہ شک اور تردید میں رہیں گے۔( ۱۰)
مہربانی اور ترحم:
قرآن میں ہے ‘ ہم نے ان کے دلوں میں جو عیسی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں مہربانی اور ترحم قرار دیا ہے۔ (۱۱)
نیز خدا فرماتا ہے کہ ‘اے پیغمبر خدا ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے وسیلے سے تیری تائید کی ہے اور ان کے دلوں میں الفت قرار دی ہے۔(۱۲)
سخت دل:
قرآن میں خدا فرماتا ہے ‘ اے پیغمبر اگر تو سخت دل اور تند خو ہوتا تو لوگ تیرے ارد گرد سے پراگندہ ہوجاتے ۔(۱۳)
دل قرآن مجید میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے او راکثر کام اس کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں جیسے ایمان، کفر، نفاق، تعقل، فہم، عدم تعقل، قبول حق، حق کا قبول نہ کرنا۔ ہدایت، گمراہی ،خطاء ،عہد ،طہارت۔ آلودگی۔ رافت و محبت ۔ رعب ،غصہ، شک تردید۔ ترحم۔ قساوت۔ حسرت آرام۔ تکبر، حسد، عصیان و نافرمانی، لغزش اور دوسرے اس طرح کے کام بھی دل کی طرف منسوب کئے گئے ہیں جب کہ دل جو گوشت کا بنا ہوا ہے اور بائیں جانب واقع ہے وہ ان کاموں کو بجا نہیں لاتا بلکہ یہ کام انسان کے نفس اور روح کے ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا ہوگا کہ قلب اور دل سےمراد وہ مجرد ملکوتی جوہر ہے کہ جس سے انسان کی انسانیت مربوط ہے ۔ قلب کا مقام قرآن میں ا تنا عالی اور بلند ہے کہ جب اللہ تعالی سے ارتباط جو وحی کے ذریعے سے انسان کو حاصل ہوتا ہے وہاں قلب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ خداوند قرآن مجید میں پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ‘روح الامین (جبرئیل) نے قرآن کو تیرے قلب پر نازل کیا ہے تا کہ تو لوگوں کو ڈرائے۔ نیز خدا فرماتا ہے اے پیغمبرﷺ کہہ دے کہ جو جبرائیل (ع) کا دشمن ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے کیونکہ جبرائیل (ع) نے تو قرآن اللہ کے اذن سے تیرے قلب پر نازل کیا ہے۔( ۱۴) قلب کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ وہ وحی کے فرشتے کو دیکھتا اور اس کی گفتگو کو سنتا ہے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘خدا نے اپنے بندے محمدﷺ پر وحی کی ہے اور جو پیغمبر ﷺ کے قلب نے مشاہدہ کیا ہے اسے فرشتے نے جھوٹ نہیں بولا۔ (۱۵)
قلب کی صحت و بیماری
ہماری زندگی قلب اور روح سے مربوط ہے روح بدن کو کنٹرول کرتی ہے۔
جسم کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تابع فرمان ہیں تمام کام اور حرکات روح سے صادر ہوتے ہیں۔ ہماری سعادت اور بدبختی روح سے مربوط ہے۔ قرآن اور احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا جسم کبھی سالم ہوتا ہے اور کبھی بیمار اور اس کی روح بھی کبھی سالم ہوتی ہے اور کبھی بیمار۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘جس دن (قیامت) انسان کے لئے مال اور اولاد فائدہ مند نہ ہونگے مگر وہ انسان کہ جو سالم روح کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹے گا۔ (۱۶)۔
نیز ارشاد فرماتا ہے کہ ‘اس ہلاکت اور تباہ کاری میں تذکرہ ہے جو سالم روح رکھتا ہوگا۔ (۱۷) اور فرماتا ہے کہ ‘ بہشت کو نزدیک لائینگے جو دور نہ ہوگی یہ بہشت وہی ہے جو تمام ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کی طرف اس حالت میں لوٹ آئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور خدا نے ان کے لئے اس کا وعدہ کیا ہےکہ جو خدا مہربان سے ڈرتا رہا اور خشوع کرنے والی روح کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹ آیا ہے۔ (۱۸)
جیسے کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ ان آیات میں روح کی سلامت کو دل کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور انسان کی اخروی سعادت کو روح سے مربوط قرار دیا ہے کہ جو سالم قلب اور خشوع کرنے والے دل کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آیا ہو اور دوسری جانب خداوند عالم نے بعض والوں یعنی روح کو بیمار بتلایا ہے جیسے خداوند عالم فرماتا ہے کہ ‘منافقین کے دلوں میں بیماری ہے کہ خدا ان کی بیماری کو زیادہ کرتا ہے۔ (۱۹) نیز فرماتا ہے کہ ‘وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ یہود اور نصاری کی دوستی کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایمان لانے کیوجہ سے مصیبت او گرفتاری موجود نہ ہوجائے (۲۰) ۔ ان آیات میں کفر نفاق کفار سے دوستی کو قلب کی بیماری قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کی آیات اور سینکڑوں روایات سے جو پیغمبر (ع) اورائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کی روح اور قلب بھی جسم کی طرح ۔ سالم اور بیمار ہوا کرتی ہے لہذا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ دل کی بیماری کو مجازی معنی پر محمول کیا جائے۔
