اسلامی حکومتکتب اسلامی

بازرگان کا نظریہ

سوال۸:اسلامی حکومت کے بارے میں انجینئربازرگان کانظریہ کیاہے؟کیاوہ اسلامی حکومت کے مخالف تھے ؟
انجینئرمہدی بازرگان اپنی آخری عمر میں اسلامی حکومت اور دین و سیاست کے درمیان ارتباط کے بارے میں تقریباًمنکرہوگئے تھے،انہوں نے اپنے مقالے بعنوان ’’آخرت اور خدا ‘ ہدف بعثت انبیاء‘‘میں اسلامی حکومت کے خلاف مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے ہیں ۔ (۱)
۱۔بعثت اور رسالت کا مقصد آخرت ہے:
وہ لکھتے ہیں قرآن مجید جو کہ رسالت کا ثمر ، اس کی دعوت کا خلاصہ اور اس کی زبان ہے، وہ ہمیں نہ صرف دنیا کے متعلق ترغیب اور حکم نہیں دیتا بلکہ ہمیں ملامت کرتا ہے کہ کیوں اس قدر دنیا میں غرق ہو اور آخرت کو بھلا دیا ہے جو دائمی ہے اور بہتر بھی ہے ۔
۲۔قرآن ، حکومت ، مدیریت اور معاشیات کی تعلیم:
وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی کسی سورہ میں اور کسی آیت میں کہیں پر بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ’’ہم نے انہیں بھیجا تا کہ وہ تمہیں حکمرانی ، معاشیات ، سیاست ، ایڈمسٹریشن و مدیریت یا معاشرے کی اصلاح یا دنیاوی امور کو چلانے کی تعلیم دے ‘‘۔
۳۔دنیاوی معاملات دین کی جزئیات :
مہدی بازرگان لکھتے ہیں کہ قرآن اور انبیاء امور دنیا کے متعلق نہ تو اجنبی ہے نہ بے تغاوت اور نہ ہی غیر مئوثر ، جو کچھ اس بارے میں انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ جزئی اور فرعی محسوب ہوتا ہے اور ضمنی طور پر حاصل ہوتا ہے ، بغیر اس کے کہ اس کی کوئی اساس اور بنیاد ہو اور اسے بعثت انبیاء کے مقاصد میں شمار کیا جائے اور دین کے فرائض میں شامل کیا جائے ۔
۴ ۔ وہ مزید لکھتے ہیں :
رسول یاددہانی کرانے والے ہیں نہ کہ مجبور کرنے والے ، اسلام اور تسلیم کی اصل اورریشہ ایک ہے نہ کہ جبری اور آمرانہ تسلیم ، بلکہ آگاہی و معرفت ، رضا کارانہ اور عاشقانہ تسلیم، بارضا ورغبت،اپنے مدّعا کے ثبوت کے لیے وہ قرآن مجید کی ان آیات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرo لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِر(۲)
لآَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ (۳)
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلاَّ الْبَلٰغُ (۴)
۵۔وہ مزیدبیان کرتے ہیں :
دین کے ہادیوں اور معصوم اماموں کی سیرت دین اور سیاست کی جدائی کو ثابت کرتی ہے۔کیونکہ حضرت علیؑ اور امام حسن ؑ عوام کی بیعت کی وجہ سے حکومت پر آئے نہ کہ دینی فریضے کی بنیاد پر حکمران بنے،امام حسن ؑ نے معاویہ سے صلح کی اور حکومت کو اس کے حوالے کردیا،امام حسین ؑکوفے کے لوگوں کی حضرت مسلم ؑ کی بیعت کے بعد کوفے کے لیے روانہ ہوئے اور ان کی بیعت شکنی کی خبر ملنے کے بعد واپسی کا ارادہ کر لیا، امام صادق ؑنے خلافت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ابو مسلم خراسانی کی تجویزکوردکردیا،امام رضاؑ نے مامون کی طرف سے خلافت لینے سے انکار کر دیا اور ولی عہدی کو حکومتی امور میں عدم مداخلت کی شرط پر قبول کیا ۔
بازرگان کے نظریے کا جواب
مہدی بازرگان کے دلائل کا مختصر طور پر چند نکات کی صورت میں جواب دیا جاتاہے ۔
