اخلاق اسلامیمقالات

۔” حسن خلق” کا معنی:

”حُسن خلق ” یعنی ”پسندیدہ اور اچھی عادت” ، چنانچہ اس شخص کو ”خوش اخلاق” کہا جاتا ہے کہ اچھی عادتیں اُس کی ذات و فطرت کا جزو بن چکی ہوں اور وہ دوسروں کے ساتھ کھلے چہرے اور اچھے انداز کے ساتھ پیش آنے کے ساتھ ساتھ پسندیدہ میل جول رکھے۔
۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے حسن خلق کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا :

”تُلین جانبک’ وتطیّبُ کلامک وتلقی ا خاک ببشر: حَسَن:”۔
”تم اپنی ملاقات کے انداز میں نرمی پیدا کرو، اپنی گفتگو کو شائستہ بنائو اور اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو”۔ 1
عام طور پر اخلاق و حدیث کی کتابوں میں حسن خلق سے یہی معنی مراد لیا جاتاہے۔

اسلام میں اخلاق حسنہ کا مقام:

اسلام ہمیشہ اپنی پیرو کاروں کو دوسروں کے ساتھ نرمی اور خوش مزاجی سے پیش آنے کی طرف دعوت دینا ہے، اسلام نے خوش اخلاق انسان کی اہمیت کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اگر غیر مسلمان بھی اس نیک صفت کا حامل ہوں تو وہ بھی اس کے فوائد کو پاسکتاہے ۔ جیسا کہ تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ : آنحضور (ص) نے حضرت امام علی علیہ السلام کو ایسےتین افراد کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا جو آپ (ص) کو شہید کرنے کی سازش میں متحد ہو چکے تھے، امام علی علیہ السلام نے ان میں سے ایک کو قتل کیا اور باقی دو کو قیدی بنا کر آپ (ص) کے سامنے پیش کیا ۔ آنحضرت (ص) نے پہلے انہیں دین مبین اسلام کی طرف دعوت دی، لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا، پھر آپ (ص) نے قتل کی سازش کے جرم پر ان کے خلاف قتل کا حکم جاری فرمایا، اسی دوران آپ (ص) پر جبرئیل (ع) نازل ہوئے اور عرض کی :
”اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک شخص کو معاف کریں کیونکہ وہ خوش اخلاق اور سخاوتمند ہے” ۔ آپ (ص) نے بھی اس شخص کو معاف فرمایا، جب اس شخص کو معلوم ہو ا کہ اللہ تعالی نے اسے ان دو نیک صفات کی خاطر معاف فرمایا ہے تو اس نے اسلام کو تہ دل سے قبول کرلیا۔

پھر آپ (ص) نے اس شخص کے بارے میں فرمایا :

” ان لوگوں میں سے ہے جو خوش اخلاق اور سخاوتمند ہونے کی بناء پر جنت کا مستحق ہوئے”۔2

اسلامی مقدس نظر یہ میں حسن خلق کا معنی کبھی یہ نہیں کہ اگر کسی نے کوئی غلط اور ناپسند یدہ فعل انجام دیا تو اس کے سامنے خاموش ہوجائیں یا ہنس دیں بلکہ ایسے موقع پر اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اس فعل کے خلاف مناسب رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے’ اگرچہ چند افراد کی ناراضگی کا سبب بن جائے ۔ کیونکہ ہمیں اس وقت تک دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہئے، جب تک اسلامی احکام اور اس کے اصول کی پامالی نہ ہوپائے۔

حوالہ جات:

1۔ اصول کافی ۔ ج 3 ، ص 162، (ایمان و کفر :حُسن بشر)۔بحارالانوار ج 71 ، ص 389(مطبوعۃ اسلامیۃ)
2۔ بحارالانوار ج 71، ص 390

Related Articles

Back to top button