

مصنف:آیت اللہ سیّد علی حسینی خامنہ ای
موضوع:اخلاق معاشرتی اخلاق
ایمان
ایمان کی علامتیں
ایمان کی علامتیں گناہ انجام نہ دینا ، خدا سے ڈرنا ، بندگان خدا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ، دشمنان خدا کے ساتھ سختی اور دشمنی سے پیش آنا ، مومنوں کے چھوٹے موٹے اختلافات کو نظر انداز کر دینا وغیرہ ہیں ۔
در حقیقت ، ایمان اگر محبت و خلوص جیسے رابطوں سے عاری ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ محبت ہی ہے جو میدان عمل میں ایمان کو اہمیت و ارزش بخشتی ہے ۔ محبت و خلوص کے بغیر کسی تحریک کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے عشق و محبت کا عالی ترین عنوان ‘‘ محبت اہلبیت ‘‘ ہمارے پاس ہے ۔ اس محبت کا عروج ہمیں کربلا میں روز عاشورا دیکھنے کو ملا کہ چند افراد پر مشتمل ایک گروہ نے تاریخ و تمدن تشیع کی ایک ایسی بنیاد ڈالی کہ آج بھی اس تاریخ و تمدن کے نقوش روز بروز روشن ہوتے جا رہے ہیں ۔
دنیا میں رونما ہونے والے انقلاب ، حکومتیں ، ادارے وغیرہ اس وقت منحرف ہوتے ہیں جب ان کے اندر معنویت ، ایمان ، خدا سے رابطہ وغیرہ کا فقدان ہو جاتا ہے ۔ انقلاب جمہوری اسلامی سے متعلق بھی اگر غور کیا جائے تو ہمیں انہیں مقامات پر خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں مذکورہ بالا صفات کا فقدان پایا گیا ۔
ہمارے اور خدا وند عالم کے درمیان تعلق و ارتباط کو غیر اہم شمار نہیں کیا جانا چاہیے ہماری زندگی کا انحصار ہی اس رابطہ اور تعلق پر ہے ۔ یہی رابطہ ہے جو دشمن سے مقابلہ کرتے وقت ہمارے دل کی ڈھارس بنا رہتا ہے ۔ یہی رابطہ ہے جو ہمیں مومنوںسے محبت کرنے پر اکساتا ہے تاکہ ہم آپسی کے اختلافات کو نظر انداز کر سکیں ۔ یہی رابطہ ہے جو ہم سے کہتا ہے کہ اپنی خواہشات کی بنا پر ہم حقائق کو نظر انداز نہ کریں ، اپنی ذاتی غرض کی خاطر خدائی مصلحتوں کو فراموش نہ کریں ۔ یہی رابطہ ہے جو ہمیں صراط مستقیم سے منحرف ہونے سے بچنے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مسائل کو ہمارے لئے آسان کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا رابطہ و تعلق ہے جو ہمیشہ اور ہر حال میں ہمارے لئے ممکن ہے ۔
جمہوری اسلامی کی اسلامی تحریک ، اسلامی انقلاب اور اس کی برکت سے دوسری اسلامی اقوام و ملتوں کے پاس آج جو کچھ بھی ہے وہ خدا پر توکل، خدا پر بھروسہ اور ذکر خدا کی وجہ سے ہے ۔ اس طرف سے ہمیں کسی لمحے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ اگر خدا پر بھروسہ اور توکل نہ ہوتا تو مشکل سے ہی تصور کیا جا سکتا تھا کہ ایران میں کبھی اسلامی انقلاب آسکے گا ۔ اس اسلامی انقلاب کی اساس اور بنیاد انسان سازی پر رکھی گئی ہے ۔ پہلے مرحلے میں انسان سازی یعنی دل کی تعمیر اور روح کا آباد کرنا ہے ۔ دنیا اگر نعمتوں اور لذتوں سے پر ہو لیکن انسان اخلاق ، انسانیت اور دینداری سے عاری ہو تو یہ دنیا اہل دنیا کو کچھ نہیں دے سکتی ، بشریت کو آسائش اور تسکین نہیں بخش سکتی ۔ انسان کی آسائش کی تسکین کا سامان اس اخلاق سے فراہم کیا جا سکتا جس کا سر چشمہ دین ہے ۔ دنیا میں اگر اخلاق و معنویت اور دین نہ پایا جائے تو وہی ہوگا جس کا ہم آج اس دنیا مین مشاہدہ کر رہے ہیں کہ چند استکباری قوتیں اور طاقتیں دنیا کی ایک بڑی مظلوم آبادی پر اپنے مظالم کا منہ کھولے ہوئے ہیں ۔
