امام مہدی علیہ السلاممقالات

امام مہدی علیہ السلام

محمد بن حسن (ولادت 255 ھ)، امام مہدی، امام زمانہ اور حجت بن الحسن کے نام سے مشہور، شیعہ اثنا عشریہ کے بارہویں امام ہیں۔ شیعہ کتابوں کے مطابق، آپؑ کی ولادت خفیہ رکھی گئی تھی اور امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا، کسی کو آپؑ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امامیہ کے عقیدہ کے مطابق امام مہدیؑ ہی آخر الزمان کے نجات دہندہ ہیں؛ جو طویل عمر کے مالک ہوں گے اور اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ غیبت میں گزاریں گے۔ آپؑ آخرکار اللہ کے ارادے سے ظہور کریں گے اور دنیا پر عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کریں گے۔

بعض شیعہ امام حسن عسکری ؑ کی شہادت کے بعد مختصر عرصے میں شک و تردید کا شکار ہوئے لیکن امام زمانہؑ کی توقیعات ـ جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں ـ مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔ امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ کے وسیلہ سے آپؑ کا رابطہ اپنے ماننے والوں کے ساتھ قائم تھا۔ لیکن سنہ 329 ھ میں جب غیبت کبری کا آغاز ہوا تو آپؑ کے ساتھ براہ راست رابطہ بھی منقطع ہوا۔

شیعہ مفسرین، معصومین سے منقول احادیث کی بنیاد پر بعض قرآنی آیات کو امام زمانہؑ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ رسول اللہؐ اور ائمہؑ سے متعدد احادیث امام زمانہؑ، آپ کی غیبت، ظہور اور حکومت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض حدیثی کتابیں انہی احادیث کی نقل اور جمع آوری کی غرض سے لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی کتب کے علاوہ بہت سی دوسری کتب بھی امام زمانہؑ سے متعلق موضوعات پر شائع ہوئی ہیں۔

مختلف علاقوں میں بہت سے مقامات آپ سے منسوب ہیں، جیسے سامرا میں سرداب غیبت، کوفہ کی مسجد سہلہ میں مقام امام مہدیؑ اور قم کے مضافات میں مسجد جمکران وغیرہ۔

عصر غیبت میں امام زمانہؑ کے ساتھ ارتباط برقرار کرنے کے لئے بہت سی دعائیں اور اذکار نقل ہوئی ہیں۔ شیعہ علماء نے امام زمانہؑ کے ساتھ بعض افراد کے دیدار کے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں۔

امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف
مسجد جمکران گنبد و گلدسته.jpg
مسجد جمکران قم
منصب شیعوں کے بارہویں امام
نام محمد بن حسن
کنیت ابو القاسم، ابا صالح
القاب مہدی، بقیۃ اللہ، قائم آل محمد، صاحب الزمان
جائے ولادت سامراء
مدت امامت ابھی جاری ہے
والد ماجد امام حسن عسکری ؑ
والدہ ماجدہ نرجس خاتون
عمر بقید حیات

نام، کنیت، لقب

شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد، احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں، لیکن آپؑ شیعیان اہل بیت کے درمیان مہدی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آپؑ کے القاب میں سے ایک ہے۔[1] متعدد احادیث کے مطابق آپؑ، رسول اللہؐ کے ہم نام ہیں۔[2] بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ ـ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی اور شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین ـ میں آپؑ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د” لکھا ہوا ملتا ہے۔[3] اس ابہام نویسی کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آپؑ کا نام لینے سے منع کیا گیا ہے۔[4]

  • حرمتِ تسمیہ
تفصیلی مضمون: تسمیۃ المہدی

شیعہ منابع حدیث میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں بارہویں امامؑ کا نام لینے سے منع کرتے ہوئے حرام قرار دیا گیا ہے۔ [5] اس حوالے سے شیعہ علماء کے یہاں دو قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں:

  1. پہلا نظریہ سید مرتضی، فاضل مقداد، محقق حلی، علامہ حلی اور کئی دیگر علماء کا ہے جن کی رائے کے مطابق یہ حرمت صرف تقیہ کے زمانے تک محدود ہے؛
  2. دوسرا نظریہ میر داماد اور محدث نوری وغیرہ کا ہے جن کے خیال میں حرمت کا یہ حکم ظہور تک جاری اور برقرار ہے۔[6]
  • کنیت اور القاب

مختلف حدیثی، تاریخی، کلامی منابع اور دعا و زیارات میں شیعیانِ آل رسول کے بارہویں امام بہت سارے القاب اور کنیت سے متعارف کرائے گئے ہیں؛ جن میں مہدی، قائم، صاحب الزمان، منتَظَر، حجت اللہ، بقیۃ اللہ، منتقم، موعود، خاتم الاوصیا، غائب، مأمول، اور مضطر مشہور ترین القاب اور ابو صالح، ابو القاسم، (رسول اللہؐ کے ہم کنیت)،ابو عبداللہ، ابو جعفر، ابو ابراہیم اور ابو الحسن مشہور کنیتیں ہیں۔ شیعہ امام رضاؑ[7] کی پیروی کرتے ہوئے جب بھی آپ کا نام سنتے ہیں تو احترام میں اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

امام زمانہؑ کے لئے بہت سے دیگر اسماء، القاب اور کنیتیں منقول ہیں۔ نمونے کے طور پر میرزا حسین نوری کی کتاب نجم الثاقب میں امام عصرؑ کے 182 اسماء یا القاب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ محدث نوری، النجم الثاقب میں لکھتے ہیں کہ تمام معتبر اسامی اور القاب کو جمع کیا ہے اور شخصی نظریات اور غیر معتبر تحقیقات سے اجتناب کیا ہے وگرنہ مختلف کتابوں سے کئی گنا اسامی اور القاب نکالے جا سکتے تھے۔ اسی طرح نام نامہ حضرت مہدیؑ نامی کتاب میں 310 اسماء اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

محدث نوری کی کتاب نجم الثاقب میں موجود آپؑ کے اسماء کی فہرست: "احمد، ابو القاسم، ابو صالح، امیر الامرۃ، بقیۃ اللہ، بلد الامین، برہان اللہ، بقیۃ الانبیاء، حجۃ، حق، خاتم الاوصیاء، خاتم الائمہ، خلف یا خلف الصالح، خلیفۃ اللہ، خلیفۃ الاتقیاء، داعی، سدرۃ المنتہٰی، صاحب الغیبۃ، صاحب الزمان، صاحب الرجعۃ، صاحب الدّار، صاحب العصر، صاحب الکرۃ البیضاء، صالح، صاحب الامر، عین یا عین اللہ، غائب، غلام، قائم، کاشف الغطاء، منتقم، مہدی، عبداللہ، موعود، منتظر، مضطر، وارث”[8]۔[9]

بارہویں امامؑ کے اسماء اور القاب اہل سنت مآخذ میں بھی نقل ہوئے ہیں؛ گوکہ ان مآخذ میں زیادہ تر "مہدی” کے عنوان سے استفادہ کیا گیا ہے اور دوسرے القاب اور خصوصیات کو کم ہی ذکر کیا گیا ہے۔ آپؑ کا لقب قائم اہل سنت کے مآخذ میں کم ہی ملتا ہے۔ ان القاب میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

  1. مہدّی ہذه الامّہ
  2. المہدی فی الأرض والمہدی فی السّماء
  3. مہدی الخیر
  4. مہدی عبد اللّه
  5. الإمام
  6. آخر الأئمّہ
  7. خلیفۃ اللّه
  8. خلیفۃ بنی هاشم
  9. خلیفۃ
  10. ولی اللّه
  11. الأمیر
  12. أمیر الطائفہ
  13. امیر النّاس
  14. خیرة اللّه فی خلقہ
  15. خیر امّة محمّد
  16. خیر النّاس
  17. خیر أہل الأرض
  18. ذخیرة الأنبیاء
  19. یعسوب الامّہ
  20. الرّجل الصالح
  21. صالح من مضی
  22. العدل المبارک الزکی
  23. المنصور
  24. الہاشمی
  25. العائذ بالبیت
  26. السفاح[10]

خاندان

  • امام زمانہؑ کے والد ماجد

مفصل مضمون: امام حسن عسکریؑ

شیعہ عقیدے کے مطابق امام زمانہؑ کے والد ماجد گیارہویں امام، حضرت امام حسن عسکریؑ ہیں، اہل سنت نے بعض احادیث کے حوالے سے امام زمانہؑ کے والد کا نام عبداللہ ذکر کیا ہے لیکن شیعہ علماء نے انہیں ضعیف گردانا ہے۔[11]

  • امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ

مفصل مضمون: امام زمانہؑ کی والدہ

امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ کے متعدد نام ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے: نرجس، سوسن، صقیل یا صیقل، حدیثہ، حکیمہ، ملیکہ، ریحانہ و خمط۔[12] امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ کے حالات زندگی کے بارے میں منقولہ روایات کو مجموعی طور پر چار قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  1. شیخ صدوق نے کمال الدین و تمام النعمۃ میں روایت نقل کرتے ہوئے انہیں رومی شہزادی قرار دیا ہے؛[13]
  2. بعض دیگر روایات میں ان کے حالات زندگی کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا گیا ہے کہ امام زمانہؑ کی والدہ حکیمہ بنت امام جوادؑ کے گھر میں پرورش پا چکی ہیں؛[14]
  3. تیسری قسم کی روایات کے مطابق، جنہیں مسعودی نے اثبات الوصیہ میں نقل کیا ہے،[15] بارہویں امامؑ کی والدہ گیارہویں امام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کے گھر میں پروان چڑھی ہیں اور اسی گھر میں پیدا بھی ہوئی ہیں۔
  4. چوتھی قسم اور دیگر تین قسموں کے درمیان بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ سیاہ فام اُمِّ وَلَد تھیں۔[16] تین قسموں کی روایات بہرصورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں لیکن چوتھی قسم کی روایات کو ان روایات کے ساتھ یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ بایں حال، بعض علماء نے چاروں قسموں کی روایات کو ہمآہنگ کرنے کے لئے کہا ہے کہ مؤخر الذکر روایت کی بالواسطہ یا امام زمانہؑ کی والدہ کی مُرَبِّیہ کے طور پر، توجیہ کی جا سکتی ہے۔[17]
  • امام زمانہؑ کے والد کی پھوپھی

مفصل مضمون: حکیمہ بنت امام جواد

جناب حکیمہ خاتون امام جوادؑ کی بیٹی اور امام حسن عسکریؑ کی پھوپھی، چار ائمہ کے ہم عصر اور شیعہ مآخذ کے مطابق امام زمانہؑ کی ولادت با سعادت کی راوی ہیں۔ امام زمانہؑ کی والدہ ان کے گھر میں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوئی ہیں اور امام زمانہؑ کی ولادت با سعادت کی بہت سی روایات ان ہی سے نقل ہوئی ہیں۔[18]

  • امام زمانہؑ کی دادی

مفصل مضمون: امام زمانہؑ کی دادی

امام زمانہؑ کی دادی اور امام حسن عسکریؑ کی والدہ ماجدہ ہیں جنہیں روایات میں اسی نام سے پکارا گیا ہے: امام زمانہؑ کی دادی۔ مآخذ کے مطابق امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد، شیعیان اہل بیت کے امور ان ہی کے سپرد تھے اور انھوں نے تشیّع کے تحفظ میں اہم کردا ادا کیا ہے۔[19]

  • جعفر کذاب

مفصل مضمون: جعفر بن علی الہادی

جعفر بن محمد امام زمانہؑ کا چچا تھا جس نے امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد، امامت کا دعوی کیا اور اسی بنا پر جعفر کذاب کہلایا۔ حدیث کی کتابوں میں اسے فسق و فجور میں مبتلا اور گناہان کبیرہ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اس نے نہ صرف امامت کا دعوی کیا اور امام حسن عسکریؑ کے جانشین کو جھٹلایا، بلکہ وقت کے حکمرانوں کو بارہویں امام کے خلاف اکسایا۔[20] بعض روایات کے مطابق وہ اپنی عمر کے آخری ایام تک اپنے دعوے پر اصرار کرتے ہوئے اپنے آپ کو امام سمجھتا رہا؛ تا ہم بعض دوسری روایات کے مطابق، اس نے اپنے دعوے کو ترک کرکے توبہ کی اور شیعہ اس کو جعفر کذاب کے بجائے جعفر تائب [یا جعفر تواب] کہہ کر پکارتے تھے۔ جعفر کذاب نے 45 سال کی عمر میں سامرا کے مقام پر وفات پائی۔[21]

  • بہن بھائی، زوجہ اور اولاد

ان آخری سالوں کے دوران امام زمانہ کی غیبت کبرا کے دوران انکی کی بیوی اور اولاد کے متعلق شیعہ کتب میں بحث چھیڑ گئی جبکہ یہ بحث پہلی کتب میں موجود نہیں تھی۔اس سلسلے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں:

پہلا: علامہ مجلسی اور سید محمد صدر چند روایات اور ادعیہ سے استناد کرتے ہوئے امام زمانہ کی بیوی اور اولاد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

دوسرا: شادی اور اولاد کے نظریے کے مخالف کہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو امام کا ہم سے پوشیدہ رہنا ممکن نہیں ہے جبکہ آپ کی غیبت میں امام ہم سے پوشیدہ رہنا ہی غیبت ہے۔ نیز وہ اس استدلال کیلئے ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں غیبت کے زمانے میں امام کی بیوی اور اولاد کا نہ ہونا مذکور ہے۔

تیسرا: سید جعفر مرتضی عاملی اس قضیے کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سکوت کو ترجیح دیتے ہیں۔[22]

ولادت امام زمان

  • وقت ولادت

امام زمانہؑ کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض متقدم مآخذ نے آپؑ کی تاریخ ولادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور اس کو خفیہ قرار دیا ہے۔[23] لیکن بہت سی شیعہ اور بعض سنی روایات میں ہے کہ امام دوازدہمؑ سنہ255ھ [24] یا 256ھ ق[25] میں متولّد ہوئے ہیں۔

امام زمانہؑ کی ولادت کے مہینے کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن قول مشہور شعبان المعظم پر تاکید کرتا ہے اور بہت سے قدیم شیعہ مآخذ میں بھی ماہ شعبان ہی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔[26] اس کے باوجود بعض شیعہ[27] اور سنی[28] مآخذ کے مطابق آپؑ کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کے بعض مآخذ[29] نے ربیع الاول اور ربیع‌الثانی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے۔

تاریخی مآخذ میں بارہویں امام کی تاریخی ولادت کے بارے میں گیارہ مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں پندرہ شعبان والی تاریخ زیاده مشہور ہے۔[30] شیعہ علماء کے درمیان کلینی، مسعودی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، فتال نیشابوری، امین الاسلام طبرسی، سید ابن طاؤس، ابن طقطقی، علامہ حلی، شہید اول، کفعمی، شیخ بہائی وغیرہ، اور اہل سنت کے علماء میں سے ابن خلکان، ابن صباغ مالکی، شعرانی حنفی، ابن طولون، اور دوسروں نے اسی قول کو نقل کیا ہے۔ نو ربیع الاول،[31] 19 ربیع الاول،[32] 9 ربیع الثانی،[33] یکم رجب،[34] 23 رمضان،[35] 3 شعبان اور 8 شعبان[36] کو سنی مآخذ نے نقل کیا ہے اور شب جمعہ یکم رمضان یا رمضان کی ایک شب جمعہ کو شیخ صدوق نے کمال الدین میں نقل کیا ہے۔[37]

  • تفصیلی واقعہ
امام زمانہؑ کی ولادت کے سلسلے میں مشہور روایت وہی ہے جو امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون نے نقل کی ہے۔ شیخ صدوق حکیمہ خاتون کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"امام حسن عسکریؑ نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا: پھوپھی جان! آج ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ نیمہ شعبان کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا: نرجس خاتون۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں، ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا: بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
کہتی ہیں:

میں آئی ، سلام کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میرے جوتے اٹھا لئے اور مجھ سے کہا: اے میری سیدہ اور میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے اس کلام سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں: پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: میری بیٹی! خداوند متعال تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے نماز ادا کی، روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز (تہجد) کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛ جبکہ نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز (تہجد) بجا لا کر سوگئیں۔
جناب حکیمہ خاتون مزید کہتی ہیں:

میں باہر آئی اور فجر کی تلاش میں آسمان کی طرف دیکھا؛ دیکھا کہ فجر اول طلوع کرچکی ہے اور وہ ابھی سو رہی ہیں۔ شک میرے دل پر عارض ہوا۔اچانک ابو محمد نے اپنے کمرے سے صدا دی: پھوپھی جان! عجلت سے کام مت لیں، کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔
کہتی ہیں:

میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تلاوت میں مصروف ہوئی۔ اسی اثناء میں نرجس ہراساں سی ہوکر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟ کہنے لگیں: پھوپھی جان! ہاں محسوس کررہی ہوں۔ میں نے کہا: اپنے پر قابو کرو اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ وہی ہونے جارہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں: مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا اور اپنے سید و سردار (امام عسکریؑ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور اچانک میں نے اپنے سید و سرور (نرجس کے فرزند) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آپؑ کے سجدہ کے ساتوں اعضاء [پیشانی، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھے) زمین پر تھے]۔ میں نے آپؑ کو آغوش میں لیا اور دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔
ابو محمد نے فرمایا:

