جبلّتوں کا فلسفہ
سوال۱۱:اگرخلقت انسا ن کا حقیقی مقصد قرب الٰہی تک ر سا ئی ہے تو اس میں ایسی جبلتیں کیوں رکھی گئی ہیں جو اسے ما دی لذتوں اور دنیا کے دھوکہ دینے والے ظواہر کی طرف کھینچتی ہیں اور اکثر لوگ ان کے مقا بلہ میں عا جزہوتے ہیں … آیا یہ ہدف کے منافی اور خلا فِ حکمت نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ انسا ن کے اند ر دو طرح کی کشش و میلانات موجود ہیں۔
۱۔ کما ل رشد اور بلندیوں کی طرف میلان
۲۔ آرام، آسائشیں اور پستیوں کی طرف میلان۔
فطری طور پر عام انسان را حت طلبی آسا نی اور آ سا ئش کی طرف میلان رکھتا ہے مثال کے طور پر اگر انسان کو بھو ک یا پیا س کا احسا س نہ ہوتا تو اگرچہ اس کے جسم کو پا نی کی ضرورت ہوتی لیکن ممکن ہے وہ بہت دیر بعدپا نی پینے کے لئے حر کت کرتا اور یہ انسان میںراحت طلبی کے غلبہ کی وجہ سے ہے، خداوند ِحکیم نے انسان کو حرکت عطا کر نے اور اس میں محرک پیدا کر نے کے لئے طبعی اور تکوینی طور پرا س کو تشنگی کا احسا س اور تشنگی کے بر دا شت کی سختی و دیعت کر رکھی ہے تا کہ وہ حر کت میں آئے اور پانی کو تلا ش کرے۔
بعض چیزوں کوبردا شت کرنابہت سخت ہو تا ہے لیکن خدا وند کر یم نے اس چیز میںایسی لذت رکھی ہو ئی ہے جس کے حصول کے لئے انسان ان سختیوں کو آسا نی سے برداشت کرلیتا ہے ،اس کا بہترین نمو نہ زندگی کو چلانے کی مشکلا ت اور بچے کی تربیت کی سختیوں کا بر دا شت کرنا ہے۔
اگرجنسی جبلت اور شہوت نہ ہو تی تو ممکن تھا کہ بہت سے لو گ شادی اور خاندان کی تشکیل کی ذمہ داری سنبھا لنے کے لئے تیا ر نہ ہوتے لیکن جنسی جبلت اور شہوانی لذت کا دباؤانہیںحرکت دیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی دلیل اور کا ئنا ت کے منظم ہو نے کی علا مت ہے، یاد رکھیئے کہ کا ئنا ت کے منظم سسٹم میں ’’زندگی‘‘ اپنے اہدا ف اور ایسے وسا ئل کے تابع ہے جو ہد ف تک رسا ئی میں ممدو معا ون ہیں۔
اسی لئے ماں کے شکم میں بچے کی حیا ت کے تقاضے ،ضروریا ت اور وسائل دنیاوی زندگی سے یکسر مختلف ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ دنیا میں زند گی اور انسان کی مختلف جسمانی و روحانی ضروریا ت کی فراہمی، دوستوں کے ساتھ رابطے اور دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی کیفیت کے ساتھ ساتھ اور خا ص وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان وسا ئل اور قوتوں میںشہوت ، غضب،خیا ل اور عقل شا مل ہیں جن میں سے ہر ایک انسان کی زند گی کی گردش اور دوسرو ں کے ساتھ رو ابط میں خاص اثررکھتا ہے،ان تمام قوتوں اور جبلتوں کا وجو د نظام ہستی کے استحکا م کی کیفیت اور مقد ار کو بیا ن کر تا ہے ۔ البتہ بسا اوقات قوت ِ شہو ت و غضب سے بہت زیادہ سوء استفا دہ کیا جا تا ہے جس کے نتیجے میںفتنے اورآشو ب بر پا ہو تے ہیں لیکن ضر وری ہے کہ با کر دار اور نیک لو گوںکو وجو د بخشنے اور ان کے حسن وزیبا ئی کو دنیا پر ظاہرکر نے کے لئے یہ قیمت ادا کردی جا ئے جس طرح چند گر ام خالص سوناحا صل کرنے کے لئے ضرور ی ہے کہ کئی ٹن پتھرومعدن آگ کی بھٹی میں جلے اوربھڑکتے شعلو ں کی تکلیف سے گزرے ،ہیرے کے ایک پتھرکے حصول کیلئے پہا ڑوں کو لاکھوں سا ل تک مختلف دبا ؤ اور پر یشر ز سے گزرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر ایک ہیرا وجو د میں آتا ہے۔
