خاندان اور تربیتمقالات

خوف و حزن اور اسکا اثر

آیت اللہ مصباح یزدی
سب سے بڑی نعمت جو خدائے متعال نے ہمیں عنایت فرمائی ہے وہ اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کی نعمت ہے، اس پاک خاندان کی ہدایت و رہنمائی کی نورافشانی کے نتیجہ میں، گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران بزرگ علماء کی انتھک زحمتوں کے سبب موعظوں اور علوم کے عظیم خزانے ہم تک پہنچے ہیں،کم از کم شکر جو ہمیں اس عظیم نعمت کا ادا کرنا چاہیے، وہ ان قیمتی ذخائر کا مطالعہ، تحقیق، ان سے استفادہ کرنا اور ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے ولایت اہلبیتؑ کے سایہ میں اور ان کی وضاحت سے ہی ہمیں جہل و بے خبری کی تاریکی سے نکل کر نور، معرفت اور آگاہی کی طرف راہنمائی ہوتی ہے
جیسا کہ ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
’’آپ کی ولایت و پیشوائی کی برکت سے خدائے متعال نے دین کے علوم اور حقائق سے ہمیں آشنا کیا اور ہمارے فاسد دنیاوی امور کی اصلاح فرمائی‘‘۔(۱)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ابوذر غفاری ؓ سے کی گئی نورانی نصیحتیں آپؐ کی ہدایتوں کی ایک واضح مثال ہے،ضروری ہے کہ ہم ان پندونصائح سے استفادہ کریں تا کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرسکیں کیونکہ اسلام اور اس کے احکام انسان کی دنیوی و اخروی سعادت اور اس کی تمام معنوی و مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔
مفید و نفع بخش علم:
یا ابازر؛ من اوتی من العلم ما لا یبکیہ لحقیق ان یکون قد اوتی علم ما لا ینفعہ لان اللہ عزو جل نعت العلماء فقال:{ان الذین اوتو العلم من قبلہ اذا یتلی علیہم یخرون للاذقان سجدا و یقولان سبحان ربنا ان کان وعد ربنا و یخرون للاذقان یبکون و یزیدھم خشوعا}
اے ابوذر! جس کو ایسا علم دیا جائے کہ اسے نہ رلائے، تو بیشک اسے ایسا علم دیا گیا ہے جس نے اس شخص کو کوئی فائدہ نہیں بخشا ہے، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں علماء کی یوں توصیف فرمائی ہے۔’’وہ لوگ کہ جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب ان پر قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا عہد یقیناً پورا ہونے والا ہے اور منہ کے بل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اور قرآن ان کے ـخشوع میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘

اسلام ایک جامع و کامل مکتب ہے جو انسان کو کمال کی طرف دعوت دے کر اس کی سماجی، اخلاقی اور دیگر پہلوئوںسے تربیت کرنا چاہتا ہے، انسان اس وقت کمال تک پہنچتا ہے جب وہ علمی، اخلاقی نیز بلند اقدار کے حوالے سے تمام شعبوں میں ترقی کرتا ہے، اسلام جس قدر علم و آگہی، فقہ و اجتہاد کو اہمیت دیتا ہے اسی قدر اخلاقی اور معنوی مسائل کو بھی اہمیت دیتا ہے، انسان کامل علمی و فقہی پہلوئوں سے نشوونما پانے کے علاوہ اخلاقی پہلوئوں سے بھی ترقی کرتا ہے۔
یہ امر باعث افسوس ہے کہ بعض اوقات علمی مسائل کی طرف توجہ دینے کی وجہ سے ہم اخلاقی مسائل جن کی اہمیت علمی مسائل سے کم نہیں ہے، کی طرف توجہ نہیں دیتے، اسی طرح کبھی انسان کو سماجی مسائل پر توجہ دینا معنوی و اخلاقی مسائل کے بارے میں غفلت سے دوچار کر دیتا ہے انسان اجتماعی اور سماجی مسائل میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے اخلاقی مسائل اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی

فرصت ہی نہیں ملتی ہمیں غرور اور غفلت سے بچنے کے لئے کبھی کبھی اخلاقی و معنوی مسائل کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
روایت کے اس حصہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک علم عنایت کیا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، کیونکہ اگر ہم صرف علمی مسائل کی طرف توجہ دیں گے اور خود سے غافل رہیں گے تو اخلاقی انحرافات جیسے غفلت اور غرور میں مبتلا ہو جائیں گے۔
قرآن مجید میں بعض اقدار بیان ہوئی ہیں افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان کو فراموش کر دیا گیا ہے اگرچہ بعض افراد ان میں سے کچھ اقدار کی طرف توجہ کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ اقدار معاشرے میں روز بروز رواج پائیں، جبکہ قرآن مجید ان خصوصیات اور اقدار کو نیک بندوں اور علماء کی صفات میں شمار کرتا ہے، من جملہ ان صفات و خصوصیات میں خداوند عالم سے ڈرنا، توبہ کرنا اور گڑگڑانا ہے۔
شاید حزن، غم اور فروتنی پر تکیہ کرنا مومن، خاص کر عالم کی شخصیت کو متوازن بنانے کے لئے ہے، کیونکہ علم و دانش کی ایک خاص عظمت و منزلت ہے اور یہ تقویٰ کے بعد سب سے بڑی انسانی فضیلت ہے، فطری بات ہے کہ علم حاصل کرنیوالا اجتماعی عزت و احترام کا مالک ہوتا ہے اور یہ بذات خود غرور و تکبر کا موجب ہے اور فطری طور پر عالم کو اس سے آلودہ ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
شرع مقدس اسلام نے عالم کو غرور سے بچانے اور اس کی شخصیت کو متوازن بنانے کے لئے اسے خضوع و خشوع، گریہ و توبہ کی نصیحت کی ہے تا کہ وہ جس قدر سماج میں بلند مقام پائے، اسی قدر اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر سمجھے، یہ وہی چیز ہے جس کی حضرت امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے درخواست کرتے ہیں:
’’أَللّٰہُمَّ صُلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِہِ وَلاَ ترفعنی فی الناس درجۃ الا حططتنی عند نفسی مثلہا ولا تحدث لی عزاً ظاھرا الا احدثت لی ذلۃ باطنۃ عند نفسی بقدرھا۔۔۔‘‘
پروردگارا، درود بھیج محمد ؐ اور ان کی آل پر، جس قدر تو مجھے لوگوں کے سامنے عظمت و سر بلندی عطا کر اسی اعتبار سے تو مجھے اپنی نگاہ میں ذلیل و حقیر قرار دے اور جس قدر ظاہر میں تو مجھے عزت عطا کر اسی اعتبار سے تو مجھے باطن میں ذلت و رسوائی عطا کر۔(۲)
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر ؓ سے فرماتے ہیں۔ اگر تمہیں ایک ایسا علم عطا کیا گیا جو تمہارے خضوع و خشوع میں اضافہ نہ کرے اور تمہارے اندر خضوع و خشوع اور گڑگڑانے کی حالت پیدا نہ کرے، تو جان لینا کہ وہ علم تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، صرف وہ علم فائدہ بخش ہے جو خدا کے سامنے انسان کے خضوع و خشوع میں اضافہ کر دے۔
چنانچہ خداوند متعال قرآن مجید میں علماء کی ایسی تعریف کرتا ہے کہ، جب ان پر آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ فوراً زمین پر گر پڑتے ہیں اور گڑگڑاتے ہوئے گریہ وزاری کرتے ہیں، یہ خدا کے حضور میں انسان کے خضوع کی علامت ہے۔
اگرچہ رونا ایک ظاہری عمل شمار ہوتا ہے لیکن یہ قلب اور باطنی تبدیلی کا مظہر ہے، جب تک انسان کا دل محزون نہ ہو جائے اور انسان خدا کے سامنے خاشع نہ ہو جائے، گریہ کی حالت اس میں پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’یَا أَبٰاذرٍ؛ مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَبْکٖی فَلْیَبْکِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فِلْیُشْعِرْ قَلْبَہُ الْحُزْنَ وَلْیَتْبٰاکَ، اِنَّ الْقَلْبَ الْقٰاسٖی بَعٖیدٌ مِنَّ اللّٰہِ تَعٰالٰی وَلکِنْ لٰا تَشْعُرُوْنَ‘‘
اے ابوذر! جس کے لئے ممکن ہو (خدائے قادر سے ڈر کر) گریہ کرے، اگر ممکن نہ ہو تو(کم از کم) اپنے دل کو غم اندوہ سے آشنا کرے اور رونے کی حالت پیدا کرے، کیونکہ قساوت رکھنے والا دل خدائے متعال سے دور ہوتا ہے، لیکن وہ اس معنی کو درک نہیں کرتے ہیں۔
چنانچہ اس سے پہلے بیان ہوا، جس گریہ کی روایتوں، من جملہ مذکورہ روایت میں تاکید کی گئی ہے، وہ اخروی سعادت سے محروم ہونے اور گناہوں میں آلودہ ہونے کے خوف سے گریہ ہے یا معنوی مدارج اور امام عصر(عج) کے دیدار سے محروم ہونے کی وجہ سے جو گریہ کیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر وہ گریہ ہے جو لقاء اللہ کی محرومیت کی وجہ سے واقع ہوتا ہے۔