۱۔بازرگان کے نظریے کے بر خلاف قرآن مجید نے انبیاء کی بعثت کے اخروی مقاصد بھی بیان کیے ہیں اور دنیاوی زندگی سے متعلق بھی مقاصدذکر کیے ہیں ۔ جیسے اجتماعی امور میں عدل و مساوات کو برقرار کرنا ، انسانوں کو دوسروں کی غلامی اور قید سے آزادی دلانے کی کوشش کرنا ۔
بعثت انبیاء کے حوالے سے قرآن مجید نے ان مقاصد کو بیان فرمایا ہے ۔
۱ ۔ آیاتِ الٰہی کا تلاوت کرنا اور انہیں سنانا۔ (۵)
۲ ۔ تزکیہ نفس۔ (۶)
۳۔ کتاب و حکمت کی تعلیم۔ (۷)
۴ ۔ توحید اور ربّ کی عبادت ۔ (۸)
۵ ۔ طاغوت سے اجتناب اور دوری ۔(۹)
۶ ۔ عدل و انصاف اور عدالت اجتماعی کا قیام۔ (۱۰)
۷ ۔ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کی بنیاد پر فیصلے کرنا۔ (۱۱)
۸۔ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں سے رہائی دلانا۔ (۱۲)
۹ ۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ۔ (۱۳)
استاد مطہری لکھتے ہیں :
حضرت نوحؑ سے لے کر آخری نبیﷺ تک جو بھی پیغمبر آیا اُس نے سابقہ مذہبی نظام کو اکھاڑتے ہوئے معاشرتی اور اجتماعی نظام برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوششیں کیں ۔ (۱۴)
اس کے بعد انہوں نے اس آیت کا حوالہ دیا :
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (۱۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ ہم نے کتاب اورمیزان کونازل کیاتاکہ لوگ عدل و انصاف کو قائم کریں۔
پھرانہوں نے کہا:
پہلے سے موجود فاسد نظام کو جڑ سے اکھاڑنا اور ایک عدل و انصاف پر استوار نظام کو قائم کرنا ، تمام انبیاء اور رسولوں کا بنیادی مقصد تھا البتہ یہ بات آخری دین اسلام میں زیادہ واضح اور روشن ہے ۔ (۱۶)
اسی بناپر دینی تعلیمات کا آخرت کے مسئلے پر تاکید کرنا اور زور دینا ، دنیاوی معاملات کو انجام دینے کی نفی نہیں کرتا البتہ اس صورت میں کہ دنیاوی معاملات اخروی سعادت سے جدا نہ ہوں ۔ دنیا کی حکومت اصـلی مقصود و مطلوب ہونے کے لحاظ سے ذرا برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی ، لیکن عدل و انصاف کے قیام اور دینی اقدار کی حاکمیت کے لیے یہ بہت ہی اہم اور پسندیدہ ہے ۔
امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں :
خدا کی قسم!میری نگاہ میں یہ پراناجوتاتم پرحکومت کرنے سے زیادہ قیمتی ہے مگریہ کہ اس کے ذریعے حق کو قائم کرسکوں اورباطل کی بیخ کنی کرسکوں۔(۱۷)
۲۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیا و آخرت کا آپس میں گہرا تعلق ہے ، ایک کو اہمیت دینا اور دوسری کو ترک کر دینا ، قابل مذمت ہے ۔ لہٰذا اگر بعض آیات اور روایات میں دنیا کی مذمت کی گئی ہے تو دوسرے مقام پر واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا پرستی سے مراد دنیا سے دلی وابستگی اور خدا اور آخرت کی یاد سے غفلت ہے ۔ پس دنیا کے ضروری امور کو انجام دینا ، ان کی بہتری اور اصلاح کے لیے تگ ودو کرنا اور انسانی اور معاشرتی معاملات کو منظم کرنا ، نہ فقط یہ کہ غیر پسندیدہ نہیں بلکہ دین نے اس پر تاکید کی ہے اور یہ اخروی خیرو سعادت کے حصول کا موجب بھی ہیں ،امام زین العابدین ؑ سے منقول روایت ہے :
الدنیا دنیاء ان دنیا بلاغ و دنیا ملعونہ (۱۸)