دنیا کے اس نظا م میں انسانی معا شرہ بھی اس کلی قا عدہ سے مستثنیٰ نہیں اس لیے نیک لوگوں کے مقا م فعلیت تک پہنچا نے اور اولیائے الٰہی کے ظہورپذیرہونے کے لیے ضرور ی ہے کہ تمام انسان دنیا کے ایسے تمام نشیب وفرازسے گزریں جس طرح دنیا میں چندتربیت یافتہ اور قا بل افراد کی تیا ری کے لئے ضرور ی ہے کہ بہت سے مدارس اور سکول کھو لے جائیں اور بہت زیادہ بجٹ خرچ کیا جا تا ہے،البتہ وہ تما م چیزیں جو سونا اور ہیرے کے وجو د میںآنے کے لئے راستے میں وا قع ہو ئی ہیں اورو ہ تما م افراد جو عالی ترین علم معرفت کے حا صل کرنے اوراولیاء اورصلحاء کے وجودمیں لانے کیلئے اس نظا م کا حصہ ہوتے ہیں وہ بھی وجودکے فو ائد اور حسن و زیبا ئی کی لذتوں سے اپنے وجو د کے کما ل کے تناسب سے بہرہ مند ہو تے ہیں اور علم و معرفت کے کسی نہ کسی در جے پر فا ئز ہو تے ہیں۔
لہٰذا ایسا نہیں ہو تا ہے کہ سب چیزیں اور سب لوگ ان محدود افرا د پر قربا ن ہو جا ئیں بلکہ ہر ایک اپنے مقا م پر اور اپنی کوشش کے مطابق ایک کردا ر رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں وہ دنیا اور آخرت میں مادی صلہ اور روحا نی و معنو ی لذتوں سے بہرمند ہوتا ہے۔
یہ خداوند ِمتعال کی حکمت کی وہی تجلی ہے کہ جس نے دنیا کے عظیم آفاقی نظا م کو اس کے مطابق بنایاہے ،البتہ اس کا یہ نظا م عدالت کی بنیا د پر قائم ہے اور وہ ہر کسی سے اس کی استعداد اور وسا ئل کے مطابق سوا ل اوربا ز خواست کر تا ہے۔
اب تک گفتگو میں دنیو ی زند گی کے آغا ز سے انجا م تک کی کیفیت کو ایک وسیع تر پس منظر میں مختصرا ً بیا ن کیا گیا اور اس بیا ن کی روشنی میں انسان کے اندر موجو د جبلّی خو اہشا ت جن کے دو ’’حسین‘‘ اور’’ بد صو رت‘‘ چہرے ہیں ان کی منطقی توجیہ سامنے آئی، اگر چہ بہت سے انسان اس کے بدصو رت چہرہ کی گرفت میں آئے اور انسانی کمزوریوں کا شکا ر ہو ئے لیکن یہ وہ قیمت ہے جودنیاکے نظام زندگی اور اس کو بامقصدوباہدف بنا نے کیلئے چکانا ضروری ہے۔
البتہ جنسی جبلت کے بارے میں فردی اور اجتما عی نکتہ نظرکے طورپر اور غریزہ جنسی کے بارے میں شخصی واجتماعی ماحول کے مطابق کہنا چاہیے کہ اس غریزہ کی سرکشی یافروکشی (زور کم ہونا)،اس جبلی خو اہش کی سرکشی یاکنٹرول یااس کی خوابیدگی سب کا تعلق ایسے ما حول اور کچھ اہم عوامل سے ہے جن میں انسان کا ارادہ،ذاتی مصروفیات کی تنظیم،جیسے سونا،کھانا،اور خیال وغیرہ شا مل ہیں اور اس طرح یہ امرمعا شرے میں وسیع سطح پرثقا فتی اورسما جی منصوبہ بندی سے بھی متعلق ہے کہ اچھے راستے جتنے زیادہ کھلیں گے بدراہ اورگمراہ ہونے کے دروازے ا تنی زیادہ تعدادمیں بندہوتے چلے جائیں گے،اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے چند نکا ت کی طرف اشا رہ کیا جاتاہے۔