جو لوگ خدا کی محبت رکھتے ہیں اور ولایت الٰہی کو پہچانتے ہیں ، لقاء اللہ سے محروم ہونے کے خوف میں گریہ وزاری کرتے ہیں، جیسے حضرت علی علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ہیں:
’’فھبنی یا الھی و سیدی و مولای و ربی، صبرت علی عزابک فکیف اصبر علی فراقک‘‘
مجھے معلوم ہے اے میرے معبود اے میرے سردار! اے میرے مولا! اے میرے پروردگار! میں عذاب پر تو صبر کر لوں گا لیکن تیری جدائی پر کیوں کر صبر کروں گا؟
اگر کسی کے لئے گریہ وزاری کرنا ممکن نہ ہو تو اسے حزن آفرین موضوعات کو یاد کر کے معنوی اقدار سے محروم ہونے کی وجہ سے اور گناہ پر غور کر کے کم از کم اپنے دل کو محزون بنانا چاہیے، اگر اسکا دل محزون نہ ہو تو کم از کم رونے کی حالت بنائے، اگر کسی شخص کے لئے حزن کی حالت پیدا نہیں ہوتی اور ہمیشہ مست و مغرور رہتا ہو تو وہ خدا کی رحمت سے محروم رہتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر کوئی جو گریہ و بکاء کی حالت رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ہے، کیونکہ ممکن ہے بعض حالات کے پیش نظر منافقین میں بھی ایسی حالت رونما ہو جائے اور وہ محزون ہو کر گریہ کرنے لگیں اس کے برعکس جو بھی محزون نہ ہو اور اس میں گریہ کی کیفیت پیدا نہ ہو تو اسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سنگ دل اور خدا سے دور ہے۔
بہشت میں سکون و اطمینان
دنیا میں خوف خدا کا نتیجہ
یٰا أَبَاذَرٍ؛ یَقُولُ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعٰالٰی: لَا أَجْمَعَ عَلٰی عَبْدٍ خَوفَینِ وَلاٰ أَجْمَعُ لَہُ أَمْنَینِ فَأِ ذَا اَمِنَنی فِی الدُّنْیٰا اَخَفْتُہُ یَوْمَ الْقِیٰامَۃِ وَ اِذَا خٰافَنٖی فِی الدُّنْیٰا اَمَنْتُہُ یَوْمَ القِیٰامَۃِ۔
اے ابوذر! خداوند متعال فرماتا ہے: ’’ میں اپنے بندہ پر دو خوف اور دو امن ایک ساتھ جمع نہیں کرتا ہوں اگر وہ اس دنیا میں مجھ سے خائف نہیں تھا یعنی امان میں تھا تو دوسری دنیا میں، میں اسے ڈرائوں گا اور اگر اس دنیا میں مجھ سے خائف تھا تو دوسری دنیا میں امن و امان میں قرار دوں گا‘‘
اگر بندہ دنیا میں عذاب الٰہی سے ڈرتا تھا تو وہ قیامت کے دن خوف و ترس اور عذاب جہنم سے بچ جائے گا(خدا سے خوف، عذاب الٰہی سے ڈرنے کے معنی میں ہے کہ بندہ احکام الٰہی کو انجام دینے میں کوتاہی کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتا ہے)
پس، جو دنیا میں خداوند متعال سے ڈرتا ہے اسے قیامت میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی اور وہ امن و امان میں ہو گا، جیسا کہ خداوندمتعال فرماتا ہے: وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبَّہِ وَنَہَیَ النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَآویٰ(نازعات/۴۰، ۴۱)
اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے تو جنت میں اسکا ٹھکانا اور مرکز ہے۔
چونکہ بہشت خداوند متعال کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی جگہ ہے اور بہشتی لوگ امن و امان میں ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی مشکل، پریشانی اور غم و اندوہ سے دوچار نہیں ہوتے، اس لئے خداوند متعال فرماتا ہے:
مَنْ جَائَ بِالْحَسَنۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِنھَا وَہُمْ مِنْ فَزَعٍ یَومِئِذٍ آمِنُونَ
جو کوئی نیکی کرے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ لوگ روز قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہُ للّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ اَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحزَنُونَ (بقرہ/۱۱۲)
’’ہاں، جو شخص اپنا رخ اللہ کی طرف کرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر ہے اور اس پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن‘‘
اللہ سے ڈرنے والے انسان کے مقابلے میں جو دنیا میں امن کا احساس کرتا ہے اور کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب کا احساس نہیں کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ہے، وہ قیامت کے دن اللہ کے خوف اور اس کے عذاب میں مبتلا ہو گا اور وہ ہمیشہ عذاب الٰہی میں ہو گا۔
خدا کے مکر سے محفوظ رہنا گناہ میں آلودہ ہونے کا سبب ہے کیونکہ جب انسان کام کو انجام دینے میں اپنے آپ کو آزاد دیکھتا ہے اور کسی بھی قسم کا خوف و ہراس محسوس نہیں کرتا ہے تو وہ گناہ سے لا پرواہی کرتا ہے، فطری بات ہے کہ دنیا میں امن و امان کا احساس جو گناہ انجام دینے اور انحراف کا موجب ہے آخرت میں بدامنی اور عذاب کا سبب واقع ہوتا ہے اس سلسلہ میں خداوند متعال فرماتا ہے
فَاَمَا مَنْ طَغیٰ وَآثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیٰا، فَاِنَّ الْجَحِیمَ ھِیَ الْمَأویٰ (نازعات/۳۷،۳۸،۳۹)
جس نے سرکشی کی ہے اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے، جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔
حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان ایک ایسا کام انجام دے سکتا ہے جو اس کے لئے خدا سے ڈرنے کا سبب بنے جب انسان یہ سمجھ لے کہ خدا کا خوف ایک امر مطلوب اور سعادت تک پہنچنے کا وسیلہ ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر کس طرح خدا کا خوف پیدا کرے؟
اس کے جواب میں ہم کہ سکتے ہیں، بعض مقدمات فراہم کر کے بعض مسائل انسان میں اس حالت میں رونما ہوتے ہیں۔
کبھی انسان بعض چیزوں کو جانتا ہے لیکن وہ ان معلومات کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے لہٰذا، اس کے متعلق اس کا اعتقاد اور علم کمزور اور پھیکا ہوتا ہے اور انسان غافل ہوتا ہے، نتیجہ کے طور پر وہ علم اور اعتقاد پر اپنا اثر نہیں دکھاتا ہے، لیکن اگر انسان خوف کو پیدا کرنے والے اسباب کی طرف توجہ کرے اور اس خوف کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کرے، تو اس کا خوف و ہراس بڑھ کر اس کے رفتار و کردار پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ انسان ایسے مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں پر وہ ایک ہی وقت میں غم اور خوشی دونوں کو یکجا کر سکتا ہے کمزور انسان ایک ہی وقت میں حزن و اندوہ اور خوشی کو برداشت نہیں کر سکتے، وہ ایک لمحہ یا حزن رکھتے ہیں یا شادمانی و سرور، جب نفس ہر جہت سے قوی اور مکمل ہوتا ہے تو ممکن ہے ایک ہی وقت میں بعض جہات سے انسان مسرور ہو اور بعض جہات سے غمگین، انسان نفس و روح کے تکامل ترقی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ ایک ایسے مرحلہ پر پہنچتا ہے، کہ مسرتوں اور غموں کی اقسام کو اپنے میں جمع کرتا ہے، چنانچہ اولیائے الٰہی اپنے اندر مختلف قسم کے خوف و اندوہ، مسرتوں اور امیدوں کو جمع کرتے تھے، جو لوگ اس مقام پر پہنچے ہیں وہ ایک ہی وقت میں مختلف حالات پر مشتمل خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں اور وہ اپنے اندر ان مختلف حالات کے آثار و نتائج کو پیدا کر سکتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش، خوف خدا کا نتیجہ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے ڈرنے کے نتیجہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
یَاأَبَاذَرِ: اِنَّ الْعَبْدَ لَیُعْرَضُ عَلَیہِ ذُنُوبُہُ یَومَ القِیٰامَۃِ فَیَقُولُ: أَمٰا أِنِّی کُنْتُ مُشْفِقًا فَیُغْفَرُلَہ
’’اے ابوذر! قیامت کے دن مومن کے گناہ اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو وہ کہے گا کہ میں اپنے کام کے انجام سے بہت زیادہ خوف زدہ تھا تو اس کے نتیجہ میں اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے۔‘‘
یہاں تک ہم خدا سے ڈرنے کی اہمیت سے آگاہ ہوئے اور سیرالی اللہ کی جانب رہنمائی کے سلسلہ میں اس کے عظیم نقش سے بھی واقف ہوئے، حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے خوف کے بعض فوائد کے بارے میں اشارہ فرماتے ہیں تا کہ ہم میں خوف خدا کا محرک پیدا ہو جائے یا اس کو تقویت ملے، آپ فرماتے ہیں: خدا کے خوف کا ایک فائدہ گناہوں کی بخشش و مغفرت ہے۔
کلی طور پر گناہ کے وقت انسان کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:
۱۔ انسان گناہ کے وقت اس کے انجام کا خوف نہیں رکھتا ہے اور اطمینان و آرام اور کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب کے بغیر اس گناہ کی لذتوں سے فائدہ اٹھانے میں مشغول ہے۔
۲۔ گناہ انجام دیتے وقت انسان اس کے انجام کے بارے میں خوف زدہ اور وحشت میں ہے، وہ ڈرتا ہے کہ کہیں مر نہ جائے اور توبہ کرنے کی توفیق نہ ہو، گناہ کے وقت یہ ڈر انسان کے لئے گناہ کی لذتوں کو کم کرنے کا سبب واقع ہوتا ہے اور آخر کار یہی خوف اسے توبہ کرنے اور گناہوں سے بخشے جانے کا باعث ہوتاہے۔
خوف خدا انسان کے گناہوں میں کمی اور اس کی بیداری و ہوشیاری کا سبب واقع ہوتا ہے اور یہ بذات خود متنبہ کرنے والا ہے اور انسان کو انحراف اور لغزش کے وقت غفلت سے روکنے کا سبب ہے، اسی لحاظ سے قرآن مجید میں خدا سے ڈرنے والوں کی ستائش کی گئی ہے اور خوف خدا کی پاداش کا وعدہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خوف خدا کے مراتب کے فرق کا دار و مدار انسان کی شناخت کے مراحل میں اختلاف کی وجہ سے ہے، یعنی فاضل افراد جیسے آئمہ معصومین علیہم السلام خداوند متعال کے خوف کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور دوسرے افراد ادنیٰ مرتبہ پر۔
قرآن مجید خوف و وحشت سے متعلق دو چیزوں کا ذکر کرتا ہے:
۱۔خدائے متعال کی عظمت و کبریائی سے خوف
۲۔عذاب الٰہی کا خوف
سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے:

لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَ خَافَ وَعِیدِ (ابراہیم/۱۴)
’’اور تمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کریں گے اور یہ سب ان لوگوں کے لئے ہے جو ہمارے مقام اور مرتبہ سے ڈرتے ہیں اور ہمارے عذاب کا خوف رکھتے ہیں‘‘
اس آیہ مبارکہ میں خدائے متعال کا خوف کا بھی ذکر ہوا ہے اور عذاب الٰہی کے خوف کا بھی ذکر ہوا ہے، سب سے بلند ترین خوف خدائے متعال کی عظمت کا خوف ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:
خدا کا خوف کبھی عذاب الٰہی سے خوف کے معنیٰ میں ہوتا ہے جو کفر و معصیت کی وجہ سے ہوتا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کی عبادت عذاب سے نجات دلانے کے لئے ہے
یہ وہ عبادت جو خدا کے لئے انجام دی گئی ہو، یہ عبادت ایسے بندوں کی ہے جو اپنے مولا کی سزا کے ڈر سے اس کی بندگی کرتے ہیں، چنانچہ بعض لوگ ثواب کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں، کہ عبادت کی یہ قسم ’’تاجروں کی عبادت ‘‘ ہے، لیکن’’ مقام ربوبیت‘‘ سے خوف، عذاب الٰہی کے خوف کے علاوہ ہے اور یہ عزت و جبروت الٰہی کے مقابلہ میں بندے کی ذلت و حقارت کا اثر ہے۔
حقیقت میں عظمت الٰہی کے خوف سے عبادت و بندگی، خدائے متعال کے حضور میں سر تسلیم خم کرنے اور خضوع کرنے کے معنی میں ہے نہ عذاب کے خوف سے یا ثواب کی لالچ میں اور یہ عبادت مخلصانہ طور پر خدائے متعال کے لئے انجام دی جاتی ہے، پس جو مقام الٰہی سے ڈرتے ہیں وہ خدائے متعال کے جلال کے سامنے مخلصین اور خاضعین ہیں۔‘‘ (۳)
اپنے نیک اعمال پر اعتماد کرنے والے کی سرزنش:
گناہ کے مرتکب ہونے والوں کی سرزنش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
یٰا أَبَاذَرٍ؛ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعَمَلُ الْحَسَنَۃَ فَیَتَّکِلُ عَلَیْہٰا وَیَعْمَلُ الْمُحَّقَّرَاتِ حَتّٰی یَأتِیَ اللّٰہُ وَھُوَ عَلَیْہِ غَضْبٰانٌ وَاَنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ السَّیئَۃَ فَیَفْرُقَ مِنْھٰا فَیَأتِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ آمِنًا یَومَ الْقِیٰامَۃِ
’’اے ابوذر! ایک انسان نیک کام انجام دیتا ہے، اس پر اعتماد کر کے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنے نیک کردار کے مقابلہ میں گناہ کے انجام میں سہل انگاری کرتا ہے، ایسا انسان جب خدا کے حضور میں حاضر ہوتا ہے تو خدا اس پر خشمگین ہوتا ہے، اس کے برعکس ایک انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس کے انجام سے خائف ہوتا ہے، اس قسم کا انسان قیامت کے دن آسودہ خاطر ہو گا‘‘
اعمال کے قبول ہونے اور نہ ہونے کے معیار کو ظاہری معیاروں پر تولہ نہیں جا سکتا بلکہ اعمال کا قبول ہونا اور قبول نہ ہونا بعض شرائط سے مربوط ہے اور بہت ممکن ہے کہ انسان ان سب کا احصانہ کر سکے، اس بنا پر کوئی بھی شخص اپنے اعمال کے قبول ہونے پر مطمئن نہیں ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ، اعمال کے قبول ہونے پر اعتماد انسان کے مغرور ہونے کا سبب ہے، یہاں تک خود کو گناہ صغیرہ میں اس بہانہ سے آلودہ کرتا ہے کہ اس کے انجام دیئے گئے نیک کام کے مقابلہ میں گناہ صغیرہ حقیر ہے۔
وہ اس سے غافل ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اس کے نیک اعمال کے قبول ہونے کے متعلق اس کا اعتماد بے جا تھا، کیا معلوم اس کے اعمال قبول ہوئے ہوں گے یا نہیں۔
دوسرے یہ کہ گناہان صغیرہ کے بارے میں بے توجہی اور ان کی تکرار بذات خود گناہ کبیرہ ہے، یہی کہ انسان نیک اعمال انجام دینے کے پیش نظر، اطمینان کے ساتھ آسودہ خاطر ہو جائے اور اپنی عبادتوں پر اعتماد کرتے ہوئے کسی گناہ کو چھوٹا اور معمولی سمجھ کر اس کے مرتکب ہونے کو اہمیت نہ دے، اس پر خدا کا غضب ہو گا۔
اس گروہ کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہیں، جب وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، تو ڈر کے مارے اضطراب کا احساس کرتے ہیں اور ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں، یہ لوگ اگرچہ بعض عبادتوں کی انجام دہی کے بارے میں زیادہ ہمت کا مظاہرہ بھی نہ کرتے ہوں لیکن گناہ کے بارے میں ان کے خوف و وحشت کی وجہ سے وہ قیامت کے دن عذاب الٰہی سے نجات پائیں گے اور وہ وہاں آرام و آسائش میں ہوں گے (حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت کی تفسیر مختلف ہے، من جملہ ’’لا اجمع علی عبد خوفین‘‘ جس کے بارے میںپہلے اشارہ کیا گیا ہے۔)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد جناب ابوذرؓ کو قلبی حالات کی طرف متوجہ کرانا ہے کہ گناہ سے ڈرنا کس قدر موثر ہے، یہاں تک اگر انسان گناہ میں مبتلا ہو جائے، اس کے قلبی ہواس نیز اضطراب و پریشانی اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہے، اس کے برعکس اگر کسی نے کافی عبادت انجام دی ہو۔ لیکن گناہ کو حقیر اور چھوٹا سمجھ کر مطمئن ہو جائے تو اس کا مطمئن ہونا گناہ کو اہمیت نہ دینے کی دلیل ہے اور وہ متوجہ نہیں ہے کہ کس کی مخالفت کرتا ہے اور غضب الٰہی سے دوچار ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں کسی بھی گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ہمیشہ خدا کے خوف کو اپنے اندر محفوظ رکھنا چاہئے تا کہ مغرور نہ ہوں اور ہمیں شیطان فریب نہ دے۔

