حکایات و روایاتکتب اسلامی

صبر

(۱)’’عَنِ الْاَصْبَغِ بنِ نَبٰا تَہ قٰالَ: قَالَ عَلِی عَلَیْہِ السَّلَام:
الصَّبْرُ صَبْرانِ: صَبْرٌ عِنْدَ المُصيبَةِ حَسَنٌ جَميلٌ، وَ أحْسَنُ مِنْ ذلِكَ الصَّبْرُ عِنْدَما حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْكَ. وَ الذّكْرُ ذِكْرانِ: ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَ الْمُصيبَةِ، وَ أفْضَلُ مِنْ ذلِكَ ذِكْرُاللَّهِ عَنْدَما حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْكَ فَيَكُونُ حاجِزاً‘‘
اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنینؑ نے فرمایا:
صبر دو طرح کا ہوتا ہے:مصیبت پر صبر کرنا جو کہ ایک بہتر عمل ہے مگر اس سے بھی بہتر صبر یہ ہے کہ حرام چیزوں پر صبر کیا جائے،ذکر کی بھی دو قسمیں ہیں:مصیبت کے وقت اللہ کو یاد کرنا اور اس سے بہتر ذکر یہ ہے کہ انسان فعل حرام کا ارادہ کرتے وقت اللہ کو یارد کرے اور یاد الٰہی اس کو فعل حرام سے روک دے۔
(۲)’’قَالَ عَلِی عَلَیْہِ السَّلَام:
الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ ، وَلا إِيمَانَ لِمَنْ لا صَبْرَ لَهُ۔
انّا وَجَدنا الصَّبرَ علی طاعَةِ اللّهِ اَیسَرُمِنَ الصَّبرِ عَلی عَذابِه۔
اصْبِرُوا عِبَادَ اللَّهِ عَلَى عَمَلٍ لَا غِنَى بِكُمْ عَنْ ثَوَابِهِ ، وَاصْبِرُوا عَنْ عَمَلٍ لَا صَبْرَ لَكُمْ عَلَى عِقَابِهِ۔
امیرالمومنین حضرت علیؑ نے فرمایا:
(۱)صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو مقام انسان کے جسم میں سر کو حاصل ہے۔
(۲)اللہ کے عذاب پر صبر کرنے سے ہم نے اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا آسان پایا۔
(۳)اس عمل پر صبر کرو جس کے ثواب کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہوسکتا اور ایسے کام کرنے سے صبر کرو جس کا عذاب سہنے کی تم میں طاقت نہ ہو۔
(۳)’’قَالَ عَلِی عَلَیْہِ السَّلَام:
الصَّبْرُ صَبْرَانِ: صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ، وَصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّهَ وَإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُهُ وَإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّهَ وَإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُهُ‘‘
حضرت علیؑ نے فرمایا:
صبر کی دوقسمیں ہیں:اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے مقابلے میں صبر کرنا جو تمہیں پسند ہوں اور ان مشکلات پر صبر کرنا جو تمہیں ناپسند ہوں،پھر آپؑ نے فرمایا:محمدﷺ کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ اس سے رسولؐ کی کوئی رشتے داری نہ ہو اور محمدﷺ کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہواگرچہ ان کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
(۴)’’عن أبي عبدالله ؑقال:
إِنَ‏ الْحُرَّ حُرٌّ عَلَى‏ جَمِيعِ‏ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَ إِنْ تَدَاكَّتْ عَلَيْهِ الْمَصَائِبُ لَمْ تَكْسِرْهُ وَ إِنْ أُسِرَ وَ قُهِرَ وَ اسْتُبْدِلَ بِالْيُسْرِ عُسْراً كَمَا كَانَ يُوسُفُ الصِّدِّيقُ الْأَمِينُ ص لَمْ يَضْرُرْ حُرِّيَّتَهُ أَنِ اسْتُعْبِدَ وَ قُهِرَ وَ أُسِرَ وَ لَمْ تَضْرُرْهُ ظُلْمَةُ الْجُبِّ وَ وَحْشَتُهُ وَ مَا نَالَهُ أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِ فَجَعَلَ الْجَبَّارَ الْعَاتِيَ لَهُ عَبْداً بَعْدَ إِذْ كَانَ لَهُ مَالِكاً فَأَرْسَلَهُ وَ رَحِمَ بِهِ أُمَّةً وَ كَذَلِكَ الصَّبْرُ يُعْقِبُ خَيْراً فَاصْبِرُوا وَ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الصَّبْرِ تُوجَرُوا‘‘
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:
مرد ہر حال میں آزاد ہوتا ہے،اگر اس پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ مردانہ وار صبر کرتا ہےا ور اگر اس پر مصائب کا سیلاب آجائے تب بھی اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی،مرد آزاد چاہے کسی کا غلام ہوجائے یا کسی کا زبردست ہوجائے اور اس پر رزق بھی تنگ ہوجائے تب بھی وہ ان حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنی آزاد منش فطرت کو کسی طور بھی قربان نہیں کرتا جیسا کہ حضرت یوسفؑ غلام بنے،لوگوں کے زبردست اور قید ہوئے،تاریک اور وحشت ناک کنوئیں میں ڈالے گئے مگر انہوں نے مردانگی کا بھرم قائم رکھا اور اللہ نے انہیں اس کا انعام یہ دیا کہ ان کا مالک ان کا غلام بن گیا اور اللہ نے ان کو رسول بنا کر ان کی امت پر رحم کیا،صبر کا نتیجہ ہمیشہ بھلائی ہوتا ہے،لہٰذا تم بھی صبر کرو اور اپنے اندر صبر کرنے کی صلاحیت پیداکرو،تمہیں بھی اچھا صلہ دیا جائےگا۔ (۵)’’عن ابي عبد اللهؑ قال:
” ان العبد يكون له عند ربه درجة لا يبلغها بعمله، فيبتلى في جسده أو يصاب في ماله أو يصاب في ولده، فان هو صبر بلغه الله اياه‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
کسی بندے کے لیے اس کے رب کے ہاں بلند درجہ مقدر ہوتا ہے جسے اگر وہ اپنے عمل سے حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ اسے جسمانی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے یا اس کا مالی امتحان لیتا ہے یا اسے اولاد کے ذریعہ آزماتا ہے،اگر وہ صبر کرتا ہے تو اللہ اسے اس درجے پر فائز کردیتا ہے۔

(حوالہ جات)
(کافی ج۲،ص۹۰)
(ارشاد القلوب)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۳۸)
(کافی ج۲،ص۸۹)
(مستدرک الوسائل ج۲،ص۶۶)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button