مقالات

حجر الاسود

حَجَرُ الْأسْوَدْ الحَجَرُالأسوَد ایک مقدس پتھر کا نام ہے جو اسلامی ثقافت خاص طور پر مناسک حج میں ایک پرانی تاریخ اور خاص شان و منزلت کا حامل ہے۔ یہ پتھر کعبہ کے مشرقی رکن (گوشے) (جو رکن اسود یا رکن حَجَری کے نام سے معروف ہے) میں ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر کعبہ کے دیوار میں نصب شدہ ہے۔حجرالاسود اسلام کی آمد سے پہلے بھی مورد احترام تھا لیکن تاریخ میں کبھی بھی حتی دوران جاہلیت جس میں پتھروں کی پوجا کیا کرتے تھے، میں بھی مورد پرستش واقع نہیں ہوا۔ [1]یہ پتھر متعدد بار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اسی وجہ سے گون کا ایک حلقہ بنا کر چھوٹے ٹکروں کو اس کے ذریعے آپس میں جوڑا ہوا ہے۔

نام‌گذاری

حجر الاسود یعنی "سیاہ پتھر” یہ نام اس پتھر کے کالے رنگ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ بعض اس کو "خوشبخت” اور "خوش‌اقبال” پتھر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ [2] ابن‌ظہیرہ کے مطابق اگر "أسود” کو "سَوْدَد” بمعنی خوشی اور سیادت، سے اخذ کیا گیا ہے تو اس صورت میں "حجرالأسود” سے مراد ایسا پتھر ہوگا جس کا مقام دوسرے تمام پتھروں سے بلند و برتر ہو۔ [3]

ظاہری شکل

حجرالاسود انڈے کی طرح بیضوی شکل کا ہے۔ اس کا رنگ کالا مائل بہ سرخ ہے جس پر سیاہ داغ اور زرد رنگ کی لکیریں دکھائی دیتی ہیں۔ [4] کہا جاتا ہے کہ اس کے کالے رنگ کی وجہ آگ میں جلنے کی وجہ سے ہوا ہے کیوں ایک مرتبہ زمانہ جاہلیت میں اور دوسری مرتبہ یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں کعبہ کو آگ لگا دی گئی تھی۔[5]

یہ پتھر کئی بار مختلف افراد کے حملوں کا نشانہ بنا جس کی وجہ سے کئی ٹکروں میں بٹ گیا تھا۔ اسی وجہ سے گوند کا ایک قالب بنا کر ان ٹکڑوں کو اس میں رکھا گیا ہے۔ اس بنا پر حجر اسود کی دقیق توصیف ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ گوند کے اس قالب کی وجہ سے حال حاضر اس پتھر کے صرف آٹھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے قابل مشاہدہ ہیں جن میں سے سب سے بڑے حصے کی جسامت ایک خرما کے برابر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پتھر کے کل ٹکڑوں کی تعداد پندرہ تھے باقی سات حصے اس قالب کے اندر قابل مشاہدہ نہیں ہے۔ [6] کئی صدیوں میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کے لمس کرنے کی وجہ سے اس کا اس پتھر کی رنگت میں تبدلی آگئی ہے۔

ایک انگریز سیاہ جس نے انیسویں صدی عیسوی میں مکہ سفر کیا، حجر الاسود کی یوں توصیف کی ہے:

یہ پتھر انڈے کی شکل کا ہے جس کا قطر تقریبا سات انچ(18 سینٹی میٹر) اور سطح ناہموار ہے۔ یہ پتھر تقریبا ایک درجن کے قریب چھوٹے پتھروں پر مشتمل ہے جسے گوند کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پتھر ایک شدید چوٹ کی وجہ سے ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں اور انہیں دبارہ آپس میں جوڑا گیا ہے۔[7]

حجر اسود اس وقت چاندی سے بنے ہوئے ایک فریم کے اندر کعبہ کے دیوار میں موجود ہے۔ پہلا شخص جس نے حجر اسود کیلئے چاندی کا فریم بنایا وہ عبداللہ بن زبیر تھا اس کے بعد آنے والے خلفاء، حکمران اور امراء نے سونے اور چاندی کے مختلف فریم بنائے ہیں۔ موجودہ سعودی گورنمنٹ سے پہلے آخری شخص جس نے حجر الاسود کیلئے چاندی کا فریم اہداء کیا وہ سلطان محمد رشاد خان تھا جس نے سنہ 1331 ہجری قمری میں یہ اقدام کیا۔ ملک عبدالعزیز نے اس فریم کے بعض حصوں کی مرمت کی اور سنہ 1375 ہجری قمری میں ملک سعود نے سلطان محمد رشاد کے فریم کو چاندی کے اور جدید فریم میں تبدیل کیا۔[8]