گناہ کی طرف متوجہ ہونے کا اثر شیطان سے دوری
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد والے جملہ میں مذکورہ بیان سے بالاتر فرماتے ہیں:
’’یٰا أَبَاذَرٍ؛ اِنَّ الْعَبْدُ لَیُذْنِبُ الذَّنْب فَیَدْخُلُ بِہِ الْجَنَّۃَ، فَقُلْتُ: وَکَیْفَ ذٰلِکَ بِأَبٖی أَنْتَ وَأُمِّی یٰا رَسُوْلَ اللّٰہ؟ قٰالَ، یَکُوْنُ ذٰلِکَ الذَّنْبُ نَصْبَ عَیْنَیہِ تٰائِباً مِنْہُ فٰارَاً اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی یَدخُلَ الْجَنَّۃَ‘‘
اے ابوذر! خدا کا بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کے سبب بہشت میں داخل ہوتا ہے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہو
جائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: وہ گناہ کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے قرار دیتا ہے اور اس سے توبہ کرتے ہوئے خدا کی پناہ چاہتا ہے، یہاں تک کہ بہشت میں داخل ہو جاتا ہے۔
کبھی بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پریشان اور مضطرب ہوتا ہے اور یہی خوف و وحشت اس کے لئے توبہ، خدا کی پناہ میں قرار پانے اور شیطان کے پھندے سے آزاد ہونے کا سبب واقع ہوتا ہے۔

آخر کار وہ نفسانی خواہشات کی غفلت سے نجات پا کر پھر سے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا اور اس کے نتیجہ میں وہ بہشت میں داخل ہوتا ہے، شاید اگر وہ گناہ اس سے سرزد نہ ہوتا تو یہ حالت اس کے لئے پیش نہ آتی، البتہ خدائے متعال کی طرف توجہ اور شیطان سے دوری اختیار کرنے کا قریب سبب وہی توبہ اور خدائے متعال سے خوف و وحشت اور گناہ اس کا ’’سبب بعید‘‘ ہے لیکن بہرحال گناہ بھی سبب بن گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انسان کو اس امر کی طرف ترغیب دینے کے لئے ہے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا نفسانی احساس پیدا کرے، وہ خوف جو گناہوں کے ارتکاب کے بعد اس کی تلافی کرنے کا سبب واقع ہو اور جس کی وجہ سے وہ انسان بہشت میں داخل ہو جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پس اس حالت کو پانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے؟