اسلامی انقلاب کے عوامل
اسلامی انقلاب کن عوامل کی بنیاد پر عالم وجود میں آیا ہے ؟ اسلامی انقلاب کسی ایک وجہ سے نہیں بلکہ متعدد و مختلف عوامل کی بنا پر رونما ہوا ہے ۔ اسلامی انقلاب کو سمجھنے کے لئے علمی ، تاریخی،جامعہ شناس اور عمیق و دقیق نگاہ کی ضرورت ہے کہ انسان آئے اور غور و فکر کرے ۔ البتہ یہ انقلاب کن عوامل کی بنا پر رونما ہوا ، ایک طویل علمی بحث ہے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ چیز جس کے ذریعہ اس انقلاب کی روح اور گہرائی تک پہنچا جا سکتا ہے ،وہ حُبِ خدا ، الہٰی فرائض کی انجام دہی اور قیام ? یعنی خدا کے لئے اٹھ کھڑا رہنا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض افراد کے اذہان میں دوسرے عوامل مثلاً جنگ وغیرہ بھی آئیں لیکن یہ بھی صحیح ہیں اور یہ بھی اس انقلاب کی علتوں میں شامل ہیں ۔
اسی طرح کی علتیں انقلاب سے پہلے بھی اذہان میں پائی جاتی تھیں اور یہ انقلاب کے رونما ہونے میں موثر تھیں لیکن ان تمام عوامل کے پس پشت بھی ایک طاقت کار فرما تھی اور وہ تھی روح دینی اور ذمہ داری و وظیفہ کی انجام دہی کے احساس کی طاقت کیونکہ ظلم و ستم سے مقابلہ ، فساد سے مبارزہ ، پسماندگی ، فقر وغیرہ سے جنگ ان موارد میں سے ہیں جو رضائے الہی کا باعث بنتے ہیں ۔ خدا وند عالم نے بھی انسان کیلئے مختلف مقامات پر اس طرح کے احکامات بیان فرمائے ہیں ۔
اگر عنصر دینی نہ پایا جائے تو اس طرح کے عوامل سماج کے ہر طبقے میں عمیق و وسیع صورت میں سامنے آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ انقلاب ایک ختم نہ ہونے والا انقلاب ہے ، اگر عنصر دینی نہ پایا جائے تو کوئی بھی تحریک ہو مختصر سے عرصے کے بعد دم توڑ دیتی ہے ۔
چند معین شدہ افراد ایک سمت میں آگے بڑھتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھ جاتے ہیں یا چند افراد اپنے اہداف تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور چند دیگر حکومت و جاہ و حشم میں پھنس کر رہ جاتے ہیںایک گروہ عیش و عشرت کا شکار ہو جاتا ہے اور دوسرا فقر و فاقہ کا ۔
اس طرح آہستہ آہستہ یہ قصہ یہیں ختم ہو جاتا ہے ۔
اس کی مثال دنیا کی مختلف تحریکوں اور انقلابوں میں بطور عیاں دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ ان تحریکوں میں اسم خدا ، نام خدا ، یاد خدا ، عنصر عبادت و اخلاص نہیں پایا جاتا تھا ، امام خمینی ؒ کے جیسا کوئی الہٰی معنوی رہبر موجود نہیں تھا ، لہٰذا یہ تحریکیں اپنا ذرا سا بھی اثر چھوڑ ے بغیر مختصر سے عرصے میں ختم ہو گئیں لیکن اسلامی انقلاب میں معاشرے کے سارے افراد ، مرد و زن ، بوڑھے ، بچے شریک تھے حتی ایسے افراد بھی اس انقلاب میں پیش پیش تھے جو اجتماعی امور میں کبھی دخیل نہیں رہے تھے ۔ اس کے علاوہ ایسے افراد کو بھی دیکھا گیا کہ جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں خود اپنی خاطر کبھی کوئی بڑا اور خطرناک کام انجام نہیں دیا تھا ۔
