اخلاق اسلامیمقالات

حیات طیبہ اور اسلام

حیات طیبہ اور اسلام
مصنف:سیّد علی حسینی خامنہ ای

آپ جس وقت عبادت خدا انجام دیتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، کسی غریب کی مدد کرتے ہیں یا کوئی دوسرا نیک عمل انجام دیتے ہیں تو آپ کو اندرونی لذت حاصل ہوتی ہے۔ یقیناً آپ نے اس روحانی لذت کا احساس کیا ہو گا۔ یہ احساس کسی مادی فعل کی انجام دہی کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس احساس کا مشاہدہ فقط وہی افراد کر سکتے ہیں جو خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ ہر مومن کی زندگی میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ،کسی کی زندگی میں کم اور کسی کی زندگی میں زیادہ ۔ بعض اوقات انسان ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اپنی اس حالت کو برقرار رکھنے کے لئے وہ اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ البتہ انسان کی مادی زندگی اس کو اس روحانی حالت سے باہر نکال دیتی ہے اور اسی لئے یہ روحانی حالت شاذ و نادر ہی حاصل ہو پاتی ہے ۔
وہ افراد جو خدا پر ایمان کامل نہیں رکھتے ہیں اس طرح کی روحانی کیفیات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ ایسے نہ جانے کتنے افراد ہوں گے کہ مادی زندگی گذارنے کی بنا پر انھوں نے اپنی ساری زندگی میں ایک دفعہ بھی اس لذت بخش کیفیت کا احساس نہیں کیا ہوگا ۔
اسلام اسی ہدف کے تحت نازل کیا گیا تھا کہ انسان کو اس عظیم مقام کی طرف لے جائے جو اس کی منزل مقصود ہے ۔ اسلام قلوب کو منور و روشن کرنے آیا تھا ، برائیوں کی جگہ نیکیوں کو رائج کرنے آیا تھا کہ ان راہوں سے ہم مذکورہ روحانی و معنوی لذت کا احساس کر سکیں اور نہ فقط محراب عبادت میں بلکہ اپنی روز مرہ زندگی میں بھی یعنی ہر طرح کے امور میں یاد خدا کو فراموش نہ کریں ۔
اگر دنیا میں ایسے افراد پیدا ہو جائیں کہ جن کا سارا ہم و غم یاد خدا ہو تو ہر طرح کا ظلم و جور ، ناانصافی ، جنگ ، فساد وغیرہ خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ اگر ایسے افراد پیدا ہو گئے تو ان کی حیات کو بھی حیات طیبہ کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن حیات طیبہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان فقط عبادت گذار ہو ، نماز بجا لاتا ہو ، روزہ رکھتا ہو وغیرہ وغیرہ اور بقیہ امور زندگی سے قطع نظر کر لے بلکہ حیات طیبہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں باہمی امتزاج پایا جاتا ہو ۔
حیات طیبہ سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک ملت اپنی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے کوشش کر رہی ہے ، معاشیات ، سماجیات ، تعلیم ، ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے میدانوں میں کام کر رہی ہے تو ضروری ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس ملت کے قلوب یاد خدا سے مملو بھی ہوں یعنی دنیاوی و اخروی امور کے ساتھ ساتھ خدا سے رابطہ بھی برقرار رہے ۔ یہی اسلامی حکومت کا ہدف ہے ۔ یہی وہ ہدف ہے کہ جس کے لئے انبیائے کرام کی طویل فہرست نازل کی گئی ، اسلام نازل کیا گیا ، قرآن نازل کیا گیا ، مصلحان عالم نے بھی اسی ہدف کو بیان کیا ۔ گذشتہ ١٠٠ ، ١٥٠ برسوں میں مختلف اسلامی شخصیات نے بھی اسی جانب توجہ دلائی ہے۔
اسلام اور حیات طیبہ
ہمارے تمام مشخص اہداف فقط ایک لفظ، اسلام میں سمٹے ہوئے ہیں ۔ اسلام فقط ایک عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام یعنی حیات طیبہ ۔ جس وقت نظام اسلامی اور حیات اسلامی کا ذکر آتا ہے تو اس وقت مراد یہی ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں بشری ضرورتوں اور اس کے کمال کے لئے تمام احکامات بیان کر دئے گئے ہیں یعنی یہ ایسا نظام ہے جس میں مادی اور معنوی و روحی تمام ضروریات کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ اسلام نے اس کو ثابت بھی کر دیا ہے کہ اگر معاشرہ اسلامی عقائد کا تابع ہو اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تو اسلام ہر موقع پر اس معاشرہ کا دفاع کر سکتا ہے ۔
