خاندان اور تربیتمقالات

اسلام میں انفاق کی اہمیت

(آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی)
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے
جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ(بیج)کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔
۱:۱ انفاق ایک بابرکت دانہ
قرآن کریم انفاق کو ایک بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طرح بیان فرماتا ہے:
مثل الذِین ینفِقون اموالہم فِی سبِیلِ اللہِ کمثلِ حب انبتت سبع سنابِل فِی کلِ سنبل مِآء حب واللہ یضاعِف لِمن یشآ واللہ واسِع علِیم(سورہ بقرہ:آیت۲۶۱س(

جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ(بیج)کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی۔(علامہ جوادی)
انفاق اورسماجی مشکلات کا حل
سماجی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل طبقاتی فاصلہ اور دوری ہے جس میں انسان ہمیشہ گرفتار رہا ہے اور آج بھی جبکہ صنعتی اور مادی ترقی عروج پر ہے پورا سماج اس طبقاتی کشمکش میں مبتلاہے ۔ایک طرف فقر،غربت اور ناداری ہے تودوسری طرف مال وثروت کی کثرت و فراوانی۔
کچھ لوگ اتنے زیادہ مال وثروت کے مالک ہیں جن کا حساب نہیں لگایاجاسکتا اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فقیری اور تنگ دستی سے نالاں ہیں اور زندگی کی ابتدائی ضروری اشیا جیسے روٹی، کپڑا،اور مکان کا مہیا کرنا ان کے لئے ایک بہت مشکل کام ہے ۔
واضح سی بات ہے کہ جس سماج کی بنیاد کا ایک حصہ دولتمندی اور مالداری پر اور دوسرا حصہ فقر اور بھوک پر استوار ہو اس سماج میں بقااوردوام کی صلاحیت نہیں پائی جاسکتی اور کبھی بھی سعادت اور خوشحالی سے ہمکنار نہیںہوسکتا ہے ۔
ایسے معاشرہ میں پریشانی،اضطراب،بد بینی وبد گمانی اور سب سے اہم چیز دشمنی اورعداوت حتمی اور یقینی چیز ہے ۔
اگر چہ یہ اضطراب گذشتہ انسانی معاشروں میں بھی موجود تھا لیکن ہمارے زمانہ میں طبقاتی فاصلے زیادہ اور خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں اس لئے کہ ایک طرف سے انسانی امداد اور واقعی تعاون کے دروازے بند ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سے سود خوری،طبقاتی فاصلہ کا ایک اہم سبب ہے ۔ کے دروازے مختلف شکلوں میں کھل چکے ہیں
کمیونزم اور اس کے جیسے دوسرے مکاتب فکرکا وجودمیں آنا، خونریزیاںاور اس صدی میں چھوٹی بڑی وحشتناک اور تباہ کن جنگوں کا واقع ہونا جو آج بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں جاری ہیں،انسانی معاشرہ کی اکثریت کی محرومیت کا ردِعمل اور نتیجہ ہیں ۔دانشمندوں اور مفکرین نے سماج کی ہر مشکل کوحل کرنے کی فکر کی اور ہر ایک نے ایک راہ اور جدا جدا راہوں اور طریقہ کار کاانتخاب کیا،کمیونزم نے ذاتی اور شخصی مالکیت کو ختم کر کے، سرمایہ داری نے زیادہ سے زیادہ مالیات اور ٹیکس لے کر اور عام فلاحی اداروں (جن میں زیادہ تر نمائشی ہیں چہ جائیکہ حاجت مندوں کی مشکل حل کریں)کو تشکیل دے کراپنے اپنے گمان میں اس مشکل کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کوئی بھی اس راہ میں موثر قدم نہیں اٹھا سکا ہے اس لئے کہ اس مشکل کا حل،مادیت اور مادی افکار کے ذریعہ ممکن نہیں ہے جو پوری دنیا پر حاکم ہے اس لئے کہ مادی تفکر میں بلا غرض اوربلااجرت مدد اور تعاون کی کوئی جگہ نہیںہے ۔
آیات قرآنی میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ وہ نظام جو سماج کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ روش سے سرمایہ دارانہ اور غربت و افلاس کے دوطبقوں میںبٹ چکا ہے اس کا خاتمہ کر دے اور جو لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کو دوسروں کی مددکے بغیر پورا نہیں کر سکتے ان کی سطح کو اتنا بلند کر دے کہ کم سے کم ضروریات زندگی کے مالک ہوں ۔ اسلام نے اس مقصد اور ہدف تک رسائی کے لئے ایک وسیع نظام اور قانون کو مدنظر رکھا ہے ۔
سودخوری کو مکمل طریقہ سے حرام قرار دینا،اسلامی مالیات(ٹیکس) جیسے زکو، خمس، وغیرہ کی ادائیگی کو واجب قرار دینا ،انفاق،وقف،قرض ا لحسنہ اور مختلف مالی امداد کی تشویق کرنا ،اس نظام کا ایک حصہ ہے اور سب سے اہم چیز لوگوں میں روحِ ایمان، بھائی چارگی اور مساوات کو زندہ کرنا ہے ۔
ایک خوبصورت مثال
مثل الذِین ینفِقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل جن( بقرہ/)