یہ تھا اسلامی انقلاب اور ایسا انقلاب کہ ساری اسلامی تاریخ پہلی اسلامی حکومت کے بعد سے ہمارے زمانے تک ایسا انقلاب نہیں دکھا سکتی ۔ آخر یہ کیسا انقلاب تھا ؟ اس انقلاب کے پس منظر میں کون سی طاقت کار فرما تھی ؟
یہ طاقت تھی اسلامی طاقت ، قرآنی طاقت ، دینی طاقت ۔اس انقلاب کی بنیاد اس نکتہ پر رکھی گئی تھی کہ آئندہ آنے والی حکومت ایک اسلامی حکومت ہوگی ، قوانین ، اسلامی قوانین ہوں گے ۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ایسا آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کچھ افراد ناشکری کر رہے ہیں ۔ خدا کی نعمتوں کو حقیر شمار کرتے ہیں ۔ بطور مثال اگر کسی عدالت نے ایسا کوئی حکم صادر کر دیا ہے ، کسی سرکاری افسر نے کہیں کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جو ان لوگوں کے مزاج اور مرضی کے خلاف ہوتی ہے تو ایک واویلا مچ جاتا ہے ۔ انقلاب ، حکومت ، جمہوری اسلامی ، ولایت یعنی اس عظیم تحریک کے تمام جوانب پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں ۔ ہر چیز کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں جب کہ یہ لوگ اصل حقیقت آشنا بھی نہیں ہوتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ آج انقلاب کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی دنیا کے کونے کونے سے ہمارے پاس مسلمان دانشمند و علماء حضرات تشریف لاتے ہیں اور ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آپ ایران میں زندگی گزارتے ہیں ، آپ نے اپنے ہاتھوں سے انقلاب کی آبیاری کی ہے ، آپ کو احساس نہیں ہے کہ آپ کا برپا کیا ہوا یہ انقلاب کتنا عظیم انقلاب ہے ۔ یہ انقلاب تاریخ کا منفرد انقلاب ہے ۔
ایک ایسا ملک جو امریکہ کی پناہ گاہ تھا ، جس کے وزراءدنیا کی استکباری طاقتوں کے آگے جبہ سائی کرتے تھے ، جس ملک کی حکومت حاکموں کے گھروں (خاندانوں)میں تقسیم ہوتی تھی ، روز بروز معاشرے کو دین سے جدا کیا جا رہا تھا ، عوام کو زبردست اخلاقی پسماندگی ، جنسی بے راہ و روی کی طرف مائل کیا جا رہاتھا ، اگر ایسے ملک میں کوئی آئے اور ایک مستقل، آزاد و عوامی حکومت کی بنیاد رکھے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ عوام کے عام طبقے سے خواص تک سبھی انسان ، پارلیمینٹ کے اراکین ، قوہ قضائیہ و مجریہ اور فوج وغیرہ کے ذمہ دار افراد سبھی مومن و متدین ہیں ۔ ان میں سے بعض نافلہ خوان اور نماز شب کے پابند بھی ہیں ۔ ایران کوئی عام ملک نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ جیسی طاقت سے بھی بغیر کسی خوف و خطر کے ٹکرا جاتا ہے ۔