پھوپھی جان! میرا فرزند میرے پاس لائیں، میں آپؑ کو امامؑ کے پاس لے گیی؛ امامؑ نے اپنے پاؤں کو پھیلایا اور فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آپؑ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آپؑ کی آنکھوں، کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا ؛
اور فرمایا:

اے میرے فرزند! بولو۔ چنانچہ آپؑ نے کہا:
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہِ بعدازاں امیرالمؤمنینؑ اور دوسرے ائمہ معصومینؑ کو درود و سلام کا ہدیہ بھیجا، حتی کہ آپؑ کے والد کی باری آئی تو زبان روک لی۔[38]

ولادت کا مخفی ہونا

خلفائے بنی عباس، پیغمبرؐ اور ائمہؑ کی روایات و احادیث کی رو سے بخوبی جانتے تھے کہ بارہویں امام "مہدی” ہی ہیں؛ چنانچہ انھوں نے امام حسن عسکریؑ اور آپؑ کے گھر پر پہرےدار متعین کئے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ معتمد عباسی نے دائیوں کو حکم دیا تھا کہ کبھی کبھی ناگہانی طور پر اور بن بلائے سادات کے گھروں ـ خاص طور پر امام حسن عسکریؑ کے گھر ـ میں داخل ہوجایا کریں اور گھروں کی تلاشی لیا کریں اور آپؑ کی زوجہ مکرمہ کے حالات سے آگاہ ہوکر دربار کو خبر دیا کریں۔[39] ایک کنیز بنام "ثقیل” نے ـ گویا امام زمانہؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر حاملگی کا دعوی کیا تھا جس کو دو سال تک نظر بند رکھا گیا او رجب حکومت وقت اس کی عدم حاملگی سے مطمئن ہوئی، تو اس کو رہا کردیا۔[40]

ولادت امام زمانہؑ کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔ روایات میں[41] بھی اس موضوع اور اس کے دلائل کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں: "ہمارے قائم کی ذات میں انبیا کی سنتیں ہیں۔۔۔۔ ولادت کا مخفی ہونا اور ان کا لوگوں سے دور رہنا ابراہیمؑ کی سنت ہے۔[42] نیز امام صادقؑ فرماتے ہیں: "صاحب الامر کی ولادت خلائق سے پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ظہور کریں ولادت مخفی بھی اس لئے ہی تاکہ آپؑ پر کسی کی بیعت نہ ہو”۔[43]

شیخ مفید کی رائے ہے کہ "اس دور کے مشکلات و مسائل اور اللہ کی آخری حجت کی ولادت کی خبر پانے کے لئے سلطان وقت کی وسیع تلاش اور بےتحاشا کوششوں کے پیش نظر، آپؑ کی ولادت کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔۔۔۔[44]

تاریخ میں ولادت کا خفیہ رکھا جانا بے مثال نہیں ہے بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ولادت کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا کیونکہ بادشاہ وقت کی طرف سے ان کے قتل کئے جانے کا خدشہ تھا۔[45] یا پھر قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7 سے 13 تک میں موسی بن عمرانؑ کی ولادت کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کی ولادت کو خفیہ رکھے جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

  • ولادت کے چشم دید گواہ

جناب حکیمہ خاتون کے علاوہ، امام حسن عسکریؑ کی دو کنیزیں نسیم اور ماریہ بھی آپؑ کی ولادت کے عینی شاہدین میں شمار ہوتی ہیں۔ شیخ صدوق اور شیخ طوسی نقل کرتے ہیں: نسیم اور ماریہ کہتی ہیں کہ "صاحب الزمانؑ ماں کے بطن سے دنیا میں آئے تو آپؑ نے دونوں گھٹنے زمین پر رکھے اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں آسمان کی طرف بلند کیں اور پھر آپ نے چھینک ماری اور فرمایا:الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمینَ واَلحُمُدُ لِلّهِ رَبَّ العالَمینَ وَصَلَّی اللهُ عَلی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ وَآلِهِ۔ ستمگر سمجھ بیٹھے ہیں کہ گویا اللہ کی حجت فنا ہوچکی ہے۔ اگر ہمیں کلام کرنے کا اذن ہوتا تو شک زائل ہوجاتا”۔[46]

اہل سنت کی روایت

اہل سنت کے علماء کے درمیان، بعض نے امام زمانہؑ کی ولادت کا واقعہ نقل کیا ہے لیکن آپؑ کے موعود ہونے کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے: ابن اثیر (متوفیٰ 630 ھ) اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں،[47] ابن خلکان (متوفیٰ 681 ھ) وفیات الاعیان میں،[48] اور ذہبی (متوفیٰ 748 ھ) العبر میں۔

بعض دیگر نے ولادت کے واقعے کو بھی بھی نقل کیا ہے اور آپؑ کے موعود ہونے پر بھی تصریح کی ہے: ابن طلحہ شافعی (متوفیٰ 652 ھ) مطالب السؤول میں[49] اور ابن صباغ مالکی (متوفیٰ 855 ھ) الفصول المہمہ میں۔[50]

طفولیت

امام زمانہؑ کی ولادت کے بعد بعض خاص شیعہ اکابرین ـ جو امام حسن عسکریؑ کے معتمدین میں شامل تھے ـ نے آپؑ کا دیدار کیا ہے؛ جن میں محمد بن اسمعیل بن موسی بن جعفر، حکیمہ خاتون، ابو علی بن مطہر، عمرو اہوازی اور گیارہویں امامؑ کے خاندانی خادم ابو نصر طریف، شامل ہیں جو بارہویں امامؑ کے دیدار کا شرف پا سکے ہیں۔[51]

محمد بن عثمان عمری 40 افراد کی معیت میں امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں حاضر تھے۔ امامؑ نے انہیں اپنے فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا:

هَذَا إِمَامُکُمْ مِنْ بَعْدِی وَخَلِیفَتِی عَلَیْکُمْ أَطِیعُوهُ وَلَا تَتَفَرَّقُوا مِنْ بَعْدِی فِی أَدْیَانِکُمْ فَتَهْلِکُوا أَمَا إِنَّکُمْ لَا تَرَوْنَهُ بَعْدَ یَوْمِکُمْ هَذَا
یہ میرے بعد تمہارے امام ہیں اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں، ان کی اطاعت کرو اور اپنے دین میں اختلاف نہ کرو کیونکہ اس صورت میں ہلاک ہوجاؤگے اور آج کے بعد تم انہیں ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔[52]

اسی روایت سے مشابہ ایک روایت شیخ طوسی نے نقل کی ہے اور علی بن بلال، احمد بن ہلال، محمد بن معاویۃ بن حکیم اور حسن بن ایوب بن نوح جیسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آپؑ کا دیدار کیا ہے۔[53] نیز کلینی نے بھی ضوء بن علی عِجْلی سے روایت کی ہے کہ ایک فارسی مرد نے کہا:

میں امام حسن عسکریؑ کے گھر میں خدمت کے لئے سامرا چلا گیا اور امامؑ نے مجھے گھر کے لئے ضروری اشیاء کی خریداری کی ذمہ دار سونپ دی۔ ایک دن امامؑ نے مجھے اپنے (دو سالہ) فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا:هذا صاحبكمضو‏‏ء بن علی مزید کہتے ہیں:اس فارسی مرد نے کہا:اس کے بعد امام حسن عسکریؑ کی شہادت تک میں نے پھر اس طفل کو کبھی نہیں دیکھا”۔[54]

شیخ مفید نے بھی ابو عمر عثمان بن سعید سمان اور ان کے بیٹے ابو جعفر محمد بن عثمان کو ان لوگوں کے زمرے میں شمار کیا ہے جنہوں نے امام حسن عسکریؑ کی حیات میں امام عصرؑ کا دیدار کیا ہے۔ نیز نصیبین کے خاندانوں "بنو الرحبا” اور "بنو سعید”، اہواز کے خاندان "بنو مہزیار”، کوفہ کے خاندان "بنو الرکولی” اور بغداد کے خاندان "بنو نوبخت” کے کئی اشخاص کے علاوہ قزوین، قم اور "منطقۂ جبال” کے بعض باشندوں نے امام عسکریؑ کے دوران حیات میں بارہویں امامؑ کا دیدار کیا ہے۔[55]

امام حسن عسکریؑ کے ایام حیات میں آپؑ کے فرزند کا نام لینا ممنوع تھا اور امامؑ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ آپؑ کو اَلْحُجَّةُ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ کے عنوان سے پکارا جائے۔[56]

بنی عباس کا رد عمل

خلیفہ وقت معتمد عباسی کو امام حسن عسکریؑ کی بیماری کی خبر ملی تو اس نے اپنے 5 قابل اعتماد افسروں کو امامؑ کے گھر کی نگرانی پر متعین کیا اور اپنے قاضی القضاۃ کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے 10 قابل اعتماد افراد کو امامؑ کی نگرانی کے لئے تعینات کرے۔[57]

امام حسن عسکریؑ نے اپنی وصیت میں اپنے تمام اموال کو اپنی والدہ ماجدہ "حُدَیث خاتون” کے نام کیا گوکہ بنی عباس نے تمام اموال آپؑ کی والدہ کو ملنے نہیں دیئے اور نصف اموال پر عباسیوں کی مدد سے جعفر نے قبضہ کیا۔[58]

امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد، عباسی خلیفہ نے ایک گروہ کو آپؑ کے گھر بھیجا جنہوں نے آپؑ کے گھر اور اموال کو مقفل کردیا؛ آپ کے فرزند کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور کنیزوں کا بھی دائیوں سے معائنہ کروایا کہ کہیں ان میں سے کوئی حاملہ نہ ہو[59] اور ثقیل نامی کنیز کو حاملگی کے شبہ کی بنا پر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور دو سال تک نظر بند رکھا اور بعدازاں رہا کردیا۔[60]

امام زمانہؑ کی عمر

امام زمانہؑ سنہ 255ھ میں پیدا ہوئے جس کے بعد آج تک بارہ صدیاں گذر رہی ہیں۔ عمر کی یہ طوالت انسانوں کی معمولی عمر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ شیعہ متکلمین نے امام زمانہؑ کی عمر کی طوالت کی عام انسانوں کے عمر سے عدم مطابقت کے سلسلے میں اٹھنے والے سوالات کے مختلف جوابات دیئے ہیں:

تجرباتی جوابات
بعض متکلمین نے سائنسدانوں کی تجرباتی حصول یابیوں سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ طویل عمر ممکن ہے۔ مثلا لطف اللہ صافی گلپایگانی نے مغربی سائنسدانوں کے متعدد اقوال نقل کئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انسان 800 سے 1000 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔[61]

  • عقلی جوابات
وقوع کا امکان:
  • اعجاز: امام زمانؑ کی عمر کی طوالت اعجاز کی بنا پر ہے اور خوارق عادات میں سے ہے۔
  • اللہ کا ارادہ انسان کی عمر کی طوالت اور دوام پر ٹھہر سکتا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
  • انسان کا نفس جسم کا انتظام کرتا ہے اور اس پر تسلط رکھتا ہے۔ اگر انسان کا نفس اس قدر طاقتور ہو جو انتظام کے ساتھ جسم پر ولایت بھی رکھتا ہو۔ تو وہ انسان کے جسم کو طویل عرصے تک زندہ رکھ سکتا ہے۔
  • بقائے انسان میں ذاتی طور پر ممکن ہے اور عدم بقا عارض ہونے والے امور کا نتیجہ سمجھی جاتی ہے۔ عارضی امور بھی ممکن العدم ہیں [اور ان کا نہ ہونا اور معدوم ہو جانا، ممکن ہے] تو اگر عارضی امور و اسباب نہ ہوں تو بقاء حاصل ہے۔
  • نبی عزیرؑکا طعام و شراب، سو سال گذرنے کے باوجود باقی اور تر و تازہ تھا حالانکہ اس میں روح بھی نہیں تھی، انسان صاحب روح ہے چنانچہ اس کو بطریق اولی و اقوی، معمول کی عمر سے زیادہ طویل عمر کا حامل ہونا چاہئے۔
  • تاریخی روایات اور ان کے واقع ہونے کے پیش نظر، ایک شئی کے امکان کی اعلی ترین دلیل اس کا واقع ہونا ہے۔ [مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ادریس، حضرت الیاس، حضرت خضر اور حضرت عیسی علیہم السلام زندہ ہیں جبکہ ان کی عمریں امام زمانہؑ کی عمر سے کئی گنا زیادہ طویل ہے]۔

تاریخی نمونے
"ابو حاتم سجستانی” نے اپنی کتاب المعمرون والوصایا میں ان افراد کا تذکرہ کیا جن کی عمر غیر معمولی اور بہت طویل تھیں۔ شیعہ متکلمین میں شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں، کراجکی نے البرہان علی صحۃ طول عمر الامام الزمان میں طول عمر سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لئے "باب المعمرین” میں دسیوں معمر افراد کا تذکرہ کیا ہے۔

آسمانی کتب
تورات[62]، انجیل اور قرآن میں ایسے انسانوں کا تذکرہ آیا ہے جن کی عمریں بہت طولانی اور غیر معمولی تھیں۔ قرآن نے حضرت نوحؑ کی دعوت کا عرصہ 950 سال بتایا ہے۔[63] اور سابقہ امتوں میں طویل زندگیوں کی خبر دی ہے۔[64]

روایات
بعض روایات و احادیث میں بھی امام زمانہؑ کی طویل عمر کی طرف اشارے ہوئے ہیں؛ منجملہ: امام سجادؑ نے فرمایا ہے کہ "ہمارے قائم کے پاس پیغمبروں کی بعض سنتیں ہیں ۔۔۔ آدم اور نوح سے آپؑ کو ملنے والی سنت طویل العمری ہے۔۔۔[65]

امام صادقؑ بھی امام زمانہؑ کو ابراہیمؑ سے تشبیہ دیتے ہیں جو 120 سال کی عمر میں 30 سالہ نوجوانوں کی طرح تھے۔[66]

امام حسن مجتبیؑ سے مروی ہے کہ خداوند متعال میرے بھائی امام حسینؑ کے نویں فرزند کو طویل عمر عطا فرمائے گا اور پھر آپؑ کو اپنی قدرت سے 40 سال سے کم عمر کے نوجوان کی صورت میں ظاہر فرمائے گا۔[67]

امام زمانہؑ کا مسکن

امام زمانہؑ کے مسکن اور مقام رہائش سے متعلق بحث کو غیبت صغری سے قبل ، غیبت صغری، غیبت کبری، عصر ظہور اور قیام اور حکومت کے مراحل کے تناظر میں دیکھا جائے گا؛ چنانچہ ان تمام ادوار میں آپؑ کا مقام رہائش مختلف ہے۔ یہاں غیبت صغری سے پہلے اور اس کے دوران آپؑ، آپؑ کی رہائش کو تاریخی قرائن و شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور دوسرے مراحل کے بارے میں روایات اور امکانی ملاقاتوں اور شرف یابیوں سے استناد کیا جائے گا:

  • مقام ولادت اور غیبت سے قبل کا دور

امام مہدیؑ تاریخ ولادت سے لے کر غیبت صغری تک اپنے مولد "سامرا” میں ہی سکونت پذیر تھے۔ اس دوران سرداب میں عبادت، اور زندگی بسر، کر رہے تھے۔ بعض روایات کے مطابق آپؑ اپنے والد ماجد کی حیات میں کئی بار سرداب میں دیکھے گئے ہیں۔[68] بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپؑ نے والد ماجد کے زمانے میں آپؑ کے ہمراہ حج کے مناسک میں شرکت کی اور پھر مدینہ میں روپوش ہوئے۔[69] یہ روایت شیعہ تاریخی مآخذ کے ساتھ کچھ زیادہ ہمآہنگ نہیں ہے۔[70]

  • سکونت، غیبت کے دوران

بعض روایات اشارہ کرتی ہیں کہ غیبت کے دوران آپؑ کا مسکن نامعلوم ہے۔ اس کے باوجود بعض دیگر روایات کے مطابق آپؑ ذی طوی[71]، کوہ رضوی[72] اور طیبہ (مدینہ)[73] میں سکونت رکھتے ہیں۔ چونکہ غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ آپؑ کے ساتھ رابطے میں تھے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غیبت کا ایک عرصہ آپؑ نے عراق میں گذارا ہے۔ بعض مآخذ نے ایک داستان کی رو سے، لکھا ہے کہ آپؑ غیبت کبری کے زمانے میں جزیرہ خضراء میں سکونت پذیر ہیں۔[74] جس کو بعض شیعہ علماء نے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے نقد میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔[75]

ابن قیم جوزی اور ابن خلدون نے الزام لگایا ہے کہ "شیعہ” معتقد ہیں کہ امام زمانہؑ غیبت کے دوران سرداب میں رہتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے۔[76] لیکن شیعہ اعتقادی کتب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ نہیں ملتا اور ان کے نزدیک اس مقام کے تقدس کا سبب یہ ہے کہ یہ امام عسکریؑ کے زمانے میں بارہویں امامؑ کا مسکن اور مقام عبادت تھا۔

