نزولِ قرآن
سوال۲:۔ پیغمبراکرم ﷺ فرماتے ہیں قرآن ہر سال ایک مرتبہ میرے اوپر نازل ہوتا تھا اور اس سال جو میری عمرکاآخری سال ہے، دو بار نازل ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ درج بالاارشادمیں کیا کل قرآن مقصود ہے یا نہیں اور اگر جواب مثبت ہو تو پھر رسولِ خدا ﷺ کیوں لوگوں کے سامنے قرآن کے کچھ حصے تلاوت کرتے تھے؟
انسانِ کامل کیونکہ ولی اللہ ہوتا ہے لہٰذا جو کچھ بھی ذاتِ اقدس اسے عطا کرتی ہے وہ وصول کر لیتا ہے لیکن کیونکہ وہ رسول اللہ ؐ ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ دو کام انجام دیں :
اوّل : یہ کہ لوگوں کو تدریجاً آگاہ کریں ۔
دوم : لوگوں کی سطحِ فہم کے مطابق ان کے ساتھ بات کریں ۔
تمام قرآن ہر سال آنحضرتؐ پر نازل ہوتا تھا لیکن آپ کی رسالت اس میں نہیں تھی کہ لوگوں تک تمام آیات کو پہنچائیں، جو کچھ آپ ؐ نقل کرتے تھے وہ لوگوں کی سوچ اور عقل کے مطابق ہوتا تھا، پیغمبراکرم ؐ الفاظ کو ذکر کرتے تھے لیکن ہر کوئی اپنی ظرفیت و سوچ کے مطابق مطالب کو سمجھتا تھا، وہی بات جو حضرت امیرالمومنین ؑنے کمیل سے فرمائی:
اِنَ ھٰذِہِ الْقُلُبُ اَوْعِیَۃٌ فَخَیْرُھا اَوْعٰاھٰا (ا)
بے شک ! یہ دل مختلف ظرفیت رکھتے ہیں اور بہترین دل وہ ہے جس کی ظرفیت زیادہ ہو اور حافظِ اسرار ہو
مرحوم شیخ صدوق ؒ اپنی کتاب معانی الاخبار میں نقل کرتے ہیں کہ :
ایک شخص حضرت امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ پیامبرِ اکرمؐ کو ابو القاسم کیوں کہتے ہیں ؟ حضرت نے شروع میں سادہ جواب دیا اور فرمایا : آپؐ کا ایک فرزند تھا جس کا نام قاسم تھا، اس وجہ سے آپ ؐکی کنیت ابو القاسم ہے، شاگرد نے امام ؑ سے عرض کی کہ یہ میں جانتا ہوں آپؑ زیادہ وضاحت فرمائیں تو حضرت ؑ نے اس کی آمادگی و صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا معنی بیان کیا جو کسی کو معلوم نہیں تھا، آپ ؑ نے فرمایا:
پیغمبراکرم ﷺ کو ابوالقاسم کہنے کا سبب یہ ہے :
۱ ۔ علی بن ابی طالب ؑ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، قسیم النار والجنۃ، آنحضرتؐ روزِ قیامت جنت کو حکم دیں گے کہ یہ شخص میرا دوست ہے اس کو قبول کرو اور جہنم کو حکم دیں گے کہ فلاں شخص میرا دشمن ہے اس کو پکڑ لے۔
۲۔ علی بن ابی طالب ؑ شاگرد پیامبر ﷺ ہیں جنہوں نے پیامبرِ اکرم ﷺ سے بے شمار علوم حاصل کیے ہیں۔
۳۔ ہر شاگرد استاد کا فرزند ہوتا ہے اور ہر استاد اپنے شاگرد پر باپ کا حق رکھتا ہے (اس کا معنوی باپ ہوتا ہے )۔
ان تینوں مقدموں سے نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر علی ؑ جنت و جہنم کے قاسم (تقسیم کرنے والے )ہیں اورپیامبرِ اکرم ﷺ اس قاسم(تقسیم کنندہ)کے معنوی باپ ہیں، پس آنحضرتؐ کی کنیت ابوالقاسم ہو گی، آپ دیکھیں اس طرح معنی کرنا کس کے ذہن میں آتاہے ؟ یااگر امام ؑ کے علاوہ کوئی اور شخص اس طرح کے معنی کرتا تو کوئی قبول کرتا ؟ اس بنا پر پیامبرِ اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ (لوگوں کی محدود صلاحیت اور قدرتِ دریافت کے مطابق ) ہر ہفتہ یا ہرمہینہ میں معیّن مقدار میں قرآن کو بیان کریں۔
(حوالہ)
(۱)بحار الانوار ۸،ص ۱۸۸