حزن و خوف کی حقیقت کے بارے میں تحقیق
یہاں تک اس حصے میں روایت میں بیان شدہ حزن و خوف کے بارے میں بحث تھی، اب چند سوالات پیش کر کے ان کا جواب دینا مناسب ہے، اگرچہ ان سوالات کا براہ راست واسطہ اس اخلاقی بحث سے نہیں ہے:
منجملہ سوالات یہ ہیں کہ کیا خوف و حزن کی حالت اچھی ہے یا بری؟ اگر یہ کیفیت اچھی ہے تو خدائے متعال اپنے اولیاء کی توصیف میں یہ کیوں فرماتا ہے :
لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (۴)
اور اگر یہ کیفیت بری ہے تو کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کو اپنی ذات میں پیدا کرو؟ نیز فرمایا ہے: یہ دو چیزیں مغفرت اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔
جواب میں کہنا چاہئے: خوف و حزن بہ ذات خود اپنے متعلق کو مدنظر رکھے بغیر نہ مطلوب ہے نہ مذموم، کلی طور پر نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیفیت اچھی ہے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے یہ کیفیت بری ہے، بلکہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خوف و وحشت کس سے ہے نیز حزن و اندوہ کس لئے ہے؟ خدائے متعال اور اس کے عذاب سے خوف ایک مستحسن اور مطلوب امر ہے، کیونکہ یہ خوف انسان کے لئے بیشتر خدا کی عبادت اور اطاعت اور گناہ سے پرہیز کرنے کاسبب بنتا ہے اور نتیجہ کے طور پر انسان کی اس امر میں مدد کرتا ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے اور سعادت و خوش بختی کو حاصل کرکے بہشت میں داخل ہو جائے، اس کے برعکس دنیا کے لئے خوف نا پسندیدہ ہے، کیونکہ بنیادی طور پر دنیا کی طرف تمایل اور توجہ مطلوب نہیں ہے چہ جائے کہ اس کے بارے میں خوف کرنا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا سے ڈرنے کا کیا معنی ہے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہیے خدا سے ڈرنا در حقیقت اپنے اعمال سے ڈرنا ہے جس کا انسان مرتکب ہوتا ہے ورنہ خدائے متعال رفعت و رحمت کا سرچشمہ ہے، خدا سے خوف اس لحاظ سے ہے کہ وہ سخت عذاب کرنے والا ہے وہ انسان کے کرتوتوں کو معاف نہیں کرتا ہے اور ہر عمل کا حساب لیتا ہے۔
جس دوسرے نکتہ کا بیان ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلی تقسیم بندی کے لحاظ سے خدا کے خوف کو تین مراتب میں بیان کیا جا سکتا ہے
۱۔ جہنم میں عذاب الٰہی کا خوف
یہ عام انسانوں کا مرتبہ ہے اکثر لوگوں میں جہنم اور عذاب الٰہی سے خوف کرنا اپنے فرائض پر عمل کرنے اور گناہ سے پرہیز کرنے کا سبب ہے البتہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ مرتبہ ان افراد کے لئے بہت مفید ہے جو بندگی کے ابتدائی مراحل میں رشد و ترقی کے مرحلے میں ہوتے ہیں اور یہ خوف تاثیر کی صورت میں گناہ سے اجتناب کرنے سعادت حاصل کرنے اور عذاب الٰہی سے نجات پانے کا سبب بنتا ہے
۲۔بہشتی نعمتوں کے کھوجانے کا خوف
بعض لوگ بہشتی نعمتوں سے محروم ہونے کے ڈر سے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے اور اپنے فرائض پر عمل کرتے ہیں، حقیقت میں بہشت کی لالچ انہیں خدا کی عبادت کرنے اور شیطان سے دوری اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے، یہ مرتبہ گزشتہ مرتبہ سے بلند تر ہے۔
۳۔لقائے الٰہی اور خدا کے تقرب سے محروم ہونے کا خوف
انسان کا خدا کی بے لطفی اور بے اعتنائی سے دوچار ہونے کا خوف اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مرتبہ مذکورہ دو مراتب سے بالا تر ہے اور یہ خدا کے خاص بندوں اور انتہائی بلند درجہ رکھنے والے افراد سے مربوط ہے جو اخروی ثواب اور الٰہی عذاب کو مدنظر نہیں رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ ایک ایسی چیز کا ادراک کر کے اس کے پیچھے دوڑتے ہیں جو بہت بلند ہے۔
اس مرتبہ کی وضاحت کرنے کے لیے بطور مثال عرض ہے کہ اگر روز عید رہبر معظم کی طرف سے دعوت دی جائے اور وہ ہماری مہمان نوازی کریں، ممکن ہے کچھ مہمان فکر مند ہوں کہ اگر تاخیر سے پہنچے تو کھانا کھانے سے محروم ہو جائیں گے، بعض اپنے دل میں سوچتے ہیں کہ آج عید ہے اور آج قائد انقلاب انعامات عطا کریں گے، اس گروہ کا عزم پہلے گروہ سے زیادہ ہے ان کے لئے اہم یہ نہیں ہے کہ بھوکے رہیں بلکہ ان کے لئے اہم یہ ہے مقام معظم رہبری(قائد انقلاب) کے ہاتھوں انعام حاصل کریں۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے لئے صرف ان کی زیارت کی اہمیت اور قدر و منزلت ہے نہ کسی اور چیز کی، ان کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ مقام معظم رہبری ان پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے چہرے پر ایک رضایت بخش مسکراہٹ ظاہر کریں، یہی چیز اس گروہ کے لئے باعث اہمیت اور فضیلت ہے، اس کے علاوہ ان کے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ انہیں کوئی سکہ یا ہدیہ دیا جائے یا نہ۔
یہ مراتب جو مختلف افراد میں دوستی اور الفت کی بنا پر ان کے عزم و معرفت کے تفاوت کی بناء پر پائے جاتے ہیں، انہیں بلاتشبیہ خدائے متعال کے خوف سے منطبق کیا جا سکتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک روایت میں ان تین مراتب کو خدا کی بندگی و عبادت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
’’قَومٌ عَبَدُوااللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خَوفاً فَتِلْک عِبَادَۃُ الْعَبِیدِ وَقَومٌ عَبَدُواللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ طَلَبًا لِلثَّوابِ، فَتِلْکَ عِبَادَۃُ الْاُجَرَائِ وَقَوْمٌ عَبَدُوا اللّٰہَ حُبَّالَہُ فَتِلْکَ عِبَادَۃُ الْاَحْرَارِ وَھِیَ أَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ‘‘ (۵)
’’ایک گروہ ہے جو خوف اور ڈر کے مارے خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت غلاموں کی ہے، ایک گروہ ہے جو پاداش اور ثواب کے لالچ میں خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت مزدوروں کی عبادت ہے، جو کچھ لوگ خدا سے محبت و عشق کی بنا پر عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور تمام عبادتوں میں افضل ہے‘‘