  • ظہور اور قیام نیز مقام حکومت اور (مسکن بعد از ظہور)

امام زمانہؑ کہاں ظہور کریں گے؟ اس بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپؑ ذی طوی میں ظہور کریں گے؛ پھر اپنے 313 صحابیوں کے ساتھ مکہ پہنچیں گے اور حجر الاسود سے ٹیک لگائیں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے۔[77] اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کے مطابق،[78] امام زمانہؑ کے قیام (تحریک) کا آغاز مسجد الحرام سے ہوگا اور اصحاب رکن اور مقام کے درمیان آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔[79] بعض روایات میں تہامہ کو امام زمانہؑ کی تحریک کا نقطۂ آغاز جانا گیا ہے۔[80] مکہ اور مکہ شمالی تہامہ کا جزء اور مرکز ہے۔[81]

بعض روایات میں، کرعہ[82] کو امامؑ کے مقام خروج کے عنوان سے متعارف کرایا گیا جو بظاہر یمانی کے قیام کے ساتھ اشتباہ کا نتیجہ ہے جو یمن سے اٹھیں گے۔[83] اہل سنت کے مؤلف محمد بن احمد القرطبی، کا کہنا ہے کہ آپؑ مغرب الاقصی[84] سے اٹھیں گے اور قاضی نعمان مغربی، مراکش[85] کو نقطۂ خروج و ظہور قرار دیتے ہیں لیکن یہ ساری روایات بارہویں امام کے آغاز انقلاب سے متعلق شیعہ روایات سے سازگار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں مقام ظہور کو سفیانی کے مقام خروج سے مشتبہ ہو گیا ہو۔[86]

بعض روایات، شہر کوفہ کو دارالحکومت[87]، مسجد کوفہ کو فیصلوں کا مقام[88]، مسجد سہلہ کو امامؑ کا مسکن[89] اور آپؑ کے ہاتھوں بیت المال کی تقسیم کا مقام[90] قرار دیتی ہیں۔

امام زمان سے منسوب مقامات

بعض مقامات امام مہدیؑ سے منسوب ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ شیعہ غیبت کبری کے زمانے میں آپؑ سے راز و نیاز کرنے کے لئے ان مقامات پر حاضر ہوتے ہیں:

  • سرداب غیبت: یہ مقام (سامرا میں ہے جو) امام ہادی، امام عسکری اور امام زمانہؑ کی عبادت گاہ رہی ہے۔
  • مسجد سہلہ: کوفہ میں واقع یہ مسجد امام زمانہؑ سے منسوب ہے اور اس کے درمیانی حصے میں مقامِ حضرت یونسؑ اور مقامِ حضرت سجادؑ واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق، امام زمانہؑ ظہور کے بعد اسی مسجد میں سکونت پذیر ہوں گے۔[91]
  • ذی طُوٰی: مکہ کے ایک علاقے کا نام ہے جو حرم کی حدود میں واقع ہے اور بعض روایات کے مطابق حضرت مہدیؑ اس علاقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں[92] اور ب‏ض روایات کے مطابق، آپؑ کا مقام ظہور اور آپؑ کے اصحاب و انصار کے اکٹھے ہونے کا مرکز بھی یہی علاقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ امامؑ کے کعبہ سے قیام و تحریک شروع کرنے سے قبل، اس علاقے میں اپنے 313 اصحاب کے منتظر ہوں گے۔[93]
  • کوہ رضوا: بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانہؑ غیبت کے زمانے میں کوہ رضوٰی سکونت پذیر ہیں۔[94] مکہ و مدینہ کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔[95]
  • وادی السلام: جو نجف میں واقع قبرستان کا نام ہے؛ اور اس قبرستان میں ایک مقام "مقام امام زمانہؑ” کے عنوان سے موجود ہے۔ اس مقام پر گنبد و بارگاہ بھی ہے جس کو سندھ کے بادشاہ وقت "سید محمد خان” نے سنہ 1310ھ ق میں تعمیر کرایا ہے۔ اس سے قبل والی عمارت تعمیر نو سید بحرالعلوم (متوفیٰ سنہ 1212ھ ق) نے کرائی تھی۔ مقام حضرت مہدیؑ کے محراب میں ایک پتھر پایا جاتا ہے جس پر ایک زیارت نامہ کندہ کیا گیا ہے۔ اس پتھر پر کندہ کاری کا کام 9 شعبان سنہ 1200ھ ق کو مکمل ہوا ہے۔
  • جزیرہ خضرا: یہ ایک مقام کا نام ہے جو بعض روایات کے مطابق، امام زمانہؑ کے فرزندوں کا مقام رہائش ہے۔ اس جزیرے کی داستان بعض مآخذ میں مندرج ہے اور اس کے بارے میں دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں؛ بعض نے اس داستان کو قبول کیا ہے اور بعض نے افسانہ جانا ہے اور کتب لکھ کر اس پر تنقید کی ہے۔
  • طیبہ: یہ بھی بعض روایات کی رو سے عصر غیبت میں امام زمانہؑ کے مقام سکونت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ طیبہ سے مراد مدینہ ہی ہے۔[96]
  • مسجد جمکران: یہ مسجد قم کے نواح میں جمکران نامی گاؤں میں واقع ہے اور ایک قول کے مطابق امام زمانہؑ کے حکم پر حسن بن مثلہ جمکرانی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی ہے۔

ظاہری اور اخلاقی خصوصیات

شیعہ اور سنی کتب احادیث نے امام مہدیؑ کی دینی و اخلاقی خصوصیات اور ظاہری اوصاف کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔

  • ظاہری اوصاف

رسول اللہؐ نے مختلف فرامین و ارشادات میں واضح کیا ہے کہ امام مہدیؑ آپؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔[97] امام حسن عسکریؑ فرماتے ہیں کہ امام مہدیؑ چہرے اور اخلاق کے لحاظ سے رسول اللہؐ کے مشابہ ترین ہیں۔[98] امام علیؑ فرماتے ہیں: امام مہدی عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّریف اٹھیں گے تو آپؑ کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی ۔[99]

امام حسن مجتبىؑ فرماتے ہیں کہ ظہور کے وقت امام مہدیؑ چالیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بےانتہا جسمانی قوت کے مالک ہونگے۔[100] امام صادقؑ کے قول کے مطابق آپ ایک کامل اور معتدل نوجوان ہونگے۔[101] علامہ مجلسی اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "معتدل سے مراد یہ ہے کہ آپؑ وقت ظہور درمیانی عمر یا نوجوانی کے آخری حصے میں ہونگے”۔[102] امام رضاؑ ظہور کے وقت امام زمانہؑ کی علامتوں اور خصوصیات کے بارے میں ابوصلت ہروی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: آپؑ کی نشانی یہ ہے کہ معمّر ہیں مگر آپؑ کا چہرہ اور منظر نوجوان ہے، یہاں تک کہ دیکھنا والا سمجھتا ہے کہ آپؑ 40 یا اس سے کم عمر کے ہیں۔[103]

موسوی اصفہانی کتاب مکیال المکارم میں حسن اور جمال کو امام مہدیؑ کی خصوصیات میں بیان کرتے ہیں اور آپؑ کو احادیث کے حوالے دے کر شہاب ثاقب اور کوکب دری سے تشبیہ دیتے ہیں۔[104]

مختلف روایات میں امام زمانہؑ کے چہرہ مبارک کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں: مہدیؑ مجھ سے ہیں، آپؑ کی جبین کشادہ اور ناک کھڑی ہے۔[105] ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ مہدیؑ کے چہرہ مبارک کی رنگت عربی اور جسمانی ساخت اسرائیلی ہے[106]، ان کے دائیں گال پر ایک تل ہے جو ستاروں کی مانند دمکتا ہے۔[107]

امام باقرؑ نے اپنے والد اور جدّ امجد سے روایت کی ہے کہ ایک دن امام علیؑ منبر کے اوپر تھے اور فرمایا: آخر الزمان میں میرے فرزندوں میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جس کی رنگت سفید مائل بہ سفیدی ہوگی اور سینہ فراخ ہوگا ۔۔۔ اور اس کے کاندھے قوی ہونگے اور پشت پر دو خال ہونگے جن میں سے ایک اس کی جلد کی رنگت کا اور دوسرا رسول اللہؐ کے خال کے مشابہ ہوگا۔[108]

  • اخلاقی اور دینی اوصاف

امام مہدیؑ کے اخلاقی اور دینی اوصاف کو دو صورتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. ان احادیث کی بنیاد پر جن میں آپؑ کو رسول خداؐ کے مشابہ ترین قرار دیا جاتا ہے؛ چنانچہ آیات و احادیث میں جو خصوصیات رسول اللہؐ کے لئے بیان ہوئی ہیں، ان کو امام مہدیؑ کی اخلاقی اور دینی خصوصیات قرار دیا جا سکتا ہے۔
  2. دوسری روش یہ ہے کہ امام مہدیؑ کی اخلاقی خصوصیات کے سلسلے میں وارد ہونے والی مستقل روایات کا جائزہ لیا جائے۔

جو کچھ بھی اخلاق اور کردار کے لحاظ سے امام مہدیؑ کی خصوصیات ـ خواہ شیعہ روایات میں، خواہ سنی روایات میں ـ کے مجموعے سے سمجھا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ آپؑ خدا کے آگے ابر خاشع ترین اور خائف ترین[109] اور دانشور ترین اور حکیم ترین ہیں۔[110]

امام حسينؑ آپؑ کے بارے میں فرماتے ہیں: امام مہدیؑ کو تم ـ آپؑ کے سکون و وقار اور حلال و حرام کے سلسلے میں آپؑ کے علم اور لوگوں کو ان کی ضرورت اور لوگوں سے آپؑ ان کی بے نیازی ـ کے ذریعے پہچانو گے۔[111]

امام صادقؑ آپؑ کو زاہد ترین فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جن کا لباس سخت اور کھردرا اور کھانا جو کی روٹی ہے۔[112] وہ اپنی حکومت کے کار گزاروں کے لئے بھی سخت گیر ہیں اور لوگوں کے لئے بخشندہ اور محتاجوں پر بہت مہربان ہیں۔[113]

امام باقرؑ آپؑ کو ایسے فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو کتاب خدا پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی منکَر کو نہیں دیکھتا جس کی مخالفت نہ کرے۔[114]

امام رضاؑ امام مہدیؑ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپؑ لوگوں پر ان سے زیادہ صاحب حق اور ان کے ماں باپ سے بھی ان کے لئے زیادہ ہمدرد ہیں۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کے سامنے خاکسار تر، اور جن اعمال کا حکم دیتے ہیں ان پر سب سے زیادہ عامل اور جن چیزوں سے منع کرتے ہیں ان سے سب سے زیادہ باز رہنے والے ہیں۔[115] نیز امام رضاؑ آپؑ کو دانا ترین، صاحب حکمت ترین، برد بار ترین، ہرہیزگار ترین، سخی ترین اور عابدترین شخصیت کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں جو فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں۔[116]

امام عسکری کی شہادت کے بعد شیعوں کی حالت

  • امام حسن عسکری کے فرزند کے حوالے سے ابہام

امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں مشہور تھا کہ شیعہ آپؑ کے فرزند "قائم” کے منتظر ہیں[117] اسی بنا پر عباسی حکمران اس فرزند کی تلاش میں تھے اور ان کی بہر قیمت یہی کوشش تھی کہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو، گرفتار کریں۔

اسی بنا پر امام عسکریؑ نے کبھی بھی اعلانیہ طور پر کسی کو اپنے فرزند کا دیدار نہیں کرایا اور حتی کہ آپؑ کا تعارف ـ چند ہی خاص اصحاب کے سوا ـ اپنے بہت سے قریبی پیروکاروں سے نہیں کرایا۔[118] چنانچہ امامؑ کی شہادت کے وقت سوائے ان ہی چند خاص اصحاب کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آپؑ کا کوئی فرزند بھی ہے۔[119]

دوسری طرف سے امام حسن عسکریؑ نے سیاسی حالات کے پیش نظر، اپنے وصیت نامے میں صرف اپنی والدہ کا نام دیا تھا اور گیارہویں امامؑ کی شہادت کے بعد کے دو برسوں کے عرصہ میں بعض شیعہ سمجھتے تھے کہ منصب امامت امام حسن عسکری کی والدہ کو سونپ دیا گیا ہے۔[120]

امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے فورا بعد، اصحاب خاص "عثمان بن سعید عمری"(متوفیٰ بین 260 تا 267ھ،) کی سربراہی میں اصحاب خاص نے شیعیان اہل بیت کے درمیان اعلان کیا کہ امام عسکریؑ اپنے بعد ایک فرزند چھوڑ گئے ہیں جو اس وقت آپؑ کے جانشین اور منصب امامت کے حامل ہیں۔ [121] عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں: میں نے عثمان بن سعید عمری سے امام حسن عسکریؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: تمہیں آپؑ کا نام پوچھنے سے باز رکھا گیا ہے، کیونکہ سلطان (خلیفۂ وقت) سمجھتا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے اپنے بعد کوئی بیٹا نہیں چھوڑا ہے اور آپؑ کا ترکہ بھی (آپؑ کی والدہ، بھائی اور بہن) کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ اگر آپؑ کا نام لیا جائے تو وہ آپؑ کو تلاش کرنا شروع کرے گا۔ لہذا آپؑ کے نام کے بارے میں مت پوچھا کرو۔[122]

  • امام کی پہچان میں حیرت زدگی

امام حسن عسکریؑ کے اصحاب خاص کی تصریحات اور توضیحات کے باوجود، شیعہ معاشرہ عملی طور پر افراتفری کی سی کیفیت سے گذر رہا تھا اور عراق اور بین النہرین کے بہت سے شیعہ نئے واقعات کی وجہ سے حیرت زدگی اور پریشانی کا شکار ہو چکے تھے۔[123] بطور مثال، شیعیان اہل بیت نے ایک ایلچی مدینہ روانہ کیا تا کہ امامؑ کے فرزند کے بارے میں تحقیق کرے کیونکہ انھوں نے سنا تھا کہ امامؑ نے اپنا بیٹا مدینہ بھجوایا ہے۔[124] نیز مروی ہے کہ غیبت صغری کے ہم عصر عالم ابو زید احمد بن سہل بلخی، خراسان سے اپنے امام کی تلاش میں عراق چلے گئے اور کئی برسوں تک تلاش میں مصروف رہے۔[125]

خاندان امامت میں بھی اختلاف پڑ گیا تھا۔ حُدیث اور امام حسن عسکریؑ کی پھوپھی حکیمہ خاتون امام عسکریؑ کے فرزند کی موجودگی تصریح اور آپؑ کی امامت کی حمایت کرتی تھیں لیکن امام عسکریؑ کی اکلوتی بہن ـ جو جعفر کے علاوہ امام ہادیؑ کی واحد پسماندہ اور شاید جعفر کی حقیقی بہن تھیں ـ جعفر کے موقف کی حمایت کر رہی تھیں۔[126]

سرکاری اداروں اور اعلی حکومتی عہدوں پر فائز منصب دار بھی اس سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ بطور مثال خاندان نوبخت امام حسن عسکریؑ کے فرزند کی موجودگی اور امامت کا حامی تھا اور عثمان بن سعید عمری اور ان کے بیٹے کی نیابتِ امام زمانہؑ کو تسلیم کرتا تھا۔[127]

  • شیعہ معاشروں میں گروہ بندیاں

بحرانِ امامت اس زمانے میں اس قدر سنگین تھا کہ حتی بعض لوگوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا اور دیگر شیعہ اور غیر شیعہ مکاتب اور فرقوں سے جا ملے۔ [128]۔[129]، کچھ لوگوں نے امام حسن عسکریؑ کی وفات کا انکار کیا اور آپؑ ہی کو مہدی سمجھنے لگے، ایک جماعت نے سید محمد کی امامت کو قبول نہیں کیا، گروه نے امام هادیؑ کی امامت کو قبول کیااور امام عسکری کی امامت کا انکار کیا۔[130]

ان حالات میں ایک بڑی جماعت جعفر کو امام سمجھ رہی تھی۔[131] جعفر نے منصب امامت کے حصول کے لئے بہت زیادہ کوشش کی۔ اس نے امام عسکریؑ کی والدہ کے بقید حیات ہونے کے باوجود آپؑ کے ترکہ میں حصے کا دعوی کیا۔[132] علاوہ ازیں اس نے حکام وقت کو کہا کہ وہ امامؑ کی گرفتاری کے لئے آپؑ کے گھر کی تلاشی لیں اور جعفر ہی کے تعاون سے امام عسکریؑ کی ایک کنیز کو گرفتا کیا گیا اور اس کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا گیا۔[133] ادھر جعفر ایک عباسی کارگزار کو سالانہ 20 ہزار دینار بطور رشوت دیتا رہا تاکہ وہ اس کی امامت کی تصدیق کیا کرے۔[134]