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں انفاق سے مراد راہ جہاد میں انفاق اور خرچ کرنا ہے اس لئے کہ اس آیت سے پہلے والی آیتوں میں جہاد کا تذکرہ ہوا ہے ۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ یہ مناسبت انفاق کو جہاد سے مخصوص کرنے کا سبب نہیں بنتی ۔ اس لئے کہ کلمہ سبیل اللہ جو کہ بطور مطلق ذکر ہوا ہے ہر قسم کے جائز خرچ اور مصرف کو شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت کے بعد کی آیات، جہاد کے بارے میں نہیں ہیں ۔ اسلئے کہ – انفاق کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا جا رہا ہے ۔ اورتفسیر مجمع البیان کے نقل کے مطابق روایات میں بھی آیت کے عمومی معنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
بہرحال اس آیہ کریمہ میںراہ ِخدا میں انفاق کرنے والوں کو با برکت دانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو زرخیز زمین میں بوئے جائیں جبکہ ان افراد کو دانہ سے تشبیہ نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ ان کے انفاق کو دانہ سے تشبیہ دینا چاہیئے یا ان لوگوں کو کسانوں سے تشبیہ دینا چاہئے تھاجو دانہ چھڑکتے اور بوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے کہاہے کہ اس آیت میں ایک کلمہ حذف کر دیا گیا ہے (الذِین) سے پہلے کلمہ صدقات تھا یا کلمہ حب سے پہلیباذرتھا)
لیکن اس آیت میں کسی کلمہ کے حذف ہونے یا پوشیدہ ماننے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس تشبیہ میں ایک اہم راز پوشیدہ ہے اور انفاق کرنے والوں کو با برکت دانوں سے تشبیہ دینا ایک عمیق اور خوبصورت تشبیہ ہے ۔
قرآن کریم اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہر انسان کا عمل اس کے وجود کا پرتو اور عکس ہے ۔عمل جس قدر وسعت پیدا کرے گا در حقیقت انسان کا وجود بھی اتنا ہی وسیع ہوتا چلاجائے گا ۔
اس سے واضح لفظوں میں قر ا ٓن مجید،انسان کے عمل کو اس کی ذات سے الگ نہیں جانتا ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی حقیقت کی مختلف شکل کے طور پر بیان کرتا ہے لہذاکسی چیز کو محذوف مانے بغیربھی یہ آیت قابل تفسیرہے اور ایک عقلی حقیقت کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے نیکی کرنے والے افراد دانوں کے مانند ہیں جو ہر طرف جڑ اور شاخ پھیلا لیتے ہیں اور ہر جگہ کو اپنے زیرِ سایہ لیتے ہیں ۔
قرآن کریم نے حبانبتت سبع سنابِل میں اس بابرکت بیج کی صفت کو اس طرح بیان کیا ہے:
اس بیج سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سوسودانے ہوتے ہیں اس طرح دانے سات سو گنا زیادہ ہو جاتے ہیں ۔
کیا یہ ایک فرضی تشبیہ ہے ؟اور ایسا دانہ کہ اس سے سات سو دانے اگیں خارجی وجود نہیں رکھتا ؟ ان دانوں سے مراد ارزن ( چینا ایک قسم کا غلہ) کے دانے ہیں جن میں یہ تعداد مشاہدہ کی گئی ہے (چونکہ کہا گیا ہے کہ گیہوں اور اس کے مانند دانوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے )لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے جب بہت زیادہ بارش ہوئی تھی تو اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایران کے جنوب میں ایک گاں کے ایک کھیت میں گیہوں کی سب سے بڑی بڑی بالیاںپیدا ہوتی ہیں اور ہر بالی میں تقریبا چار ہزار گیہوں کے دانے ہیں ۔یہ واقعہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی تشبیہ ایک واقعی اور حقیقی تشبیہ ہے ۔
اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ یضاعِف لِمن یشآ واللہ واسع علیم اور اللہ جس
کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔
کلمہیضاعِف مصدرضعفسے دوگنا یا چند گنا کے معنی میں ہے ۔
لہذا اس جملہ کا معنی یہ ہے کہ پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے اس برکت کو دوگنا یا چند برابر کر دیتاہے ۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر ایسے دانے بھی پائے جاتے ہیں جو سات سودانوں سے کئی گنا دانے دیتے ہیں لہذا یہ تشبیہ ایک حقیقی تشبیہ ہے ۔
آیت کے آخری جملہ میں پروردگار کی قدرت اور علم کی وسعت کیطرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ انفاق کرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ خداوندِعالم ان کے عمل اور نیت سے بھی آگاہ ہے اور انہیں ہر طرح کی برکت عطا کرنے پر قادر بھی ہے ۔
. نماز، انفاق کے ساتھ
پروردگارِعالم ارشاد فرماتاہے:
< الذِین یو مِنون بِالغیبِ ویقِیمون الصلوومِما رزقناھم ینفِقون>