خداوند عالم جو روح اور دل کا خالق ہے اور پیغمبر ﷺ اور آئمہ علیہم السلام کہ جو انسان شناس ہیں دل او رروح کی بعض بیماریوں کی اطلاع دے رہے ہیں ہم کیوں نہ اس بیماری کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کریں۔ وہ حضرات جو واقعی انسان شناس ہیں کفر نفاق حق کو قبول نہ کرنا۔ تکبر کینہ پروری غصہ چغل خوری خیانت خودپسندی خوف برا چاہنا تہمت بدگوئی، غیبت، تندخوئی، ظلم، تباہ کاری، بخل، حرص، عیب جوئی، دروغ گوئی حب مقام ریاکاری حیلہ بازی، بدظنی، قساوت، ضعف نفس اور دوسری بری صفات کو انسان کی روح اور قلب کی بیماری بتلا رہے ہیں پس جو لوگ ان بیماریوں کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے وہ ایک سالم روح و دل خدا کے پاس نہیں جا رہے ہونگےتا کہ اس آیت مصداق قرار پاسکیں یوم لاینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم۔
دل اور روح کی بیماریوں کو معمولی شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ جسم کی بیماریوں سے کئی گناہ خطرناک ہیں اور ان کا علاج ان سے زیادہ سخت اور مشکل ہے۔ جسم کی بیماریوں میں جسم کے نظام تعادل میں گڑبڑ ہوا کرتی ہے کہ جس سے درد اور بے چینی اور بسا اوقات کسی عضو میں نقص آجاتا ہے لیکن پھر بھی وہ محدود ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ آخری عمر تک باقی رہتی ہیں۔ لیکن روح کی بیماری بدبختی اور عذاب اخروی کو بھی ساتھ لاتی ہے اور ایسا عذاب اسے دیا جائیگا جو دل کی گہرائیوں تک جائیگا اور اسے جلا کررکھ دے گا۔ جو روح اس دنیا میں خدا سے غافل ہے اور اللہ تعالی کی نشانیوں کا مشاہدہ نہیں کرتی اور اپنی تمام عمر کو گمراہی اور کفر اور گناہ میں گذار دیتی ہے در حقیقت وہ روح اندھی اور تاریک ہے وہ اسی اندھے پن اور بے نوری سے قیامت میں مبعوث ہوگا اور اس کا انجام سوائے دردناک اور سخت زندگی کے اور کچھ نہ ہوگا۔
خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘ جو ہماری یاد سے روگردانی کرتے ہیں ان کی زندگی سخت ہوگی اور قیامت کے دن ا ندھے محشور ہونگے وہ قیامت کے دن کہے گا خدایا مجھے کیوں اندھا محشور کیا ہے؟ حالانکہ میں دنیا میں تو بینا تھا خداوند عالم اس کے جواب میں فرمائے گا کہ میری نشانیاں تیرے سامنے موجود تھیں لیکن تو نے انہیں بھلا دیا اسی لئے آج تمہیں فراموش کردیا گیا ہے ۔(۲۱)
خدا فرماتا ہے ‘ تم زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ تم ایسے دل رکھتے ہوگے کہ ان سے سمجھتے اور سننے والے کان رکھتے ہوتے یقینا کافروں کی آنکھیں اندھی نہیں بلکہ انکے دل کی آنکھیں اندھی ہیں۔ (۲۲)
پھر فرماتا ہے ‘ جو شخص اس دنیا میں اندھی آنکھ رکھتا ہوگا آخرت میں بھی وہ نابینا اور زیادہ گمراہ ہوگا۔ (۲۳)
خدا فرماتا ہے کہ ‘جس شخص کو خدا ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جو شخص اپنے (اعمال کی وجہ) سے گمراہ ہوگا اس کے لئے کوئی دوست اور اولیاء نہ ہونگے اور قیامت کے دن جب وہ اندھے اور بہرے اور گونگے ان کو ایسے چہروں سے ہم محشور کریں گے۔ (۲۴)
ممکن ہے کہ اس گفتگو سے تعجب کیا جائے اور کہا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ قیامت کے دن انسان کی باطنی آنکھ آندھی ہوگی؟ کیا ہم اس آنکھ او رکان ظاہری سے کوئی اور آنکھ کان رکھتے ہیں؟ جواب میں عرض کیا جائیگا کہ ہاں جس نے انسان کو خلق فرمایا ہے اور جو اللہ کے بندے انسان شناس ہیں انہوں نے خبر دی ہے کہ انسان کی روح اور دل بھی آنکھ کان زبان رکھتی ہے گرچہ یہ آنکھ اور کان اور زبان اس کی روح سے سنخیت رکھتی ہے۔ انسان ایک پیچیدہ موجود ہے کہ جو اپنی باطنی ذات میں ایک مخصوص زندگی رکھتا ہے۔ انسان کی روح ایک تنہا مخصوص جہان ہے۔ اس کے لئے اسی جہان میں نور بھی ہے اور صفا اور پاکیزگی بھی اس میں پلیدی اور کدورت بھی اس میں اس کے لئے بینائی اور شنوائی اور نابینائی بھی ہے لیکن اس جہاں کا نور اور ظلمت عالم دنیا کے نور اور ظلمت کا ہم سنخ نہیں ہے بلکہ اللہ اور قیامت اور نبوت اور قرآن پر ایمان روح انسانی کے لئے نور ہے۔
خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘ جو لوگ محمدﷺ پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں انہوں نے اس نور کی جو ان کی ہمراہ ہے پیروی کی ہے یہی لوگ نجات یافتہ اور سعادتمند ہونگے۔ (۲۵)
خدا فرماتا ہے۔ ‘یقینا تمہاری طرف خداوند عالم سے ایک نور اور کتاب مبین نازل کی گئی ہے۔(۲۶) نیز خدا فرماتا ہے کہ ‘ کیا وہ شخص کہ جس کے دل کو خدا نے اسلام کے قبول کرلینے کے لئے کھول دیا ہے اور اس نے اللہ تعالی کی طر ف سے نور کو پالیا ہے وہ دوسروں کے برابر ہے؟ افسوس اور عذاب ہے اس کے لئے کہ جس کا دل اللہ تعالی کے ذکر سے قسی ہوگیا ہے۔ ایسے لوگ ایک واضح گمراہی میں ہونگے۔(۲۷) خداوند عالم نے ہمیں خبردی ہے کہ قرآن ایمان، اسلام کے احکام اور قوانین تمام کے تمام نور ہیں۔ انکی اطاعت اور پیروی کرنا قلب اور روح کو نورانی کردیتے ہیں یقینا یہ اسی دنیا میں روح کو نورانی کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا۔
خداوند عالم نے خبردی ہے کہ کفر نفاق گناہ حق سے روگردانی تاریکی روح کو کثیف کردیتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں جا ظاہر ہوگا۔ پیغمبروں کو اسی غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو کفر کی تاریکی سے نکالیں اور ایمان اور نور کے محیط میں وارد کریں۔
خداوند عالم فرماتا ہے کہ ‘ ہم نے قرآن کو تم پر نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکالے اور نور میں وارد کرے۔( ۲۸)