ان اختلافات کے باوجود، آخرکار، شیعہ اکثریت امام حسن عسکریؑ کے فرزند کی امامت کے قائل ہوئے اور ان ہی جماعتوں نے بعد میں شیعہ امامیہ کی قیادت سنبھالی اور چوتھی صدی ہجری میں اہل بیت کے تمام پیروکاروں کا واحد عنوان "شیعہ اثنا عشریہ” ہی ٹہرا۔[135] شیخ مفید کتاب فرق الشیعہ کے مؤلف "حسن بن موسی نوبختی” سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد، امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والے چودہ فرقوں کے بارے میں کہتے ہیں:

جن فرقوں کا ہم نے تذکرہ کیا ان میں سے ہمارے زمانے ـ یعنی سنہ 373ھ ق ـ میں سوائے مکتب امامیہ اثنا عشریہ کے، کوئی بھی فرقہ باقی نہیں رہا ہے؛ (شیعہ اثنا عشریہ) یعنی وہ لوگ جو امام حسن عسکریؑ کے فرزند ـ جو کہ رسول اللہؐ کے ہم نام ہیں ـ کی امامت کو تسلیم کر چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ آپؑ زندہ اور باقی رہیں گے، اس دن تک، جب وہ تلوار لے کر اٹھیں گے۔[136]

تشیع کے استحکام میں توقیعات کا کردار

اس زمانے میں بعض توقیعات امام زمانہؑ کی طرف سے صادر ہوئیں جن میں سے بعض کا تعلق آپؑ کی اپنی امامت کے اثبات سے تھا۔[137] جو دلیل امام زمانہؑ نے اپنی امامت کے اثبات کے لئے پیش کی ہے وہ حضرت آدمؑ سے امام زمانہؑ کے زمانے تک ہدایت الہیہ کے راستے کے جاری رہنے اور زمین کے حجت الہیہ سے خالی نہ ہونے پر تاکید، سے عبارت ہے۔ نیز آپؑ نے امام کو امامت کے دعویداروں سے تمیز و تشخیص دینے کے لئے تین معیارات پیش کئے ہیں: عصمت، علم اور اللہ کی تائید۔

توقیعات کے دو نمونے:

  • ابن ابی غانم قزوینی اور اہل تشیع کی ایک جماعت نے امام حسن عسکریؑ کے جانشین کے بارے میں اختلاف کیا۔ ابن ابی غانم نے کہا: ابو محمد چل بسے ہیں اور آپؑ کا کوئی جانشین نہیں ہے۔ لوگوں نے خط لکھا اور امام زمانہؑ کی طرف روانہ کیا اور وجود میں آنے والے مالی اختلاف سے آپؑ کو آگاہ کیا۔ امام زمانہؑ نے بقلم خود جواب میں جو مکتوب بھیجا وہ کچھ یوں ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں نے دین میں اختلاف کیا ہے اور اپنے اولیائ امور (یعنی ائمہ) کے بارے میں شک اور حیرت کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوند متعال نے آدمؑ سے لے کر مجھ سے قبل کے امام تک تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں تا کہ تم ان کے سائے میں پناہ لو اور پرچم لہرائے تا کہ ان کے واسطے سے ہدایت پاؤ؛ جب بھی ایک پرچم غائب ہوا، دوسرا پرچم ظاہر ہوا اور جب بھی ایک ستارہ غروب ہوا دوسرا ستارہ طلوع ہوا۔ جب خداوند متعال اس [امامِ سابق] کو اپنے پاس بلا لیا، تم نے گمان کیا کہ گویا خداوند متعال نے اپنے دین کو باطل کر دیا ہے اور اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان رابطہ منقطع کر دیا ہے!، کبھی بھی ایسا نہ تھا اور جب تک قیامت بپا نہ ہو جائے، اور اللہ کا امر ظاہر نہ ہو جائے، ایسا نہیں ہوگا۔امام سابقؑ چل بسے ۔۔۔ اور ان کی وصیت و جانشینی اور علم و دانش ہمارے پاس ہے اور ظالم و گنہگار کے سوا کوئی بھی ان خصوصیات میں ہمارے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا۔ [138]
  • محمد بن ابراہیم بن مہزیار ـ جن کے والد (ابراہیم بن مہزیار) امام عسکری ؑ کے وکیل تھے اور خود بھی والد کی وفات کے بعد وکالت کے منصب پر فائز تھے، [139] بھی ابتداء میں امام زمانہؑ کے وجود تک کے سلسلے میں مردد تھے لیکن جب عراق میں داخل ہوئے، تو امام زمانہؑ کی طرف سے ایک توقیع ان لئے صادر ہوئی، جس میں امامؑ نے فرمایا تھا:
مہزیار سے کہئے کہ جو کچھ تم نے اپنے علاقے میں ہمارے پیروکاروں کے بارے میں کہا، ہم نے اس کو سمجھ لیا۔ چنانچہ ان سے کہو کہ تم نے نہیں سنا کہ خداوند متعال نے فرمایا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ"۔سورہ نساء، آیت 59: اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول اللہؐ کی اور تم میں سے ان لوگوں کی جو فرمان روائی کے حقدار ہیں۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کا بھی اللہ نے حکم دیا ہے وہ قیامت تک کے لئے ہے؟ کیا ایسا ہے کہ خداوند متعال نے آدمؑ سے لے کر امامِ سابق (امام حسن عسکریؑ) صلوات اللہ علیہ تک، تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں جن کے سائے میں تم پناہ لے سکو اور پرچم لہرائے جن کے ذریعے تم ہدایت پا سکو؟ اور جب ایک پرچم غائب ہوا دوسرا پرچم ظاہر ہوا، اور جب بھی ایک ستارہ غروب ہوا دوسرا ستارہ طلوع ہوا؟ جب خداوند متعال نے امام سابقؑ کو اپنے پاس بلایا، تم نے گمان کیا کہ گویا خداوند متعال نے اپنے اور اپنی مخلوقات کے درمیان کا رابطہ منقطع کرلیا ہے، جبکہ ہرگز ایسا نہ تھا اور قیامت تک کبھی بھی ایسا نہ ہوگا؛اے محمد بن ابراہیم، جس مسئلے کے لئے آئے ہو، اس کے سلسلے میں شک میں نہ پڑو، کیونکہ خداوند متعال زمین کو کبھی بھی حجت سے خالی نہیں چھوڑتا۔۔[140]

غیبت صغرا

اس مسئلے کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں کہ غیبت صغری کا آغاز کب سے ہوا ہے؟ ایک رائے ہے کہ غیبت صغری سنہ 255 ہجری میں امام زمانہؑ کی ولادت کے دن سے ہی شروع ہوئی ہے، اور اس لحاظ سے اس کی مدت 74 برس ہوگی، اور دوسری رائے یہ ہے کہ غیبت صغری کا آغاز سنہ 260 ہجری میں امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے دن سے ہوا ہے اور اس لحاظ سے اس دور کی مدت 69 برس ہوگی۔

شیخ مفید (متوفیٰ 413 ھ) اپنی کتاب الارشاد،[141] اور طبرسی (متوفیٰ 548 ھ) اپنی کتاب اعلام الوری میں[142] اور بعض دیگر شیعہ اکابرِ فقہاء و محدّثین اور بہت سے مؤرخین اپنی کتب میں پہلے قول کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے بقول غیبت صغری کی مدت 74 برس ہے۔

غیبت صغری کے زمانے میں امام مہدیؑ نائبینِ خاص کے ذریعے شیعیان اہل بیت کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے مسائل حل فرمایا کرتے تھے۔ یہ مسائل اعتقادی، فقہی اور مالی وغیر مسائل پر مشتمل ہوتے تھے۔

انقطاع نیابت اور غیبت کبرا

تفصیلی مضمون: غیبت کبری

امام مہدیؑ نے سنہ 260 ھ ق میں اپنی امامت کے آغاز سے ہی شیعیان اہل بیت کے ساتھ اپنا رابطہ ـ نائبین خاص کے ذریعے رابطے تک ـ محدود کرلیا تھا؛ اور آپ کے آخری نائب خاص علی بن محمد سمری تھے جنہوں نے پندرہ شعبان سنہ 329 ہجری قمری /15 مئی سنہ 941 ع‍یسوی کو وفات پائی۔ ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل امام زمانہؑ کی جانب سے ایک توقیع صادر ہوئی جس میں آپؑ نے تحریر فرمایا تھا:

اے علی بن محمد سمری!۔۔۔ تم 6 دن بعد وفات پاؤگے۔ اسی لئے اپنے کام مکمل کرنا اور کسی سے بھی جانشین کے طور پر وصیت نہ کرنا؛ کیونکہ دوسری غیبت کا آغاز ہوچکا ہے اور کوئی ظہور نہ ہوگا سوا اس وقت کے جب خداوند متعال خود اجازت فرمائے۔۔[143]

علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد، نائبین خاص کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوا؛ اور غیبت نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ یہ مرحلہ متاخرہ ماخذ میں، "غیبت کبری” کہلایا۔

اکثر شیعہ مآخذ کے مطابق ابوالحسن علی بن محمد سمری کا انتقال سنہ سال 329 ھ، کو ہوا لیکن شیخ صدوق[144] اور فضل بن حسن طبرسی[145] کہتے ہیں کہ ابو الحسن علی بن محمد طبرسی 15 شعبان المعظم سنہ 228 ھ ق کو خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔

غیبت کبری میں لوگوں کے ساتھ امام کا تعلق

غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہؑ کے ساتھ لوگوں کے تعلق کے بارے میں دو اقوال ہیں:

  1. اکابرین شیعہ میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ غیبت کبری کے زمانے میں، امام زمانہؑ کے ساتھ رابطہ کرنے کا امکان موجود نہیں ہے اور آپؑ کے اپنے ارشاد کے مطابق، دیدار کے دعویداروں کو جھٹلانا چاہئے۔ جن بزرگوں نے اس رائے کو قبول کیا ہے ان میں یہ افراد شامل ہیں: محمد بن ابراہیم نعمانی، کتاب کتاب الغیبہ میں؛ شیخ مفید المسائل العشرہ، شیخ مفید غیبت کبری میں امام زمانہؑ کی ملاقات کا امکان آپؑ کے خادمین اور معتبر ملازموں کے لئے مختص سمجھتے ہیں۔ [146]؛ فیض کاشانی، کتاب الوافی میں؛ جعفر کاشف الغطاء، کتاب رسالۃ الحق المبین میں۔ اکابرین کی اس جماعت کی دلیل، متعدد روایات نیز علی بن محمد سمری کے نام امام زمانہؑ کی آخری توقیع، سے عبارت ہے۔
  2. شیعہ علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ غیبت کبری میں بھی امام زمانہؑ کے ساتھ ارتباط ممکن ہے۔ یہ قول متاخرین کے نزدیک مشہور ہے اور محمد بن علی کراجکی، شیخ طوسی اور دیگر علماء نے اس نظریئے کے قائل ہوئے ہیں اور کہتے ہیں: کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ امامؑ کو کوئی بھی نہیں پہچانتا اور کوئی بھی آپؑ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتا، بلکہ جائز ہے کہ آپؑ کے کچھ دوست اور اولیاء آپؑ سے ملاقات کریں اور ان کا یہ دیدار مخفی رہے۔[147]

ظہور امام زمانہ

تفصیلی مضمون: ظہور امام زمانہؑ

ظہور امام زمانہؑ کے بارے میں بکثرت نقل ہونے والی روایات کے علاوہ، شیعہ مفسرین، اہل بیت کے اقوال و احادیث سے اس کی طرف استناد کرتے ہیں، قرآن کریم نے بھی ظہور کی نشانیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ شیعہ روایات کے مطابق، ظہور کی آمد پر دنیا کی تین اہم خصوصیات ہیں:

  1. ظلم و ستم پھیل جائے گا اور فتنہ، جو ہر گھر پر وارد ہوگا؛[148]
  2. سفیانی اور نواصب کا خروج، اور عراق سمیت ديگر سرزمینوں میں تشیّع کے خلاف سرگرم عمل دشمنوں کی سرگرمیاں جو شام پر قابض ہوکر وہاں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔[149]
  3. امام زمانہؑ کے وہ اولیاء اور اصحاب جو اسلامی سرزمینوں میں آپؑ کی یاد اور آپؑ کے نام کو زندہ رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلا دیتے ہیں۔[150]

اقوال، کلمات اور مکتوبات

تفصیلی مضمون: توقیعات امام زمانہؑ

اگرچہ لفظ "توقیع” ائمہ اور بالخصوص امام زمانہؑ کے مکتوبات کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن یہ لفظ امام زمانہؑ کے غیر مکتوب کلام کے لئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور جن مآخذ میں بارہویں امامؑ کی توقیعات کو اکٹھا کیا گیا ہے (منجملہ: شیخ صدوق کی کمال الدین اور شیخ علی الکورانی کے زیر نگرانی تالیف شدہ معجم احادیث الامام المهدی)، ان میں آپؑ کے غیر مکتوب کلمات، حتی کہ نائبین خاص کے کلام کو بھی توقیعات کے زمرے میں ذکر کیا گیا ہے۔[151] امام زمانہؑ کی زیادہ تر توقیعات ـ جن کی تعداد 80 کے قریب ہے ـ غیبت صغری کے دور میں، اعتقادی، فقہی اور مالی موضوعات کے سلسلے میں صادر ہوئی ہیں۔[152]

قرآن و حدیث کی روشنی میں مقام و منزلت

قرآن

امام زمانہؑ اور آخر الزمان کے نجات دہندہ کا مسئلہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن شیعہ مفسرین احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ قرآن کی بہت سی آیات امام زمانہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ 250 [یا 260] آیات قرآنی کا تعلق امام مہدیؑ سے ہے۔[153] مفسرین قرآنی آیات کی دو قسموں سے امام مہدیؑ کے وجود مبارک اور مسئلۂ ظہور کے لئے استفادہ کرتے ہیں: 1۔ وہ آیات کریمہ جو امام کے وجود پر تاکید کرتی ہیں
قرآن کریم کی آیات کے مطابق، خداوند متعال نے ہر امت کے لئے ایک فرد منتخب کیا ہے جو اس کی ہدایت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے: "وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ترجمہ: اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے"۔ اس آیت کی تفسیر میں امام صادقؑ نے فرمایا: ہر زمانے میں ہمارے خاندان میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف ہدایت دیتا ہے جو رسول خداؐ اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔[154]
ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں، یہ ہے کہ قرآن کے لئے مُبَیِّن اور مُفَسِّر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا کوئی بھی قرآن کریم کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں ہے۔ پس عقل کے تقاضوں کے مطابق، رسول اللہؐ کے بعد امام کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ [155] شیعہ عقیدے کے مطابق، امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا لمحہ بھر امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے باسیوں کو نگل لے گی۔[156]

2۔ "روئے زمین پر حکومتِ صالحین و مؤمنین کی بشارت دینے والی آیات
شیعہ مفسرین قرآن کریم کی دسیوں آیات کے حوالے سے، ظہور امام زمانہؑ کو قابل استناد سمجھتے ہیں؛ وہ آیات کریمہ جو صالح اور مستضعف بندوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور حق و عدل پر استوار، واحد عالمی حکومت کی تشکیل اور تمام ادیان و مکاتب پر اسلام کے غلبے پر مرکوز ہیں۔ قرآن کے بیان میں، یہ بشارت بعض دیگر آسمانی کتب میں بھی نازل ہوئی ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ترجمہ: اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے؛ اور اس بشارت کو قرآن میں اللہ کے دیئے ہوئے وعدے سے مستند کیا گیا ہے: وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَقصص ترجمہ: اور ہم نے چاہا کہ احسان کریں ان پر جنہیں روئے زمین پر، دبایا [یا پیسا یا ضعیف کیا] گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو وارث قرار دیں۔ ان آیات کریمہ میں، بہت سی احادیث کی بنیاد پر، مسئلۂ ظہور سے نسبت دی گئی ہے۔
ایک آیت میں خداوند متعال اپنے مؤمن بندوں کے لئے، مؤمنین اور صالحین کی حکومت کے قیام کو اللہ کے وعدے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور انہیں امن و سکون کی بشارت دی گئی ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاًنور55” ترجمہ: اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو صاحب ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے رہے ہیں کہ وہ ضرور انہیں روئے زمین پر [اپنا] جانشین قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار [اور تسلط] عطا کرے گا ان کے پسندیدہ دین کو، اور ضرور بدل دے گا ان کے لئے ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ ائمۂ اطہارؑ سے منقولہ احادیث نے اس آیت کریمہ کو امام زمانہؑ اور آپؑ کے اصحاب پر منطبق کیا ہے۔

احادیث

امام زمانہؑ کا موضوع اسلام اور بالخصوص مکتب امامت کے قدیم ترین اور بنیادی مباحث میں شامل ہے۔ چونکہ امام زمانہؑ کے ظہور کا وعدہ رسول اللہؐ نے دیا ہے، چنانچہ ابتداء ہی سے یہ مسلمانوں کے ہاں زبانزد تھا اور آپؑ کی ولادت سے قبل ہی شیعہ علماء نے دسیوں کتابیں آپؑ کے بارے میں تحریر کی ہیں اور آپؑ کی ولادت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور بارہویں امام سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں؛ جن میں سے بعض معتبر ترین کتابیں حسب ذیل ہیں:

شیعہ احادیث میں امام زمانہؑ کی شان و منزلت اور اہمیت پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔[157] ان احادیث میں ذیل کے موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے:

