علّتِ تخلیق
سوال۵:خدا نے کیوں عالم کو پیدا کیا اس کا ہدف کیا تھا ؟ کیا خداوند متعا ل ہر چیز سے بے نیا ز نہیں؟ پس خلقت کا ئنات کی اسے کیا ضرور ت تھی؟ اگر آپ کہیں کہ وہ فیا ض ہے تو یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا اللہ پر لا زم ہے کہ وہ کا ئنا ت کو خلق کرے تاکہ فیا ض ہو،کیا یہ بھی ایک طرح کی نیا ز مندی اور احتیا ج نہیں؟
اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے درج ذیل مطا لب کی طر ف تو جہ ضروری ہے:
اولاً: انسان کااپنے کاموں میں ہدف و مقصد،کمال تک رسا ئی یا نقص کو رفع کرنا ہے،مثلاًکھاناکھاتاہے تاکہ بھوک کودورکر ے اور بدن کی ضرورت کوپورا کرے، لباس پہنتا ہے تاکہ اپنے آپ کو سردی وگرمی سے محفو ظ کر ے شا دی کر تا ہے تا کہ اس با رے میں جو ضرورت محسو س کر تا ہے اسے پو را کر ے عبا دت کر تا ہے تا کہ کما ل اور قر ب الٰہی کو حا صل کرے اورخلق خدا کی خدمت کرتاہے تا کہ بلند ترین کما لات کوپاسکے، لیکن اللہ تعالیٰ میں کوئی نقص نہیں ہے کہ وہ اپنے افعال سے اس کو بر طرف کرنا چاہے اور وہ کسی کما ل سے محرو م نہیں کہ اس تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
ثانیاً: مقصدیت ہمیشہ احتیا ج اور ضرور ت کے ہمرا ہ نہیں ہو تی ہے بلکہ جس قدر بھی کو ئی موجو د کا مل تر، بے نیا ز تر ہو اسی قدر دوسروں کی ضروریا ت کو پو را کر نے کے لئے زیا دہ اقدا م کر تا ہے اوریہ ایک کامل و مہربا ن مو جو د کی خصوصیات و نشا نیوں میں سے ہے ، خدا ئے مہربا ن بھی اپنے لئے نفع کا متلاشی نہیں ہے بلکہ اس کا اہم ترین مقصد دوسروں تک خیر کو پہنچانا اور موجودات کے لئے کما ل و رشد کا ما حو ل فراہم کرنا ہے۔
بنا برایں خلقت سے اللہ کا مقصودیہ ہے کہ ہرممکن الوجودکواس کے ممکنہ اور مناسب کمال تک پہنچائے۔
ایسا ہر گز نہیں کہ اس کی مقد س ذات کواس کام کا کوئی فائد ہ ہو، اس کائنات میں ہر ممکن امر اپنے موجو دہونے کی قابلیت اور کما لاتِ وجو د کو دریا فت کرنے کی صلا حیت رکھتاہے گویا تمام ممکنا ت زبا ن حا ل سے ’’وجود‘‘ اور ’’طلب ِکمال ‘‘ کی درخواست کرتے ہیں اور خلقت کا ئنات اشیاء کے ان طلبی و ذا تی تقاضوں کا جو اب ہے اور در حقیقت انہیں کما ل تک پہنچا تاہے۔
باالفاظ دیگر ’’خلقت‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممکن موجو دات پر احسان اورفیض ہے اورایسی خلقت ذاتی حسن اور ایسے کا م کا انجا م دینا حسن رکھتا ہے کسی اورچیزکا محتاج نہیں وہ خلقت کے عمل سے افا ضہ کما ل کر تا ہے او ر ہر مو جو د کے لئے عا م ترین کما ل کے وسائل اس کی دسترس میں سے دیتا ہے اور ان وسائل کو روکنا بخل اور نقص ہے، پس لا زم ہے کہ خدا ئے حکیم وکما ل مطلق کائنات کوخلق کرے اوراسے انتہا ئی حکمت و لطافت سے ایجادکرے اس بناء پراللہ کی طرف سے خلقت حکیما نہ ہے،اگرچہ مرتبہ خلقت میں نہ محتاجی تھی اورنہ ہی کوئی ضرورت چاہے یہ ضرورت اورمحتاجی خا لق کی طرف سے ہویامخلوق کی طرف سے،چونکہ اللہ تعالیٰ میں کوئی نقص نہیں بلکہ وہ عین کمالات اورفیاضیت مطلق بھی ہے اس بناپروہ آفرینش و خلقت کی وجہ سے فیاضیت کی طرف ہا تھ نہیں بڑ ھا تا بلکہ چونکہ وہ کما ل فیاضیت رکھتا ہے۔ عالم اور انسان کو خلق کر تا ہے اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ خلقت کا ئنا ت اللہ تعالیٰ کے فیا ضیت اور اس کی تجلی کا لازمہ ہے ۔ نہ کہ فیاض ہو نے کا سبب یا مقدمہ اس بنا پر اللہ کی فیا ضیت مطلقہ اورخلقت کائنا ت کے درمیا ن لازم یہ معنی نہیں کہ اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ کا ئنا ت کو خلق کرے تاکہ فیاض ہو۔ جب کہ مذکو رہ بالاتفسیرمیں ایک قسم کی ضرورت اور محتاجی پو شید ہ ہے جب کہ گذشتہ سطور کی وضا حتوں میں غو ر اور دقت سے معلو م ہو تا ہے کہ مذکورہ بالامسئلہ اس کے برعکس ہے یعنی اللہ تعالیٰ فیاض ہے اور اس کا نتیجہ خلقت کائنات ہے۔(۱)
(حوالہ)
(۱) زیادہ تفصیل کے لئے : الف : فلسفہ خلقت انسان عبدا للہ نصری تہران ، مو سسہ فر ہنگی ،دا نش و اندیشہ معا صر ہ ، ۱۳۷۹، ب: فلسفہ آفرینش قم، دفتر نشر معارف ، چا پ اول ۱۳۸۲، ج ؛ آفرینش و انسان قم دار التبلیغ اسلامی