متقین وہ لوگ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور وہ تمام نعمتیں جو ہم نے ان کو روزی کے طور پر دی ہیں ان میں سے انفاق کرتے ہیں ۔ ( سورہ بقرہ:آیت)
بے شک صاحبانِ ایمان نماز کے ذریعہ اپنے پروردگار سے رابطہ کے علاوہ خلق خدا سے بھی بہت قریبی اور دائمی رابطہ رکھتے ہیں ۔ اسی بنا پرصاحبانِ ایمان کی تیسری صفت کو مذکور ہ آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور جو نعمتیںہم نے انہیں روزی کے طور پر دی ہیں ان میںسے انفاق کرتے ہیں ۔(ومِما رزقنا ھم ینفِقون)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کریم یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ:مِن اموالِھِم ینفِقون(وہ اپنے اموال میں سے انفاق کرتے ہیں)بلکہ فرما رہا ہے: ومِما رزقناھمہم نے جو انہیں روزی دی ہے، اس میں سے انفاق کرتے ہیںاس بیان کے ذریعہ پروردگار عالم نے مسئلہ انفاق کو اتنی عمومیت اوروسعت دے دی ہے جو ہر قسم کی مادی اور معنوی نعمت کو شامل کئے ہوئے ہے ۔
لہذا متقی اور پرہیز گار وہ افراد ہیں جونہ صرف اپنے اموال سے بلکہ اپنے علم، عقل، جسمانی قوت،سماج میں اپنے اثرورسوخ اور مقام ومنزلت اور ہر سرمایہ میں سے جزااور بدلے کی امید کے بغیر،حاجتمندوں کو عطا کرتے ہیں ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ انفاق اس کائنات کا ایک عمومی قانون ہے خاص طور سے ہر زندہ موجود کے بدن میں بھی یہ قانون پایا جاتا ہے ۔ انسان کا دل صرف اپنے لئے کام نہیں کرتا ہے بلکہ جو کچھ اسے حاصل ہوتا ہے وہ اس میں سے سارے خلیوں پر انفاق کرتا ہے ۔دماغ ،آنتیں اور بدن کے دوسرے تمام اعضا سب کے سب اپنے عمل سے حاصل ہونے والے نتیجہ میں سے ہر وقت انفاق کرتے رہتے ہیں قاعد اجتماعی زندگی انفاق کے بغیر بے معنی ہے ۔
در حقیقت انسانوں سے رابطہ پروردگار عالم سے رابطہ کا نتیجہ ہے، جس کاخدا سے رابطہ برقرار ہو جائے اور جملہ مِما رزقناہم کے مطابق تمام روزی اور نعمت کو خدا کی عطا جانے (نہ کی اپنی طرف سے)اور پروردگار کی اس عطا کواپنے پاس رکھی ہوئی چند روزہ امانت جانے، ایسا شخص راہِ خدا میں انفاق اور بخشش کرنے سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتا بلکہ خوشحال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اس نے مالِ خدا کو اس کے بندوں کے اوپر خرچ کیا ہے اور نتیجہ میں اس انفاق کی مادی اور معنوی برکات اور اثرات کواپنے لئے خریدا ہے ۔
یہ طرز فکرانسان کو بخل،کنجوسی اور حسد سے دور کرتا ہے اور عالم تنازع کو دنیائے تعاون میں بدل دیتا ہے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر شخص اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے کہ جو نعمتیں اس کے اختیار میں ہیں انہیں ضرورت مندوں کے سپرد کر دے اور کسی کی جزا اور عوض کی امیدکے بغیر سورج کی طرح نور افشانی کرے ۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جملہ مِما رزقناہمکی تفسیر میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایاہے اِن معناہ ومِما علمناہم یبثونیعنی جو علوم ہم نے انہیں سکھائے ہیں وہ ان کو نشر کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کو تعلیم دیتے ہیں ۔
واضح سی بات ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انفاق صرف علم سے مخصوص ہے بلکہ چونکہ اکثر افراد مسئلہ انفاق میں مالی اورمادی انفاق کی طرف متوجہ ہو تے ہیں لہذا امام – نے اس معنوی انفاق کوذکرکرکے انفاق کی وسعت اور عمومیت کو بیان کرنا چاہاہے ۔
اس کے نتیجہ میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ آیت میں انفاق صرف زکو واجب یا زکو واجب ومستحب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انفاق کا ایک وسیع اور عام معنی ہے جو ہر قسم کی بلا عوض مدد اور تعاون کو شامل کئے ہوئے ہے ۔
. انفاق،عفو و در گذشت اور غصہ کو پی جانا
سعادت کے تین اہم اسباب –
سورئہ آلِ عمران آیت نمبرمیں اس طرح ذکر ہوا ہے :
<الذِین ینفِقون فِی السراِ والضرآِ والکاظِمِین الغیظ والعا فِین عنِ الناسِ واللہ یحِب المحسِنِین>
(صاحبانِ تقوی وہ لوگ ہیں )جو دکھ اور سکھ ہر حال میں انفاق کرتے اور غصہ کوپی جاتے ہیںاور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیںاور خدااحسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
وضاحت
