مقالاتکربلا شناسی

شہادت امام حسینؑ اور مولانا ابوالاعلٰی مودودیؒ

(ثاقب اکبر)
مولانا ابوالاعلٰی مودودیؒ 1321ھ میں پیدا ہوئے اور 1399 ہجری بمطابق 1979ء میں فوت ہوئے۔ انھیں لاہور میں دفن کیا گیا، ان کا شجرہ نسب جو ادارہ ترجمان القرآن (پرائیویٹ) نے شائع کیا ہے، کے مطابق آپ امام علی نقی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ نے جماعت اسلامی جیسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ آپ سمجھتے تھے کہ اسلام فقط نماز، روزے اور طہارت و نجاسات کی تعلیم لے کر نہیں آیا بلکہ اسے معاشرے پر حاکم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں آپ کا فکری اُفق اخوان المسلمین کے بانی حسن البناء اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینیؒ سے ملتا ہے۔ مولانا مودودی اگرچہ سنی المذہب اور فقہی اعتبار سے اپنی تمام تر وسعت نظر کے باوجود حنفی تھے، تاہم وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے پرچم بردار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت کا احترام جماعت اسلامی اور پاکستان سے باہر بھی کیا جاتا ہے۔ شیعہ سنی اتحاد پر ان کے نظریات بہت واضح ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے عزیز دوست سید نثار علی ترمذی نے حال ہی میں اپنی کتاب ’’مولانا مودودی داعئ وحدت امت‘‘ میں بہت سے شواہد پیش کئے ہیں۔ ہم صرف ایک شاہد نقل کرکے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔

جب علامہ عبدالحسین آل کاشف الغطاء پاکستان کے سابق اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے زمانے میں نجف اشرف سے پاکستان تشریف لائے تو مولانا نے ان کی امامت میں نماز ادا کی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے حلقوں میں بعض افراد نے اس سلسلے میں ان پر اعتراض کیا، چنانچہ ایک خط کے جواب میں وہ لکھتے ہیں: ’’آپ کا خط ملا۔ شیعوں سے اہل سنت کے اختلافات تو بہت ہیں مگر یہ کفر و اسلام کے اختلافات نہیں ہیں۔ شیعہ کے پیچھے سنی اور سنی کے پیچھے شیعہ نماز پڑھ سکتا ہے، کیونکہ دونوں مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کی نماز دوسرے مسلمان کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے جنازے میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔‘‘
امام حسینؑ کے بارے میں مولانا مودودی کے نظریات بہت واضح اور لائق استفادہ ہیں۔ جس طرز حکمرانی کے خلاف امام حسینؑ نے قیام کیا، اس کے بارے میں مولانا مودودی کے خیالات جاننا اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’اس سوال کے جواب میں کہ ’’اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔؟‘‘ مولانا مودودی وضاحت کرتے ہیں: "اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور (consititution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ ’’انا اول الملوک‘‘ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تو اس وقت حضرت ابو بکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا۔‘‘

اسلامی معاشرے میں امام حسینؑ کا جو مقام تھا، اس کے مقابلے میں یزید پر کسی کی نگاہ نہیں پڑ سکتی تھی اور وہ مسلمانوں کی نظر میں بالکل بے حیثیت تھا۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں کہا: ’’جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے، وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا، صرف اس بناء پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید آخری شخص ہوتا، جس پر لیڈر شپ کے لئے مسلمانوں کی نگاہ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علیؓ اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ عالم اسلام میں امام حسینؑ کے قیام کی حیثیت کیا ہے اور امت کو کس حوالے سے ان پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے نزدیک اگر بظاہر مسلمان حکمران ہو، لیکن اس کے طور طریقے غیر اسلامی ہوں تو اس کے خلاف اقدام کے لئے ہمارے پاس واحد نمونہ امام حسینؑ کی ذات ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اگر

حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے، حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، مگر چلائی جا رہی ہے غیر اسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے، اگر حضرت حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت راہنمائی کی نہ تھی۔‘‘ مولانا مودودی نے اس پہلو پر بھی توجہ دی ہے کہ یزید اور اس کے والد کی حکومت کے مابین بھی ایک جوہری فرق موجود تھا، جس نے امام حسینؑ کو اتنی عظیم قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ ہوسکتا ہے اس پہلو سے کسی اور کا تجزیہ مولانا سے مختلف ہو، تاہم وہ اس سلسلے میں اپنا نظریہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہ میں صلح ہوگئی تھی اور حکومت حضرت معاویہ کو حاصل ہوگئی تھی۔ بعد میں کتنی ہی باتیں ایسی سرزد ہوئیں، جو حضرت حسینؓ کے نزدیک نامناسب تھیں۔ مگر انھوں نے حضرت معاویہ کو ہٹانے کی کوشش نہ کی، اس وجہ سے کہ ایک خلیفہ وقت سے ان کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ دوسرے تلوار اٹھانا ناگزیر نہیں تھا۔ اگر کسی مسلمان حکومت کا بگاڑ جزئیات میں ہے تو نظم و نسق درہم برہم کرنے کی کوشش روا نہ ہوگی، مگر جب بادشاہ یا خلیفہ نے اس حکومت کو مورثی بنانے کی کوشش کی تو اصولی تغیر واقع ہوگیا۔ ایک خاندان نے حکومت کو اپنی جائیداد بنانے کافیصلہ کر لیا۔‘‘