مومنین اسی جہان میں نور ایمان تزکیہ نفس مکارم اخلاق یاد خدا اور عمل صالح کے ذریعے اپنی روح اور دل کو نورانی کرلیتے ہیں اور باطنی آنکھ اور کان سے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سنتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ جب اس جہان سے جاتے ہیں تو وہ سراسر نور اور سرور اور زیبا اور خوشنما ہونگے اور آخرت کے جہان میں اسی نور سے کہ جسے دنیا میں مہیا کیا ہوگا فائدہ حاصل کریں گے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ‘ اس دن کو یاد کرو جب مومن مرد عورت کا نور انکے آگے اور دائیں جانب کو روشن کئے ہوگا (اور ان سے کہا جائیگا) کہ آج تمہارے لئے خوشخبری ایسی بہشت ہے کہ جس کی نہریں درختوں کے نیچے سے جاری ہیں اور تم ہمیشہ کے لئے یہاں رہوگے اور یہ ایک بہت بڑی سعادت اور خوشبختی ہے۔ (۲۹)
درست ہے کہ آخرت کے جہان کے نور کو اسی دنیا سے حاصل کیا جانا ہوتا ہے اسی لئے تو کافر اور منافق آخرت کے جہان میں نور نہیں رکھتے ہونگے۔
قرآن میں آیا ہے کہ ‘اس دن کو یاد کرو جب منافق مرد اور عورت مومنین سے کہیں گے کہ تھوڑی سے مہلت دو تا کہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کرلیں ان سےکہا جائیگا کہ اگر ہوسکتا ہے تو دنیا میں واپس چلے جاؤ اور اپنے لئے نور کو حاصل کرو ۔(۳۰)
قلب روح احادیث میں
دین کے رہبروں اور حقیقی انسان کو پہچاننے والوں نے انسان کی روح اور قلب کے بارے بہت عمدہ اور مفید مطالب بتلائے ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے کہ بعض احادیث کی بناپر قلب اور روح کو تین گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ‘ہم تین طرح کے قلب رکھتے ہیں۔ پہلی نوع۔ ٹیڑھا قلب جو کسی خیر اور نیکی کے کاموں کو درک نہیں کرتا اور یہ کافر کا قلب ہے۔ دوسری نوع وہ قلب ہے کہ جس میں ایک سیاہ نقطہ موجود ہے یہ وہ قلب ہے کہ جس میں نیکی اور برائی کے درمیان ہمیشہ جنگ و جدال ہوتی ہے ان دو میں سے جو زیادہ قوی ہوگا وہ اس قلب پر غلبہ حاصل کریگا۔ تیسری نوع قلب مفتوح ہے اس قلب میں چراغ جل رہا ہے جو کبھی نہیں بجھتا اور یہ مومن کا قلب ہے۔ (۳۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ‘آپ نے فرمایا کہ قلب کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہے۔ قلب گناہ کا سامنا کرتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یہاں تک کہ گناہ قلب پر غالب آجاتا ہے اور وہ قلب کو ان اور ٹیڑہا کردیتا ہے ۔ (۳۱)
اور امام سجاد علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ‘ انسان کی چار آنکھیں ہیں اپنی دو ظاہری آنکھوں سے دین اور دنیا کے امور کو دیکھتا ہے اور اپنی دو باطنی آنکھوں سے ان امور کو دیکھتا ہے جو آخرت سے مربوط ہیں جب اللہ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے قلب کی دو باطنی آنکھوں کو کھول دیتا ہے تا کہ اس کے ذریعے غیب کے جہان اور آخرت کے امر کا مشاہدہ کرسکے اور اگر خدا اس کی خیر کاارادہ نہ کرے تو اس کے قلب کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے ۔ (۳۲)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ قلب کے دو کان ہیں ایمان کی روح آہستہ سے اسے کار خیر کی دعوت دیتی ہے اور شیطان آہستہ سے اسے برے کاموں کی دعوت دیتا ہے جو بھی ان میں سے دوسرے پر غالب آجائے وہ قلب کو اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے۔ (۳۳)
امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نقل کیا ہے کہ ‘آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بدترین اندھاپن قلب کا اندھا پن ہے۔ (۳۴)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ انسان کے قلب میں ایک سفید واضح نقطہ ہوتا ہے اگر گناہ کا ارتکاب کرلے تو اس کے قلب میں سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے اگر اس کے بعد توبہ کرلے تو وہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر گناہ کرنے پر اصرار کرے تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سفید نقطے کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں پھر اس قلب کا مالک انسان نیکیوں کی طرف رجوع نہیں کرتا اور اس پر یہ آیت صادق آجاتی ہے کہ ان کے اعمال نے ان کے قلوب پرغلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں تاریک کردیا ہے۔ (۳۵)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ جس میں تقوی اور خوف خدا کم ہو اس کا قلب او ردل مرجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ (۳۶)
حضرت امیرعلیہ السلام نے اپنے فرزند کو وصیت میں فرمایا کہ ‘اے فرزند فقر اور ناداری ایک مصیبت اور بیماری ہے اور اس سے سخت بیماری جسم کی بیماری ہے اور دل کی بیماری جسم کی بیماری سے بھی زیادہ سخت ہے۔ مال کی وسعت اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس سے افضل بدن کا سالم رہنا ہے اور اس سے افضل دل کا تقوی ہے۔ (۳۷)
رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے۔ کہ ‘ حضرت داود پیغمبر (ع) نے اللہ تعالی کی درگاہ میں عرض کیا خدایا تمام بادشاہوں کے خزانے میں تیرا خزانہ کہاں ہے؟
اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا کہ میرا ایک خزانہ ہے جو عرش سے بڑا اور کرسی سے وسیع تر اور بہشت سے زیادہ خوشبودار اور تمام ملکوت سے زیادہ خوبصورت ہے اس خزانہ کی زمین معرفت اور اس کا آسمان ایمان۔