چونکہ اس سے پہلے والی آیہ کریمہ میں صاحبانِ تقوی سے بہشتکا وعدہ کیا گیا ہے ۔ لہذا اس آیت میں ان کا تعارف کراتے ہوئے ان کے چند بلند وبالا صفات حمیدہ کوبیان کیا گیا ہے :
۔صاحبان تقوی ہر حال میںانفاق کرتے ہیں چاہے راحت وآرام اور وسعت رزق کا زمانہ ہویا سختی اور محرومی کا دورہو ۔الذِین ینفِقون فِی السرآِ والضرآِ صاحبان تقوی اپنے اس عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ اچھا برتا کرناان کی روح و جان میںراسخ ہو چکا ہے اسی بنا پر وہ ہر حال میں اس کام کے لئے قدم اٹھاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ صرف راحت اور آسائش میں انفاق کرنا ان کی روح و جان میں رسوخ کی دلیل اور صفت سخاوت کی علامت نہیں ہے بلکہ جو لوگ ہر حال میں مدد اور انفاق کے لئے قدم اٹھاتے ہیں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ صفت ان کے وجود اور ذات میں جڑ پکڑ چکی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس مقام پر یہ سوال کیا جائے کہ انسان تنگدستی اور فقر میں کس طرح انفاق کر سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب بہت واضح ہے –؛اس لئے کہ اولافقیر اور تنگدست افراد بھی حتی الامکان دوسروں کی مدد کے لئے انفاق کر سکتے ہیں ثانیاانفاق صرف مال و ثروت سے ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ خدا کی عطا کردہ ہر نعمت میں سے ہو سکتا ہے چاہے مال ودولت ہو یا علم و دانش یا دوسری نعمتیں ۔
اس بیان کے ذریعہ خدا وند عالم عفو ودر گذر ،فداکاری اور سخاوت کے جذبہ کو فقیر اور تنگدست افراد میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے تا کہ انسان بہت سی ایسی بری صفتوں سے محفوظ رہ سکے جو کنجوسی کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں ۔
جو لوگ راہ خدا میں انفاق کو چھوٹا ، معمولی اور حقیر سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر انفاق کو الگ الگ نظر میں رکھا ہے ورنہ اگر انہیں چھوٹی چھوٹی مدد اور انفاق کو جمع کیا جائے ۔ مثال کے طور پر ایک ملک کے تمام افراد۔ فقیر اور مالدار۔ سب کے سب محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے ایک مختصر سی رقم انفاق کریں اور اس کو سماجی اہداف کی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے تو اس کے ذریعہ بہت بڑے بڑے کام انجام دئے جا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انفاق کے معنوی اور اخلاقی اثر کا تعلق انفاق کے حجم اور اس کی کمی اور زیادتی سے نہیں ہے بلکہ انفاق کا اثراور فائدہ ہر حال میں انفاق کرنے والے کوپہنچتا ہے ۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں پر آیہ کریمہ میں سب سے پہلے صاحبان تقوی کی برجستہ صفت انفاق کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ان صفات کے مقابلے میں ہیں جو سود خوروں اور سرمایہ داروں کے بارے میں اس سے قبل کی آیات میں بیان کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ مال و دولت میں سے انفاق وہ بھی راحت اور سختی کی حالت میں تقوی کی واضح نشانی ہے ۔اس کے بعد غصہ کو پی جانے اور عفو وبخشش کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: والکاظِمِین الغیظ والعافِین عنِ الناسِ
اور چونکہ یہ ساری چیزیں احسان اور نیکی کے مفہوم میں سمٹی ہوئی ہیں لہذا آیت کے آخر میں ارشاد فرماتا ہے : خدا وندعالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
اس سے بڑا فخر اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا انسان سے خوش ہو اور اسے دوست رکھے ۔
. انفاق نہ کر سکنے پر گریہ
قرآن مجید مندرجہ ذیل آیات میں ان صاحبان ایمان کا تذکرہ کررہا ہے جو راہ خدا میں (جہاد کے لئے)انفاق پر قدرت اور توانائی نہ رکھنے کی وجہ سے آنسو بہا رہے تھے ۔ خدا وندعالم ان کو تسلی دیتے ہوئے انھیںایک ایسی چیز کا حکم دیتا ہے جو انفاق کا جانشین ہیملاحظہ فرمایئے :
< لیس علی الضعفاِ ولا علی المرضی ولا علی الذِین لا یجِدون ما ینفِقون حرج اِذا نصحوا لِلہِ و رسولِہ ما علی المحسِنِین مِن سبِیل واللہ غفوررحِیم ولا علی الذِین اِذا ما اتوک لِتحمِلھم قلت لآ اجِد مآ احملکم علیہِ تولوا و اعینھم تفِیض مِن الدمعِ حزنا الا یجِدوا ما ینفِقون>(سورہ توبہ:آیت ۔)
جو لوگ کمزور ہیں یا بیمار ہیں یا ان کے پاس راہ خدا میںخرچ کرنے کے لئے کچھ نہیںہے ان کے بیٹھے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ خدا ورسول کے حق میں اخلاص رکھتے ہوں کہ نیک کردار لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