دنیا دو طرح کی ہے ایک وہ دنیا جو انسان کو آخرت تک پہنچاتی ہے اور دوسری دنیا منفور اور مذموم ہے ( جو آخرت سے روکتی ہے ) ۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے فرمایا :
بالدنیا تحرزالآخرۃ (۱۹)
آخرت دنیا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔
۳۔انسان کی اجتماعی زندگی کی بنیادی ترین ضروریات میں سے ایک حکومت ہے ، اور اس کے بغیرزندگی گزارنا نا ممکن ہے ۔ اگر نیک اور صالح حکومت نہ ہو تو معاشرے پر غیر صالح اور برے افراد کی حکومت مسلط ہو جاتی ہے ۔
جیسا کہ امیر المومنین علی ؑنے فرمایا ہے :
لابد للناس من امیر بّر اوفاجر (۲۰)
لوگوں کے لیے امیرضروری ہے خواہ صالح ہویابرا
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید بڑی شدّو مد کے ساتھ فاسق و فاجر حکمرانوں اور غیر الٰہی نظاموں کی اطاعت اور پیروی کرنے سے منع کرتا ہے ، لہٰذا ایک صالح حکومت کے قیام کے بغیر چارہ نہیں ہے ورنہ معاشرہ ہرج و مرج اور افرا تفری کا شکار ہو جائے گا، ان آیات اور روایات کا ذکر پہلے ہو چکا ہے جو نیک و صالح ، بابصیرت اور صاحب ِ قدرت افراد کی ولایت و حکومت پر دلالت کرتی ہیں ۔ (۲۱)
۴ ۔جناب بازرگان کی رائے کے برعکس قرآن کی نگاہ میں حکومت کا خمیر دین سے لیا گیاہے (حکومت کی بنیاددین ہے)قرآن کی آیات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ حکومت ، قانون سازی اورفیصلے کرنے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور ان افراد کا ہے جنہیں اس کی طرف سے یہ حق سونپاگیاہے اورہرقسم کی حکمرانی اور فیصلے جن کی بنیاد قوانین الٰہی پر نہ ہووہ کفر، فسق اورظلم ہیں۔(۲۲)
۵۔جناب بازرگان کے دعویٰ کے بر خلاف آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کی زندگیوں کے سرسری مطالعے سے اچھی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ان کی زندگیوں کا ایک اہم حصّہ اجتماعی اور سیاسی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔(۲۳)
بہت سارے موارد میں یہ کوششیں ، حکومت کی تشکیل اور مکمل طور پر سیاسی اقتدار کے ہاتھ آنے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور اس کی بنیادی وجہ شرائط کا فقدان اور لوگوں کا ساتھ نہ دیناتھا ۔(۲۴)
حضرت علی ؑ پیغمبر ؐکی رحلت کے بعد کے واقعات کے متعلق بیان فرماتے ہیں :
پھرمیں فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اپنے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسین ؑکو ساتھ لے کراہل بدر اور اسلام میں سبقت لینے والوں کے پاس گیا ، ان کے سامنے اپنے حق پر دلیلیں پیش کیں اور انہیں اپنی نصرت اور مدد کرنے کی دعوت دی ان میں سے صرف چار افراد نے مثبت جواب دیااوروہ چاریہ تھے:
سلمان ، عمار، مقداداورابوذر(۲۵)
آئمہ اطہارؑ کے بیانات اس بارے میں انتہائی واضح ہیں کہ حکومت ان کا حق تھا اور یہ حق ان کے ربّ کی طرف سے انہیں عطا ہوا ہے کوئی دوسرا اس حق میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے۔(۲۶)
اس حوالے سے ہمارے آئمہؑ نے بارہا مسئلہ غدیر کو اٹھایا اور اس کی بنیاد پر استدلال قائم کیا۔(۲۷)
انہی مواردمیں سے ایک موقعہ پرحضرت امیرالمومنین ؑنے اہل بیت رسول ؐ کے متعلق فرمایا :