یہ معمولی نکات نہیں ہیں بلکہ قابل غور و اہم ہیں ۔ بہر حال اگر اسلامی حکومت کے تحت کچھ موارد ایسے مل جائیں جن پر اعتراض کیا جا سکے تو کیا حضرت علیؑ کے دور حکومت میں ایسے موارد نہیں تھے ؟ کیا اس وقت بد اخلاقی نہیں تھی ؟ حد شرعی جاری نہیں ہوتی تھی ؟ کیا اس زمانے میں چوریاں نہیں ہوتی تھیں ؟ یقینا ًتاریخ کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں چوریاں ہوتی تھیں وہیں حدود شرعی بھی جاری ہوتی تھی ۔ قابل اعتراض یہ نہیں کہ چوری ہو اور حد شرعی بھی جاری ہو بلکہ قابل اعتراض یہ ہے کہ چوراور فاسد افراد کے خلاف حدود شرعی جاری نہ ہوں اور ان کو دین کی طرف مائل نہ کیا جائے ۔
ایک معاشرے میں، ایک قوم کی تعلیم و تربیت ایک مختصر عرصے میں یعنی چند برسوں میں تو نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے لئے ایک طویل زمانہ چاہیے۔ جمہوری اسلامی ایران کا اسلامی انقلاب ، اتنا عظیم واقعہ ! دوسرے افراد بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں اور ہم بھی اس بارے میں غور و فکر کرتے ہیں کہ ایک دن آئے گا کہ یہی اسلامی انقلاب ایک بڑی اور عالمی تحریک میں تبدیل ہو جائے گا ۔ اس انقلاب کو ایک عظیم انقلاب کہا جا رہا ہے ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ امریکہ ، اسرائیل ، استکباری طاقتیں اور عالمی قوتیں اس اسلامی نظام کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر پا رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس عظیم تحریک کی ساری دنیا مخالفت کر رہی ہے ۔ ایک ایسی قوم کو جو اتنا عظیم انقلاب برپا کر دے اور پھر اس انقلاب کے خاطر خواہ نتائج بھی ظاہر ہو جائیں ، اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ روز بروز ترقی کی طرف مائل رہنا چاہیے ۔
امریکہ اور اس وقت کی روس جیسی عالمی طاقتیں موجودہ اسلامی نظام کی از اول مخالف تھیں ۔ بحمد ? روس ختم ہو گیا لیکن امریکہ ابھی تک اپنی تمام تر پلیدگیوں کے ساتھ باقی ہے ۔ امریکہ نے ایران کے سلسلے میں اپنی مخالفت اس طرح ظاہر کی کہ عراق کے پس پردہ ایران کے ساتھ آٹھ سال تک جنگ لڑی لیکن یہ اس انقلاب کی برکت تھی کہ ہماری قوم نے ان تمام مشکلات کا سامنا کیا اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ۔
مذکورہ عالمی استکباری طاقتوں میں سے ہر طاقت میں اتنی صلاحیت ہے کہ ایک نظام یا حکومت کو تہہ و بالا کر دے لیکن ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ، جدید ترین اسلحہ جات کے ذریعہ طویل جنگ اس پر مستزاد عالمی پروپیگنڈہ بھی ایران کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔آٹھ سال تک طویل جنگ لڑنے کے باوجود بھی ایران کی ایک انچ زمین حاصل نہ کی جا سکی ۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم کارنامہ ہے ۔
یہ عظیم کارنامہ اس انقلاب اور اس نظام حکومت کی ہی برکت تھی کہ ایران و عراق کے مابین۸سالہ جنگ ختم ہوئی اور ایک مرتبہ پھر ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کوششیں شروع کر دی گئیں ۔ آج آپ ملک کے کسی بھی گوشے میں چلے جائیں آپ کو ایسے افراد مل جائیں گے جو ملک کی آئندہ خوشحالی کے لئے کوشاں ہیں۔ ملت ، قوم ، افسران بالا وغیرہ سبھی اس سمت میں جد و جہد کر رہے ہیں ۔ یہ اس انقلاب کا اثر ہے اور یہ آئندہ بھی دوام حاصل کرے گا ۔ ملک کی خوشحالی ، رفاہ اور فلاح و بہبود کے لئے شروع کی گئی یہ تحریک مستقبل میں بھی باقی رہے گی ۔ ہماری قوم کسی بھی صورت میں میدان چھوڑ کر فرار اختیار نہیں کر سکتی ۔یہ سب دین کی برکتیں ہیں ۔ یہ انقلاب ، دین و مذہب سے جدا انقلاب نہیں ہے ۔ یہ سیاسی پارٹیوں اور مختلف اشخاص کے نظریات پر مبنی انقلاب نہیں ہے بلکہ ایک ایسا انقلاب ہے جو ایک متدین اور مذہبی قوم کے ذریعہ عالم وجود میں لایا گیا ہے ۔ لہذا اس انقلاب کا اصل عنصر بھی یہی ہے ۔
ہمارے معاشرے کی سعادت کا راز خدا پر ایمان
ملت ایران بنام اسلام رو بہ ترقی ہے اور اسلام ہی کی خاطر جد و جہد کر رہی ہے اسی بنا پر یہ عظیم واقعہ بھی رونما ہوا کہ عصر حاضر میں دین خدا اور اسلامی تعلیمات کی اساس پر ایک نظام حکومت و معاشرہ کی بنیاد پڑی ۔مادی وسائل کے ذریعہ کسی بھی قیمت پر یہ چیز ممکن نہیں تھی ۔ اسلامی اقوام ، ایران کی اس اسلامی تحریک کی طرف شدت سے مائل ہیں ۔ یہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ اس اسلامی مملکت کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کے با و جود ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان قومیں ایران کے اسلامی انقلاب کے متعلق پر امید ہیں اور اسی لئے اس سمت میں حرکت بھی کر رہی ہیں ۔ آج دنیا میں شاید ہی کوئی مسلمان قوم ہو جو اس اسلامی تحریک سے متاثر نہ ہو ۔
مسلمان قوموں میں اس انقلاب سے متعلق یہ امید و تمائل اسی صورت میں باقی رہ سکتا ہے جب ہم دین خدا پر ایمان رکھتے ہوئے ذرہ برابر انحراف کا شکار نہ ہوں۔ عالمی طاقتوں ، عالمی مسائل ، ملکی سیاست ، خارجی و داخلی سیاست سے بھی ہم مذکورہ صورت میں ہی مقابلہ کر سکتے ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ معاشرے سے اس راز سعادت یعنی ایمان بہ خدا کو اپنی زندگی اور معاشرے میں لمحہ بہ لمحہ قوی اور مستحکم کریں ۔ ملک و ملت کو اسلامی تعلیمات کی طرف بیشتر راغب کریں ۔ معاشرے کے جوان طبقے کو اسلامی تعلیم و تربیت پر عمل پیرا ہونے کی عملی دعوت دیں ۔ ہماری دانشگاہوں کا فریضہ ہے کہ وہ جوانوں کو نہ فقط عالم بلکہ مسلمان عالم با عمل بنا کر معاشرے میں پیش کریں اور یہی اسکول وکالج وغیرہ کی بھی ذمہ داری ہے ۔ غیر ازیں یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو اس قدر رائج کریں کہ دوسری تمام تعلیمات و افکار ماند پڑ جائیں ۔
خدا پرایمان اسلامی فوج کا امتیاز
اگر چہ فوج کے لئے اسلحہ وغیرہ بنیادی ضرروتوں میں سے ہے لیکن وہ چیز جو ہماری اسلامی فوج کو دوسری افواج سے متمائز کرتی ہے وہ خدا پر ایمان ، فرمان الہی کی انجام دہی اور جہاد فی سبیل اللہ کا احساس ہے ۔ یہ وہ اصل عنصر ہے کہ اگر اس کو جدا کر دیا جائے تو ہماری اسلامی فوج بھی دوسرے ممالک کی افواج کی طرح فقط افراد پر مبنی فوج ہو کر رہ جائے گی یعنی اگر اسلحہ جات ، افراد ، استعداد وغیرہ پر تسلط حاصل ہو گیا تو ممکن ہے کہ استقامت پیدا ہو جائے لیکن اگر دشمن کی طاقت ہم سے ذرا سی زیادہ ہو گئی تو ممکن نہیں ہے کہ ہم مقابلہ کر سکیں ۔