حجر الاسود اسلامی احادیث کی روشنی میں
قرآن کریم میں حجرالاسود کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے لیکن امام صادق(ع) کی ایک حدیث میں حجرالاسود کو بیت‌اللّہ الحرام کے آیات بینات (واضح نشانیوں) میں سے قرار دیا ہے جس کا ذکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 میں آیا ہے۔[9]

احادیث خاص طور پر شیعہ منابع میں حجر اسود کے بارے میں قابل توجہ نکات موجود ہیں۔ منجملہ یہ کہ حجرالاسود اصل میں ایک فرشتہ تھا جو دوسرے تمام فرشتوں سے زیادہ میثاق خداوندی کا پابند تھا۔ خدا نے بھی اسے تمام فرشتوں امین قرار دیا تھا اور تمام بندگان خدا کے میثاق کو بطور امانت اس کے سپرد کیا پھر تمام مخلوقات کو یہ حکم فرمایا کہ ہر سال اس فرشتے کے پاس جا کر تجدید عہد کریں۔اسی وجہ سے اس فرشتے کو بہشت میں حضرت آدم کے ہمراہ رکھا گیا تاکہ اس کے ساتھ عہد و پیمان کی یاد تازہ ہو جائے۔ لیکن جب حضرت آدم نے ترک اولی انجام دیا اور بہشت سے باہر نکالا گیا اور زمین پر بھیجا گیا پھر توبہ کیا تو خدا نے اسی فرشتے کو ایک سفید درّ کی شکل میں حضرت آدم کے پاس بھیجا اور فراموش شدہ عہد و پیمان کو یاد دلایا۔ یہ سفید درّ حضرت آدم کے پاس تھا یہاں تک کہ یہ مکہ میں پہنچا اور کعبے کی تعمیر کے وقت اسے کعبے کی دیوار میں ٹھیک اسی جگہ رکھا گیا جہاں پر یہ عہد و پیمان منعقد ہوا تھا۔ قیامت کے دن بھی حجرالاسود ان لوگوں پر گواہ ہو گا جنہوں نے اس کے پاس جاکر تجدید میثاق کیا ہو۔[10]

اس طرح کہا جاتا ہے کہ حجرالاسود کا رنگ ابتداء میں دودھ سے بھی زیادہ سفید اور سورج سے زیادہ چمکدار تھا لیکن مشرکین کے لمس کرنے [11] اور بندگان خدا کی طرف سے گناہ انجام دینے کی وجہ سے [12] اس کا رنگ کالا ہو گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حجرالاسود کوہ ابوقبیس میں بطور امانت رکھا گیا تھا اور جب حضرت ابراہیم اور اسماعیل (ع)‌ کعبہ کی تعمیر میں ایک ایسی جگہ پہنچے کہ جہاں حجرالاسود کو رکھا جانا تھا تو اس امانت کو وہاں سے لا کر اس کی اپنی اصلی جگہ پر رکھا گیا۔[13]

بعض دیگر روایات کی مطابق جس وقت حضرت ابراہیم(ع) خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے جبرئیل نے اس پتھر کو بہشت سے لاکر خانہ کعبہ کے کسی گوشے میں رکھا تاکہ طواف کے آغاز کیلئے ایک علامت اور شاخص بن سکے۔[14]

کہا جاتا ہے کہ محمد بن حنفیہ اور امام سجاد(ع) کے درمیان ہونے والے مناقشے میں حجرالاسود نے حضرت امام زین العابدین(ع) سے گفتگو کی اور امام حسین(ع) کی بعد آپ کی امامت کی گواہی دی۔[15]