وہ اسرار الٰہی کے امین اور اس کے دین کی پناہ گاہ ہیں،علم الٰہی کے مخزن اورحکومتوں کے مرجع ہیں،کتب آسمانی کی گھاٹیاں اور اس کے دین کے پہاڑ ہیں انہی کے ذریعے اللہ نے دین کی پشت کا خم سیدھا کیا اور اس کے پہلوئوں سے ضعف کی کپکپی دور کی۔(۲۸)
اس کے بعد اہلبیتؑ پر ہونے والی جفائوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
فسق و فجور کی انہوں نے کاشت کی اور اُسے دھوکہ اور فریب کے پانی سے سیراب کیا اور اس سے ہلاکت اور بدبختی کی فصل کاٹی ، حقیقت یہ ہے کہ اس امت میں سے کسی کو آل محمدؐپر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر اور ہم پلہ ہر گز نہیں ہو سکتے، وہ دین کی بنیاداور یقین کے ستون ہیں، حکومت اور حق کی ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں انہی کے بارے میں پیغمبرؐ کی وصیت اور انہی کے لیے ( نبی ؐکی ) وراثت ہے اب یہ وہ وقت ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا ہے اور اپنی اصلی جگہ پر منتقل ہو گیا ہے۔(۲۹)
ایک اور مقام پر آپ ؑ فرماتے ہیں :
میں نے دیکھا کہ بردباری اور صبر ہی قرین عقل ہے لہٰذا میں نے صبر کیا جبکہ میری حالت یہ تھی کہ آنکھوں میں غبار کی خلش تھی اور گلے میں ہڈی پھنسی ہوئی تھی ، میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی ( موت نے اُسے آلیا) اور خلافت کو اپنے بعد دوسرے کے سپرد کر گیا ۔ (۳۰)
ایک اور اہم بات جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ کہ اسلامی حکومت دھونس ودھاندلی اور جبر و زور کے ذریعے قائم نہیں کی جاسکتی اسی لیے عوام کی حمایت اور پشت پناہی کے بغیر اس کا وجود میں آناناممکن ہے ،بناابریں اگرا میرالمومنین علیہ السلام نے لوگوں کی بیعت کے بعد حکومت کے منصب کو قبول کیا،تو یہ امر نہ صرف ان کے الٰہی حق سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت میںخدائی اور عوامی دونوں رنگ غالب ہیں۔(۳۱)
امام حسن ؑکی معاویہ کے ساتھ صلح کے واقعے میں بہت سارے تاریخی شواہد دلالت کرتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ نہ دینے کی وجہ سے امامؑکے پاس اس سے بہتر کوئی
حل نہیں تھا۔(۳۲)
امام حسینؑ کی کوفیوںکی عہد شکنی کے بعد کوفہ سے واپسی کی دو وجوہات تھیں ، ایک دشمن پر اتمام حجت اور دوسرا وہاں پر قیام جنگ کے لیے حالات ، اس لیے امامؑ کے پاس لائحہ عمل میں تبدیلی اور تحریک کو کسی اور انداز سے منظم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انہوں نے ظالم حکومت کو قبول کر لیا اور قیام و جہاد سے کنارہ کش ہو گئے، چنانچہ امام حسین ؑ نے ظالم حکومت سے ساز بازاور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے اسلام کے مقدس ہدف کے راستے میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے آخری فرد کی تک قربانی دی اور اپنے آخری قطرہ خون تک ڈٹے رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی جنگ کو ترک نہیں کیا ۔
امام صادق ؑ کی طرف سے ابو مسلم خراسانی کی درخواست کو رد کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ان کی تحریک ، اسلامی جہاد کی شرائط پر پورا نہیں اترتی تھی اور اس کے مقاصد دینی نہیں تھے اس لیے امامؑ نے ایسے قیام اور تحریک کی حمایت نہیں کی ۔ (۳۳)