اس کا سورج شوق اور اس کا چاند محبت اور اس کے ستارے خدا کی طرف توجہات اس کا بادل عقل اس کی بارش رحمت اس کا میوہ اطاعت اور ثمرہ حکمت ہے۔ میرے خزانے کے چار دروازے ہیں پہلا علم، دوسرا عقل، تیسرا صبر، چوتھا رضایت، جان لے کہ میرا خزانہ میرے مومن بندوں کا قلب اور دل ہے۔( ۳۸)
اللہ تعالی کے ان بندوں کے جو قلب اور دل اور روح کو پہنچانتے ہیں ان احادیث میں بہت مفید مطالب بیان فرمائے ہیں کہ کچھ کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں۔
قلب کافر
کافر کے دل کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ الٹا اور ٹیڑھا ہے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اس طرح کا دل اپنی اصلی فطرت سے ہٹ چکا ہے اور عالم بالا کی طرف نگاہ نہیں کرتا وہ صرف دنیاوی امور کو دیکھتا ہے اسی لئے وہ خدا اور آخرت کے جہاں کا مشاہدہ نہیں کرتا اس کے بارے نیکی اور خوبی کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نیک کام اس صورت میں درجہ کمال اور قرب الٰہی تک پہنچتے ہیں جب وہ رضا الہی کے لئے انجام دیئےائیں لیکن کافر نے اپنے دل کو الٹا کردیا ہے تا کہ وہ خدا کو نہ دیکھ سکے وہ اپنے تمام کاموں سے سوائے دنیا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتا وہ صرف دنیا تک رسائی چاہتا ہے نہ خدا کا قرب۔ اس طرح کا دل گرچہ اصلی فطرت والی آنکھ رکھتا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھ کو اندھا کر رکھا ہے۔ کیونکہ وہ واضح ترین حقیقت وجود خدا جو تمام جہاں کا خالق ہے کا مشاہدہ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں اندھا ہے اور آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اس نے اس دنیا میں امور دنیا سے دل لگا رکھا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئےامور دنیا سے ہی وابستگی باقی رہے گی لیکن وہ اسے وہاں حاصل نہ ہوں گے اور وہ اس کے فراق کی آگ میں جلتا رہے گا۔ اس قسم کے دل میں ایمان کا نور نہیں چمکتا اور وہ بالکل ہی تاریک رہتا ہے۔
۱۔ کافر کے دل مقابل مومن کامل کا دل ہے۔ مومن کے دل کا دروازہ عالم بالا اور عالم غیب کی طرف کھلا ہوا ہوتا ہے ایمان کا چراغ اس میں جلتا ہوا ہوتا ہے اور کبھی نہیں بجھتا۔ اس کے دل کی دونوں آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں اور عالم غیب اور اخروی امور کو ان سے مشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح کا دل ہمیشہ ہمیشہ کمال اور جمال اور خیر محض یعنی خداوند تعالی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس کا تقرب چاہتا ہے وہ خدا کو چاہتا ہے اور مکارم اخلاق اور اعمال صالح کے ذریعے ذات الہی کی طرف حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس قسم کا دل عرش اور کرسی سے زیادہ وسیع اور بہشت سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کا مرکز انوار الہی اور خزانہ الہی قرار پائے۔ اس طرح کے دل کی زمین اللہ کی معرفت اور اس کا آسمان اللہ پر ایمان اور اس کا سورج لقاء الہی کا شوق اور اس کا چاند اللہ کی محبت۔ مومن کے دل میں عقل کی حکومت ہوتی ہے اور رحمت الہی کی بارش کو اپنی طرف جذب کرلیتا ہے کہ جس کا میوہ عبادت ہے اس طرح کے دل میں خدا اور اس کے فرشتوں کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔ایسا دل تمام کا تمام نور ا ور سرور اور شوق اور رونق اور صفا والا ہوتا ہے اور آخرت کے جہان میں بھی اسی حالت میں محشور ہوگا۔ (ایسے دل والے کو مبارک ہو)
۳۔ مومن کا دل جب کبھی گناہ سے آلودہ ہوجاتا ہے تو ایسے مومن کا دل بالکل تاریک اور بند نہیں رہتا بلکہ ایمان کے نور سے روشن ہوجاتا ہے اور کمال الٰہی اور تابش رحمت کے لئے کھل جاتا ہے لیکن گناہ کے بجالانے سے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ موجود ہوجاتا ہے اور اسی طریق سے شیطان اس میں راستہ پالیتا ہے۔ اس کے دل کی آنکھ اندھی نہیں ہوتی لیکن گناہ کی وجہ سے بیمار ہوگئی ہے اور اندھے پن کی طرف آگئی ہے۔ اس طرح کے دل میں فرشتے بھی راستے پالیتے ہیں اور شیطان بھی۔ فرشتے ایمان کے دروازے سے اس میں وارد ہوتے ہیں اور اسے نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں شیطان اس سیاہ نقطہ کے ذریعے سے نفوذ پیدا کرتا ہے اور اسے برائی کی دعوت دیتا ہے۔ شیطان اور فرشتے اس طرح کے دل میں ہمیشہ جنگ اور جدال میں ہوتے ہیں۔ فرشتے چاہتے ہیں کہ تمام دل پر نیک اعمال کے ذریعے چھاجائیں اور شیطان کو وہاں سے خارج کردیں اور شیطان بھی کوشش کرتا ہے کہ گناہ کے بجالانے سے دل کو تاریک بلکہ تاریک تر کردے اور فرشتوں کو وہاں سے باہر نکال دے اور پورے دل کو اپنے قبضے میں لے لے اور ایمان کے دروازے کو بالکل بند کردے۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کو دکھیلنے پر لگے رہتے ہیں اور پھر ان میں کون کامیاب ہوتا ہے اور اس کی کامیابی کتنی مقدار ہوتی ہے۔ انسان کی باطنی زندگی اور اخروی زندگی کا انجام اسی سے وابستہ ہوتا ہے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں نفس کیساتھ جہاد کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ جس کی تفصیل بیان کی جائیگی۔