  • امام زمانہؑ کی شخصیت

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ؐ: المَهدیُ رَجُلٌ مِن وُلدِی وَجهُهُ کَالکَوکَبِ الدُّرِّیِّ ترجمہ: مہدی میری اولاد میں سے ایک فرد ہیں، جن کا چہرہ تابندہ ستارے کی مانند ہے۔[158]

  • امام زمانہؑ کے منتظرین کی شخصیت

قال الامام الکاظمؑ: لَو کانَ فِیکُم عِدَّةُ أهلِ بَدرٍ لَقامَ قائِمُنا ترجمہ: امام کاظمؑ نے فرمایا: اگر اہل بدر کی تعداد کے برابر [مؤمنین کامل] کی جماعت تمہارے درمیان ہوتی، ہمارے قائم قیام کرتے۔[159]

  • انتظار فَرَج کی منزلت اور فضیلت

قال امام صّادق ؑ: مَنْ مَاتَ مُنْتَظِراً لِهَذَا الْأَمْرِ کَانَ کَمَنْ کَانَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطِهِ لَا بَلْ کَانَ بِمَنْزِلَةِ الضَّارِبِ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالسَّیْفِ ترجمہ: امام صادقؑ نے فرمایا: جو شخص اس امر (یعنی ظہور قائم) کا انتظار کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جائے، وہ اس شخص کی مانند ہے جو قائم کے ساتھ ایک خیمے میں ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، اس شخص کی مانند ہے جو رسول اللہؐ کی خدمت میں شمشیر اٹھا کر جہاد کر چکا ہے”۔[160]

  • ظہور کی نشانیاں

عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا عبد اللّه عليہ السلام يقول: إنّ قدّام القائم علامات تكون من اللّه تعالى للمؤمنين؛ قلت: فما هي جعلني اللّه فداك؟ قال: ذاك قول اللّه عزّ و جلوَلَنَبْلُوَنَّكُمْ؛يعني المؤمنين قبل خروج القائم‏ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَبقرہ155؛ ترجمہ: محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے امام صادقؑ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قائم کے ظہور سے قبل کچھ علامات ظاہر ہونگی؛ میں نے عرض کیا: اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، وہ علامات کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ "اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے” یعنی قیامِ قائم سے قبل تم مؤمنین کو؛ خوف، دہشت، بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی جیسی کسی چیز کے ساتھ، اور خوشخبری دیجیئے ان کو جو صبر کرنے والے ہیں۔[161]

  • زمانۂ ظہور کے واقعات

قال امام باقر ؑ: إذا وَقَعَ أمرُنا وجاءَ مَهدِیُّنا کانَ الرَّجُلُ مِن شیعَتِنا أجرأَ مِن لَیثٍ وأمضی مِن سِنانٍ یَطَأُ عَدُوَّنا بِرِجلَیهِ وَیضرِبُهُ بِکَفَّیهِ وذلِکَ عِندَ نُزولِ رَحمَةِ اللّه ِ وفَرَجِهِ عَلَی العِبادِ امام باقرؑ نے فرمایا: جب لوگوں کے امور کی زمام ہمارے ہاتھ آئے گی اور ہمارے مہدی آئیں گے، ہمارے شیعوں میں سے ہر ایک شیر سے زیادہ جری اور شمشیر و سنان سے زیادہ بُرّاں ہو جائے گا؛ وہ ہمارے دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے روند لیں گے اور اپنے ہاتھوں سے ان کو ضربیں رسید کریں گے؛ اور یہی وہ زمانہ ہے جب اللہ کی رحمت اور کشادگی و فراخی اس کے بندوں پر اتر کر آئے گی۔[162]

  • ظہور کے بعد کی دنیا

قال رسولُ اللّهِ ؐ: یَخرُجُ فی آخرِ اُمّتی المَهدیُّ، یَسْقیهِ اللّه ُ الغَیْثَ، وتُخرِجُ الأرضُ نَباتَها، ویُعطَی المالُ صِحاحا، وتَکْثُرُ الماشِیَةُ، وتَعْظُمُ الاُمّةُ میری امت کے آخر میں مہدی ظہور کرے گا؛ خداوند اس کو بارش عطا کرے گا، زمین اپنے نباتات کو پروان چڑھائے گی، مال کمی اور زيادتی کے بغیر اور مساوات کے ساتھ عطا ہوگا، مال مویشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور امت سربلند ہوگی اور عظمت پائے گی۔[163]

راز و نیاز اور رابطہ

نیز دیکھیں: عریضہ، نماز امام زمانہ، غیبی امداد، مسجد جمکران، عریضہ کا کنواں، مہدویت کے دعویدار، نیابت کے دعویدار

شیعہ زمانۂ عصرِ غیبت میں، رسول اللہؐ اور دیگر معصومین ـ بالخصوص امام زمانہؑ سے توسل کرتے ہیں اور آپؑ کی خصوصی دعاؤں اور توجہات کی التجا کرتے ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: "وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ(ترجمہ: اور کہیئے کہ تم عمل کرتے رہو، اللہ بہت جلد دیکھے گا تمہارے عمل کو اور اس کا پیغمبر اور ایمان والے [دیکھیں گے] اور بہت جلد تم پلٹائے جاؤ گے غائب و حاضر ہر بات کے جاننے والے کی طرف تو وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا اعمال کرتے تھے)"۔ چونکہ آیت کریمہ میں لفظ "فَسَیری” میں حرف "سَ” خدا، رسول خداؐ اور مؤمنین کے لئے یکسان طور پر استعمال ہوا ہے اور خداوند متعال اب اسی وقت تمام موجودات کے حال سے آگاہ ہے، رسول خدا اور مؤمنین کا علم بھی مذکورہ آیت میں اسی طرح کا اور فعلی ہے؛ اور چونکہ تمام مؤمنین اس طرح کے علم کے حامل نہیں ہیں، چنانچہ آیت میں مؤمنین سے مراد معدودے چند مؤمنین ہیں جن کے بہترین مصادیق ـ احادیث کی رو سے ـ اہل بیت بیان کئے گئے ہیں۔ اور متعدد روایات ـ جن میں سے کچھ اصول کافی (بَابٌ فِی أَنّ الْأَئِمّةَ شُهَدَاءُ اللّهِ عَزّ وَجَلّ عَلَی خَلْقِهِ = باب بعنوان: "ائمہ اللہ کی مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں ") میں اکٹھی کی گئی ہیں ـ ظاہر کرتی ہیں کہ ائمہ اللہ کے اذن و اجازت سے انسانوں کے حالات و کیفیات سے باخبر ہیں اور افراد کے مادی اور معنوی حالات میں مؤثر ہو سکتے ہیں اور جس قدر ان کی اطاعت و پیروی اور توسل اور تعلق زیادہ ہو، ان آثار میں اضافہ بھی ہوگا۔ دعائے عہد، دعائے توسل، نماز امام زمانہ اور مسجد جمکران [نیز مسجد سہلہ وغیرہ] میں حاضری، زیارت آل یاسین کی قرائت، امام زمانہؑ کی سلامتی کے لئے صدقہ، نصف شعبان کے لئے محافل جشن کا انعقاد، اس سلسلے میں کہے ہوئے بے شمار اشعار، امام زمانہؑ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کی جھلکیاں ہیں۔

  • امام زمانہ کے ساتھ راز و نیاز کے بعض آداب

موسوی اصفہانی اپنی کتاب مکیال المکارم میں امام زمانہؑ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے بعض آداب کا تذکرہ کیا ہے جن میں کچھ آداب حسب ذيل ہیں:

  • امام زمانہؑ کی بہتر معرفت؛
  • امام زمانہؑ کے اخلاق و کردار کی پیروی؛
  • امام زمانہؑ کو یاد رکھنا، اور آپؑ اور دیگر معصومینؑ کی تکریم و تعظیم کی مجالس منعقد کرنا یا منعقدہ مجالس میں شرکت کرنا؛
  • امام زمانہؑ کو یاد کرتے ہوئے ادب کو ملحوظ رکھنا؛
  • امام زمانہؑ کی زیارت کا مشتاق ہونا؛
  • امام زمانہؑ کے ظہور کا انتظار؛
  • غیبت اور ظہور کے زمانے میں امام زمانہؑ کی نصرت کا قلبی ارادہ؛
  • دوسرے شیعیان اہل بیت کی مدد و نصرت کا اہتمام کرتے رہنا؛
  • ظالموں اور باطل کے علمبرداروں کا مقابلہ کرنا؛
  • امام زمانہؑ کے لئے دعا کرنا؛
  • غیبت کے دوران کے ناقابل برداشت میں صبر کرتے رہنا؛
  • وقتِ ظہور کا تعین کرنے سے پرہیز کرتے رہنا؛
  • امام زمانہؑ کی نیابت میں زیارت بجا لانا؛
  • امام زمانہؑ کی سلامتی کے لئے صدقہ دینا؛
  • خاص اور معینہ مقامات پر امام زمانہؑ سے توسل اور آپؑ کی طرف توجہ دینے کا اہتمام کرتے رہنا؛
  • امام زمانہؑ کے لئے مخصوص دعاؤں اور زیارات کی قرائت کا اہتمام کرنا۔

امام زمانہؑ کا دیدار

مفصل مضمون: امام زمانہؑ کا دیدار

  • غیبت کبری سے پہلے دیدار

شیعہ کتب تاریخ و حدیث منجملہ: الکافی، الارشاد، اعلام الوری، کمال الدین، الغیبہ طوسی و الغیبہ نعمانی میں بعض افراد کے نام مذکور ہیں جنہوں نے امام حسن عسکریؑ کے ایام حیات میں آپؑ کے فرزند ارجمند حضرت مہدیؑ کا دیدار کیا ہے؛ ان لوگوں کے دیدار کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے؛ ان ہی میں سے ایک امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون[164] ہیں جو امام زمانہؑ کی ولادت کی عینی گواہ ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر امام حسن عسکریؑ کے اصحاب خاص اور خدام شامل ہیں: امام عسکریؑ کے خادم ابو نصر ظریف،[165] احمد بن اسحاق اشعری قمی،[166] ابو علی بن مطہر،[167] سعد بن عبداللہ اشعری قمی،[168] یعقوب بن منقوش، [169] خادم ابو غانم،[170] کامل بن ابراہیم،[171] وغیرہ۔[172]

علاوہ ازیں مروی ہے کہ غیبت صغری کے 69 برسوں کے عرصے میں امامؑ کے چار نائبین خاص سمیت متعدد دوسرے افراد نے امام زمانہؑ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے؛ جیسے: ابراہیم بن ادریس،[173] ابراہیم بن عبدہ نیشابوری اور ان کے خادم،[174] امام حسن عسکریؑ کے خادم ابو الادیان،[175] ابو سعید غانم ہندی،[176] ابو عبداللہ بن صالح،[177] ابو محمد حسن بن وجناء نصیبی،[178] ابو علی محمد بن احمد بن حماد مروزی محمودی،[179] اسمعیل بن علی نوبختی،[180] علی بن ابراہیم بن مہزیار،[181] محمد بن اسمعیل بن موسی الکاظم|محمد بن اسماعیل بن امام کاظمؑ،[182] محمد بن شاذان نیشابوری،[183] اور دسیوں دوسرے افراد۔[184]

مفصل مضمون: نیابت کے دعویدار

غیبت صغری کے زمانے میں نیابت کے دعویداروں کی بھی کمی نہ تھی۔ محمد بن نصیر نمیری، احمد بن ہلال کرخی، اور محمد بن علی شَلمَغانی نیابت کے دعویدار تھے اور ان کے لعن اور دور بھگانے پر متعدد توقیعات وارد ہوئیں۔[185]

  • غیبت کبری میں ملاقات

غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہؑ کے دیدار کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ ملاقات کا سرے سے انکار کرتا ہے اور دوسرا نظریہ ملاقات کے امکان اور وقوع کے اثبات کے لئے دلائل اور شواہد پیش کرتا ہے۔ ملاقات کا انکار کرنے والے کبھی اپنے نظریے کے اثبات کے لئے بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں جن کی رو سے غیبت کبری کے زمانے میں مشاہدہ کرنے والے کو جھوٹا کہا گیا ہے۔[186] اور کبھی راوی کی صداقت میں شک و شبہہ اس نظریے کی بنیاد ٹہرا ہے؛ اور پھر بعض علماء موقع پرستوں کی منفعت پسندی کا سد باب کرنے کے لئے ہر قسم کے دیدار کا انکار کرتے ہیں۔[187] ادھر بعض احادیث اور دعاؤں امام زمانہؑ کے دیدار کے لئے بعض اعمال کی تلقین کی گئی ہے،[188]۔[189] اور کم از کم دو معتبر حدیثوں میں امامؑ کے خاص پیروکاروں کے لئے امامؑ تک رسائی اور آپؑ سے ملاقات کو امرِ ممکن جانا گیا ہے۔[190] شیخ صدوق، شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے اکابرین نے اپنی کتابوں میں امامؑ کا دیدار کرنے والوں کے لئے الگ ابواب متعین کئے ہیں اور غیبت کبری میں ملاقات کو ممکن قرار دیا ہے۔[191] بہت سی روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن سے نمایاں ہوتا ہے کہ بڑے علماء سے لے کر معمولی افراد تک امام زمانہؑ کو دیکھا ہے۔ شیخ حر عاملی، سید عبداللہ شبر اور آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی کا کہنا ہے کہ دیدار امام زمانہؑ سے متعلق روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہیں۔[192] اس نظریے کے قائل بعض افراد کے نام حسب ذیل ہیں:

میرزا محمد حسین نائینی،[193] سید ابن طاؤس،[194] ابراہیم کفعمی،[195] محمد تقی مجلسی،[196] ابوالحسن شعرانی،[197] شیخ حر عاملی،[198] مقدس اردبیلی،[199] میرزا محمد استر آبادی،[200] شہید ثانی،[201] سید بحر العلوم،[202] سید نعمت اللہ جزائری،[203] شیخ مرتضی انصاری۔[204]

دعائیں اور زیارتیں

زیارات جامعہ کے علاوہ ـ جن سے تمام ائمہ کی زیارت کی جاسکتی ہے، امام زمانہؑ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے لئے مختلف قسم کی دعائیں اور زیارات نقل ہوئی ہیں جن میں سے اہم ترین دعاؤں اور زیارات کے عنوان حسب ذیل ہیں:

ناحیہ مقدسہ سے بھی مختلف دعائیں اور زیارات صادر ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے فَرَج (اَللّهُمَّ عَظُمَ البَلاء)، دعائے "یا مَن أظهَرَ الجَمیلَ"، دعائے "اَللّهمّ رَبَّ النّورِ العَظیم"، دعائے "اَللهُمّ ارزُقنا تَوفیقَ الطاعَةِ"، دعائے سہم اللیل، رجب کے ہر روز کی دعا۔ دعائے "اَللهمّ إنّی اَسألُكَ بِالمَولودَینِ فی رَجَب"، دعائے "اَللهمّ إنّی اَسألُكَ بِمَعانی جَمیعِ ما یَدعوكَ بِهِ وُلاةُ أمرِكَ"، زیارت ناحیہ مقدسہ اور زیارت الشہداء۔[205]

انتظار

مفصل مضمون:انتظارِ فَرَج

اسلامی تعلیمات میں انتظارِ فَرَج بمعنی نامساعد حالات میں کشادگی اور فراخی کی امید، آیات اور روایات میں مسلسل دہرائے جانے والے مفاہیم میں سے ہے۔ شیعہ تعلیمات میں اس انتظار کا اہم ترین مصداق، ظہور امام زمانہؑ کے ساتھ سختیوں کے خاتمے اور کشادگی نیز روشن مستقبل کی امید ہے۔ اس طرح کے انتظار اور منتظر کے لئے بعض خاص اصطلاحات روایات میں وارد ہوئی ہیں؛ جیسے: اَلْمُنتظَرُ لِأمْرِنا ، مُنتظِرٌ لِهذا الاَمر، اِنْتِظارُ قائِمِنا، تَوَقُّعُ الْفَرَج، اَلمُنتظِرینَ لِظُهورِهِ، مُنْتظِرونَ لِدَوْلَةِ الْحَق اور اَلمُنتظِرُ لِلّثانی عَشَر ۔[206] ان روایات میں منتظرین کے لئے بہت زیادہ ثواب کا وعدہ دیا گیا اور انہیں اولیاء اللہ اور لوگوں کے درمیان بہترین افراد، شمار کیا گیا ہے جو جنگ بدر میں رسول اللہؐ کے صحابہ کی مانند ہیں یا جہاد کے موقع پر امام زمانہؑ کے خیمے مین مقیم ہیں اور آپؑ کے ہمراہ جنگ لڑ رہے ہیں۔[207]

انتظارِ فَرَج اور کشادگی اور امن و سکون کی امید فردی بھی ہوسکتی ہے اور عمومی بھی[208] اور صرف اس شرط پر، تعمیری ہوگی کہ کوشش اور جدوجہد نیز مکمل تیار کے ساتھ ہو اور اگر تاخیر ہوئی تو مؤمنین مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ اس طرح کے انتظار و امید اور کوشش اور جدوجہد فرد اور معاشرے کے کمال و ارتقاء کے اسباب فراہم کرے گی۔[209]