آج ساری دنیا فقط اسی وجہ سے ہماری دشمن ہے کہ ہم تابع اسلام ہیں ? و ما نقموا منھم الا ان یومنوا با? العزیز الحکیم ? ( سورہ بروج ٨ ) لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پر آشوب دور میں اگر ہم کو کوئی پناہ گاہ حاصل ہو سکتی ہے تو وہ فقط اسلام ہے ۔ اسی اسلام کے دائرے میں رہ کر ہم اپنی شخصیت ، کردار اور حیات طیبہ کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔
اسلام میں انسانی رشد و کمال کے تمام عناصر کا وجود
اسلام کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس مین انسان کے رشد و کمال کے تمام تر عناصر خواہ مادی ہو ںیا معنوی ، موجود ہیں یعنی اسلام میں ? خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ? اور ? قل من حرم زینۃ ا? اخرج لعبادہ ? کے علاوہ رسول اکرم کے ذریعہ ایک کاریگر کا ہاتھ چومنا اور خود امیر المومنین ٴ کا کسب معاش کرنا پایا جاتا ہے ۔ اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسب معاش نہ کرے تو اس کی دعائیں مستجاب نہیں ہوتی ہیں ۔ رسول اکرم کے زمانے میں کچھ لوگ ? و من یتوکل علی ا? فھو حسبہ ? پر تکیہ کرتے ہوئے خانہ نشین ہو گئے تو آپ نے فرمایا : خدا تم لوگوں کی کوئی دعا مستجاب نہیں کرے گا ۔ آخر تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو ؟
رسول اکرم نے ایسا کیوں فرمایا ؟ اس لئے تاکہ معاشرہ معاشی اعتبار سے بھی وسعت پیدا کرے ۔ اگر اوائل اسلام ( جب اصحاب صفہ مسجد میں زندگی بسر کر رہے تھے )اور اسلام کے پچاس سال کے بعد کی اجتماعی زندگی کا تقابل کیا جائے تو واضح فرق نظر آتا ہے ۔ یہ بعد کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب معاشرہ ہر طرح کی معاشرتی ۔ اقتصادی نعمتوں سے پر تھا ۔ ہر طرف خوشحالی تھی ، ہر طرف ترقی و رشد تھا۔ یہ ترقی و رشد اسی بنا پر تھا کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے پر نظر رکھی ہے ۔ مادی زندگی کے علاوہ روحانی اور معنوی زندگی کا بھی خیال رکھا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے ( قل ما یعبوا بکم ربی لولا دعائکم یا و قال ربکم ادعوبی استجب لکم ‘‘) یعنی دعا کرو تاکہ خدا تمہاری دعاوں کو مستجاب کرے گا۔
روحانی و معنوی زندگی فقط اور فقط قرب خدا کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ جس لمحے انسان خدا سے غافل رہے گا اس لمحے اس کا قلب مردہ ہوجائے گا اور روح مردہ ہو جائے گی اسی طرح جس لمحے قرب خدا حاصل ہو جائے گا اس لمحے قلب و روح بھی زندہ ہو جائیں گے ۔ ورنہ قلب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مر جائے گا اور ایک وقت وہ بھی آئے گا جب قلب ، پتھر کی شکل اختیار کر لے گا ۔قرآن کریم فرماتا ہے ? آ لم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر ا? ? ( سورہ رعد ٢٨ )
اسلام جہاں مادی اور معاشی رشد و ترقی کی طرف ترغیب دلاتا ہے وہیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاشی اور مادی رشد و ترقی قرب خدا اور رضائے خدا حاصل کرنے کے لئے کی جانا چاہیے ۔ انسان کوئی بھی فعل انجام دے اس کے پیش نظر خدا اور یاد خدا ہونی چاہیے ۔ اسلام مادی ، معنوی و روحانی زندگی کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔
اسلام کسی ایک زمانے سے مختص نہیں
قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ? ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ ? ( سورہ جمعہ ٢ ) اس آیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ دین خاتم اور رسول خاتم کے آنے سے بشر مکمل طور پر تزکیہ نفس حاصل کر لے گا یا حاصل کر لیا ہے ۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نزول قرآن کے بعد بشر ظلم ، شقاوت ، ناانصافی کو یکسرے خدا حافظ کہہ دے گا بلکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ طلوع اسلام کے بعد دنیا میں حتی اسلامی معاشرہ میں دو تین دہائیاں گذرنے کے بعد بشریت پر ظلم ہوا ، بشر منحرف ہو گیا ، باطل غلبہ پا گیا وغیرہ وغیرہ ۔