قسی القلب
انسان کی روح اور دل ابتداء میں نورانیت اور صفاء اور مہربانی اور ترحم رکھتے ہیں۔ انسان کا دل دوسروں کے دکھ اور درد یہاں تک کہ حیوانات کے دکھ اور درد سے بھی رنج کا احساس کرتا ہے اسے بہت پسند ہوتا ہے کہ دوسرے آرام اور اچھی زندگی بسر کریں اور دوسروں پر احسان کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے اور اپنی پاک فطرت سے خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور عبادت اور دعا راز و نیاز اور نیک اعمال کے بجالانے سے لذت حاصل کرتا ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے فوراً متاثر اور پشیمان ہوجاتا ہے۔ اگر اس نے فطرت کے تقاضے کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تودن بدن اس کے صفا قلب اورنورانیت اور مہربان ہونے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
عبادت اور دعا کے نتیجے میں دن بدن عبادت اور دعا اور خدا سے انس و محبت میں زیادہ علاقمند ہوتا جاتا ہے۔ اور اگر اس نے اپنے اندرونی اور باطنی خواہشات کو نظرانداز کیا اور اس کے مخالف عمل کیا تو آہستہ آہستہ وہ پاک احساسات نقصان کی طرف جانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ ممکن ہے وہ بالکل ختم اور نابود ہوجائیں۔ اگر اس نے دوسروں کے درد کے موارد کو دیکھا اور ان کے خلاف اپنے رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو آہستہ آہستہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان کے دیکھنے سے معمولی سا اثر بھی نہیں لیتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ دوسروں کے فقر اور فاقہ اور ذلت و خواری بلکہ ان کے قید و بند اور مصائب سے لذت حاصل کرنا شروع کردے۔ انسان ابتداء میں گناہ کرنے پر پشیمان اور ناخوش ہوتا ہے لیکن اگر ایک دفعہ گناہ کا ارتکاب کرلیا تو دوسری دفعہ گناہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے اور اسی طرح دوسری دفعہ گناہ کے بعد تیسری دفعہ گناہ کرنے کے لئے حاضر ہوجاتا ہے اور گناہ کرنے کے اصرار پر ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر گناہ کرنے سے پیشمانی کا احساس تو بجائے خود بلکہ گناہ کرنے کو اپنی کامیابی اور خوشی قرار دیتا ہے۔ ایسے انسانوں کے اس طرح کے دل سیاہ اور الٹے ہوچکے ہوتے ہیں اور قرآن اور احادیث کی زبان میں انہیں قسی القلب کہا جاتا ہے شیطین نے ایسے دلوں پر قبضہ کرلیا ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کو وہاں سے نکال دیا ہوتا ہے۔ اس کے نجات کے دروازے اس طرح بند ہوجاتے ہیں کہ اس کے لئے توبہ کرنے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔
خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ‘جب ہماری مصیبت ان پر وارد ہوتی ہے تو توبہ اور زاری کیوں نہیں کرتے؟ ان کے دلوں پر قساوت طاری ہوچکی ہے اور شیطان نے ان کے برے کردار کو ان کی آنکھوں میں خوشنما بنادیا ہے۔ (۳۹)
نیز خدا فرماتا ہے۔ ‘ افسوس ہے ان دلوں پر کہ جنہیں یاد خدا سے قساوت نے گھیر رکھا ہے ایسے لوگ ایک واضح گمراہی ہیں پڑے ہوئے ہیں۔(۴۰)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ہر مومن کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے اگر اس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور دوبارہ اس گناہ کو بجالایا تو ایک سیاہ نقطہ اس میں پیدا ہوجاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کرنے پر اصرار کیا تو وہ سیاہ نقطہ آہستہ سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس دل کے سفید نقطہ کو بالکل ختم کردیتا ہے اس وقت ایسے دل والا آدمی کبھی بھی اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور یہی خداوند عالم کے اس فرمان سے کہ ان کے کردار نے ان کے دلوں کو چھپا رکھا ہے مراد ہے۔ (۴۱)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘ انسان کے آنسو قساوت قلب کی وجہ سے خشک ہوجاتے ہیں اور قلب میں قساوت گناہون کے اثر کیوجہ سے ہوتی ہے۔ (۴۲)
رسول خدا نے فرمایا ہے ‘ چار چیزیں انسان میں قساوت قلب کی علامتیں ہیں۔ آنسوں کا خشک ہوجانا۔ قساوت قلب۔ روزی کے طلب کرنے میں زیادہ حریص ہونا۔
اور گناہوں پر اصرار کرنا۔ (۴۳)
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ‘ اے میرے خدا میں دل کے سخت ہوجانے سے آپ سے شکایت کرتا ہوں ایسا دل جو وسواس سے ہمیشہ تغیرپذیر ہے اور آلودگی اور خشم سے جڑا ہوا ہے۔ میں آپ سے ایسی آنکھ سے شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف سے نہیں روتی اور اس کی طرف متوجہ ہے جو اسے خوش رکھتی ہے۔ (۴۴)
پس جو انسان قلب کی سلامتی اور اپنی سعادت سے علاقمند ہے اس کو گناہ کے ارتکاب سے خواہ گناہ صفیرہ ہی کیوں نہ ہو بہت زیادہ پرہیز کرنی چاہئے۔ اور ہمیشہ اپنی روح کو نیک کاموں عبادت دعا اور خدا سے راز و نیاز مہربانی احسان اور دوسروں کی مدد مظلوموں اور محروموں کی حمایت اور خیرخواہی نیک کاموں میں مدد عدالت خواہی اور عدالت برپا کرنے میں مشغول رکھے تا کہ آہستہ آہستہ نیک اعمال بجالانے کی عادت پیدا کرے اور باطنی صفا اور نورانیت کو حاصل کرلے تا کہ اس کی روح ملائکہ کا مرکز قرار پائے۔
قلب کے طبیب اور معالج