نیمہ شعبان

جیسا کہ ولادت کے حصے میں مذکور ہوا، قول مشہور یہ ہے کہ امام زمانہؑ کی ولادت پندرہ شعبان کے دن [بوقت فجر] ہوئی ہے۔ شیعہ اس روز کو اہم ترین عیدوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور اس کی رات وسیع چراغاں اور نیز رات اور دن کو جشن، شعر خوانی، نذر و نیاز اور قربانی اور غرباء کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ مراسمات ایران میں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ وسیع سطح پر منعقد کئے جاتے ہیں۔ جشن و سرور کے ان مراسمات کا بڑا حصہ ملک بھر کے شہروں کے مذہبی مقامات، گلی محلوں اور بازاروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ [قم کے نواح میں واقع] مسجد جمکران مہدویت کے جشن کی سب سے بڑی ميزبانی کا انتظام کرتی ہے۔ اس روز ایران میں عام تعطیل قرار پائی ہے اور اس دن کو "مستضعفین کا عالمی” دن کہا جاتا ہے۔ عراق میں بھی شیعیان اہل بیت جشنِ نیمہ شعبان کے انعقاد کے ساتھ ساتھ امام حسینؑ کی زیارت کے لئے چلے جاتے ہیں۔ بحرین، یمن، مصر، لبنان، شام اور ہندوستان نیز پاکستان میں بھی وسیع سطح پر جشن نیمہ شعبان کا اہتمام کیا جاتا ہے[210] اور پاکستان اور ہندوستان میں نیمہ شعبان کی رات کو شب برات بھی کہا جاتا ہے اور خاص قسم کے مراسمات کا انعقاد ہوتا ہے۔[211]

امام زمانہؑ اور دیگر مذاہب

شیعہ فرقے

زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے شیعہ فرقے مہدویت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے، امام زمانہؑ کے موعود ہونے اور موعود کے مصداق کے تعین میں امامیہ کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ زیدیہ کی بعض شاخوں سمیت کچھ شیعہ فرقے، ماضی میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپؑ کی غیبت کو نہیں مانتے اور ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام زمانہؑ موعود ہیں اور آخر الزمان میں ظہور کریں گے چنانچہ وہ بارہویں امام یعنی محمد بن حسن عسکریؑ پر ـ امامیہ کی مانند ـ امام موعود اور امام منتظَر کے مصداق کی تطبیق کو یا تو سرے سے مسترد کرتے ہیں یا کم از کم اس کی تائید و تصدیق نہیں کرتے۔ ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام منتظَر آخر الزمان میں پیدا ہونگے اور اٹھ کر قیام فرمائیں گے۔

بحیثیت مجموعی، زیدیہ میں مہدویت کا عقیدہ، مہدویتِ نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ امامت کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بلائے اس کی پیروی کرنا لازمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو![212] اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر، امام منتظر کوئی دوسرا سید ہوگا۔[213]

تاریخ اسلام کی ابتداء سے زیدیہ کی بعض جماعتیں، مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض ا‏ئمہ کی مہدویت کا دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ زید بن علی،[214] نفس زکیہ،[215] محمد بن قاسم بن علی بن عُمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفیٰ 219ھ ق)،[216] یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوفیٰ 250ھ ق)،[217] اور حسین بن قاسم عیانی (متوفیٰ 404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں۔[218]

اہل سنت

اہل سنت کے مصادر حدیثی میں امام مہدیؑ اور منجی آخری الزمان کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ابری شافعی[219]، عبد الحق دھلوی[220]، سقارینی[221] اور شوکانی[222] جیسے اہل سنت کے بعض بزرگ محدثین ان روایات کے متواتر ہونے کے سلسلہ میں تصریح کی ہے۔ اہل سنت ان روایات کی وجہ سے مہدی کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس موضوع کے سلسلہ میں شیعہ سنی عقیدہ کے مطابق مہم ترین مشترک خصوصیات یہ ہیں: وہ پیغمبر اکرم ؐ کی اولاد میں سے اور ان کے ہم نام ہوں گے اور ان کا لقب مہدی ہوگا۔ آخری زمانہ میں حتمی طور پر وہ قیام کریں گے اور تمام ظالمین پر کامیاب ہوں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ جس طرح سے وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی اور وہ حضرت عیسیؑ کے ہمراہ زمین پر لوٹ کر آئیں گے۔ [223]

ان روایات کے وہ اختلافی پہلو جو شیعوں کے عقیدہ کے خلاف ہیں:

پیغمبر اکرم ؐ کے ہمنام ہونے کے علاوہ ان کے والد کا نام بھی آپ کے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا، جبکہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ امام حسن عسکریؑ کے بیٹے ہیں۔[224]

اہل سنت کا ایک گروہ ان کے امام حسنؑ کی نسل سے ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔[225]

اہل سنت کے مشہور نظریے کے مطابق مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے اور وہ امام حسن عسکری کے فرزند نہیں ہیں۔ [226]

اہل سنت کی ایک قلیل تعداد نے عقیدہ مہدویت اور اس سلسلہ کی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں ابن خلدون کی تاریخ[227] میں اور رشید رضا کی تفسیر[228] المنار شامل ہیں۔

مستشرقین

بعض مستشرقین کی تحقیق کا موضوع ہی مسئلۂ مہدویت رہا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے مختلف نظریات قائم کئے ہیں: ہنری کوربن (Henry Corbin) مظہریاتی (Phenomenological) نقطۂ نظر سے، مہدویت کو شیعہ عرفان و فلسفے کے نہایت بنیادی اعتقادی عناصر کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی نظر سے "مہدویت دین کے باطن اور ظہور امام کی تفسیر کے معانی میں، انسانی حیات کی تجدید ہے۔ [229] کوربن کا کہنا ہے کہ ظہور کے ساتھ، وحیِ الہی کے تمام خفیہ اصول یا معنوی معانی، آشکار ہوجائیں گے۔[230]

فرانسیسی مصنف "جیمز ڈارمسٹٹر” (James Darmesteter)، تاریخی نقطۂ نظر سے، سمجھتے ہیں کہ مہدویت کا تذکرہ قرآن میں نہیں آیا ہے اور پیغمبر اسلام کے اقوال میں بھی اس کے کوئی واضح علائم موجود نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مہدویت کا عقیدہ شیعہ افکار کا پیدا کردہ اور ایرانی اساطیر اور افسانوں سے متاثر ہے۔ [231]

ولندیزی مستشرق فان فلوٹن (Gerlof van Vloten) کا دعوی ہے کہ مہدویت کا تفکر کوفی شیعوں نے رائج کیا ہے تا کہ شام میں مقیم اموی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے، اس کی ممکنہ قوتوں اور صلاحیتوں سے، فائدہ اٹھا سکیں۔ [232]

ہنگری کے یہودی مستشرق ایگناز گولڈزیہر (Ignaz Goldziher) تاریخی نقطۂ نظر سے، سمجھتا ہے کہ عقیدہ مہدویت کی جڑیں یہودی اور عیسائی فکری عناصر میں پیوست ہیں اور اس میں زرتشتیوں کے یہاں زیر بحث سوشیانس کی بعض خصوصیات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ [233]