امام رضا ؑ کی جانب سے مامون کی تجویز کردہ ولایت اور حکومت کو قبول نہ کرنے کے بھی متعدد دلائل ہیں، ان میں سے پہلی بات تو یہ تھی کہ امام ؑ کے بقول یہ ایک سازش تھی اس کا ظاہر سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
دوسری بات یہ کہ امام ؑ کے ذریعے مامون کا حکومت پر قابض ہونا ایک طرح سے مامون کی حکومت کو شرعی قرار دینا اور شیعہ کے سیاسی فلسفہ اور امامت ِ الٰہی کی بنیاد کو منہدم کرنا تھا ۔اس لحاظ سے امام ؑ کی مخالفت مامون کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک سوچا سمجھا اورجچا تلا طرزعمل تھا۔(۳۴)
(حوالہ جات)
(۱) ۔ مجلہ کہان ، نمبر ۲۸ (۲) سورہ : غاشیہ آیت نمبر : ۲۱ ،۲۲
(۳) سورہ : بقرہ آیت نمبر۲۵۶ (۴) سورہ : مائدہ آیت نمبر : ۹۹
(۵) سورہ : آل عمران آیت نمبر :۱۶۴ (۶) سورہ : آل عمران آیت نمبر : ۱۶۴
(۷) سورہ : آل عمران آیت نمبر : ۱۶۴ (۸) سورہ : نحل آیت نمبر : ۳۶
(۹) سورہ : نحل آیت نمبر : ۳۶ (۱۰) سورہ : حدیدآیت نمبر : ۲۵
(۱۱) سورہ : بقرہ آیت نمبر : ۲۱۴ ، سورہ : نساء آیت نمبر : ۱۰۵ (۱۲) سورہ : اعراف آیت نمبر : ۱۵۷
(۱۳) ۔ سورہ : اعراف آیت نمبر : ۱۵۷ (۱۴) ۔ مطہری ، مرتضیٰ ، پیرامون انقلاب اسلامی ، ص ۱۲۸ ، قم ، صدرا ۱۳۶۹
(۱۵) ۔ سورہ : حدید۵۷ ، آیت نمبر : ۲۵ (۱۶) ۔ مطہری ، مرتضیٰ ، پیرا مون انقلاب اسلامی ، ص ۱۲۸، قم : صدرا ۱۳۶۹
(۱۷) نہج البلاغہ ،خطبہ : ۳۳ (۱۸) محمدی ری شہری ، محمد ، منتخب میزان الحکمۃ ( مترجم ) ، ج ا ، ص ۳۶۴ ، قم ، دار الحدیث ، ۱۳۸۱
(۱۹) حوالہ سابق (۲۰) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر : ۴۰
(۲۱) نہج البلاغہ ، ص ۳۱ ، ۳۴ (۲۲) نہج البلاغہ ، ص ۲۵ ، ۲۸،۲۸
(۲۳)مزید معلومات کے لیے دیکھیں ،جعفریان ، رسول ، سیرہ سیاسی ، امامان شیعہ و پیشوائی مہدی ، سیمائی پیشوایان
(۲۴) اس بارے میں بہت ساری ادلہ موجود ہیں ، مثلاً حضرت علی علیہ السلام نے رسول خداؐ کی رحلت کے بعد لوگوں کو اپنی حمایت کے لیے کہا، لیکن انہوں نے انکار کیا ، اسی طرح امام حسن ؑکے ساتھیوں نے معاویہ سے جنگ کرنے سے انکار کیا ۔ کوفے کے لوگوں نے امام حسن ؑ کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے ۔
(۲۵) بحار الانوار ، ج ۲۹ ، ص ۲۱۹اور طبرسی ، الاحتجاج ، ص ۷۵ (۲۶) مزید معلومات کے لیے دیکھئے ، اصول کافی ، ج ۱ ، کتاب الحجت
(۲۷) دیکھئے علامہ امینی ، الغدیر ج ۱ ، ص۱۵۹ ، ۲۱۳ ۔ المناشدۃ (۲۸) نہج البلاغہ
(۲۹)نہج البلاغہ ، خطبہ دوم (۳۰) نہج البلاغہ ، خطبہ سوم
(۳۱) مزید معلومات کے لیے دیکھئے : پرسش ۳۰ (۳۲) مزید معلومات کے لیے دیکھیں : پیشوائی ، مہدی ، سیمای ، پیشوایان درا ٓئینہ تاریخ ، ص ۲۷ ، ۳۸ ، دار العلم ، قم ۱۳۷۵ اور انہی کی کتاب ، صبر ، پیشوایان ، ص ۹۲ سے ۱۴۰ توحید ، ۱۳۸۱ ھ ، ق ، قم
(۳۳) مزید معلومات کے لیے مطالعہ کریں ، پیشوائی ، مہدی ، سیمای پیشوایان در آئینہ تاریخ ، ص ۱۰۱ ، ۱۱۱ ، نیز سیرہ پیشوایان ، ص ۳۸۲، ۴۱۰ ، توحید ، قم ، ۱۳۸۱ ، ق
(۳۴) مزید معلومات کے لیے مطالعہ کریں ، مطہری ، مرتضیٰ ، سیری در سیرہ آئمہ اطہار ، ص ۱۹۴ ، ۲۱۶ ، صدرا ، قم ۱۳۷۴ ، ق ، اور قدر دان ، قراملکی ، محمد حسن ، تقابل ، مشی آئمہ ، باسکو لاریسم (مقالہ ) ، معرفت ، ص ۳۹

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button