جو شخص خدائے متعال سے ڈرتا ہے، کبھی اس کا یہ خوف جہنم کی وجہ سے ہے، اس طرح کہ اگر عذاب جہنم اس سے اٹھا لیا جائے تو اسے اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے، لیکن یہ مرتبہ کفر و بے ایمانی کے مقابلہ میں بہت قیمتی ہے، خدا اور قیامت پر ایمان کا نتیجہ اس بات کا ایمان ہے کہ خدائے متعال قیامت کے دن گناہ گار بندوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا، جن کا عزم اسی مرحلہ تک ہے وہ پست ہے اور ان غلاموں کے مانند ہے کہ جو اپنے مالک کے ڈر سے کام کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خدا سے ڈرنا اس بنا پر ہے کہ انہیں خوف ہے کہ بہشت کی نعمتوں سے محروم نہ ہو جائیں، اگر کوئی عذاب بھی نہ ہو، تب بھی ڈرتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں سے محروم نہ ہوں۔
ان دو گروہوں کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر بہشت و جہنم بھی نہ ہوتے تب بھی وہ خدا سے ڈرتے تا کہ اس کی بے لطفی اور بے توجہی سے دو چار نہ ہو جائیں، قرآن مجید کفار سے خداوند متعال کی بے اعتنائی کو سب سے بڑے عذاب الٰہی کے طور پر ذکر کرتا ہے۔
وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ القِیَٰامَۃِ
’’نہ خدا ان سے بات کرے گا اور نہ روز قیامت ان کی طرف نظر کرے گا‘‘

درک کرنے والے کے لئے بے اعتنائی ہر عذاب سے بڑا عذاب ہے، اگر انسان ایک مدت کے بعد اپنے دوست، باپ یا استاد کے پاس جائے اور ان کی طرف سے بے اعتنائی کا مظاہرہ ہو تو یہ اس کے لئے عذاب سے سخت ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کیوں خدا سے ڈرتے ہیں؟ وہ تو معصوم تھے اور بہشت، جہنم نیز امت کی شفاعت کا اختیار ان کے ہاتھ میں تھا، وہ کیوں خدا سے ڈرتے تھے اور یہ خوف مقام عصمت کے ساتھ کیسے سازگار ہے؟
اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ عصمت کے معنی گناہوں سے پرہیز اور حرام کام سے کنارہ کشی ہے اور اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ رضوان الٰہی بھی معصوم کے ہمراہ اور نصیب میں ہو، جو گناہ نہیں کرتا ہے وہ جہنم میں نہیں جائے گا لیکن کہاں سے یہ معلوم کہ خدا کی توجہ اور اس کی محبت بھی اس کے ساتھ ہے، عنایت اور رضوان الٰہی کی محرومیت کا خوف عذاب الٰہی کے خوف سے بالاتر ہے۔