حجر الاسود کے فقہی احکام اور اس کی زیارت کے آداب
فقہا احادیث کی روشنی میں خانہ کعبہ کے طواف کا نقطہ آغاز اور انتہاء حجرالاسود کو قرار دیتے ہیں یعنی خانہ کعبہ کے گرد ایک طواف مکمل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا آغاز حجر الاسود سے ہو اور دبارہ اسی مقام پر ختم کرے۔ اسی طرح ہر طواف میں حجر الاسود کو لمس کرنا اور بوسہ دینا مستحب ہے۔ [16]

احادیث میں حجرالاسود کو لمس کرنا، اس کا بوسہ لینا(استلام) اور خاص کر اس کے نزدیک توحید اور رسالت پر کئے ہوئے عہد و پیمان کی تجدید کرنا اور اس میں حجر الاسود کو گواہ قرار دینے کے اوپر تاکید کی گئی ہے۔[17]

رسول خدا(ص) سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ حجر الاسود زمین پر خدا کا دائیں ہاتھ ہے پس جس نے بھی اسے لمس کیا گویا خدا کے دست مبارک کو لمس کرنے کے مترادف ہے۔ [18]

ازرقی نقل کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب حجرالاسود کو استلام یعنی لمس کرنے اور بوسہ دینے کے بارے میں یہ اظہار کرتے تھے کہ یہ پتھر کوئی نفع و نقصان نہیں دے سکتا لیکن چونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرم(ص) کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہوں لہذا تعبدا ایسا کیا کرتا ہوں۔ [19] شیعہ منابع میں امام علی(ع) کی طرف سے عمر کو دیا جانے والا جواب نقل ہوا ہے۔ اس جواب میں آیا ہے کہ حجر الاسود قیامت کے دن اس کے پاس تجدید عہد کرنے والوں کے حق میں گواہی دیتا ہے۔[20]

تاریخی حوادث
زمانہ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت قریش کے تمام قبائل چاہتے تھے کہ حجرالاسود کو نصب کرنے کا کام ان کے نصیب میں آجائے اس حوالے سے ایک دوسرے سے جنگ و جدال کے قریب پہنچ گیا تو اس وقت حضرت محمد(ص) جس وقت آپ جوانی کے علم میں تھے اور ابھی نبوت پر فائز بھی نہیں ہوا تھا، کی تدبیر سے قریش کے تمام قبائل اور طوائف اس نیک کام میں شریک ہوئے[21] تفصیلی مضمون: نصب حجرالاسود توسط پیامبر

سنہ 64 ہجری میں عبداللّہ بن‌زبیر اور اس کے اطرافیوں کا مسجدالحرام میں پناہ لینے پر یزید بن معاویہ کی طرف سے کعبے کی بے حرمتی ہوئی اس موقع پر یزید کی فوج نے کعبے کو آگ لگا دیک گئی جس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کے بعض حصے جل گئے۔ اس حملے میں حجرالاسود تین ٹکڑوں میں بٹ گیا جسے بعد میں عبداللہ بن زبیر نے چاندی کے ساتھ آپس میں جوڑا دیا[22] اس حوالے سے اسے پہلا شخص قرار دیتے ہیں جس نے حجر الاسود کو اس طرح محفوظ کیا۔[23] اس حادثے کے بعد عبداللّہ بن زبیر کی تجویز پر کعبہ کی مرمت اور تعمیر ہوئی۔ اس وقت کس نے حجرالاسود کو اس کی جگہ پر رکھا اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[24] بعض تاریخی اسناد کے مطابق اموی خلیفہ عبدالملک ‌بن‌مروان (متوفی ۸۶) نے بھی کعبہ کی تعمیر اور مرمت انجام دی اور کہا جاتا ہے کہ اس وقت امام سجاد(ع) نے حجرالاسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔[25]

عبداللّہ بن‌زبیر کے توسط سے حجرالاسود کی گرد جو چاندی کا حلقہ بنایا تھا وہ گذر زمان کے ساتھ خراب ہونے لگا اور ہارون الرشید (متوفی ۱۹۳) حجرالاسود کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے اس میں سراخ کرکے انہیں چاندی سے بھر دیا۔ [26]