آج ہم سب پر واضح ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں تعداد اور افراد یعنی مادیات کے لحاظ سے اسلامی مملکت اور افواج سے قوی تر ہیں ۔ قوی تر اس صورت میں ہیں جب ہم ایمان کو اسلامی افواج سے خارج کر دیں لیکن اگر ایمان کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اسلامی لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ یہی وہ عنصر ہے جس کو ہمیں اپنی فوج میں راسخ کرنا ہے ورنہ ظاہری قدرت و طاقت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ صرف اتنا ہی توہے کہ یہ طاقتیں ہم سے اس میدان میں آگے ہیں۔ اگر ہم کوشش کریں تو اس میدان میں ہم بھی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ ایمان ایک ایسا عامل اور ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے قبضہ قدرت میں ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اسے اپنی دفاعی افواج کی رگ رگ میں داخل کر دیں ۔
ہمارے انقلاب کی تاریخ ہے کہ ہم جب بھی فاتح ہوئے اسی ایمانی قوت کی بنا پر اور جب بھی ہم نے دشمن کے ہاتھوں شکست کھائی اسی ایمان کے نہ ہونے کی بنا پر ۔ اگر عراق کے خلاف ہماری دفاعی جنگ میں کئے گئے ہمارے مختلف فوجی آپریشن کا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ وہی بر آمد ہو گا جو ذکر کیا جا چکا ہے ۔ جہاں جہاں ہمارے قلوب حرارت ایمانی سے شعلہ ور تھے وہاں وہاں ہم نے تمام رکاوٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور جس جس مقام پر ہم نے مادیات اور ظاہری فتوحات کی طرف مائل ہو کر فرمان الہٰی اور احکام شرعی کو پس پشت ڈال دیا تھا اس اس مقام پر مغلوب ہو گئے تھے ۔
خدا کے ساتھ رابطے کی برقراری ہم سب کی ذمہ داری ہے
اس مقام پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کی شناخت حاصل کریں ۔ ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ خدا پر ایمان اور خدا کے ساتھ رابطہ کو برقرار رکھے اور کسی بھی قیمت پر اس کو منقطع نہ ہونے دے ۔ خدا کے ساتھ ارتباط و رابطہ سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے قلب ، عمل ، اخلاق ، رفتار و گفتار کو رضائے الٰہی کے مطابق قرار دیں ۔ خود پرستی ، دروغ گوئی ، تہمت ، فریب ، نفس پرستی و خواہشات نفسانی سے پرہیز کریں ۔ یاد خدا ، ذکر خدا ، توجہ بہ خدا ، نفس امارہ کی مخالفت اور عبادت حقیقی کو روز بروز اپنے اندر قوی سے قوی تر کریں ۔ یہی ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
گذشتہ ۲۰،۲۵برسوں میں ہماری ملت کے اسلامی مجاہدین کی شجاعت ، قدرت توانائی ، ایثار ، روحی استقلال ، خود اعتمادی اور خدا پر توکل وغیرہ کے متعلق جو کچھ گزرا ہے وہ کسی بھی طرح قابل تعریف نہیں ہے ۔ ہماری ملت کے شجاع مردوں اور غیور عورتوں نے دور حاضر کی عالمی طاقتوں کے جدید ترین اسلحوں کا مقابلہ کیا ہے اور انہیں ناکارہ بنا دیا ہے ۔ ان واقعات کا بیان آخر کس طرح کیا جا سکتا ہے ! ان واقعات کو قلم و کاغذ کے ذریعہ مقید نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ان سے بھی ماوراء چیزیں ہیں ۔