برطانوی پروفیسر ڈیوڈ ساموئل مارگولیتھ (David Samuel Margoliouth) کا کہنا ہے کہ عقیدہ مہدویت محمد بن حنفیہ کے زمانے میں مختار اور فرقۂ کیسانیہ میں مذکورہ محمد بن حنفیہ کے حامیوں کے ذریعے معرض وجود میں آیا ہے، جنہوں نے ان کے مارے جانے کے بعد انہیں مہدی کا لقب دیا۔ [234]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدیؑ، 1393ھ ش، ج2، ص283۔
  2. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، 1393ھ ش، ج2، ص283۔
  3. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، 1393ھ ش، ج2، ص289-291۔
  4. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، 1393ھ ش، ج2، ص297-305
  5. اوپر جائیں طبسی، تا ظهور، 1388ھ ش، ج1، ص44۔
  6. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، 1393ھ ش، ج2، ص311۔
  7. اوپر جائیں امینی، الغدیر، 1416ق، ج2، ص511۔
  8. اوپر جائیں نوری، النجم الثاقب، ج 1، ص265-165۔
  9. اوپر جائیں محدث نوری کی مکمل فہرست کچھ یوں ہے: 1- احمد 2- اصل 3- اوقیدمو 4- ایزد شناس 5- ایزد نشان 6- ایستادہ 7- ابوالقاسم 8- ابوجعفر 9- ابوعبداللہ 10- ابومحمد 11- ابوابراہیم 12- ابوالحسن 13- ابوتراب 14- ابوبکر 15- ابوصالح 16- امیر الامرہ 17- احسان 18- اذن سامعہ 19- ایدی 20- بقیۃ اللہ 21- بئر معطلہ 22- بلد الامین 23- بہرام 24- بندہ یزدان 25- پرویز 26- برہان اللہ 27- باسط 28- بقیۃ الانبیاء 29- تالی 30- تائید 31- تمام 32- ثائر 33- جعفر 34- جمعہ 35- جابر 36- جنب یا جنب اللہ 37- جوار الکنس 38- حجۃ 39- حق 40- حجاب 41- حامد 42- حمد 43- حاشر 44- خاتم الاوصیاء 45- خاتم الائمہ 46- خجستہ 47- خسرو 48- خدا شناس 49- خازن 50- خلف یا خلف صالح 51- خنس 52- خلیفۃ اللہ 53- خلیفۃ الاتقیاء 54- دابۃ الارض 55- داعی 56- رجل 57- راہنما 58- رب الارض 59- زند افریس 60- سروش ایزد 61- السلطان المامول 62- سدرۃ المنتہی 63- سناء 64- سبیل 65- ساعۃ 66- سید 67- شماطیل 68- شرید 69- صاحب 70- صاحب الغیبہ 71- صاحب الزمان 72- صاحب الرجعہ 73- صاحب الدار 74- صاحب الناحیہ 75- صاحب العصر 76- صاحب الکرۃ البیضاء 77- صاحب الدولۃ الزہراء 78- صالح 79- صاحب الامر 80- صمصام الاکبر 81- صبح مسفر 82- صدق 83- صراط 84- ضیاء 85- ضحی 86- طالب التراث 87- طرید 88- عالم 89- عدل 90- عاقبۃ الدار 91- عزۃ 92- عین یا عین اللہ 93- عصر 94- غائب 95- غلام 96- غیب 97- غریم 98- غوث 99- غایت الطالبین 100- غایۃ القصوی 101- خلیل 102- غوث الفقراء 103- فجر 104- فردوس اکبر 105- فیروز 106- فرخندہ 107- فرج المومنین 108- الفرج الاعظم 109- فتح 110- فقہ 111- فیذموا 112- قائم 113- قابض 114- قید 115- قسم 116- قوۃ 117- قاتل الکفرہ 118- قطب 119- قائم الزمان 120- قیم الزمان 121- قاطع 122- کاشف الغطاء 123- کمال 124- کلمۃ الحق 125- کیقباد دوم 126- کوکما 127- کار 128- لواء اعظم 129- لندیطارا 130- لسان الصدق 131- ماشع 132- مہمید الاخر 133- مسیح الزمان 134- میزان الحق 135- منصور 136- محمد 137- نیۃ الصابرین 138- منتقم 139- مہدی 140- عبداللہ 141- مومل 142- مدبر 143- ماء معین 144- مخبر بما یعلن 145- مجازی بالاعمال 146- موعود 147- مظہر الفضایح 148- مبلی السرائر 149- مبدئی الایات 150- محسن 151- منعم 152- مفضل 153- منان 154- موتور 155- منتظر 156- مامور157- مقدرۃ 158- مامول 159- مفرج 160- مضطر 161- من لم یجعل اللہ لہ شبیہا 162- مقتصر 163- المصباح الشدید الضیاء 164- ناقور صور 165- ناطق 166- نہار 167- نفس 168- نور آل محمدؑ 169- نور الاصفیاء 170- نور الاتقیاء 171- نجم 172- ناحیۂ مقدسہ 173- واقیذ 174- وتر 175- وجہ 176- ولی اللہ 177- وارث 178- ہادی 179- ید الباسطہ 180- یمین 181- وہوہ ل 182- یعسوب الدین۔
  10. اوپر جائیں طبسی، تا ظہور، ج 2، ص492۔
  11. اوپر جائیں خدا مراد سلیمیان، فرہنگ‌ نامہ مہدویت ، ص131۔
  12. اوپر جائیں خدا مراد سلیمیان، فرہنگ‌ نامہ مہدویت، ص371۔
  13. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ق، ج2، باب 41، ح 1۔
  14. اوپر جائیں شیخ صدوق، وہی ماخذ، ج2، باب 42، ح 2۔
  15. اوپر جائیں مسعودی، اثبات الوصیہ، ص272۔
  16. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، 1397ق، ص163۔
  17. اوپر جائیں مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج51، ص219، ذیل حدیث 8۔
  18. اوپر جائیں خدامراد سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ص191 و 192۔
  19. اوپر جائیں خدا مراد سلیمیان، فرہنگ‌ نامہ مہدویت، ص150۔
  20. اوپر جائیں سید محمد صدر، پژوہشی در زندگی امام مہدی، ص247۔
  21. اوپر جائیں سید مصطفی حسینی دشتی، معارف و معاریف، ج 4، ص165۔
  22. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مہدیؑ جلد سوم ص 45 و سلیمیان، خدا مراد، فرہنگ نامہ مہدویت، نشر بنیاد فرہنگی مہدی موعودعج ص 479
  23. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومانؑ، ص555۔؛اشعری، المقالات و الفرق، ص103۔؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ص108-112۔؛ ابن خشاب، موالید الائمه و وفیاتهم، ص200-201۔؛ نیز مآخذِ اہل سنت سوا بعض مآخذ کے۔
  24. اوپر جائیں سلیمیان، درسنامہ مہدویت، ص192201؛ رجوع کریں: طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ق، ص231۔201؛ شیخ مفید، الارشاد، [بی‌تا]، ص346۔
  25. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومانؑ، ص555-569۔201؛ رجوع کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص329، ح5 و ص514، ح1201؛ صدوق، کمال الدین، 1390ھ، ج2، ص430، ح3 و ص432۔
  26. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومانؑ، ص593۔؛ رجوع کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص514۔؛ مسعودی، اثبات الوصیه، 1426ق، ص258۔؛ صدوق، کمال الدین، 1390ق، ج2، صص424، 430 و 432۔؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ص339؛ طبری، دلائل الامامه، 1413ق، ص501؛ طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ق، ص239؛ فتال نیشابوری، روضة الواعظین، 1368ش، ص266۔
  27. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین، 1390ق، ج2، ص474۔؛ طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ق، ص238۔
  28. اوپر جائیں ابن طلحہ شافعی، مطالب السؤول، باب 12، بحوالہ از: اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص437۔
  29. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان، [بی‌تا]، ج4، ص176۔
  30. اوپر جائیں مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومانؑ، ص597۔
  31. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان، [بی‌تا]، ج4، ص176۔
  32. اوپر جائیں [[قاضی نوراللہ شوشتری نے احقاق الحق، ج13، ص89-90، میں اس قول کو ابن خلکان کی کتاب وفیات الاعیان سے نقل کیا ہے؛ حالانکہ وفیات میں ہے کہ آپؑ 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے ہیں۔
  33. اوپر جائیں اہل سنت کے عالم ابن طولون نے اس قول کو ابن ازرق سے منسوب کیا ہے؛ حالانکہ ابن خلکان اس روایت کے پہلے راوی ہیں اور وہ وفیات میں لکھتے ہیں کہ 9 ربیع الاول ہی امامؑ کی تاریخ ولادت ہے۔
  34. اوپر جائیں یہ قول بیرجندی نے ابن عیاش سے نقل کیا ہے۔ یہ قول متقدم مآخذ میں موجود نہیں ہے:- مقدسی، بازپژوهی تاریخ ولادت و شہادت معصومین علیہم السلام، ص600۔
  35. اوپر جائیں یہ قول سب سے پہلے ابن طلحہ شافعی نے نقل کیا ہے۔
  36. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان، [بی‌تا]، ج4، ص176۔
  37. اوپر جائیں یہ دو اقوال خادم "عقید” سے منسوب کئے گئے ہیں اور یہ دو اقوال کمال الدین کے الگ الگ نسخوں میں مندرج ہوئے ہیں:- مقدسی، بازپژوهی تاریخ ولادت و شہادت معصومان علیہم السلام، ص601؛ صدوق، کمال الدین، 1390ق، ج2، ص474۔
  38. اوپر جائیں سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص183۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، باب 42، ح1۔؛ نیز رجوع کریں: طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ھ، ص238۔؛ اور، اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص449۔
  39. اوپر جائیں سلیمیان، درسنامه مهدویت (1)، ص186۔؛ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص353۔
  40. اوپر جائیں جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعهؑ، ص569۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ص473-474۔
  41. اوپر جائیں روایات دیکھنے کے لئے رجوع کریں: سلیمیان، درسنامه مهدویت (1)، ص184۔
  42. اوپر جائیں سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص184۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ح2، ص567۔
  43. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، ص479، ح1۔
  44. اوپر جائیں جعفریان، حیات سیاسی و فکری امامان شیعهؑ، ص567؛ شیخ مفید، الارشاد، [بی‌تا]، ص345۔
  45. اوپر جائیں سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص185۔
  46. اوپر جائیں شیخ طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ھ، ص244، ح211۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، باب 42، ح5۔؛ نیز رجوع کریں:راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص475، ح2۔
  47. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج7، ص274، بحوالہ: العمیدی، مهدی منتظر در اندیشہ اسلامی، ص186۔
  48. اوپر جائیں ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج4، ص176، ح562، بہ نقل از: العمیدی، مهدی منتظر در اندیشہ اسلامی، ص186۔
  49. اوپر جائیں شافعی، مطالب السؤول، ج2، ص79، باب 12۔
  50. اوپر جائیں مالکی، الفصول المهمہ، ص287۔؛ سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص190-191۔
  51. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ص350 – 351؛القندوزی، ینابیع المودة، ص461۔
  52. اوپر جائیں صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355 حوالہ از کمال الدین۔؛القندوزی، ینابیع الموده، ص460؛الطوسی، الغیبہ، ص217۔
  53. اوپر جائیں صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص355۔
  54. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1، ص514۔
  55. اوپر جائیں مفید، الفصول العشرة، کتابخانه اهل بیت، ص80۔
  56. اوپر جائیں مفید، الفصول العشرة، ص73۔
  57. اوپر جائیں مفید، الفصول العشرة، ص71۔؛صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، کتابخانہ اہل بیت، ص474۔
  58. اوپر جائیں مفید، الفصول العشرة، ص69 – 72۔
  59. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1، ص505۔؛صدوق، کمال الدین، ص43۔
  60. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین، ص473-476۔
  61. اوپر جائیں صافی، نوید امن و امان، ص167-205
  62. اوپر جائیں بعض انبیاء ـ جن کی طویل العمری کی طرف تورات میں اشارہ ہوا ہے ـ کے نام یہ ہیں: حضرت آدم: 920 سال، شیث بن آدم: 912 سال، انوش بن شیث: 905 سال، قیناس بن انوش: 910 سال، مهلائیل بن قیناس: 895 سال، یارد بن مهلائیل: 963 سال، متوشالح بن خنوخ: 969 سال، لمک بن متوشالح: 777 سال، حضرت نوح بن لمک: 950 سال(رجوع کریں: سفر تكوين اصحاح5، آيه5 و8 و11 و14 و17 و20 و27 و31 و در اصحاح9، آيه 29 و اصحاح11 آيه10 تا 17۔ نیز رجوع کریں: مهدی پور، راز طول عمر امام زمانؑ، ص89۔)
  63. اوپر جائیں سورہ عنکبوت، آیت 14۔
  64. اوپر جائیں سورہ انبیاء، آیت 44۔
  65. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین (1395)، ج1، ص322
  66. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، ص420
  67. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین (1395)، ج1، ص316
  68. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ج2، ص407۔
  69. اوپر جائیں جاسم، حسین، تاریخ سیاسی امام دوازدهم، تهران، 1386، ص124۔
  70. اوپر جائیں نک: سلیمیان، درسنامه مهدویت، ص145-146۔
  71. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔
  72. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔
  73. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص162۔
  74. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ، ج52، ص159-160۔
  75. اوپر جائیں بطور مثال: جعفر مرتضی عاملی کی کتاب "جزیرہ خضراء در ترازوی نقد” فارسی ترجمہ: محمد سپہری۔ "بررسی جزیرہ خضراء”، بقلم مجتبی کلباسی۔ "جزیرہ خضراء تحریفی در تاریخ شیعہ”، بقلم غلامرضا نظری۔ "دادگستر جہان” نامی کتاب کے ایک حصے میں بھی اس داستان کو نقل کیا گیا ہے۔ نیز نمونے کے طور پر ذیل کے دو مقالوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے:1۔ «داستان جزیره خضراء توهم یا واقعیت؟» 2۔ «جزیره خضرا، افسانه یا واقعیت؟!»۔
  76. اوپر جائیں ابن قیم، المنار المنیف، تحقیق: عبدالفتاح ابوغدّه، ص153-152؛ابن خلدون، مقدمه، دمشق، 1428، ص207-208۔
  77. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص315۔؛حائری یزدی، الزام الناصب، ج2، ص243۔
  78. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص313۔
  79. اوپر جائیں صدر، تاریخ مابعد الظهور، بیروت، 1412ھ، ج3، ص212-224۔
  80. اوپر جائیں عیون اخبار عن الرضا، ج1، ص63۔
  81. اوپر جائیں تہامہ اردن کی بندرگاہ "عقبہ” سے یمن تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی کا نام ہے جو تین علاقوں میں تقسیم ہوتا ہے: 1۔ شمال میں تہامۂ حجاز، جس کا مرکز مکہ ہے؛ 2۔ وسطی حدود میں تہامۂ عسیر ہے جس مرکز ابہا اور 3۔ جنوب میں تہامۂ یمن کہ مرکز زبید ہے۔مونس، اطلس تاریخ الاسلام، ص206-213؛ حمزه، قلب جزيرة العرب، ص18؛ کحاله، جغرافیة شبه جزیرة العرب، ص12-13۔
  82. اوپر جائیں الملاحم والفتن، ص278۔
  83. اوپر جائیں ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔
  84. اوپر جائیں قرطبی، التذکره، قاهره، ج3، ص1206۔
  85. اوپر جائیں قاضی نعمان مغربی، ج3، جزء، 14، ص364-365۔
  86. اوپر جائیں ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، 1393ھ ش، ج8، ص199۔
  87. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔
  88. اوپر جائیں بحارالانوار، ج53، ص11۔
  89. اوپر جائیں کلینی، الکافی، تهران، 1407ھ، ج3، ص495۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔؛ابن المشہدی، المزار الکبیر، ص134۔؛مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔
  90. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔
  91. اوپر جائیں کلینی، الکافی، تہران، 1407ھ، ج3، ص495۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص318۔؛ابن مشہدی، المزار الکبیر، ص134۔؛مفید، الارشاد، قم، 1413، ج3، ص380۔
  92. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔
  93. اوپر جائیں نعمانی، الغیبہ، تهران، 1397ھ، ص182۔
  94. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔
  95. اوپر جائیں کوہ رضوی تہامہ کے پہاڑوں میں سے ہے جو ینبع البحر کے شمال مشرق اور مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ راوی کہتا ہے: ہم امام صادقؑ کے ساتھ مدینہ سے خارج ہوئے اور مدینہ کے اطراف میں ایک پہاڑ کے قریب پہنچے تو امامؑ نے کچھ لمحے پہاڑ کی طرف غور سے دیکھا اور پھر فرمایا: یہ پناہ گاہ ہے "خائف” امام مہدیؑ کی، غیبت صغری میں بھی اور غیبت کبری میں بھی۔: طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص163۔
  96. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص162۔
  97. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج1، 257۔؛مقدس شافعی، عقدالدرر، ص45 و 55۔
  98. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص409۔
  99. اوپر جائیں التستري، احقاق الحق، ج‌19، ص‌654۔
  100. اوپر جائیں صدوق، كمال الدين، ج‌1، ص‌315۔
  101. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ج‌52، ص‌287۔
  102. اوپر جائیں مجلسی، وہی ماخذ۔
  103. اوپر جائیں صدوق، كمال الدين، ج‌2، ص652۔
  104. اوپر جائیں موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج1، ص113 اور بعد کے صفحات۔
  105. اوپر جائیں مجلسی، بحارالأنوار، ج36، ص90، ح 200۔
  106. اوپر جائیں علامہ مجلسی اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: جسمانی ساخت اسرائیلی ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپؑ کا جسم قد کی بلندی اور اولاد اسرائیل (یعنی اولاد یعقوبؑ) کی مانند اونچے قد اور مضبوط جسم کے مالک ہیں۔ قاضی نعمان مغربی نے بھی اپنی کتاب شرح الاخبار، ج3، ص378 میں یہی وضاحت کی ہے۔
  107. اوپر جائیں مجلسی، بحارالأنوار، ج 36، ص95، ح 200۔
  108. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج2، باب 57، ص560، ح 17۔
  109. اوپر جائیں ابن طاؤس، ملاحم، ص‌73۔
  110. اوپر جائیں مجلسی، بحار الانوار، ج 46، ص372، ج 14۔
  111. اوپر جائیں الیزدی الحائری، الزام الناصب، ج1، ص91۔
  112. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ج‌41، ص‌159، و ج‌47، ص‌55۔؛نعمانى، غيبة، ص‌233 و 234۔
  113. اوپر جائیں معجم أحادیث امام مهدی، ‏علیه السّلام، مؤسسه معارف الاسلامی، ‏ج1، ص242، ح 152۔
  114. اوپر جائیں کلینی، الكافی، ج8، ص396، ح 597۔
  115. اوپر جائیں حائری یزدی، الزام الناصب فی اثبات الحجّة الغائب، ص24۔
  116. اوپر جائیں صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج4، ص418۔
  117. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص336۔
  118. اوپر جائیں جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ص102، مختصر سی تلخیص کے ساتھ۔
  119. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعه، ص105۔؛مفید، الارشاد، ج2، ص336۔؛ابن شهر آشوب، المناقب، ج4، ص422۔
  120. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص507۔
  121. اوپر جائیں ابوسهل نوبختی، التنبیه، ص92ـ93۔
  122. اوپر جائیں شیخ طوسی، الغیبہ، ص359-361۔
  123. اوپر جائیں رجوع کریں: شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص426 و 429 و 487۔
  124. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1، ص328۔
  125. اوپر جائیں یاقوت حموی، معجم الادباء، ج3، ص73ـ74۔
  126. اوپر جائیں مدرسی طباطبائی،، مکتب در فرایند تکامل، ص161-162۔
  127. اوپر جائیں مدرسی طباطبائی، مکتب در فرایند تکامل، ص162۔
  128. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1، ص520۔
  129. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔
  130. اوپر جائیں صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص197، پاورقی2۔
  131. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعه، 107ـ109۔؛اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص110ـ114۔؛شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص408۔
  132. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ص345۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌ 2، ص205، 223۔؛ذهبی‌، سیر اعلام النبلاء، ج 13، ص121۔
  133. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ص345۔؛طبرسی‌، اعلام‌ الوری‌ بأعلام‌ الهدی، ص‌360۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌205۔
  134. اوپر جائیں ر.ک: مفید، الارشاد، ص345۔؛اربلی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، ج‌3، ص‌199، 205۔
  135. اوپر جائیں جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهمؑ، ص103 تا 112۔
  136. اوپر جائیں سیّد مرتضی، الفصول المختاره، ج2، ص321۔
  137. اوپر جائیں مجلسی، بحارالانوار، ج 51، ص 325، ح 44۔
  138. اوپر جائیں شیخ طوسی، الغیبہ، ص286۔
  139. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1، ص518۔
  140. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، ج‏2، ص487:-قطب راوندی نے الخرائج والجرائح ج3، ص1116 میں اور محمد بن جریر (الشیعی) نے دلائل الامامۃ، ج1، ص526 میں بھی یہ توقیع نقل کی ہے۔
  141. اوپر جائیں مفید، الإرشاد، ج2، ص340۔
  142. اوپر جائیں فضل بن حسن طبرسی، إعلام الوری بإعلام الهدی، ج2، ص259۔
  143. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمه، ج2، ص530۔؛طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ج2، صص555-556۔؛صدوق، کمال الدین، ج2، ص516۔
  144. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین، ج2، ص503، روایة 32۔
  145. اوپر جائیں طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، ج2، ص260۔
  146. اوپر جائیں شیخ مفید، المسائل العشرة فی الغیبة، ص24۔
  147. اوپر جائیں پایگاه اطلاع رسانی حوزه۔
  148. اوپر جائیں سید بن طاؤس، الطرائف فی معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص177۔
  149. اوپر جائیں طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج8، ص228-229۔؛مجلسی، بحار الانوار ج52، ص186۔
  150. اوپر جائیں صدوق، كمال الدين، ج1، ص320۔
  151. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین (تصحیح غفاری)، ج2، ص502-505۔؛معجم احادیث الامام المهدی، ج4، ص316۔
  152. اوپر جائیں رکنی، محمد مهدی، مجله موعود، شماره 79، درآمدی بر شناخت توقیعات، ص54۔
  153. اوپر جائیں الکورانی (المشرف)، جمعی از محققین، معجم احادیث امام مهدی، جلد 5۔
  154. اوپر جائیں صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج2، ص667۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص5۔
  155. اوپر جائیں امين، مخزن العرفان در تفسير قرآن، ج3، ص39، ذیل آیت 44 سورہ نحل۔
