شیعہ اور محب کا فرق
جب امام علی رضا علیہ السلام مامون کے ولی عہد تھے تو ایک وفد ان سے ملنے آیا اور غلام سے کہا کہ امامؑ کو خبر کرو کہ شیعیان علیؑ کا ایک گروہ آپ ؑکے دیدار کے لیے آیا ہے۔
آپ ؑنے فرمایا:میں مصروف ہوں۔
دوسرے دن وہ لوگ پھر آپؑ سے ملنے آئے اور غلام سے کہا:امام ؑسے کہو کہ شیعیان علیؑ کا ایک گروہ آپ ؑسے ملنا چاہتا ہے۔
آپ ؑنے فرمایا:انہیں واپس بھیج دو۔
یہ لوگ پورے دو ماہ تک روزانہ آپ ؑکے گھر آتے رہے لیکن آپؑ نے انہیں شرف ملاقات نہیں بخشا۔
دو مہینے بعد انہوں نے غلام سے کہا:مولاؑکی خدمت میں عرض کرو کہ آپ ؑنے ہمیں دو ماہ سے شرف ملاقات نہیں بخشا اور اب تو دشمن بھی ہم پر ہنستے ہیں،اگر ہم یونہی واپس چلے گئے تو لوگ ہمارا مذاق اڑائیں گے۔
تب آپ ؑنے ان کو شرف باریابی بخشا۔
انہوں نے عرض کیا کہ مولاؑ!آپ ؑنے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا کہ پورے دو ماہ تک ہمیں ملاقات کی اجازت نہ دی،اب بتائیں ہماری کیا عزت باقی رہ گئی ہے؟
آپ ؑنے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ‘‘تم لوگوں پر جو بھی مصیبت آتی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور بہت سے قصوروں سے اللہ ویسے ہی درگزر کرتا ہے۔ میں نے اس عمل میں خدا،پیغمبرؐ،علیؑ اور اپنے آبائے طاہرینؑ کی پیروی کی ہے، تم سے یہ ہستیاں ناراض ہیں اسی لیے میں بھی تم سے ناراض ہوں۔
انہوں نے کہا:مولاؑ!آپؑ یہ بتائیں کہ ہم سے کون سا قصور ہوا ہے؟
آپ ؑنے فرمایا:تم نے شیعہ علیؑ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تم پر افسوس ،کیا تمہیں معلوم نہیں کہ علیؑ کے شیعہ حسنؑ،حسینؑ،ابوذرؓ،سلمانؓ،مقدادؓ،عمارؓ اور محمد بن ابی بکرؓ ہیں۔ جس نے پوری زندگی میں حضرت علیؑ کے کسی فرمان پر عمل نہ کیا ہو وہ علیؑ کا شیعہ نہیں ہوسکتا اور تم نے شیعیان علیؑ ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ تم نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ حضرت علیؑ کے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے اور بہت سے واجبات میں تم سے کوتاہی ہوئی ہے اور تم اپنے دینی بھائیوں کے حقوق ادا نہیں کرتے،جہاں تقیہ کی ضرورت نہیں ہوتی وہاں تقیہ کرتے ہو اور جہاں تقیہ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تقیہ نہیں کرتے۔ اگر تم یہ کہتے کہ ہم آپؑ کے دوست ہیں اور آپ ؑکے چاہنے والوں کے بھی دوست ہیں اور آپؑ کے دشمنوں کے دشمن ہیں تو میں تمہاری بات کو رد نہ کرتا مگر تم نے بہت بڑا دعویٰ کیا اور اپنے عمل سے اس دعویٰ کو اگر تم ثابت نہ کرسکے تو ہلاک ہوجائو گے،ہاں!اگر رحمت خدا تمہیں نجات دلائے تو اور بات ہے۔
انہوں نے کہا:مولاؑ!ہم اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں اور اس کے لئے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں اور جیسا کہ آپ ؑنے تعلیم دی ہے ہم وہی کہتے ہیں کہ ہم آپ ؑکے محب ہیں اور آپؑ کے دوستوں کے بھی محب ہیں اور آپ ؑکے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ سن کر امام علی رضاؑ نے فرمایا:’’مَرْحَباً بِكُمْ يَا إِخْواني وَ أَهْلَ وُدّي‘‘اے میرے بھائیو اور دوستو!اب میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں،آئو اور میرے پاس آکر بیٹھو۔ جب وہ بیٹھ گئے تو آپ ؑنے غلام سے کہا:یہ کتنی مرتبہ دروازے پر سلام کرنے آئے تھے؟
غلام نے کہا:مولاؑ!یہ ساٹھ مرتبہ آئے تھے۔ آپ ؑنے فرمایا:تم میری طرف سے انہیں ساٹھ مرتبہ سلام کرو۔ پھر آپ ؑنے فرمایا:تم نے توبہ کی تو اللہ نے تمہارے گناہ معاف کردئیے اور چونکہ تم لوگ ہم سے محبت کرتے ہو اس لیے تم احترام کے قابل ہو۔ پھر آپ ؑ نے غلام سے فرمایا:ان کی ضروریات پوری کرو اور انہیں سفر کے اخراجات اور تحائف دے کر رخصت کرو۔
(حوالہ)
(سورہ شوریٰ: آیت۳۰)
(بحارالانوار ج۱۵،ص۲۴۴)