اخلاق اسلامیمقالات

حیاء


حیاء
مصنف:احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ ‘ حیا’ لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ‘وقاحت’ اور بے حیائی ہے۔ (۱) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔ (۲)
آیات و روایات میں ‘حیا ‘ کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ‘حیا ”خوف ‘ و ‘ تقویٰ ‘ کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا ‘ اخلاق جنسی’ میں، گھرمیں حیا کی بحث ‘ اخلاق خانوادہ ‘میں اور دوسروں سے حیا ‘ اخلاق معاشرت ‘ میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

الف۔ حیا کی اہمیت:
رسول خدا ۖ حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ‘۔(۳) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ‘جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا’۔ (۴ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ‘حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے’۔ (۵) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔ (۶) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ‘حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے’۔ (۷) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ‘جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے’۔ (۸) رسول اکرم ۖکی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت ۖجب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپۖ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔ (۹)

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ (۱۰)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :
بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:
١۔عقل:
رسول خدا ۖ نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپۖ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ‘عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(۱۱)
٢۔ایمان:
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ‘ جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ‘۔
اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: ‘ شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے’۔(۱۲)
۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ‘ لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے’۔(۱۳)
۴۔ زیادہ بات کرنا: حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے’۔(۱۴)

۵۔ شراب خوری: حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ‘خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے’۔ (۱۵)

ج۔ حیا کے فوائد:
روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
١۔ خدا کی محبت:
پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: ‘ خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ‘۔(۱۶)
٢۔عفّت اور پاکدامنی:
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ‘حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے’۔ (۱۷)
٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:
حضرت امام زین العابدین ـ ؑاس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
‘ چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو’۔ (۱۸)
٤۔ رسول خدا ۖ نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:
‘جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے’۔ (۱۹)
اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ‘وقاحت ‘ اور ‘بے شرمی سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ‘مفضل ‘ سے فرماتے ہیں: ‘اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیںکرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا’۔ (۲۰)

د۔حیا کے مقامات :
بیان کیا جاچکا ہے کہ ‘حیاء ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔ (۲۱)
دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہ رکھتاہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:
١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا:
پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: ‘ کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ‘۔(۲۲)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘ کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے’۔(۲۳)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ‘اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا’۔(۲۴)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘ تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے’۔(۲۵)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے’۔ (۲۶)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘ اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ‘میں نہیں جانتا’ شرم نہیں کرنی چاہیے’۔ (۲۷)
٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:
امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ‘کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ‘۔ (۲۸)
٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ‘معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔'(۲۹)
٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ‘یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں’۔ (۳۰)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔
۲۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔
۳۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔
۴۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔
۵۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔
۶۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔
۷۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔
۸۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔
۹۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔
۱۰۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔
۱۱۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔
۱۲۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔
۱۳۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔
۱۴۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔
۱۵۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔
۱۶۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔
۱۷۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔
۱۸۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔
۱۹۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔
۲۰۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔
۲۱۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔
۲۲۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔
۲۳۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔
۲۴۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔
۲۵۔ غرر الحکم۔
۲۶۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔
۲۷۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔
۲۸۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔
۲۹۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔
۳۰۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔

Related Articles

Back to top button