اور ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے جو آپ کے پاس آئے کہ انہیں بھی سواری پر لے لیجئے تو آپ ہی نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس سواری کا انتظام نہیںہے اوروہ آپ کے پاس سے اس عالم میں پلٹے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے اورانہیں اس بات کا رنج تھا کہ ان کے پاس راہ خدامیں خرچ کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے ۔
وضاحت
مذکورہ بالا آیات میں پہلی آیت کے شان نزول کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک مخلص اور وفادارصحابی نے آپ سے عرض کی:
اے اللہ کے رسول !میں بوڑھا،نابینا اورضعیف وناتواںہوں اور میرے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میدان جہاد تک لے جائے ۔لہذا اگر میں جہاد میں شرکت نہ کروں تو کیا میرا عذر قابل قبول ہے؟ رسول اکرم نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار فرمائی اتنے میں مذکورہآیت نازل ہوئی اور اس طرح کے افراد کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔
اس شان نزول سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نا بینا افراد بھی پیغمبر اسلام کی اطلاع اور اجازت کے بغیر جنگ سے منہ نہیں موڑ سکتے تھے اور اس احتمال کی بنا پر کہ شاید میدان جہاد میںایسے افراد کا وجود مجاہدین کی تشویق کا سبب بنے گا یا کم از کم لشکر کی کثرت کے لئے مفید واقع ہوگا کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے وظیفہ کو دریافت کر لیا کرتے تھے ۔
دوسری آیت کے سلسلے میں بھی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ فقرائے انصار میں سے سات افراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوئے اور انہوںنے درخواست کی کہ جہاد میں شرکت کیلئے انہیں کوئی سواری دی جائے چونکہ آنحضرت کے پاس کوئی سواری نہیں تھی لہذا انہیں منفی جواب دے دیا۔ آنحضرت کا جواب سنتے ہی وہ لوگ آنسوبہاتے ہوئے آپ کی خدمت سے واپس ہوئے اور بعد میں بکان (بہت زیادہ گریہ کرنے والے)کے نام سے مشہور ہوئے ۔
. انفاق کا اجر عظیم
خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
< آمِنوابِاللہِ ورسولِہ وانفِقوا مِماجعلکم مستخلفِین فِیہِ فالذِین آمنوا مِنکم و انفقو لہم اجر کبِیر> ( سورئہ حدید آیت /)
تم لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لے آ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔
وضاحت
ایمان اورانفاق دو عظیم سرمائے
مذکورہ بالا آیت تمام انسانوں کو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان اور راہ خدامیں انفاق کی دعوت دے رہی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے :خدا اوراس کے رسول پر ایمان لے آ۔ (آمِنوا بِاللہِ ورسولِہ)
یہ دعوت ایمان اور انفاق ایک عمومی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی جا رہیہے ۔ صاحبان ایمان کو راسخ اور کامل ایمان کی دعوت دی جا رہی ہے اور غیرمومنین (کفار و مشرکین-)کو ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے ایسی دعوت جو دلیل کے ساتھ ہے اور اس کی دلیل اس سے قبل کی آیات توحیدی میںذکر کی جا چکی ہے ۔
اس کے بعد ایمان کے ایک اہم اثر راہ خدا میں انفاق کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :اس مال میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔
یہ پروردگار کی عطا کردہ نعمتیںجو انسان کے اختیار میں ہیں ان میں ایثار، فداکاری اور انفاق کی دعوت ہے اور پروردگار نے اس دعوت کو ایک اہم نکتہ سے جوڑ دیا ہے جس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔وہ یہ کہ اصل میں مالک حقیقی خداوندعالم ہے اور یہ مال ودولت امانت کے طور پر کچھ دنوں کے لئے تمہارے حوالے کئے گئے ہیںویسے ہی جیسے تم سے پہلے دوسروں کے اختیار میں تھے اور آئندہ بھی دوسروں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے ۔
بے شک ایسا ہی ہے اسلئے کہ قرآن کریم کی دیگر آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ساری کائنات کا حقیقی مالک پروردگار عالم ہے ۔ اس حقیقت اور واقعیت پر ایمان رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اس کے امانتدارہیں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ امانتدار ،صاحب امانت کے فرمان کو نظر انداز کر دے !