سنہ 317 ہجری قمری میں قرامطہ کے فتنے میں ـ (ابوطاہر قرمطی (متوفی ۳۳۲) کی قیادت میں قرمطیون نے مکہ پر حملہ کیا اور اس حملے میں خانہ خدا کو بھی مورد حملہ قرار دیا تھاـ حجرالاسود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ابوطاہر نے ان ٹکڑوں کو اپنی سرزمین ہجَر (آجکل اسے احساء کہا جاتا ہے جو سابقہ بحرین کا مرکز تھا) لے گیا اور سنہ ۳۳۹ کو حجرالاسود کو دبارہ کعبہ لٹا دیا گیا۔[27] جس وقت حجر الاسود کعبہ کے دیوار میں نہیں تھا لوگ اس کے خالی جگہے سے تبرک کیا کرتے تھے۔[28]

حجرالاسود کو کس طرح اپنی منزل پر لٹایا گیا اس حوالے سے مختلف روایت موجود ہیں۔[29] منجملہ ان اقوال میں سے ایک یہ ہی کہ عباسی خلیفہ نے 30 ہزار دینار کے عوضحجرالاسود کو قرمطیون سے واپس لیا۔[30] لیکن اس قول کو صحیح نہیں قرار دیا گیا ہے۔ [31]

بعض دیگر روایات میں ہے کہ جب بغداد کا امیر الامراء بَجْکم ترکی (ماکانی) عباسی خلفاء الراضی باللّہ اور متقی‌للّہ کے دور میں قرمطیون سے 50 ہزار دینار کے مقابلے میں حجرالاسود کو لٹانے کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے رد کیا۔[32] لیکن کردی قرمطیون کی طرف سے حجرالاسود کو لٹانے کے عوض کوئی رقم وصول کرنے کو رد کرتے ہیں۔ [33] در حقیقت ابوطاہر قرمطی کے وفات کے بعد جب قرمطیون نے دیکھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو سنبربن حسن قرمطی نے عید قربان سنہ ۳۳۹ میں حجرالاسود کو -جو اس مدت میں صحیح و سالم ایک چاندی کے فریم میں محفوظ رکھا گیاتھاـ مکہ کے گورنر کی موجودگی میں خانہ کعبہ کے دیوار میں اس کی اپنی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔[34] سنہ ۳۴۰ ہجری قمری کو حجر الاسود کے لٹائے جانے کی کچھ ماہ بعد کعبہ کے پردہ داروں نے اسے اس کی مخصوص جگہ سے باہر نکالا اور چاندی کے نئے اور مظبوط فریم کے ذریعے اسے مزید محفوظ کیا۔ یہ فریم سنہ ۵۸۵ میں مکہ کے گورنر داوود بن عیسی حسنی کے حکم سے جایگزین کیا گیا۔[35]

سنہ ۳۶۳ میں روم سے ایک شخص کافی مال و دولت کے عوض حجرالاسود کو اپنے ساتھ لے جانے کیلئے آیا وہ ایک غریب شخص کے لباس میں خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول ہو گیا اور جب حجرالاسود کے پاس پہنچا تو کلہاڑی سے اس پر ایک کاری ضرب لگایا اور جب دوسرا حملہ کرنا چاہا تو قریب بیٹھے ہوئے ایک یمنی شخص نے اس کے پیٹ میں اپنا خنجر کھونپ دیا اور اسے زخمی کردیا اس کے بعد لوگ جمع ہوئے اور اسے مسجد کے احاطے سے باہر نکال کر لکڑیاں جمع کر کے اسے آگ لگا دیا گیا۔[36]

سنہ ۴۱۳ ہجری قمری کے واقعات میں بھی آیا ہے کہ ایک شخص نے گرز کے ذریعے حجرالاسود پر کاری ضرب لگایا جس کے نتیجے میں اس پتھر میں شگافت پڑ گیا اور اس سے کچھ چوٹے ذرات زمین پر گر گیا۔[37] ابن‌اثیرــ جس نے ان رویداد کو سنہ ۴۱۴ کے حوادث کے ذیل میں لایا ہے ــ اس شخص کو کافر اور مصر کا باسی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگوں نے وہ اور اسکے بعض دیگر سہولت کاروں کو آگ میں جلا دیا۔[38] اس کے بعد بنی‌شیبہ نی حجرالاسود کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کو جمع‌ کیا اور انہیں آپ میں جوڑا گیا۔[39] کردی نی بھی بتنونی کی کتاب الرِّحْلَۃ الحِجازِیۃ سے اس حادثے کے واقع ہونے کی تاریخ کو سنہ411 ہجری نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں بعض کا خیال ہے کہ مصر پر حاکم ایک فاطمی حکمران نے اس قصد سے کہ لوگ مسجد الحرام سے روگردانی کر کے ان کی اپنی مسجد جو قاہرہ میں واقع ہے کہ طرف رجوع کریں، اس مرد کو حجرالاسود کو نابود کرنے کیلئے مکہ بھبجا تھا۔[40] نقل کیا جاتا ہے کہ ایک عجمی شخص نے بھی سنہ۹۹۰ میں گرُز کے ذریعے حجرالاسود پر ایک کاری ضرب وارد کیا لیکن وہ بھی اسی جگہ مارا گیا۔[41]