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دل اور روح بھی جسم کی طرح سالم ہوا کرتا ہے اور بیمار۔ انسان کی اخروی سعادت اس سے مربوط ہے کہ انسان سالم روح کے ساتھ اس دنیا سے جائے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ روح کی سلامتی اور بیماریوں سے واقف ہوں۔
ان بیماریوں کی علامات کو پہچانیں تا کہ روح کی مختلف بیماریوں سے مطلع ہوں ان بیماریوں کے اسباب اور علل کو پہچانیں تا کہ ان بیماریوں کو روک سکیں کیا ان بیماریوں کی پہچان میں ہم خود کافی معلومات رکھتے ہیں یا ان کی پہچان میں پیغمبروں کے محتاج ہیں۔ اس میں کسی شک کی گنجائشے نہیں کہ ہم روح کی خلقت اور اس کے اسرار اور رموز سے جو اس موجود ملکوتی میںرکھے گئے کافی معلومات نہیں رکھتے۔
قاعدتا ہم اپنی روحانی اور باطنی زندگی سے بے خبر ہیں۔ نفسانی بیماریوں کے اسباب کو اچھی طرح نہیں جانتے اور ان بیماریوں کی علامتوں کی بھی اچھی طرح تشخیص نہیں کرسکتے اور ان مختلف بیماریوں کا علاج اور توڑ بھی نہیں جانتے اسی لئے پیغمبروں کے وجود کی طرف محتاج ہیں تا کہ وہ ہمیں اس کے طریق کار کی ہدایت اور رہبری کریں۔ پیغمبر روح کے معالج اور ان بیماریوں کے علاج کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالی کی تائید اور الہامات سے روح کے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتے ہیں وہ انسان شناسی کی درسگاہ میں بذریعہ وحی انسان شناس بنے ہیں اور اس ملکوتی وجود کے اسرار اور رموز سے اچھی طرح مطلع اور آگاہ ہیں۔ وہ صراط مستقیم اور اللہ کی طرف سیر و سلوک کو خوب پہچانتے ہیں اور انحراف کے اسباب اور عوامل سے واقف ہیں اسی لئے وہ انسان کی اس سخت راستے کو طے کرنے میں مدد کرتے ہیں اور انحراف اور کجروی سے روکتے ہیں۔ جی ہاں پیغمبر اللہ کی طرف سے معالج ہیں کہ تاریخ انسانی میں انہوں نے انسان کی خدمت انجام دی ہے اور ان کی ایسی خدمات کئی درجہ زیادہ بدن کے معالجین سے بڑھ کر کی ہے پیغمبروں نے جوہر ملکوتی ورح کو کشف کرتے ہوئے انسانوں کو اس کی پہچان کرائی ہے اور ان کی انسانی شخصیت کو زندہ کیا ہے۔ پیغمبرﷺ تھے کہ جنہوں نے انسانوں کا مکارم اخلاق اور معارف اور معنویات سے روشناس کیا ہے اور قرب الٰہی کے راستے اور سیرو سلوک کی نشاندہی کی ہے۔ پیغمبر تھے کہ جنہوں نے انسان کو خدا اور جہان غیب سے آشنا اور واقف کیا ہے اور انسان کے تزکیہ نفس اور تہذیب کے پرورش کرنے میں کوشش اور تلاش کی ہے۔ اگر انسان میں معنویت محبت اور عطوفت اور مکارم اخلاق اور اچھی صفات موجود ہیں تو یہ اللہ کے بھیجے ہوئے معالجین کی دائمی اور متصل کوشش بالخصوص خاتم پیغمبر علیہ السلام کی دائمی کوشش کی برکت سے ہیں واقعا پیغمبر اللہ تعالی کے صحیح اور ممتاز بشریت کے معالج ہیں اسی لئے احادیث میں ان کی عنوان طبیب اور معالج کے عنوان سے پہچان کرائی گئی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر گرامی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘ محمدﷺ چلتا پھر تا طبیب ہے کہ ہمیشہ انسانی روحوں کی طبابت کرنے میں کوشان تھا اور بیماریوں کے علاج کے لئے مرہم فراہم کر رکھی تھی اور اسے مناسب مورد میں کام میں لاتا تھا۔ اندھی روح اور بہرے کان گنگی زبان کو شفا دیتے تھے۔ اور داؤوں کو انسانوں پر استعمال کرتے تھے جو حیرت اور غفلت میں غرق اور تھے ان انسانوں کو جو حکمت اور علم کے نور سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور حقائق اور معارف الٰہی کے ناشناس تھے اسی لئے تو ایسے انسان حیوانات سے بھی بدتر زندگی بسر کرتے تھے۔(۴۵)
قرآن کو روح کے لئے شفاء دینی والی دواء بیان کیا گیا ہے۔
خدا ارشاد فرماتا ہے کہ ‘ اللہ کی طرف سے موعظہ نازل ہوا ہے اور وہ قلب یعنی روح کے درد کے لئے شفا ہے۔(۴۶)
نیز خدا فرماتا ہے کہ ‘ قرآن میں ہم نے بعض ایسی چیزیں نازل کی ہیں جو مومنین کے لئے شفاء اور رحمت ہیں۔(۴۷)
امیر المومنین علیہ السلام قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘قرآن کو سیکھو کہ وہ بہترین کلام ہے اس کی بات میں خوب غور کرو کہ عقل کی بارش روح کو زندہ کرتی ہے اور قرآن کے نور سے شفاء حاصل کرو کہ وہ دلوں کو یعنی روحوں کو شفا بخشتا ہے۔(۴۸)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ‘ جو شخص قرآن رکھتا ہو وہ کسی دوسری چیز کا محتاج نہ ہوگاہ اور جو شخص قرآن سے محروم ہوگاہ کبھی غنی نہ ہوگا۔ قرآن کے واسطے سے اپنے روح کی بیماریوں کا علاج کرو اور مصائب کے ساتھے مٹھ بھیڑ میں اس سے مدد لو کیونکہ قرآن بزرگترین بیماری کفر اور نفاق اور گمراہی سے شفا دیتا ہے۔(۴۹)
جی ہاں قرآن میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نفوس کے طبیب ہیں۔ ہمارے درد اور اس کے علاج کو خوب جانتا ہے اور ایسے قرآن کو لایا ہے جو ہمارے باطنی درد کے لئے شفا دیتے کا ضابطہ ہے اور ہمیں ایسا قرآن دیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اقسام کی باطنی بیماریوں اور ان کے علاج پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے واضح کیا ہے اور وہ حدیث کی شکل میں ہمارے لئے باقی موجود ہیں لہٰذا اگر ہمیں اپنے آپ کے لئے روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو ہمیں قرآن اور احادیث سے استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی روح کی سعادت اور سلامتی کے طریق علاج کی مراعات کرنی چاہئے اور قرآن اور پیغمبرﷺ اور ائمہ اطہارعلیہم السلام کی راہنمایی میں اپنی روح کی بیماریوں کو پہچاننا چاہئے اور ان کی علاج کے لئے کوشش اور سعی کرنی چاہئے اور اگر ہم اس امر حیاتی اور انسان ساز میں کوتاہی کریں گے تو ایک بہت بڑے نقصان کے متحمل ہونگے کہ جس کا نتیجہ ہمیں آخرت کے جہان میں واضح اور روشن ہوگا۔