اس اہم نکتہ کی طرف توجہ، انسان کے اندر جذبہ سخاوت اور ایثار پیداکرتا ہے اور اس کے دل اور ہاتھ کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کھو ل دیتا ہے ۔ مستخلفین (نائب اور جانشین ) کی تعبیر ممکن ہے انسان کے زمین اور نعمات زمین میں خدا کے نمائندہ اور جانشین ہونے کی طرف اشارہ ہو یاگذشتہ امتوں کی جانشینی کی طرف اشارہ ہو یا دونوں کی طرف اشارہ ہو۔
تعبیر مما(ان چیزوں میںسے)ایک عام تعبیر ہے جو صرف مال ہی نہیں بلکہ ہر سرمایہ اور نعمت الہی کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ انفاق کا ایک وسیع اور عام معنی ہے جو صرف مال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علم،ہدایت،سماجی اثرو رسوخ اور دوسرے مادی اور معنوی سرمایہ کو بھی شامل ہوتا ہے ۔
اس بیان کے بعد مزید تشویق کے لئے ارشاد فرماتا ہے: تم میںسے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔فالذِین آمنوامِنکم وانفقوا لہم اجر کبِیر
کلمہ کبیرکے ذریعہ اجرکی صفت لانا ،الطاف اور نعمات الہی کی عظمت اور اس کی ہمیشگی کو بیان کرنا ہے ۔یہ اجر عظیم صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی انسان کو نصیب ہوگا ۔
راہ خدا میں انفاق کے حکم کے بعد اس کی ایک دلیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :اور راہ خدا میں انفاق کیوں نہ کرو جبکہ زمین وآسمان کی ساری میراث اسی کی ہے ! و ما لکم الاتنفِقوا فِی سبِیلِ اللہِ ولِلہِ مِیراث السمواتِ والارضِ
یعنی آخر کار تم سب اس کائنات اور اس کی ساری نعمتوں سے آنکھ بند کرکے ،سب کچھ چھو ڑ کر چلے جا گے لہذا فی الحال جبکہ یہ ساری چیز یں تمہارے اختیار میں ہیں ان سے اپنا حصہ کیوں نہیں لے لیتے ؟
راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ میراث اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر کسی قرار داد اور معاہدہ کے کسی کو حاصل ہو اور مرنے والے کی جانب سے جو چیز اس کے رشتہ داروں کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ اسی کا ایک مصداق ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے یہی معنی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے ۔
تعبیر لِلہِ مِیراث السمواتِ والارضِ اس لئے ہے کہ نہ صرف روئے زمین کی مال ودولت بلکہ زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے سب خدا وند عالم کی طرف پلٹ جائے گا جب ساری مخلوقات مر جائے گی تو پروردگار ان سب کا وارث ہوگا۔
دوسرے اعتبار سے چونکہ مختلف حا لات اور مواقع میں انفاق کی اہمیت اور قیمت میں فرق ہوتا ہے اسی وجہ سے بعد کے جملہ میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
جنہوں نے فتح اور کامیابی سے پہلے راہ خدا میں انفاق کیا اور جہاد کیا ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد اس کام کو انجام دیا: لا یستوِی مِنکم من انفق مِن قبلِ الفتحِ وقاتل
اس آیت میں فتح سے مراد کون سی فتح ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض نے اس کو ھ میں فتح مکہ کی طرف اشارہ جانا ہے اور بعض نے ھ میں فتح حدیبیہ کی طرف ۔
چونکہ سورئہ اِنا فتحنا لک فتحا مبِینامیں کلمہ فتح سے مراد فتح (صلح )حدیبیہ ہے لہذا یہاں پر بھی مناسب یہی ہے کہ مراد فتح حدیبیہ (صلح حدیبیہ) ہو، لیکن تعبیر قاتل(جنگ و جہاد کیا ) فتح مکہ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اس لئے کہ صلح حدیبیہ میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی لیکن فتح مکہ میں ایک مختصر سی جنگ ہوئی جو زیادہ مقاومت اور مقابلہ سے رو برونہ ہو سکی ۔
یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس آیت میںالفتحسے مراد مختلف جنگوں میں مسلمانوں کی طرح طرح کی فتح اور کامیابی ہو ۔ یعنی جن لوگو ںنے سخت اوربحرانی حالات میں انفاق کرنے اور راہ خدا میں جاںنثاری کرنے سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی ان لوگوں سے برتر اور افضل ہیں جو طوفان حوادث اور سختیوں کے خاتمہ کے بعد اسلام کی مدد کے لئے دوڑتے ہیں اور آیت کی یہ تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔
اسی لئے مزید تاکید کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ان لوگوں کا مقام اور منزلت ان لوگوں سے برتر اور بالا تر ہے جنہوں نے فتح کے بعد انفاق اور جہاد کیا اولئِک اعظم درج مِن الذِین انفقوامِن بعدِوقاتلوا