اسی مسئلہ کو آگے چل کر وہ مزید وضاحت سے بیان کرتے ہیں: ’’ امیر معاویہ بغیر رضا مندی عوام کے حکومت پر قابض ہوگئے تھے۔ ان کی حکومت میں مسلمانوں کی رضا مندی کو کوئی دخل نہ رہا تھا اور ملک کے مال میں بھی تصرف ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تاہم حضرت حسینؓ نے برداشت کیا، مگر جب اس میں تغیر کیا گیا کہ حکومت کو موروثی بنا دیا جائے تو حضرت حسینؓ نے ولی عہدی اور ولی عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ اس دور کے حوالے سے امام حسینؑ کے قیام اور اقدام کے پس منظر میں ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ صحابہؓ کی اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی۔ پھر امام حسینؑ نے یہ راستہ کیوں اختیار نہ کیا۔ مولانا مودودی نے اس سوال کا جواب بہت عمدگی سے اور فکر کشا پیرائے میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسینؓ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے، جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہؓ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسینؓ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرامؓ کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔‘‘

مسلمانوں کی حکومت میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ مولانا مودودی کے نزدیک اس حوالے سے امام حسینؑ کے سوا ہمارے پاس کوئی نمونہ نہیں۔ ہم پہلے بھی ان کی کچھ عبارت نقل کر آئے ہیں۔ وہ بہت زور دار اور واضح الفاظ میں پھر کہتے ہیں: ’’یہ حضرت حسینؓ ہی کا نمونہ تو ہے کہ جو مسلمان حکومت کے بگاڑ کے وقت مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے، اگر اس نمونے کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا، معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسولؐ کو قتل کر دیا گیا اور ہم نوحہ خوانی کے لئے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ حضرت علیؑ کا نمونہ کن حالات میں ہمارے کام آتا ہے اور امام حسین ؑ کا نمونہ کن حالات میں ہمارے کام آتا ہے۔ ان کی اس پر بھی نظر ہے کہ صرف ان ہستیوں کی یاد منانا کافی نہیں بلکہ اپنے اپنے معاشروں میں ان کے نمونوں کو سامنے رکھ کر اصلاح کے لئے اقدام کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی ان سے ہماری محبت کا تقاضا بھی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں: ’’حضرت علیؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور حضرت حسینؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لئے کھڑا ہوجائے، خواہ وہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔‘‘

مولانا مودودی ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں امام حسینؑ کی عظیم قربانی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں فقط رنج و غم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپؑ کے مقصد شہادت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ 1960ء میں انھوں نے محرم الحرام کے حوالے سے شیعہ سنی مشترکہ ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں، جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ خصوصیت کیا ہے کہ جس کی وجہ سے

مولانا مودودی ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں امام حسینؑ کی عظیم قربانی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں فقط رنج و غم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپؑ کے مقصد شہادت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ 1960ء میں انھوں نے محرم الحرام کے حوالے سے شیعہ سنی مشترکہ ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں، جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ خصوصیت کیا ہے کہ جس کی وجہ سے 1320 برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟۔۔۔ لا محالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، حتٰی کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔‘‘ مولانا مودودی کے نزدیک یزید کی ولی عہدی اسلامی معاشرے میں ایک بہت بڑے انحراف کی بنیاد تھی۔ یہ ایک خدا کی بادشاہی کی نفی اور انسانی بادشاہت کا آغاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: ’’یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا، جو ہمیشہ ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔‘‘

یہ تبدیلی اور یہ انحراف اسلامی معاشرے میں کیا نتائج مرتب کرتا، اس سلسلے میں امام حسینؑ کی عظیم بصیرت اور اسلام کے لئے ان کی بے چینی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’ ۔۔۔صاحب بصیرت آدمی جان سکتا ہے کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے، جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اس لئے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں، جسے بچانے کے لئے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنھیں اوپر نمبروار گنوایا گیا ہے۔ دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لئے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لئے انھوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔‘‘

ہمیں اس موقع پر مولانا ظفر علی خاں کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں، جن پر ہم اپنے اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں:
کرتی رہے گی پیش شہادت حسینؑ کی
آزادئ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

Related Articles

Back to top button