تکمیل اور تہذیب نفس
پہلے بتاتا جا چکا ہے کہ روح کی پرورش اور تربیت ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ دنیا اور آخرت کی سعادت اسی سے مربوط ہے اور پیغمبر علیہم السلام بھی اسی غرض کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ روح کی تربیت اور خودسازی دو مرحلوں میں انجام دینی ہوگی۔
پہلا مرحلہ: روح کی برائیوں سے پاک کرنا یعنی روح کو برے اخلاق سے صاف کرنا اور گناہوں سے پرہیز کرنا اس مرحلہ کا نام تصفیہ اور تخلیہ رکھنا گیا ہے۔
دوسرا مرحلہ: روح کی تحصیل علم اور معارف حقہ فضائل اور مکارم اخلاق اور اعمال صالحہ کے ذریعے تبریت اور تکمیل کرنا اس مرحلہ کا نام تحلیہ رکھا گیا ہے یعنی روح کی پرورش اور تکمیل اور اسے زینت دینا۔
انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کی ضرورت ہوتی ہے اس واسطے کہ اگر روح کی زمین برائیوں سے پاک اور منزہ نہ ہوئی تو وہ علوم اور معارف حقہ مکارم اخلاق اعمال صالح تربیت کی قابلیت پیدا نہیں کرے گاہ وہ روح جو ناپاک اور شیطان کا مرکز ہو کس طرح انوار الہی کی تابش کا مرکز بن سکے گا؟ اللہ تعالی کے مقرب فرشتے کس طرح ایسی روح کی طرف آسکیں گے؟ اور پھر اگر ایمان اور معرفت اور فضائل اخلاق اور اعمال صالح نہ ہوئے تو روح کس ذریعے سے تربیت پا کر تکامل حاصل کرسکے گی۔ لہذا انسان کو انسان بنانے کے لئے دونوں مرحلوں کو انجام دیا جائے ایک طرف روح کو پاک کیا جائے تو دوسری طرف نیک اعمال کو اس میں کاشت کیا جائے ۔ شیطان کو اس سے نکالا جائے اور فرشتے کو داخل کیا جائے غیر خدا کو اس سے نکالا جائے اور اشراقات الہی اور افاضات کو اس کے لئے جذب کیا جائے یہ دونوں مرحلے لازم اور ملزم ہیں یوں نہیں ہو سکتا کہ روح کے تصفیہ کے لئے کوشش کی جائے اور نیک اعمال کو بجا لانے کو بعد میں ڈالا جائے جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ باطنی امور کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے اور نیک اعمال بجالانے میں مشغول ہوا جائے بلکہ یہ دونوں ایک ہی زمانے میں بجا لائے جانے چاہئیں برائیوں اور برے اخلاق کو ترک کر دینا انسان کو اچھائیوں کے بجالانے کی طرف بلاتا ہے اور نیک اعمال کا بالانا بھی گناہوں اور برے اخلاق کے ترک کر دینے کا موجب ہوتا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ افلم یسیروا فی الارض فتکون لہم قلوب یعقلون بہا۔ حج/ 46۔
۲۔ا لہم قلوب لا یفقہون بما و لہم اعین لایبصرون بہا۔ اعراف/ 179۔
۳۔ اولئک کتب فی قلوبہم الایمان و ایّدہم بروح منہ۔ مجادلہ/ 22۔
۴۔ و طبع علی قلوبہم فہم لا یفقہون۔ توبہ/ 78۔
۵۔ یحذر المنافقون ان تنزّل علیہم سورۃ تنبئہم بما فی قلوبہم۔ توبہ/ 64۔
۶۔ و من یؤمن باللہ یہد قلبہ و اللہ بکل شیء علیم۔ تغابن/ 11۔
۷۔ انّ فی ذالک لذکری لمن کان لہ قلب او القی السمع و ہو شہید۔ ق/ 37۔
۸۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ رعد/ 28۔
۹۔ ہو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایماناً۔ فتح/ 4۔
۱۰۔ انما یستا ذنک الذین لا یؤمنون باللہ و الیوم الاخر و ارتابت قلوبہم فہم فی ریبہم یترددون۔ توبہ/ 45۔
۱۱۔ و جعلنا فی قلوب الذین اتّبعوہ را فۃ و رحمۃ۔ حدید/ 27۔
۱۲۔ ہو الذی ایّدک بنصرہ و بالمؤمنین و الّف بین قلوبہم۔ انفال/ 63۔
۱۳۔ و لو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک۔ آل عمران/ 159۔
۱۴۔ نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین۔ شعرا/ 194۔
۱۵۔ فاوحی الی عبدہ ما اوحی ما کذب الفؤاد ما را ی۔ نجم/ 11۔
۱۶۔ یوم لا ینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم۔ شعراء/ 89۔
۱۷۔ انّ فی ذالک لذکری لمن کانہ لہ قلب۔ ق/ 37۔
۱۸۔ و ازلفت الجنۃ للمتقین غیر بعید۔ ہذا ما توعدون لکل اوّاب حفیظ۔ من خشی الرحمان بالغیب و جاء بقلب منیب۔ ق/ 31۔ 33۔
۱۹۔ فی قلوبہم مرض فزادہم اللہ مرضاً۔ بقرہ/ 10۔
۲۰۔ فتری الذین فی قلوبہم مرض یسارعون فیہم یقولون نخشی ان تصیبنا دائرۃ۔ مائدہ/ 52۔
۲۱۔ و من اعرض عن ذکری فانّ لہ معیشۃ ضنکا و نحشرہ یوم القیامۃ اعمی۔ قال لم حشرتنی اعمی و قد کنت بصیراً قال کذالک اتتک آیاتنا فنسیتہا و کذالک الیوم تنسی۔ طہ/ 125۔
۲۱۔ افلم یسیروا فی الارض فتکون لہم قلوب یعقلون بہا و آذان یسمعون بہا فانہا لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔ حج/ 46۔
۲۲۔ و من کان فی ہذہ اعمی فہو فی الاخرۃ اعمی و اضلّ سبیلاً۔ اسرائ/ 72۔
۲۳۔ و من یہدی اللہ فہو المہتدی و من یضلل فلن تجد لہم اولیاء من دونہ و نحشرہم یوم القیامۃ علی وجوہم عمیاً و بکماً و صمّاً۔ اسرائ/ 97۔
۲۴۔ فالذین آمنوا بہ و عزّروہ و نصروہ و اتّبعوا النور الذی معہ اولئک ہم المفلحون۔ اعراف/ 157۔
۲۵۔ قد جائکم من اللہ نور و کتاب مبین۔ مائدہ/ 15۔
