گلوبند کی برکت
عماد الدین طبری اپنی کتاب بشارۃ المصطفیٰؐ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺعصر کی نماز پڑھا کر صحابہ کے ساتھ بیٹھے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک بوڑھا اور کمزور شخص مسجد میں داخل ہوا،اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور پیدل چلنے کی وجہ سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔
اس نے آپﷺکی خدمت میں عرض کی:اے اللہ کے رسولؐ!میں پریشان ہوں،آپؐ مجھے بھوک اور برہنگی سے نجات دلائیں۔
رسول اکرمﷺنے فرمایا:اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے،البتہ میں ایک دروازے کی طرف تیری رہنمائی کرنےوالابھی نیکی کرنے والے کی مانند ہوتا ہے،میں تجھے ان کے دروازے پر بھیج رہا ہوں جو اللہ اور رسولؐ کے محبوب اور محب ہیں۔
پھر آپؐ نے حضرت بلال حبشیؓ کو حکم دیا کہ وہ اس آدمی کو در فاطمہؑ پر لے کر جائے،جب وہ آدمی وہاں آیا تو اس نے سلام کیا:’’السلام علیکُم یا اَھل بیتِ النُبوَۃِ‘‘اے خاندان نبوتؑ!آپ پر سلام ہو۔
حضرت فاطمہؑ نےسلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہے؟
اس نے کہا:میں ایک غریب آدمی ہوں،رسول اللہﷺ کی خدمت میں مدد کی درخواست کی تھی،انہوں نے مجھے آپ کے دروازے پر بھیجا ہے،اتفاق سےحضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا گھرانہ بھی تین دن سے بھوکا تھا اور پیغمبر خدا ؐ کو بھی اس کا علم تھا۔
غریب آدمی کی آواز سن کر دختر پیغمبر ؐنے گوسفند کی کھال جس پر امام حسنؑ اور امام حسینؑ سویا کرتے تھے اسے دیدی اور فرمایا کہ اللہ اس سے تمہاری مشکل حل فرمائے گا۔
غریب آدمی نے کہا:بنت رسولؐ!میں اس وقت بھوک سے بے حال ہوں اور آپ نے مجھے بھیڑ کی کھال تھمادی ہے؟
یہ سن کر بی بی سیدہؑ نے اپنا گلوبند اتارا جو عبدالمطلب کی بیٹی نے انہیں ہدیہ کیا تھا۔
وہ گلوبند آپ نے اس غریب کو دیدیا۔
وہ شخص گلوبند لے کر مسجد میں آیا اور کہا:یا رسول اللہؐ!آپؐ کی بیٹی نے مجھے یہ گلوبند عنایت فرمایا ہے تاکہ میں اسے فروخت کردوں اور اللہ میری مشکل آسان کر دے۔
یہ سن کر رسول اکرمﷺ رو دئیے اور فرمایا:تمہاری مشکل کیونکر آسان نہ ہوگی جبکہ تمہیں اولین و آخرین کی بہترین خاتون نے گلوبند عطا کیا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:اللہ اس گلوبند کے خریدار کو عذاب نہ دے گا۔
حضرت عمارؓ نے اس شخص سے پوچھا :اس گلوبند کو کتنے میں بیچو گے؟
اس شخص نے کہا:اس کی قیمت یہ ہےکہ مجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے اور ایک یمنی چادر دی جائے اور اتنے دینار بھی ملیں کہ میں اپنے گھر پہنچ سکوں۔
حضرت عمارؓ نے کہا:اس گلوبند کی قیمت میں تجھے دو سو درہم دوں گا اور تجھے پیٹ بھر کے گوشت کھلائوں گا،تجھے اچھی پوشاک پہنائوں گا اور اپنے اونٹ پر تجھے تیرے گھر تک چھوڑ کر آئوں گا،اس وقت حضرت عمارؓ کے پاس خیبر کی غنیمت کا اپنا حصہ موجود تھا،وہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔
وہ شخص دوبارہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپؐ نے پوچھا:کیا تمہیں لباس اورکھانا مل گیا؟
اس نے کہا :جی ہاں ۔پھر آپﷺ نے مسجد میں بیٹھ کر بی بی فاطمہؑ کے فضائل بیان فرمائے جنہیں ہم اختصار کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں۔
بی بی فاطمہؑ کے فضائل بیان کرتے ہوئے آپؐ نےیہ بھی فرمایا:جب میری بیٹی کو لحد میں اتارا جائے گا اور سوال ہوگا،تیرا رب کون ہے؟ تو فاطمہؑ کہیں گی اللہ میرا رب ہے،پھر سوال ہوگا کہ تیرا نبی کون ہے؟تو فاطمہؑ جواب دیں گی میرا بابا میرا نبیؐ ہے،پھر سوال ہوگا تیرا امام کون ہے؟میری بیٹی کہے گی’’هذا القائم على شفير قبري‘‘وہ میرا امام ہے جو میری قبر کے کنارے کھڑا ہے۔
حضرت عمارؓ نے گلوبند کو خوشبو لگائی اور ایک یمنی چادر اپنے غلام کو دے کر کہا کہ تم یہ چیزیں رسول خداﷺکی خدمت میں لے جاؤ،رسول خداﷺنے غلام سے فرمایا:
میں نے تمہیں فاطمہ زہراؑکو بخش دیا ،تم یہ چیزیں لے کر ان کے دروازے پر جاؤ۔
بی بی فاطمہؑ نےگلوبند لے لیا اور غلام’’سہم‘‘کو آزاد کردیا۔
غلام ہنسنے لگا،بی بی سیدہ ؑ نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا:میں اس گلوبند کی برکت پر ہنس رہا ہوں،اس کی وجہ سے بھوکے کو کھانا ملا،محتاج کی ضرورت پوری ہوئی ،بے لباس کو لباس ملا،غلام کو آزادی ملی اور گلوبند اپنے مالک کے پاس واپس بھی پہنچ گیا۔
(حوالہ)
(ریاحین الشریعہ ص۱۸۰)