ایمانی قوت کے مقابل استکباری قوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے
دور حاضر کے عالمی استکبار کے پاس کیا ہے ؟ آخر امریکہ کے پاس کیا ہے کہ مختلف ممالک اور حکومتوں پر اپنا حکم چلاتا ہے ؟ مادی اسلحہ ، پیسہ ، ایٹم بم ، جنگی جہاز ، جدید ٹیکنالوجی ۔۔۔۔ اور کیا ہے ؟ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظاہری قدرت کے لحاظ سے یہ چیزیں یقینا ًاہمیت کی حامل ہیں لیکن ایمان کے مقابلے میں ان کے پاس کیا ہے ؟ ایمان ایک ایسی طاقت ہے کہ امریکہ کی ساری ظاہری توانائی و طاقت بھی اس طاقت کے مقابلے میںصفر ہے ۔
بحمدہ تعالیٰ ہماری ملت اس ایمانی قوت سے مالا مال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں ظاہری طاقتیں مل کر بھی ایران کے اسلامی انقلاب کو مغلوب نہیں کر سکتیں ۔ ملت ایران اس عمیق ایمان کی بنا پر ایک مغلوب نہ ہونے والی ملت ہے ۔ کوئی طاقت اس ملت کو شکست نہیں دے سکتی ۔ نہ خارجی دشمن اور نہ داخلی دشمن ۔
نصرت خدا اور مومنین پر اعتماد
اہم امور کے سلسلے میں فقط خدا کی نصرت اور عوام الناس کے ایمان پر تکیہ کرنا چاہیے ۔ ظاہری طاقت و قوت ، اسلحہ ، پیسہ وغیرہ کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں ۔ البتہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ نصرت الہٰی اور عوام الناس کا ایمان ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں یعنی جب ہم خدا اور نصرت خدا پر بھروسہ کریں گے تو خود بخود لوگوں کے قلوب خدا وند عالم کی طرف مائل ہو جائیں گے ۔
خدا وند تبارک و تعالی نے رسول گرامی کو عظیم ترین ذمہ داریاں عطا کرنے کے بعد فرمایا’’ ھو الذی ایدک بنصرہ و بالمومنین‘‘ ( ۱ ) یعنی اسی نصرت خدا اور مومنین کی امداد نے تمہیں آگے بڑھنے میں مدد کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ جب ظاہری طاقتیں حق کے مقابل آتی ہیں تو ہیچ ہوجاتی ہیں ۔ اگر باطل سے بے اعتنائی برتی جائے اور اپنے ارادے اور نصرت خدا کے سہارے اس کا مقابلہ کیا جائے تو باطل کچھ نہیں کر سکتا ۔ جب کبھی بھی عوامی طاقت کے ذریعہ مقابلہ کیا جائے گا باطل خود بخود عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا ۔
اس ایمان کو قوی اور مستحکم ہونا چاہیے اور ملت کو اپنی ایمانی طاقت کے سہارے پیش قدمی کرنا چاہیے یعنی نصرت الٰہی پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ مشکلات و مسائل سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے تاکہ دشمن ہمارے اندر خود کو نافذ نہ کر سکے ۔ ماضی میں ایسے افراد تھے جو نہایت سطحی افکار کے حامل تھے اور فقط ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے البتہ ان افراد کو متہم نہیں کیا جا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ افراد باور نہیں کر پاتے تھے کہ ہماری قوم بھی دشمن کاخاطر خواہ مقابلہ کر سکتی ہے لیکن وہ شخص جو تاریخ اور سنت الٰہی سے آشنا ہے وہ مقاومت کرتا ہے اور اپنے ارادے کو قوی و مستحکم بنائے رکھتا ہے ۔
ا۔سورہ انفال، آیت ۶۲