۱۔ یہ کہا جا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی جبلت یا دیگر جبلتوں کے اعتبار سے انسان کو آسیب پذیر بنایا ہے لیکن یہ بات زیادہ دقیق اورعمیق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو ما دی اور معنوی اعتبارسے عمل اورعمل کی دو خصو صیات کیساتھ پیدافرما یاہے،یہ انسان پرہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ طا قتو ر ارادہ کی بنیا د پر ان میں سے جس کو چاہے دوسرے پرغلبہ دے اوران میں سے کسی ایک کی پیروی یاعدم پیروی کرے،اس بنا پرانسان کی آسیب پذیری خود اس کی خوا ہش وارادہ ہے اورجوچیزبلاواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے وہ انسان کے اندر اس طاقتور جبلت کو قرار دیتا ہے جب کہ آسیب پذیر ی خو دانسان سے متعلق ہے۔
قدرت اور تو انمندی کا مطلب بھی یہی ہے کہ انسان دو مختلف جہتوں میں فعا لیت کر سکے ورنہ قدرت و تو انمندی اپنامعنیٰ کھو دیتے ہیں اس لئے کسی اچھے کام کی کسی شخصیت کی طرف نسبت اور کسی چیز کے لئے قا بلیت و لیا قت کے اثبا ت کامعنی تب محقق ہو گا جب وہ برائی کے انجام دینے یا کسی کا م کے انجا م نہ دینے کی قدرت اور طا قت رکھتا ہے۔
۲۔ شہوت اور غضب جیسی جبلتون کا جو نیکی اور بدی کے دو چہرے رکھتی ہیں ان کے بغیراچھے اور بروں کی تشکیل نہیں ہوسکتی اوریہ بات آسا نی سے کہی جا سکتی ہے کہ حسن اور زیبا ئی کی قدروقیمت کا اندا زہ اس وقت زیادہ ہوتاہے جب ان کوبرائیوںاوربدصورتی کیساتھ رکھا جائے،الٰہی انسانوں کے کما لات تبھی زیادہ ہوتے ہیں جب ان کا موازنہ کر داراورشہوت سے آلودہ لوگوں سے کیا جا ئے اور انھیں حق سے لڑنے والوں کے برابر کھڑا کردیاجا ئے اس وجہ سے انسانوں کی زندگی کو وسیع ترمنظرمیں دیکھتے ہو ئے حسن اورخوبصورتیوں کی تجلی میں شہوت و غضب کا وجودنیکیوں کو فعلیت تک پہنچانے میں موثرکرداررکھتا ہے۔
۳۔ اگرچہ مفاسدکے میدان بہت وسیع ہیں اوران کاخو ف بہت سے جوا نوں کوبے چین اور آزردہ خا طرکرتاہے لیکن یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ شہوت کاجوش ،غضب کی آگ باہمت اور با ار ادہ جوانوں کے آہنی عزم اورمضبوط قوت ارادی کے مقابلہ میں نہ صرف بجھ جا تی ہے بلکہ اگر صرف ایک با ر بھی شہوت کے مقابلہ میں انسان ثا بت قدم رہے تو اس نورانی تجربہ کی یادانسان کی زندگی میں اس طرح زندہ رہتی ہے کہ اگلی بارایسے بحرانوں سے بڑی آسانی سے نبرآزما ہوسکتا ہے،ہو سکتا ہے کہ آپ کو خود بھی ایسے کسی تجربے کا سامنا ہوا ہو۔
اسلام نے مسیحیت کے بر عکس جبلّتوںخصوصاًجنسی جبلت کو منفی اور پلیدی نظرسے نہیں دیکھا بلکہ اسلام ان تمام امورکو خلقت کے حکیمانہ وسودمندنظا م کی نظرسے دیکھتا ہے، اسلام کی نظرمیںجوچیزناقابل قبول ہے وہ شہو ت کی بے مہارآزادی اور اس کااصلی ہدف قرار پاناہے،اسی طرح ان کے مقابلہ میں انسان کی اسارت اور انسانی وجودکے عالی ترین پہلوؤں سے غفلت ناقابل قبول ہے، لیکن جبلّتوں سے صحیح استفا دہ اور رشد و تکا مل کی راہاوران کوصحیح سمت دینااسلام کی نظر میں بہت اہم ہے۔
۴۔ انسان کی جبلت اور شہو ت خصوصاً جنسی جبلت قابل کنٹرول ہے،یہاں کنٹرول سے مراداس کودا نایا ختم کرنانہیں بلکہ اس سے صحیح استفا دہ کرنا ہے۔