اس نکتہ کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ بعض مفسرین اس بات پر مصر ہیں کہ انفاق اور راہ خدا میں خرچ کرنا جہاد سے برتر اور افضل ہے اور شاید آیہ کریمہ میںانفاق کو جہاد سے پہلے ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہو۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مالی انفاق کو جہاد پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جنگی وسائل ،مقدمات اور اسلحے مال ہی سے خریدے اور فراہم کئے جاتے ہیں ورنہ بلا شک و شبہ جاںنثاری اور راہ خدا میںشہادت کے لئے آمادہ رہنامالی انفاق سے بر تر اور بالا تر ہے ۔
بہرحا ل چونکہ دونوں دستہ (فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد انفاق کرنے والے ) درجات میںفرق کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خاص عنایت کے حقدار ہیں لہذا ارشاد فرماتا ہے: خدا وندعالم نے دونوں گروہ سے نیکی کا وعدہ کیا ہے : وکلا وعداللہ الحسنی
دونوں دستہ سے نیکی کا وعدہ کرنا خدا کی جانب سے ہر اس شخص کی قدر دانی ہے جو حق کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں کلمہحسنیاس آیہ کریمہ میںایک عام معنی میںہے جو ہر طرح کے ثواب اور دنیا و آخرت کے جزائے خیر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔
اورچونکہ ہر انسان کے عمل کی قیمت اس کے خلوص کی بنیاد ہو تی ہے لہذا پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ اور باخبر ہیواللہ بِما تعملون خبِیریعنی خداوند عالم تمہارے اعمال کی مقدار اور کیفیت سے بھی آگاہ ہے اور نیت وخلوص سے بھی باخبرہے ۔
مذکورہ آیت میں ایک بار پھر راہ خدا میں انفاق کی تشویق کے آخر میں ایک خوبصورت تعبیر بیان کی گئی ہے :کون ہے جو پروردگار کو قرض دے اور جو مال ودولت خدا نے اسے عطا کیا ہے ان میں سے انفاق کرے تاکہ پروردگار اسے کئی گنا کر دے اور اس کے لئے بہت زیادہ اور با قیمتی اجر ہے: من ذاالذِی یقرِض اللہ قرضاحسنافیضاعِفہ لہ ولہ اجر کرِیم
واقعا یہ ایک عجیب وغریب تعبیر ہے وہ خدا جو ساری نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے اور ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ ہر لمحہ اس کے بے پایاں دریائے فیض سے بہرہ مند ہو رہا ہے اور اسی کی ملکیت ہے ۔ اس نے ہم کو صاحب مال و دولت شمار کیا ہے اور ہم سے قرض کا مطالبہ کر رہا ہے ۔اور عام قرض کے خلاف جہاں اتنی ہی مقدار واپس کی جاتی ہے وہ اس میں کئی گنا اور کبھی سو گنا اور کبھی ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور ان سب باتوں کے علاوہ اجر کرِیم کاوعدہ بھی کرتا ہے جو ایک عظیم اجر ہے جس کی مقدار خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
جذبہ انفاق
گذشتہ آیتوں میں راہ خدا میں خرچ کرنے (چاہے جہاد کے لئے ہویاحا جت مندوں کی مدد کے لئے )کی تشویق کو مختلف عبارتوں میںبیان کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک اس مقصد کی طرف قدم بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔
ایک آیت میں مال و دولت میںلوگوں کی ایک دوسرے یا پروردگار کی جانشینی اور نیابت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حقیقی مالکیت کو خدا سے مخصوص جانتا ہے اور سارے انسانوں کو ان اموال میں اپنا نائب بنانا، یہ تفکر اور طرز فکرانسان کے ہاتھ اور دل کو انفاق کے لئے کھولتا ہے اور اس راہ میں قدم اٹھانے کا سبب بنتا ہے ۔
دوسری آیت ،ایک دوسری تعبیر بیان کرتی ہے جو مال ودولت کی نا پائیداری اور انسانوں کے بعد باقی رہ جانے کی حکایت کرتی ہے اور وہ تعبیر میراث ہے ارشاد فرماتاہے آسمان وزمین کی میراث خداوندعالم ہی کی ہے
تیسری آیت میں ایک ایسی تعبیر بیان کی گئی ہے جو سب سے زیادہ حساس ہے اور خدا وند عالم کو قرض لینے والا اور انسانوں کو قرض دینے والا بتارہی ہے ۔ایسا قرض جس میں سود اور سود کی حرمت کاگزر نہیں اور اس کے مقابلہ میں کئی گنا بلکہ ہزاروں گنا واپس دیا جا ئے گا ۔ اس عظیم اجر کے ساتھ جوکسی کی فکر میں سما نہیں سکتا ۔