اس سوال کا حقیقی اور مفصل جواب ہماری سمجھ کی حد سے باہر ہے، کیونکہ ہم اہل بیت کی منزلت کو درک نہیں کر سکتے ہیں اس چیز کو نہیں سمجھ سکتے کہ ان کی روحانی کیفیت کیسی تھی، کیا کرتے تھے اور ان حالات کیسے تھے حقیقت میں ہم موجودہ شواہد اور اپنے حالات سے موازنہ کرتے ہیں، مختصر اور اپنے فہم کی حد تک ان کے حالات سے شمہ برابر درک کرتے ہیں لیکن حقیقت امرہم پر واضح اور ناقابل بیان ہے۔
متضاد اور متفاوت حالات کا ایک ہی وقت میں محقق ہونا
مذکورہ مطالب کے پیش نظر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان کی روح کامل ہو جائے تو وہ مختلف حالات جیسے لذت والم، خوشی و غم کا ایک ساتھ حامل ہو سکتا ہے، ہماری ظرفیت محدود ہے اور ہم اپنے کمال کے مراحل میں مختلف حالتوں کو اپنے اندر جمع نہیں کر سکتے ہیں لہٰذا غم و سرور کا مجموعہ ہمارے اندر ایک متوسط اور درمیانی کیفیت کو پیدا کرتا ہے، لیکن جب انسان کمال کو پہنچتا ہے تو وہ مختلف عوامل و اسباب کے تحت اپنے اندردو یا چند حالتیں نیز مختلف و تضاد کیفیتیں کمال کی حد تک پیدا کر سکتا ہے۔
خوف و رجاء کی کیفیت، اپنے خاص عامل کے تحت انسان کے نفس میں پیدا ہوتی ہے اور اگر مجموعی عوامل کو ایک ساتھ مدنظر رکھا جائے تو ان عوامل کے فعل و انفعالات (اثر پذیری) کے نتیجہ میں ممکن ہے ایک نئی حالت رونما ہو، لیکن اگر ہر عامل پر اس جہت سے کہ ایک خاص حالت کا سرچشمہ ہے نگاہ کی جائے تو اس کا نتیجہ وہی خاص حالت ہو گی، مثال کے طور پر اگر خوف کے منشاء پر توجہ کی جائے تو خوف نفس میں پیدا ہوتا ہے اور اگر امن و سلامتی کے سرچشمہ پر توجہ کی جائے تو نفس کے لئے صرف امن و سلامتی کی حالت پیدا ہوتی ہے جن لوگوں کا نفس قوی اور مضبوط ہے نیز اپنے حالات اور جذبات پر قابو پا سکتے ہیں، وہ جب عذاب الٰہی یا رضوان الٰہی سے محروم ہونے کے امکان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگتے ہیں اور عین اسی لمحہ میں جب وہ فضل خدا وندی اور مغفرت الٰہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان میں سروروشادمانی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یعنی ان کے لئے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں خوف و امن کے عوامل کے پیش نظر ان دو حالتوں کو اپنے اندر پیدا کر سکیں۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے وجود مقدس کے بارے میں ایک ضعیف اور محدود معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور ان کے اندر تضاد کیفیتوں کے حوالے سے ان کے فضائل پر ایک ہلکی سی روشنی ڈالی جا سکتی ہے وہ اپنے قوی نفوس کی وجہ سے ایک ہی لمحہ میں تمام اسماء صفاتِ الٰہی کے مظہر ہوسکتے ہیں، وہ رحمت الٰہی پر توجہ رکھتے ہیں، ان میں سرور و شادمانی کی امید پیدا ہوتی ہے، دوسری طرف سے خدائے متعال کے سنگین عذاب و سزا پر توجہ رکھتے ہیں اور ان میں خوف و وحشت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، چونکہ انسان کی جسمانی حالت مثلاً اس کا بدن ظہور کے لحاظ سے ان دو حالتوں کو متجلی کرنے کی مکمل طور پر قدرت نہیں رکھتا، لہٰذا ان دونوں حالتوں میں سے جو بھی دوسری حالت پر برتری رکھتی ہے وہ بیشتر تجلی و ظہور پیدا کرتی ہے اگر خوف کو برتری حاصل ہے تو آنسو جاری ہوتے ہیں، اور اگر خوشی و نشاط کی کیفیت کو فوقیت حاصل ہے تو مسکراہٹ کی صورت میں اس کا ظہور ہوتا ہے، البتہ ان حالات کو متجلی کرنا خود ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں کہ معصومین علیہ السلام عذاب الٰہی کی طرف اس لئے توجہ کرتے تھے تا کہ ان پر خوف طاری ہو جبکہ معصوم جانتے تھے کہ انہوں نے ہر گز گناہ نہیں کیا ہے اور نہ کبھی گناہ کریں گے، اس کے علاوہ خدائے متعال نے بہشت و جہنم کی ذمہ داری انہی کو سونپی ہے، تو وہ کس محرک کے تحت خوف کے عوامل کے بارے میں توجہ کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے پہلے اس کا ایک جواب دیا ہے اب ہم یہاں پر ایک دوسرا جواب پیش کرتے ہیں:
انسان میں موجود مجموعی توانائیاں اور حالات خدا کی بندگی کا مظہر ہونا چاہییں اور وہ اسی کی راہ میں صرف ہوں۔ انسان کا وجود مختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور وہ مادی و معنوی کیفیتوں سے مرکب ہے۔ اس کی طینت میں جہاں خوف و الم ہے وہاں امن و سلامتی، امید، سرور اور لذت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ عناصر و قویٰ عطا کئے ہیں تاکہ انہیں اس کی راہ میں صرف کرے یعنی خدا کے لئے ہنسے اور مسرور ہو یعنی اس کی خوشی کا کسی نہ کسی طرح خدا سے ربط ہونا چاہئے، اس لئے شاد و مسرور ہو کہ خدا نے اس پر تفضل و احسان کیا ہے نہ اس لئے کہ وہ خود لذت محسوس کر رہا ہے۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ شیعیان بہشت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت کے مہمان ہوں گے اور ان کے دستر خوان پر کھانا کھائیں گے، کیا جس لذت کا احساس معصومین ؑ بہشت کی نعمتوں سے کرتے ہیں وہ اس لذت کے مساوی ہے جو ہمیں ملے گی؟ آیہ مبارکہ میں آیا ہے:
وَلَحْمِ طَیْرٍمِمَّا یَشْتَھُونَ (واقعہ/۲۱)
ان پرندوں کا گوشت جس کی انہیں خواہش ہو گی۔

’’ایک گروہ ہے جو خوف اور ڈر کے مارے خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت غلاموں کی ہے، ایک گروہ ہے جو پاداش اور ثواب کے لالچ میں خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت مزدوروں کی عبادت ہے، جو کچھ لوگ خدا سے محبت و عشق کی بنا پر عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور تمام عبادتوں میں افضل ہے‘‘

کیا جو لذت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہشتی پرندوں کے گوشت سے محسوس کرتے ہیں، ہماری لذت کے مساوی ہے؟
ان دونوں لذتوں میں بے حد فرق ہے حتیٰ کہ لذتوں کی جہت میں بھی فرق ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہت سے لذت محسوس کرتے ہیں کہ وہ مورد انعام الٰہی واقع ہوئے ہیں، بہر صورت احساس لذت کے مرتبہ کا انحصار انسان کے خدا کے نزدیک معرفت اور اس کی محبت کے معیار پر ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کے خوف اور دیگر لوگوں کے خوف کے بارے میں بھی یہی موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔اگرچہ وہ جہنم کی آگ سے ڈرتے ہیں لیکن ان کا ڈرنا اس جہت سے ہے کہ وہ اسے خدا کے غضب کی علامت جانتے ہیں، اسے یہ علامت جانتے ہیں کہ ان کا معشوق ان سے محبت نہیں کرتا ہے، خدا کا
غضب اور اس سے مفارقت و دوری ان کے لئے نا قابل برداشت ہے اسی لحاظ سے سخت پریشان و فکرمند ہوتے ہیں۔
________________________
۱۔مفاتیح الجنان (دفتر نشر فرہنگ اسلامی) ص ۔۔۱۰۹
۲۔مفاتیح الجنان، دعائے مکارم الاخلاق
۳۔ المیزان، ج۱۹، ص۔۔۱۲۲
۴۔بقرہ ۔۔۱۱۲
۵۔بحارالانوار، ج۔۔۷۰، ص۔۔۲۳۶

………………………………..

 

Related Articles

Back to top button