۵۔ انسان مختارہونااللہ تعالیٰ کی عظیم بخشش ہے اور یہ چیزانسان کے افعا ل و کردار اور عمل کی رہنما ئی میں بہت ہی مضبوط اثررکھتی ہے ارادہ کوبہت اچھی طرح تقویت دی جا سکتی ہے اوراس کی تقویت کے ذریعے مشکل ترین کام آسان اور سہل ہو جا تے ہیں،جبلتوںاور غرائز کے اعتبا ر سے ایک طا قتو ر جو ان ، بلند ترین ارادہ ،استقا مت کامالک اورنفس کی پاکیزگی اور معنوی میلانات کی بلند ترین سطح کا حا مل ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں حضرت یو سف ؑ اور اصحابِ کہف جیسے جوانوں کی مثال پیش کرتاہے،جنہوں نے اپنے مضبوط ارادہ سے جبلتوں اور غرائز(حوادث)کے بہت بڑے طوفا ن کا استقا مت سے مقابلہ کیا اور تاریخ انسانی میں عظیم ترین افتخارات اپنے نام کئے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بھی محمدحسین فہمیدہ جیسے مومن جوانوں کے ارادہ نے ارادئہ ایما ن کی حیرت انگیزتاثیرکی خوبصورت جلوہ نما ئی کی ہے۔
۶۔ ان لوگون کو اللہ تعالیٰ کی امدا د ہمیشہ حاصل رہتی ہے جو گنا ہ سے دوری اور پاک زندگی گزارنے کی مضبوط خو اہش رکھتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(۱)
اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
قرآن مجید کی نظرمیں حضرت یوسفؑ کی گناہ سے نجات کی ایک وجہ اللہ تعا لیٰ کی عنایت اور اس کی مدد ہے اگر چہ اس طرح کی مدد اور عنایات حضرت یو سف ؑ کے ساتھ مختص نہیں بلکہ جو شخص بھی جس گنا ہ سے اجتناب میں سنجید ہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس با رے میں امدادکا طالب ہو خدا اس کی مدد کرتا ہے اور یہ امدادِالٰہی کا سبب بھی ان کی بندگی اور مخلصانہ عبودیت ہوتی ہے ۔
۷۔ توبہ و بازگشت کا امکان
اگرچہ صحیح ہے کہ بہت سے انسان کئی مواقع پرگناہ کرتے ہیںاورجبلتوںاورخواہشات نفسانی کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہیں لیکن اسکے باوجوداللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے توبہ کادروازہ ہمیشہ کھلارکھا ہے اور انسانوں کے سامنے ایک پاک وپاکیزہ زند گی کے آغازاورگذشتہ گناہوں کو اشک ندامت اور مغفرت الٰہی کے پانی سے دھونے اورکمال وسعا دت کی طرف قدم بہ قدم بڑھا نے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف جبلتوں کا وجود ضروری ہے اور دوسری طرف انسان کے سامنے گناہوں سے بچنے کے ضروری راستے بھی رکھ دئیے گئے ہیں اور انسانی زندگی میں ایک قانون اور اصول کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہما رے وجود کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ عقل وقلب کے ساتھ ساتھ قوت شہو ت و غضب بھی اس میں موجو د ہوںتا کہ ہم جنت کے راستے کوپا نے کی صلاحیت پیدا کر یں یا پھر بد بختی کی وجہ سے اپنے لئے جہنم بنا ئیں۔
کیونکہ جنت ودوزخ کا راستہ اسی دنیاسے گزرتاہے اس وجہ سے ایک بنیادی قانون اور اصول کے طور پر کہا جاتا ہے کہ دنیا قابلیتوں کے حدوث و اثبا ت کا مقام ہے اورآخرت قابلیتوں کے ظہور و ثبات کا مقام ہے،دوسرے لفظوں میں دنیا ہونے کا میدان ہے اور آخرت ہو چکی ہو ئی چیزوں میں استقرارکامقام ہے، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ بہشت کے درجات یاجہنم کے درکات پہلے سے بنے ہوئے ہوں بلکہ ضروری ہے کہ ہم انہیںبنا ئیں اور ان کا بنناعقل وقلب کیساتھ ساتھ شہوت وغضب کے وجو د سے وابستہ ہے۔
(حوالہ)
(۱) سورہ عنکبوت، آیت۶۹