سنہ۱۰۴۰ سلطان مراد عثمانی کے دور میں خانہ کعبہ کی تعمیر اور مرمت کے دوران حجرالاسود چار حصوں میں بٹ گیا اس کے بعد کافی تجربات اور مختلف کیمائی عناصر کی ترکیب سے ایک مخصوص گوند تیار کیا گیا جس کے ذریعے اس کے مختلف ٹکڑوں کو آپ میں محکم طریقے سے جوڑا گیا جس کے بعد حجرالاسود کو دبارہ اپنی مخصوص جگہ پر نصب کیا گیا۔[42]

حوالہ جات

محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۴۱؛ مروارید، قوامیس الحج، ص۸۴۶
دہخدا، لغتنامہ، ذیل مادّہ؛ مروارید، قوامیس الحج، ص۸۴۶
ابن‌ظهیره، الجامع اللطیف، ص۴۱
خربوطلی، تاریخ الکعبۃ، ص۲۱
ازرقی، اخبار مکۃ، ص۳۲؛
کردی،، مکہ و مدینہ: تصویری از توسعہ و نوسازی، ص۱۰۱
Quoted in Hughes, A Dictionary of Islam, p. 154
عبیداللہ کردی، مکہ و مدینہ: تصویری از توسعہ و نوسازی، ص۱۰۱
عیاشی، کتاب التفسیر، ج ۱، ص۱۸۷؛ کلینی، الکافی، ج ۴، ص۲۲۳
کلینی، الکافی، ج ۴، ص۱۸۵ـ۱۸۶
کلینی، الکافی، ج ۴، ص۱۹۱؛ ابن‌حنبل، مسند، ج ۱، ص۳۰۷، ۳۲۹
کلینی، الکافی، ج۴، ص۱۹۱
کلینی، الکافی، ج ۴، ص۲۰۵
رجوع کنید به ازرقی، اخبار مکة، ص۳۱ـ۳۲؛ طبری، ج ۱، ص۲۵۱
کلینی، الکافی، ج ۱، ص۳۴۸
شہیدثانی، الروضۃ البہیۃ، ج ۲، ص۲۶۲؛ مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ، ج ۷، ص۱۶۶؛جزیری، ‌الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ج ۱، ص۶۵۵ـ ۶۵۸؛ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، ص۲۳۶
کلینی، الکافی، ج ۴، ص۴۰۲ـ۴۰۴؛ ابن‌بابویہ، مَن لایحضُرُہ الفقیہ، ج ۲، ص۵۳۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ۹۶، ص۲۱۶ـ۲۲۸
کلینی، الکافی، ج۴، ص۴۰۶؛ وسائل الشیعۃ، ج۱۳، ص۳۲۴
ازرقی، اخبار مکۃ، ص۲۳۴
مجلسی، بحارالانوار، ج ۹۶، ص۲۱۶ـ۲۱۷
ابن‌هشام، سیرۃ النبی، ج ۱، ص۱۲۷
ازرقی، اخبار مکۃ، ص۱۳۸ـ۱۴۰؛ مطر، تاریخ عمارۃ الحرم، ص۱۰۱ـ۱۰۲
محمد طاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۱؛ حسین عبداللہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۱۴
ازرقی، اخبار مکۃ، ص۱۴۰ـ۱۴۴؛ مطر، تاریخ عمارۃ الحرم، ص۱۰۳ـ۱۰۹
قطب‌راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۶۸
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳؛ محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۲؛ مطر، تاریخ عمارۃ الحرم، ص۱۰۹
محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۲
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳؛ محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۲ـ۲۶۴
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳؛ محمدطاهر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۲
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳؛ کردی، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۲
محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۳
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳؛ محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۳ـ۲۶۴؛ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۱۵ـ۱۱۸
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳ـ۱۹۴؛ محمدطاهر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۴
محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۴؛ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۱۹
فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳ـ۱۹۴؛ محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۴
ابن‌اثیر، الکامل، ج ۹، ص۳۳۲
ابن‌اثیر، الکامل، ج ۹، ص۳۳۲؛ فاسی، شفاء الغرام، ج ۱، ص۱۹۳ـ۱۹۴؛ محمدطاهر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۴؛ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۱۹ـ۱۲۰
محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۵
محمدطاہر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۵؛ حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ، ص۱۲۰
محمدطاهر کردی، التاریخ القویم، ج ۲، جزء۳، ص۲۶۵

