مہمان داری
(۱)’’قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
إذا أراد الله بقوم خيراً أهدى لهم هدية. قالوا: وما تلك الهدية؟ قال: الضيف ينزل برزقه، ويرتحل بذنوب أهل البيت‘‘
رسول خداﷺ نے فرمایا:
جب اللہ کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو ان کی طرف تحفہ بھیجتا ہے،لوگوں نے پوچھا: یارسول اللہؐ! وہ تحفہ کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو گھر والوں کے گناہ ساتھ لے کر جاتا ہے۔
(۲)’’عَنْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين َؑقَالَ :
ما مِن مُؤمِنٍ يُحِبُّ الضَّيفَ اِلاّ وَ يَقومُ مِن قَبرِهِ و وَجُهُه كَالقَمَرِ لَيلَةَ البَدرِ فينظر أهل الجمع فيقولون: ما هذا إلاّ نبيّ مرسل! فيقول ملك: هذا مؤمن يحبّ الضيـــف ويكرم الضيـــف ولا سبـــيل له إلاّ أن يدخل الجنة‘‘
حضرت امیرالمومنینؑ نے فرمایا:
جو مومن مہمان سے حبت کرتا ہے قیامت کے دن جب وہ اپنی قبر سے اٹھے گا تو اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا،اہل محشر کہیں گے یہ تو کوئی نبی مرسل لگتا ہے،اس وقت ایک فرشتہ کہے گا:یہ (نبی نہیں)ایک مومن ہے جسے مہمانوں سے محبت تھی اور یہ مہمانوں کی عزت کیا کرتا تھا،آج یہ جنت کے علاوہ اور کہیں نہیں جائے گا۔
(۳)’’قال الإمام الصادق علیه السلام :
اِذا اَتاکَ اَخوکَ فَآتِهِ بِما عِنْدَکَ وَ اِذا دَعَوْتَهُ فَتَکَلَّفْ لَهُ‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
جب تمہارا (کوئی مومن)بھائی تمہارے ہاں آجائے تو گھر میں جو کچھ پکا ہوا ہے اس کے سامنے رکھو اور اگر تم خود کسی کو دعوت دو تو پھر اس کے لیے اہتمام کرو۔
(۴)’’عن الصادق عليہ السلام عن ابائہٖ:
إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ عَلَي أَخِيهِ فِي رَحْلِهِ فَلْيَقْعُدْ حَيْثُ يَأْمُرُهُ صَاحِبُ الرَّحْلِ فَإِنَّ صَاحِبَ الرَّحْلِ أَعْرَفُ بِعَوْرَةِ بَيْتِهِ مِنَ الدَّاخِلِ عَلَيْهِ‘‘
امام جعفر صادقؑ اپنے آبائے طاہرینؑ سے نقل کرتے ہیں:
جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے گھر جائے تو جہاں گھر کا مالک بٹھائے وہیں بیٹھ جائے کیونکہ گھر کا مالک باہر والے سے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے گھر کی پردہ داری کیسے قائم رہ سکتی ہے۔
(۵)’’عن الرضا ، عن آبائه ، عن عليؑ:
أنه دعاه رجل ، فقال له عليؑ : ان تضمن لى ثلاث خصال: لا تدخل علينا شيئا من خارج ، ولا تدخر عنا شيئا في البيت ولا تجحف بالعيال ، قال : ذلك لك ، فاجابه علي ‘‘ امام علی رضا علیہ السلام اپنے آبائے طاہرین سے روایت کرتے ہیں:
ایک شخص نے حضرت علیؑ کو کھانے پر بلایا تو آپ ؑنے فرمایا: اگر تم مجھے تین باتوں کی ضمانت دو تو میں تمہاری دعوت قبول کرلوں گا،اس نے پوچھا:امیرالمومنینؑ!آپؑ کی شرطیں کیا ہیں؟آپؑ نے فرمایا:مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے لیے گھر سے باہر کی کوئی چیز نہیں لائو گے اور گھر کی چیز مجھ سے نہیں چھپائو گے اور اپنے گھر والوں کو میری وجہ سے کم کھانا نہیں دو گے،اس نے کہا:مولا!مجھے آپ کی تینوں شرطیں منظور ہیں،پھر آپؑ نے اس کی دعوت قبول کرلی۔
(۶)’’عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى، قَالَ: "جَاءَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ سِنَانٍ، فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. فَبَعَثْتُ ابْنِي فَأَعْطَيْتُهُ دِرْهَماً يَشْتَرِي بِهِ لَحْماً وَبَيْضاً. فَقَالَ لِي: أَيْنَ أَرْسَلْتَ ابْنَكَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: رُدَّهُ رُدَّهُ! عِنْدَكَ زَيْتٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هَاتِهِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ عليه السلام يَقُولُ: هَلَكَ امْرُؤٌ احْتَقَرَ لِأَخِيهِ مَا يَحْضُرُهُ وَهَلَكَ امْرُؤٌ احْتَقَرَ لِأَخِيهِ مَا قَدَّمَ إِلَيْهِ‘‘
صفوان بن یحییٰ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سنان میرے پاس آئے اور کہا:کیا آپ کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہے؟میں نے کہا:ہاں،میں نے اپنے بیٹے کو پیسے دئیے کہ بازار سے گوشت اور انڈے لے آئو،عبداللہ بن سنان نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے بیٹے کو کہاں بھیجا ہے؟میں نے بتایا کہ میں نے انڈے اور گوشت لینے کے لیے اسے بازار بھیجا ہے،اس نے کہا:اسے واپس بلائو،میں نے بیٹے کو واپس بلایا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے گھر میں سرکہ اور روغن زیتون ہے؟ میں نے کہا:ہے،اس نے کہا:پھر وہی لے آئو کیونکہ میں نے امام جعفرصادقؑ سے سنا ،آپ ؑنے فرمایا:اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو گھر میں موجود چیز کو اپنے بھائی کے لیے کم سمجھے اور اس شخص کے لیے بھی ہلاکت ہے جو بھائی کی لائی ہوئی چیز کو حقیر سمجھے۔
(حوالہ جات)
(بحارالانوار ج۷۲،ص۴۶۱)
(بحارالانوار ج۷۲،ص۴۶۱)
(بحارالانوار ج۷۲،ص۴۵۳)
(سفینۃ البحار ج۲،ص۷۶)
(وسائل الشیعہ ج۲۴،ص۲۷۸)
(کافی ج۶،ص۲۷۲)