اسلامی حکومتکتب اسلامی

بیعت کی حیثیت

سوال ۳۵:اگراسلامی حکومت اپنی مطلوبہ شکل میں امامت یاخلافت کے ذریعے قائم ہوتو اس میں بیعت کا کیا کرداربنتا ہے ؟
پہلے بیعت کو سمجھنا چاہیے کہ کیا ہے ؟ پھر اس کے کردار کے بارے میں سمجھا جائے۔
بیعت ’لفظ بیع ‘‘جس کا معنی ’’فروخت ‘‘ہے سے لیا گیا ہے ، کیونکہ بیعت کرنے والا اس عہد و پیمان کے لحاظ سے جو اس نے بیعت ہونے والے سے باندھا ہے،جوکچھ اس کی طاقت میں ہے اُسے اس کے حوالے کر دیتا ہے ۔
قرآنِ مجید بیعت ِرضوان کے بارے میں فرماتا ہے :
فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ (۱)
تمہیں بشارت اس معاملے کی جس پر تم نے بیعت کی ہے ۔
بیعت کے بارے میں کہا گیا ہے :
بیعت کا مطلب عہدوپیمان ہے،بیعت کرنے والے عہد کرتے ہیں کہ جس کی وہ بیعت کررہے ہیں اس کے وفاداررہیں گے اور اس کا تعلق اس امرسے ہے جوبیعت مانگنے والے کی طرف سے پیش کیاجاتاہے،(۲) پس بیعت وہ عہدوپیمان ہے جواعلیٰ مقام کے حامل کی طرف سے کسی خاص مسئلے میں بیعت کرنے والوں سے لیاجاتاہے اوروفاداری حاصل کی جاتی ہے ۔(۳)

اسلام میں بیعت
اسلام میں انجام پانے والی بیعتیں مختلف ہیں جیسے :
۱۔بیعت’’عقبہ اولی ‘‘: یہ بیعت ایّام حج میں رسول خداﷺ اور انصار کے بارہ افراد کے درمیان انجام پائی،عبادہ بن صامت مذکورہ بیعت کو یوں بیان کرتا ہے :
اس سے پہلے کہ ہم پر جنگ اور قتال واجب ہوتی ، ہم نے پیغمبر اکرم ؐ کے ساتھ بیعت ِ نساء کی،اس بیعت کے نکات یہ تھے کہ:
۱۔ہم خدا کا شریک قرار نہ دیں ۔ ۲۔چوری اور زنا نہ کریں ۔
۳۔اپنی اولاد کو قتل نہ کریں ۔ ۴۔جھوٹ اور افتراء نہ باندھیں۔
۵۔اللہ اور اس کے رسول کی نیکی کے کاموں میں نافرمانی نہ کریں۔(۴)
جیسا کہ معلوم ہواکہ یہاں پربیعت اسلام پرایمان اور اسلامی احکام کی اطاعت کے معنی میں ہے ۔
۲۔بیعت ِعقبہ دوم:یہ بیعت رسول اکرم ؐ اور73مردوعورتوں کے درمیان واقع ہوئی، اس بیعت کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا :
میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح تم میری بھی حفاظت کرو گے۔(۵)
یہاں پر بیعت ایک طرح کا دفاعی معاہدہ ہے ۔
۳۔بیعت شجرہ رضوان:یہ رسولِ خدا ؐ کی تیسری بیعت ہے جو ہجرت کے ساتویں سال بہت سے لوگوں کے ساتھ حدیبیہ (مکہ سے نو میل کے فاصلے پر)کے مقام پر وقوع پذیر ہوئی ، یہ جہاد اور جنگ پر بیعت تھی نیز دوسری بیعت کی تجدید بھی تھی ۔
ابن عمر کہتے ہیں :
ہم نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ اطاعت اور پیروی پر بیعت کی ، اس کے بعد آنحضرت ؐ نے فرمایا : ’’ جتنی تم میں طاقت وتوانائی ہے ‘‘ (۶)
مذکورہ گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آئمہؑ کے دور میں بیعت کا مطلب انتخاب ، وکالت یا سیاسی رہبری اور سربراہی نہ تھا ، اس بارے میں آیت اللہ معرفت لکھتے ہیں :
رسالت اور امامت کے دور میں بیعت معاشرے کے امور چلانے والے ذمہ دار افراد کے لیے ضروری وسائل اور قوت فراہم کرنے کے حوالے سے صرف ایک شرعی ذمہ داری کے طور پرہوتی رہی ہے ، رسول اکرم ﷺ اور آئمہ ہدیٰؑ ولایت اور رہبریت کے منصب کا سرچشمہ ان کا نبوت اور رسالت کا منصب تھا،لوگوں پر واجب تھا کہ وہ ان کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور ذرائع مہیا کریں تاکہ وہ عوامی طاقت کی مدد سے عدالت کو احسن طریقے سے قائم کرنے کی ذمہ داری کو ادا کر سکیں، اگر لوگ اس ذمہ داری کو پورا نہ کریں تو ان کے مقام امامت اور رہبریت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی،اس صورت میں لوگ اپنے اولیٰ الامر کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔
(حوالہ جات)

(۱) توبہ، آیت ۱۱۱
(۲) معرفت ، محمد ہادی ، ولایت فقیہ ، ص ۸۲ (۳) معرفت ، محمد ہادی ، ولایت فقیہ ، ص ۸۲
(۴) معالم المدرستین ، ج ۱ ، ص ۱۵۴ ، دوسرا ایڈیشن ، سیرہ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ۴۰
(۵) معالم المدرستین ، ج ۱ ، ص ۱۵۵ ، حوالہ سابق ، ص ۴۷
(۶) صحیح بخاری (کتاب الاحکام ) ، باب البیعہ ، ج۵ ، صحیح مسلم ، کتاب الامارہ ، باب البیعہ علی السمع و الطاعۃ فی ما
استطاع ، ص ۹۰ ، سنن نسائی (کتاب البیعہ فی ما یستطیع الانسان ) ، بحوالہ معالم المدرستین ، ج ۲ ، ص ۱۵۶ ،

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button