مآخذ
ابن‌اثیر، الکامل.
ابن‌بابویہ، کتاب مَن لایحضُرُہ الفقیہ، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۴.
ابن‌حنبل، مسندالامام احمد بن‌حنبل، بیروت: دارصادر، [بی‌تا].
ابن‌ظہیرہ، الجامع اللطیف فی فضل مکۃ و اہلہا و بناء البیت الشریف، چاپ علی عمر، قاہرہ، ۱۴۲۳/۲۰۰۳.
ابن‌ہشام، سیرۃ النبی، چاپ محمد محیی‌الدین عبدالحمید، [قاہرہ] ۱۳۸۳/۱۹۶۳.
ازرقی، محمد بن‌عبداللّہ، کتاب اخبار مکۃ شرفہا اللّہ تعالی و ماجاء فیہا من الآثار، روایۃ اسحاق بن‌احمد خزاعی، در اخبار مکۃالمشرفۃ، ج ۱، گوتینگن، ۱۲۷۵.
جزیری، عبدالرحمان، کتاب ‌الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، استانبول، ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
حسین عبداللّہ باسلامہ، تاریخ الکعبۃ المعظمۃ: عمارتہا و کسوتہا و سدانتہا، چاپ یحیی حمزہ وزنہ، [قاہرہ] ۱۴۲۰/۲۰۰۰.
خربوطلی، علی حسنی، تاریخ الکعبۃ، بیروت، ۱۴۱۱/۱۹۹۱.
دہخدا، علی‌اکبر، لغتنامہ.
شہیدثانی، زین‌الدین ‌بن‌علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح‌اللمعۃ الدمشقیۃ، چاپ محمد کلانتر، نجف، ۱۳۹۸، چاپ افست قم، ۱۴۱۰.
عیاشی، محمد بن‌مسعود، کتاب التفسیر، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم ۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تہران، [بی‌تا].
فاسی، محمد بن‌احمد، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، [بی‌تا].
قطب راوندی، سعید بن‌ہبۃ اللّہ، الخرائج و الجرائح، قم، ۱۴۰۹.
کردی، محمدطاہر، التاریخ القویم لمکۃ و بیت‌اللّہ الکریم، بیروت، ۱۴۲۰/۲۰۰۰.
کردی، عبیداللہ محمّد امین، مکہ و مدینہ: تصویری از توسعہ و نوسازی، ترجمہ حسین صابری، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیت(ع).
کلینی، الکافی.
مجلسی، بحارالانوار.
مروارید، علی‌اصغر، «قوامیس الحج»، در الحج، اشرف علی جمع اصولہا الخطّیۃ و ترتیبہا حسب التسلسل الذمنّی و علی تحقیقہا و اخراجہا و عمل قوامیسہا علی‌اصغر مروارید، تہران: مرکز بحوث الحجّ والعمرۃ، ۱۴۰۶.
مطر، فوزیہ حسین، تاریخ عمارۃ الحرم المکی الشریف الی نہایۃ العصر العباسی الاول، جدہ، ۱۴۰۲/۱۹۸۲.
مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ: الجعفری، الحنفی، المالکی، الشافعی، الحنبلی، بیروت، ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
مقدس اردبیلی، احمد بن‌محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، چاپ مجتبی عراقی، علی پناہ اشتہاردی و حسین یزدی اصفہانی، ج ۷، قم، ۱۴۰۹.
Hughes, Thomas Patrick, A Dictionary of Islam, p. 154. W. H. Allen & Co, 1885.

Related Articles

Back to top button