ہمسائے سے سلوک
زرارہ بن اعین نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری کے باغ میں سمرہ بن جندب کا ایک کھجور کا درخت تھا۔
سمرہ اچھا آدمی نہیں تھا،وہ انصاری کی اجازت کے بغیر کھجور کے درخت پر چڑھ جاتا، انصاری کا گھر اس درخت سے ملا ہوا تھا،جس سے اس کے گھر کی بے پردگی ہوئی تھی۔
اس نے کئی مرتبہ سمرہ سے کہا کہ جب بھی آپ کو درخت پر چڑھنا ہو تو پہلے ہمیں اطلاع دیں تاکہ ہماری خواتین پردہ کرلیا کریں۔
مجبور ہو کر انصاری نے رسول خداﷺ سے اس کے اس رویے کی شکایت کی۔
آپ نے سمرہ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ تمہیں درخت پر چڑھنے سے پہلے انصاری سے اجازت لینی چاہیے،سمرہ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ تمہیں درخت پر چڑھنے سے پہلے انصاری سے اجازت لینی چاہیے،سمرہ نے یہ بات ماننے اس انکار کیا،آپ نے فرمایا:پھر تم اس درخت کو بیچ ڈالو،میں خرید لوں گا،آپ نے درخت کی قیمت کئی گناہ زیادہ لگائی مگر وہ بیچنے پر راضی نہ ہوا۔
آپ نے فرمایا:تم یہ درخت انصاری کو دیدو اور اس کے بدلے جنت میں کھجور کا درخت لے لو،سمرہ پھر بھی راضی نہ ہوا۔
یہ دیکھ کر رسول خداﷺ نے انصاری سے فرمایا:’’اذْهَبْ فَاقْلَعْهَا وَ ارْمِ بِهَا إِلَيْهِ فَإِنَّهُ لاَ ضَرَرَ وَ لاَ ضِرَارَ فِي الإسلاَمِ‘‘جائو اور درخت کو کاٹ کر پھینک دو کیونکہ اسلام میں نقصان دینا اور نقصان اٹھانا دونوں جائز نہیں۔
(حوالہ)
(مکاسب،قاعدہ نفی ضرر)