  156. اوپر جائیں النعمانی، الغیبہ، ص138-139۔؛مجلسی، بحارالانوار، ج23، ص55۔
  157. اوپر جائیں علی دخیل، أئمتنا: سیرة الأئمة الاثنی عشر علیهم السلام، ج2، ص344۔
  158. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ج51، ص80۔
  159. اوپر جائیں طبرسی، علي بن الحسن، مشکاة الأنوار فی غرر الأخبار، ص128۔
  160. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ج 52، ص146۔
  161. اوپر جائیں طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری ( قم 1417)، ج2، ص280۔
  162. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار، ج2، ص190۔
  163. اوپر جائیں الفیروز آبادی، فضائل الخمسة من الصحاح الستة، ج3، ص335۔
  164. اوپر جائیں طبرسی، اعلام الوری، مؤسسہ آل البیت، ج2، ص214۔؛کلینی، کافی، دار الکتب الاسلامیہ، 1389ھ، ج1، ص330۔؛شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص351۔
  165. اوپر جائیں کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص332۔؛شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص354۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص12۔
  166. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص384۔؛طبرسی، اعلام الوری، مؤسسہ آل البیت، ج2، ص248۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص13۔
  167. اوپر جائیں کلینی، کافی، دارالکتب الاسلامیه، 1389ھ، ج1، ص331۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص14۔
  168. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص454۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص16۔
  169. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص407 و ص436۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص19۔
  170. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص431۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص15۔
  171. اوپر جائیں الغیبہ، طوسی، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ص426۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص20۔
  172. اوپر جائیں رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص9-29۔
  173. اوپر جائیں کلینی، کافی، دار الکتب الاسلامیہ، 1389ھ، ج1، ص331۔؛ طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ص268۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔
  174. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29۔
  175. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص457۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص30۔
  176. اوپر جائیں کلینی، کافی، دار الکتب الاسلامیہ، 1389ھ، ج1، ص515۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص33۔
  177. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة آل البیت، ج2، ص352۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص37۔
  178. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص443۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص38۔
  179. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص470۔؛طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ص259۔؛ محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص40۔
  180. اوپر جائیں طوسی، الغیبہ، مؤسسة المعارف الاسلامیہ، ص271۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص51۔
  181. اوپر جائیں شیخ صدوق، کمال الدین، مؤسسة النشر الاسلامی، ص465۔؛محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص62۔
  182. اوپر جائیں الارشاد، مؤسسة آل البیت، مفید، ج2، ص351۔؛ دانشنامہ، ج5، ص75۔
  183. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص93۔
  184. اوپر جائیں رجوع کریں: محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص29-97۔
  185. اوپر جائیں جمعی از نویسندگان مجلہ حوزه، چشم بہ راه مهدی، ص39۔
  186. اوپر جائیں یہ حدیث چوتھے اور آخری نائب خاص کے نام امام زمانہؑ کی آخری توقیع کا حصہ ہے جہاں امامؑ نے فرمایا ہے: وَسَیأْتِی إِلَی شِیعَتِی مَنْ یدَّعِی الْمُشَاهَدَةَ أَلَا فَمَنِ ادَّعَی الْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوجِ السُّفْیانِی وَالصَّیحَةِ فَهُوَ كَذَّابٌ مُفْتَر(ترجمہ: بہت جلد میرے پیرو کاروں کے یہاں میرے دیدار کا دعوی کریں گے، لیکن جان لو اور آگاہ رہو کہ جو بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کا دعوی کرے وہ جھوٹا اور بہتان تراش ہے)”۔
  187. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص179۔
  188. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص179۔
  189. اوپر جائیں رجوع کریں: طبرسی، مکارم الاخلاق، ج2، ص35، ح76۔
  190. اوپر جائیں قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّـهِ علیه‌السلام: لِلْقَائِمِ غَیبَتَانِ إِحْدَاهُمَا قَصِیرَةٌ وَالْأُخْرَی طَوِیلَةٌ الْغَیبَةُ الْأُولَی لایعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِیهَا إِلَّا خَاصَّةُ شِیعَتِهِ وَالْأُخْرَی لایعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِیهَا إِلَّا خَاصَّةُ مَوَالِیهِ۔الكافی (ط – الإسلامیة)؛ ج‌1؛ ص340(ترجمہ:امام صادقؑ نے فرمایا: حضرت مہدیؑ کے لئے دو غیبتیں ہیں، ایک قلیل المدت ہے اور دوسری طویل المدت، پہلی غیبت میں آپؑ کے اصحاب کے سوا کوئی بھی آپؑ کے مقام سکونت سے آگاہ نہیں ہے اور دوسری غیبت میں خاص دوستوں کے سوا کوئی بھی آپؑ کی قیام گاہ کی خبر نہیں رکھتا) اور روی عن الصادقؑ: إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَیبَتَینِ إِحْدَاهُمَا تَطُولُ حَتَّی یقُولَ بَعْضُهُمْ مَاتَ وَیقُولَ بَعْضُهُمْ قُتِلَ وَیقُولَ بَعْضُهُمْ ذَهَبَ حَتَّی لایبْقَی عَلَی أَمْرِهِ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَّا نَفَرٌ یسِیرٌ لایطَّلِعُ عَلَی مَوْضِعِهِ أَحَدٌ مِنْ وُلْدِهِ وَلاغَیرِهِ إِلَّا الْمَوْلَی الَّذِی یلِی أَمْرَهُ؛ شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ص161(ترجمہ: اس امر کے مالک کے لئے دو غیبتیں ہیں، اور ان میں سے اس قدر طویل ہو جائے گی کہ بعض لوگ سمجھ لیں گے کہ آپؑ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، کچھ لوگ کہیں گے کہ مارے گئے ہیں اور کچھ دوسرے کہیں گے کہ آئے ہیں اور چلے گئے ہیں، سوا قلیل شیعوں کے، کوئی بھی اپنے عقیدے پر استوار نہیں رہ سکے گا؛ آپؑ کے فرزندوں اور دوسروں میں سے کوئی بھی آپؑ کی قیام گاہ سے آگاہ نہیں ہو سکے گا، سوا اس فرد کے جو آپ کے امور کو دیکھنے والا ہے)۔
  191. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص180۔
  192. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ، ج5، ص183۔
  193. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص320۔
  194. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص344 و ص348 و ص349۔
  195. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص360۔
  196. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص415۔
  197. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص443۔
  198. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص451۔
  199. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص453۔
  200. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص461۔
  201. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص462۔
  202. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، صص473 و 474 و 475 و 476 و 477۔
  203. اوپر جائیں طبرسی نوری،‌ نجم الثاقب، ص480۔
  204. اوپر جائیں شیخ محمود عراقی، دار السلام، ص290۔
  205. اوپر جائیں محمدی ری شهری،‌ دانشنامه امام مهدی، ج6، صص295-327۔
  206. اوپر جائیں محمدی ری شہری، دانشنامہ امام مهدی، ج5، صص306-307 و صص314-321 و صص328-363۔
  207. اوپر جائیں محمدی ری‌شهری دانشنامه امام مهدی، ج5، ص309۔
  208. اوپر جائیں محمدی ری‌شهری، دانشنامه امام مهدی، ج5، ص308۔
  209. اوپر جائیں محمدی ری‌شهری، دانشنامه امام مهدی، ج5، ص310۔
  210. اوپر جائیں پژوهشی بر آیین های جشن نیمه شعبان در کشورهای اسلامی، پایگاه اینترنتی سازمان تبلیغات اسلامی۔
  211. اوپر جائیں رجوع کریں: شب برات۔
  212. اوپر جائیں عقل‌گرایی زیدیه در انحراف از مهدویت (زیدیہ کی عقلیت، مہدویت سے انحراف میں)۔
  213. اوپر جائیں جریان فکری سیاسی زیدیه (زیدیہ کا فکری اور سیاسی سلسلہ)۔
  214. اوپر جائیں مجموع کتب ورسائل امام زید بن علی، ص360۔؛مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج3، ص230۔؛العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص197۔
  215. اوپر جائیں اصفهانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص207 و ص210ـ219۔؛حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص422۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔
  216. اوپر جائیں مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج4، ص61۔؛حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1، ص272و ص276۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔
  217. اوپر جائیں حمیری، نشوان بن سعید، رسالة الحور العین، ص39۔؛حمیری، نشوان بن سعید، شرح رسالة الحور العین، ص156۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، الشافی، ج1 ص286۔؛منصور بالله، عبدالله بن حمزه، العقد الثمین فی أحکام الأئمة الطاهرین، ص423۔؛اشعری، علی بن اسمعیل، مقالات الإسلامیین، ص67۔
  218. اوپر جائیں رجوع کریں: موسوی نژاد، سید علی، مهدویت و فرقه حسینیه زیدیه، هفت آسمان، ش 27، پاییز 1384ش، ص127 ـ 162۔
  219. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص82۔
  220. اوپر جائیں عبدالرحمن جامی، اشعة اللمعات، ج4، ص228۔
  221. اوپر جائیں السفارینی، لوامع الانوار البهیة، ج2، ص70۔
  222. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص83۔
  223. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص86-88۔
  224. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص88۔
  225. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص89۔
  226. اوپر جائیں دانشنامه امام مهدیؑ، ج1، ص90۔
  227. اوپر جائیں ابن خلدون، محمد بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج1، ص199۔
  228. اوپر جائیں رشید رضا، تفسیر المنار، ج10، ص342۔
  229. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سید رضی، مهدويت از ديدگاه دين پژوهان غربى، 1385، ص72۔
  230. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص77۔
  231. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص95۔
  232. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص107۔
  233. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص109۔
  234. اوپر جائیں موسوی گیلانی، سیدرضی، وہی مقالہ، 1385، ص152۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • إبن حنبل، أحمد بن محمد الشیبانی المروزی البغدادی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، دار صادر بيروت۔
  • ابن خشاب، عبدالله بن احمد، تاریخ الموالید الائمه و وفیاتهم، مجموعه نفیسه، تحقیق آیت الله مرعشی نجفی، قم، کتابخانه آیت الله مرعشی، 1406ھ،
  • ابن خلکان، وفیات الاعیان، به تحقیق احسان عباس 1969ع‍ (افست قم، منشورات رضی)۔
  • ابن شهر آشوب، محمد بن على، مناقب آل ابی طالب علیهم السلام، اول، قم، علامه، 1379ھ،
  • سید ابن طاؤس، رضی الدین علی بن موسی، الملاحم والفتن، مطبعة نشاط، مؤسسة صاحب الأمر عجل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف، الطبعة الأولی، اصفهان 1416ھ ق
  • ابن طاؤس، رضي الدين علي بن موسى الحلي، مذاهب الطرائف في معرفة الطوائف، مطبعة الخيام – قم 1399ھ۔
  • ابن طولون، الائمه الاثنی عشر، به تحقیق صلاح الدین منجد، قم، منشورات الرضی۔
  • ابویعلی الموصلی، احمد بن على التميمي، مسند ابى يعلى، ت حسين سليم اسد، دار الثقافة العربية دمشق، الطبعة الثانية 1412ه‍ ق- 1992ع‍
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه فی معرفة الائمه، چ1، تبریز، مکتبة بنی هاشمی، 1381ھ۔
  • اربلی‌، علی بن‌ عیسی‌، کشف‌ الغمة فی‌ معرفة الائمة، چاپ‌ هاشم‌ رسولی‌ محلاتی‌، بیروت‌ 1401ھ/1981ع‍۔
  • اشعری، سعدبن عبدالله، المقالات و الفرق، تصحیح دکتر محمدجواد مشکور، چ2، تهران، مرکز انتشارات علمی فرهنگی، 1361شمسی۔
  • امین، محترمہ نصرت بیگم، (1265 – 1362ھ ش)، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، اصفهان: گلبهار، 1389شمسی۔
  • التستري، القاضي السید نور الله الحسيني "الشهيد”، إحقاق الحق وإزهاق الباطل، تعلیقات: شهاب الدین المرعشي النجفي، منشورات مکتبة آیت الله العظمی المرعشي النجفي۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، قم، انتشارات انصاریان، چ5، 1381شمسی۔
  • حسینی جلالی، محمدرضا، تاریخ اهل البیت، قم، موسسه آل البیت، 1410ھ۔
  • حمزه، فؤاد، قلب جزیرة العرب، ریاض، 1388ھ/1968ع‍۔
  • الخزاز قمي الرازي، ابوالقاسم علي بن محمد بن علي‌ بن محمد، کفایة الاثر في النص علی الائمة الإثنی عشر (عليهم السلام)، المحقق: عبداللطیف الحسینی الکوه کمری الخوئي، مشخصات نشر: قم: بیدار، 1401ھ۔
  • الدانی، عثمان بن سعید، السنن الواردة في الفتن و غوائلها والساعة وأشراطها، رياض، دار العاصمة، طبع اول، 1416ھ۔
  • دخیل، علی محمد علی، أئمتنا: سیرة الأئمة الاثنی عشر علیهم السلام، دارالمرتضی، بیروت، الطبعة الخامسة عشرة 1425ھ/2004ع‍
  • دشتي، مصطفي حسيني، معارف و معاریف، (دائرة المعارف ها و واژه نامه) ج 4، موسسه تحقيقات و نشر معارف اهل البيت ؑ۔
  • الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد، سير أعلام النبلاء، ت شعيب الأرناؤوط – بشار معروف – ط مؤسسة الرسالة، بيروت، سنة النشر: 1402ھ/1982ع‍۔
  • الراوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، تحقیق مؤسسة الإمام المهدی علیه‌السلام، مؤسسه تحقیقات و نشر معارف اهل البیتؑ، 1411ھ۔
  • سلیمیان، خدامراد، درسنامه مهدویت: حضرت مهدی از ولادت تا امامت، قم، بنیاد فرهنگی مهدی موعود، چ6، 1389شمسی۔
  • سلیمیان، خدامراد، فرهنگ‌نامه مهدویت، بنیاد فرهنگی حضرت مهدی موعودؑ، دوم، 1388شمسی۔
  • سید مرتضی، الفصول المختاره، مندرج در مصفات الشیخ المفید، چاپ اول: قم، مؤتمر العالمی لألفیة الشیخ المفید، 1413ھ،
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، به تحقیق علی‌اکبر غفاری، چ2، تهران، اسلامیه، 1395ھ،
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، مؤسسة النشر الاسلامی، قم، 1405ھ۔
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمه، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، موسسه النشر الاسلامی، بی تا۔
  • شیخ طوسی، كتاب الغیبة للحجة، تحقیق عبادالله تهرانی و علی احمد ناصح، اول، قم، دار المعارف الاسلامیة، 1411ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد (مصنفات مفید، 11)، چ1، قم، کنفرانس جهانی هزاره مفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، الارشاد، قم، محبین، 1426ق/1384شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، قم، بصیرتی، [بی‌تا]۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد، ترجمه و شرح: سید هاشم رسولی محلاتی، تهران، علمیه اسلامیه، بی تا۔
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، هفتم، تهران، سازمان مطالعه و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاه‌ها، 1390شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌الله، تهران، مکتبة الصدر، [بی‌تا]۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبة الصغری، چاپ اول: بیروت، دار التعارف، 1392ھ۔
  • صدر، سید محمد، پژوہشی در زندگی امام مہدیؑ و نگرشی بر تاریخ غیبت صغری، محمد امامی شیرازی، دارالتبلیغ اسلامی۔
  • الطَبرسي، أبو الفضل علي بن الحسن، مشكاة الانوار في غرر الاخبار، تحقيق: مهدي هوشمند دار الحديث، قم، الطبعة: الاولى 1418ھ۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، تحقیق: علاء آل جعفر، قم، موسسة النشر الاسلامی، 1414ھ۔
  • طبرسی‌، فضل بن‌ حسن‌، اعلام‌ الوری‌ بأعلام‌ الهدی، چاپ‌ علی‌اکبر غفاری‌، بیروت‌ 1399ھ/1979غ‍۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدی، قم، مؤسسه آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث، در سال 1417ھ۔
  • الطبرسي، فضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: محسن الامين، منشورات مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان 1415ھ/1995ع‍۔
  • طبری امامی، محمد بن جریر، دلائل الامامه، تحقیق موسسه بعثت، چ1، قم، مؤسسه بعثت، 1413ھ۔
  • طبسی، نجم‌الدین، تا ظهور، قم، مرکز تخصصی مهدویت، بنیاد فرهنگی حضرت مهدی موعود، 1388شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبة، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، 1411 ھ۔
  • عراقی، محمود، دارالسلام، انتشارات اسلامیه، 1380ھ ش
  • العمیدی، مهدی منتظر در اندیشه اسلامی، ترجمه و تحقیق: مهدی علیزاده، انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، قم، 1375شمسی۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، (الشهید في سنة 508ھ ق)، روضة الواعظین، محققین: غلام حسین مجیدی و مجتبی فَرَجی، ناشر: دلیل ما، قم، ایران 1381شمسی۔
  • الفیروز آبادی، السید مرتضی الحسینی الیزدی، فضائل الخمسة من الصحاح الستة وغیرها من الکتب المعتبرة عند أهل السنة والجماعة، انتشارات ضیاء فیروز‌آبادی‏، 2008ع‍ /1387شمسی۔
  • القاضي النعمان المغربي، النعمان بن محمد التميمي (المتوفي سنة 363ھ ق)، شرح الاخبار في فضائل الائمة الاطهار، مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة۔
  • القرطبي، محمد بن أحمد، التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة، المحقق: الصادق بن محمد بن إبراهيم، الناشر: دار المنهاج ـ الرياض 1425ھ۔
  • القزوینی، السيد محمد كاظم، الامام المهدي عليه السلام من المهد الى الظهور، الناشر: مؤسسة الوفاء، الطبعة: الاولى 1985ع‍
  • القندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع الموده، قم، انتشارات بصیرتی، [بی‌تا]۔
  • کحاله، عمررضا، جغرافية شبه جزيرة العرب، به کوشش احمدعلی، قاهره، 1384ق /1964ع‍
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، دار الکتب الإسلامیة، 1389ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری، چ4، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1407ھ۔
  • الكوراني، الشيخ علي (المُشرِف)، معجم أحاديث الامام المهدي عليه السلام (تحت إشراف الشيخ علي الكوراني)، المؤلف: الهيئة العلمية في مؤسسة المعارف الاسلامية، ناشر: مسجد جمكران‏، چاپ: قم (ايران)، 1428ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، چ2، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مجله ی موعود > شهریور 1386ھ ش، شماره 79 پدید آورنده : محمد مهدی رکنی ، صفحه 54۔
  • المفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، به کوشش مؤسسه آل البیت، دوم، بیروت،‌ دار المفید، 1413ھ۔
  • المفيد، محمد بن محمد، المسائل العشر في الغيبة، تحقيق: الشيخ فارس الحسون، تقديم: مركز الدراسات التخصصية في الامام المهدي عليه السلام، انتشارات دليل ما، قم، الطبعة: الاولى 1426ھ۔
  • محمدی ری‌شهری، محمد، دانشنامه امام مهدی بر پایه قرآن، حدیث و تاریخ، با همکاری سیدمحمدکاظم طباطبائی، ترجمه عبدالهادی مسعودی، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث، سازمان چاپ و نشر، 1393ھ شمسی۔
  • مدرسی طباطبائی، سید حسین، مکتب در فرایند تکامل نظری بر تطور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ترجمه هاشم ایزد پناه، هفتم، تهران، کویر، 1388ھ شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسن، اثبات الوصیه، قم، انصاریان، 1426ھ،
  • المقدسي الشافعي، يوسف بن يحيی، عقد الدرر في أخبار المنتظر وهو المهدي عليه السلام، المحقق: مهيب بن صالح البوريني، مکتبة المنار، اردن، الطبعة الثانية 1410ھ/1989ع‍۔
  • مقدسی، یدالله، بازپژوهی تاریخ ولادت و شهادت معصومانؑ، پژوهشکده تاریخ و سیره اهل بیتؑ، نوبت چاپ: اول،1391ھ شمسی۔
  • الموسوي الإصفهاني، السيد محمد تقي "فقيه آبادي”، مکیال المکارم في فوائد الدعاء للقائم علیه السلام، مؤسسة الإمام المهدي،قم المقدسة، الطبعة الرابعة، 1422ھ۔
  • موسوی نژاد، سید علی، مهدویت و فرقه حسینیه زیدیه، هفت آسمان، شماره 27، پاییز 1384شمسی۔
  • مؤنس، حسين، أطلس تاريخ الإسلام (ملون)، دار الزهراء للإعلام العربي، القاهرة 1407ھ۔
  • میرزا حسین طبرسی نوری، نجم الثاقب، انتشارات مسجد جمکران، قم، 1410ھ۔
  • نعمانی، ابن ابی زینب، الغیبہ، به تحقیق علی‌اکبر غفاری، چ1، تهران، نشر صدوق، 1397ھ۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعة، تصحیح محمد صادق آل بحرالعلوم، نجف، المکتبة المرتضویة، 1355ھ۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعه، چ2، بیروت، دارالاضواء، 1404ھ۔
  • یاقوت حموی، معجم الادباء، بیروت، دارالفکر، 1400ھ۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، 1399ھ۔
  • الیزدی الحائری، علی (وفات: 1323ھ ق)، الزام الناصب فی إثبات الحجة الغائب عجّل الله تعالی فرجه الشریف، موسسة الاعلمی، طبع اول، بیروت ۔ لبنان، 1422ھ۔

Related Articles

Back to top button