یہ سارے بیانات اس لئے ہیں کہ کج فکری ، حرص ولالچ ،حسد ، خود خواہی ،فقر اور تنگدستی کا خوف ، بڑی بڑی آرزں کو ختم کردیا جائے جو راہ خدا میں انفاق کے لئے رکاوٹ بنتی ہیں اور عطوفت، مہربانی ،ہم نوع دوستی اور تعاون کی بنیاد پر ایک خوشحال معاشر ہ اور کووجود میں لایا جا سکے ۔
. سرمایہ جاودانی
< قل اِن ربِی یبسط الرِزق لِمن یشآ مِن عِبادِہ ویقدِر لہ وما انفقتم مِن شی فہویخلِفہ و ہو خیرالرازِقِین>(سورہ سبا: آیت) بے شک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ بہر حال عطا کرے گا اور وہ بہتر رزق دینے والا ہے ۔
وضاحت
اس آیہ کریمہ میں ان لوگوں کی بات کا جواب دیا گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ مال واولاد خدا کی بارگاہ میں قربت کی دلیل ہیں ۔لہذا اس تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ: اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار اپنے بندوںمیں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے: قل اِن ربِی یبسط الرِزق لِمن یشآ مِن عِبادِہ و یقدِر لہاس کے بعد ارشاد فرماتا ہے: تم خدا کی راہ میں جو بھی خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ بہر حال عطا کرے گااور وہ بہترین روزی دینے والا ہے ۔
اگر چہ اس آیت کا معنی گذشتہ مطلب کی تاکید ہے لیکن دو جہت سے اس میں نیا معنی ہے :پہلا یہ کہ گذشتہ آیت کا معنی یہی معنی تھا مگر اس میں زیادہ تر کفار کے اموال اور اولاد کے سلسلہ میں بیان ہے جبکہ اس آیت میں کلمہ -عباد (بندے) صاحبان ایمان کی طرف اشارہ ہے یعنی خداوند عالم صاحبان ایمان کی بھی روزی میںوسعت پیدا کرتا ہے اگر ان کی مصلحت کے مطابق ہو اور کبھی ان کی روزی میں تنگی پیدا کرتا ہے جب ان کی مصلحت اس بات کا تقاضا کرے ۔ بہرحال روزی کی وسعت اور تنگی کسی انسان کے بارگاہ الہی میں مقرب ہونے یااس کی بارگاہ سے دور ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ گذشتہ آیت دو مختلف افراد کی روزی میں وسعت اور تنگی کو بیان کر رہی تھی لیکن یہ آیہ کریمہ ممکن ہے ایک ہی انسان کی دو مختلف حالتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہو کہ کبھی اس کی روزی میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی تنگی ۔
اس کے علاوہ آیت کے شروع میں بیان کیا جانے والا مطلب آخرآیت میں بیان ہونے والے مطلب کے لئے ایک مقدمہ ہے اور وہ راہ خدا میں انفاق کرنے کی تشویق کرنا ہے ۔
جملہفہو یخلفہ ایک بہترین تعبیر ہے جو اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ راہ خدامیں خرچ ہونے والی ہر شی ایک فائدہ مند تجارت کے مثل ہے ۔ اس لئے کہ خدا وند عالم نے اس کے بدلے کو اپنے ذمہ لیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب ایک کریم اور سخی انسان کسی چیز کے عوض کو اپنے ذمہ لیتا ہے تووہ صرف برابری اور مساوات کی ہی رعایت نہیں کرتا بلکہ اس کے عوض کو کئی گنا اور کبھی کبھی سو گنا کر کے واپس کرتا ہے ۔
البتہ یہ وعدئہ الہی روز قیامت سے مخصوص نہیں ہے وہ تو اپنی جگہ محفوظ ہے ہی بلکہ وہ دنیا میں بھی طرح طرحبرکتوں اور رحمتوں کے ذریعہ اس انفاق کی جگہ کوبطور احسن پر کردیتا ہے ۔
جملہ ہو خیر الرازِقِین (وہ بہترروزی دینے والا ہے) کا ایک وسیع اور عام معنی ہے اور مختلف زاویہ نظر سے غور و فکر کے قابل ہے ۔
وہ تمام روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا چیز عطا کرے اور کس مقدار میں عطا کرے تاکہ انسان کی تباہی اور گمراہی کا سبب نہ بننے پائے اسلئے کہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے وہ جو بھی چاہے عطا کرسکتا ہے اسلئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
وہ عطا کے مقابلہ میں جزا نہیں چاہتا اس لئے کہ وہ غنی بالذات ہے یعنی ہر چیز سے بے نیاز ہے یہاں تک کہ وہ بغیر درخواست اورطلب کے بھی بندوں کو عطا کرتا ہے اس لئے کہ وہ حکیم اورہر چیز سے باخبر ہے ۔
بلکہ اس کے علاوہ اس کائنات میں کوئی دوسرا رازق ہی نہیں ہے اس لئے کہ ہر چیز اسی کی عطاہے اور جو شخص بھی کسی دوسرے کو کوئی چیز دیتا ہے وہ روزی کومنتقل کرنے والا ہے روزی دینے والا نہیںہے ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پروردگار فنا ہو جانے والے مال کے بدلے باقی رہنے والی نعمت عطا کرتا ہے اورقلیل مال کے عوض میں کثیر نعمت عطا کرنے والا ہے ۔

Related Articles

Back to top button