۲۶۔ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فہو علی نور من ربہ، فویل للقاسیۃ قلوبہم من ذکر اللہ اولئک فی ضلال مبین۔ زمر/ 22۔
۲۷۔ کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور۔ ابراہیم/ 1۔
۲۸۔ یوم تری المؤمنین و المؤمنات یسعی نورہم بین ایدیہم و بایمانہم بشراکم الیوم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا ذالک ہو الفوز العظیم۔ حدید/ 12۔
۲۹۔ یوم یقول المنافقون و المنافقات للذین آمنوا انظرونا نقتبس من نورکم قیل ارجعوا ورائکم فالتمسوا نوراً۔ حدید/ 13۔
۳۰۔ عن ابی جعفر علیہ السلام قال: القلوب ثلاثۃ: قلب منکوس لایعثر علی شیء من الخیر و ہو قلب الکافر و قلب فیہ نکتۃ سوادء فالخیر و الشر یعتلجان، فما کان منہ اقوی غلب علیہ، و قلب مفتوح فیہ مصباح یزہر فلا یطفا نورہ الی یوم القیامۃ و ہو قلب المؤمن۔ بحار/ ج 70 ص 51۔
۳۰۔ عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: کان ابی یقول: ما من شء افسد للقلب من الخطیئۃ، انّ القلب لیواقع الخطیئۃ فما تزال حتی تغلب علیہ فیصیر اسفلہ اعلاوہ و اعلاہ اسفلہ۔ بحار/ ج 70 ص 54۔
۳۱۔ عن علی بن الحسین علیہ السلام فی حدیث طویل یقول فیہ: الا انّ للعبد اربع اعین: عینان یبصر بہما امر دینہ و دنیاہ، و عینان یبصر بہما امر آخرتہ۔ فاذا اراد الہ بعبد خیراً فتح لیہ العینین اللتین فی قلبہ فابصر بہما الغیب و امر آخرتہ و اذا اراد بہ غیر ذالک ترک القلب بما فیہ۔ بحار/ ج 70ص 53۔
۳۲۔ عن ابیعبداللہ علیہ السلام قال: ان للقلب اذنین، روح الایمان یسارّہ بالخیر و الشیطان یسارّہ بالشر فایّہما ظہر علی صاحبہ غلبہ۔ بحار/ ج 70 ص 53۔
۳۳۔ عن الصادق علیہ السلام قال: قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ: شرّ العمی وعمی القلب۔ بحار/ ج 70 ص 51۔
۳۴۔ عن ابی جعفر علیہ السلام قال: ما من عبدا الّا و فی قلبہ نکتۃ بیضاء فاذا اذنب ذنباً خرج فی النکتۃ نکتۃ سواء ۔ فان تاب ذہب ذالک السوائ، و ان تمادی فی الذنوب زاد ذالک السواد حتی یغطّی البیاض، فا ذا غطّی البیاض لم یرجع صاحبہ الی خیر ابداً و ہو قول اللہ تعالی: کلّا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون۔ کافی / ج 2 ص 273۔
۳۵۔ قال علی علیہ السلام: و من قلّ ورعہ مات قلبہ و من مات قلبہ دخل النار۔ نہج البلاغہ۔
۳۶۔ فیما اوصی بہ امیر المؤمنین علیہ السلام ابنہ، قال: یا بنی انّ البلاء الفاقۃ و اشدّ من ذالک مرض البدن و اشدّ من ذالک مرض القلب۔ و ان من النعم سمۃ المال و افضل من ذالک صحۃ البدن و افضل من ذالک تقوی القلوب۔ بحارالانوار/ ج 70 ص 51۔
۳۷۔ انس بن مالک قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ: ناجی داود ربّہ فقال الہی لکلّ ملک خزانۃ فاین خزانتک؟ قال جلّ جلالہ: لی خزینۃ اعظم من العرش و اوسع من الکرسی و اطیب من الجنۃ و ازین من الملکوت۔ ارضہا المعرفۃ و سمائہا الایمان و شمسہا الشوق و قمرہا المحبّۃ و نجومہا الخواطر و سحابہا العقل و مطرہا الحرمۃ و اثمارہا الطاعۃ و ثمرہا الحکمۃ۔ و لہا اربعۃ ابواب: العلم و الحلم و الصبر و الرضا۔ الا وہی القلب۔ بحار الانوار/ ج 70 ص 59۔
۳۸۔ فلو لا اذ جائہم با سنا تضرّعوا و لکن قست قلوبہم و زیّن لہم الشیطان ما کانوا یعمولن۔ انعام 43۔
۳۹۔فویل للقاسیۃ قلوبہم من ذکر اللہ اولئک فی ضلال مبین۔ زمر/ 22۔
۴۰۔ عن ابی جعفر علیہ السلام قال: ما من عبد مؤمن الّا و فی قلبہ نکتۃ بیضاء فان اذنب و ثنّی خرج من تلک النکتۃ سواد فان تمادی فی الذنوب اتسع ذالک السواد حتی یغطی البیاض فاذا غطّی البیاض لم یرجع صاحبہ الی خیر ابداً و ہو قول اللہ ‘ کلّا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون، بحار/ ج 73 ص 361۔
۴۱۔ قال امیرالمومنین علیہ السلام: ما جفّت الدموع الّا لقسوۃ القلوب و ما قست القلوب الّا لکثرۃ الذنوب۔ بحار/ ج 73 ص 354۔
۴۲۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ : من علامات الشقائ: جمود العین و قسوۃ القلب و شدۃ الحرص فی طلب الرزق و الا صرار علی الذنب۔ بحارالانوار/ ج 73 ص 349۔
۴۳۔ قال علی بن الحسین(ع) فی دعائہ: الہی الیک اشکو قلباً قاسیاً، مع الوسواس متقلباً و بالرین و الطبع متلبسا و عیناً عن ابکاء من خوفک جامدۃ و الی ما تسرہا طامحہ۔ بحار/ ج 94ص 143۔
۴۴۔ طبیب دوّارہ بطبّہ قد احکم مراہمہ و احمی مواسمہ یضع من ذالک حیث الحاجۃ الیہ، من قلوب عمی و آذان صمّ و السنۃ بکم۔ متّبع بدوائہ مواضع الغفلۃ و مواطن الحیرۃ لم یستضیثوا باضواء الحکمۃ و لم یقد حوابزناد العلوم الثاقبۃ، فہم فی ذالک کالانعام السائمۃ و الصخور القاسیۃ نہج البلاعہ/ خطبہ 108۔
۴۵۔ قد جائتکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور۔ یونس/ 57۔
۴۶۔ و ننزّل من القرآن ما ہو شفاء و رحمۃ للمؤمنین۔ اسراء/ 82۔
۴۷۔ قال علی علیہ السلام: و تعلّموا القرآن فانّہ احسن الحدیث و تفقّہوا فیہ فانّہ ربیع القلوب و استشفوا بنورہ فانہ شفاء الصدور۔ نہج البلاغہ/ خطبہ 110۔
۴۸۔ قال علی علیہ السلام: و اعلموا انّہ لیس علی احد بعد القرآن من فاقۃ و لا لاحد قبل القرآن من غنی، فاستشفوہ من اودائکم و استعینوا بہ علی لا وائکم فانہ فیہ شفاء من اکبر الداء و ہو الکفر و الغیّ و الضلال۔ نہج البلاغہ/ خطبہ 176۔

Related Articles

Back to top button