لہذا اس آیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول کی بعثت کا ہدف نجات انسان ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول اور اسلام نے جو کچھ بھی بشریت کو عطا فرمایا ، وہ ایک ایسا شفا بخش نسخہ ہے جو ہر زمانے کے مریض کی دوا ہے ۔ ایک ایسا نسخہ ہے جو جہالت ، ظلم یا ناانصافی ، بد اخلاقی جیسے تمام امراض کا علاج ہے ۔
دوسرے تمام نسخوں کی طرح ، اگر اس نسخے پر بھی عمل ہو گیا تو بشریت نجات پا سکتی ہے ورنہ وہی ہو گا جو کسی ڈاکٹر کے تشخیص دادہ نسخہ پر عمل نہ کرنے کی بنا پر ہوتا ہے ۔ کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے بہترین نسخے تجویز کرنے کے بعد اگر اس نسخے پر عمل پیرا نہ ہوا جائے اور مرض سے افاقہ نہ ہو تو اس میں ڈاکٹر کی کیا خطا ہے ؟
صدیاں گذر چکی ہیں ، مسلمان قرآن مجید کو فراموش کر چکے ہیں ، زندگی میں قرآن کے لئے کوئی مقام نہیں ہے ، قرآن پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا قرآن کو تحریف کر دیا گیا یا غلط تفسیر کر دی گئی ہے ، قرآن کو اگر سمجھ بھی لیا گیا ہے تو اقدام کرنے کی جرآت نہیں ہے ۔ اگر رسول اکرم کے زمانے میں بھی رسول کے فرامین پر عمل نہ کیا جاتا تو کسی بھی صورت میں معاشرہ کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی تھی ۔
اسلام اور عالم اسلام کے مسائل
عرب کے جاہل معاشرہ میں پائے جانے والے اکثر مسائل آج دوبارہ عالم اسلام میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں یا بنا رہے ہیں ۔ غربت ، جہالت ، پسماندگی ، بد اخلاقی ، باہمی اختلافات آج کے مسلم ممالک کا خاصہ ہیں ۔ آج دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان موجود ہیں۔ یہ ایک اتنی بڑی تعداد ہے کہ موجودہ دنیا میں اپنا تشخص قائم کر سکتی ہے ، اپنی بات منوا سکتی ہے لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مسلمانوں کے باہمی مسائل خود ہی اتنے زیادہ ہیں کہ وہ انھیں میں الجھے رہتے ہیں جب کہ اس ایک ارب آبادی میں علمائ بھی ہیں اور دانشمند بھی ۔ یہ افراد کیا کچھ نہیں کر سکتے ؟ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ تعلیمات رسول اکرم اور قرآن پر عمل کیا جائے ۔
اسلام باعث عزت و افتخار
اسلام انسان کو عزت بخشتا ہے ۔ انسان جب اپنے وجود میں عزت کا احساس کرتا ہے تو کسی بھی قیمت پر دوسروں کے آگے دست درازی نہیں کرتا ، دشمن کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا ۔ آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دنیا کی مختلف اسکتباری طاقتیں مخصوصاً امریکہ مختلف ممالک اور اقوام کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں اس کی وجہ فقط اور فقط ان محکوم ممالک اور اقوام میں عزت نفس کا نہ ہونا ہے ۔ سب سے پہلے ان قوموں کو اسلام اور ان کی تاریخ و تہذیب سے دور کیا جاتا ہے اور پھر ان کو باطل افکار و عقائد کا تابع بنا دیا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی روش ہے جس پر ساری دنیا سے عمل کر وایاجارہا ہے لیکن ایک ایسی قوم جس میں قلبی اور حقیقی ایمان پایا جاتا ہے کسی بھی قیمت پر ان شیطانی طاقتوں کی پیروی نہیں کرتی اور اپنے معاملات و مسائل کو استقلالی طور پر خود حل کرتی ہے ۔
اسلام محمدی اور امریکی اسلام
بحمد ا? ہماری راہ و منزل اسلامی ہے ۔ ہمارا راستہ وہ اسلامی راستہ ہے جس سے دشمن ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے اور اس کے برعکس مظلوم و کمزور افراد پر امید اور خوش رہتے ہیں ۔ اسلام اگر فقط ظاہری اسلام رہ جائے تو دشمن کا آلہ کار بن جاتا ہے ۔ یہی وہ اسلام ہے جس کے بارے میں امام خمینی ۲ نے بارہا کہا
تھا کہ یہ امریکی اسلام ہے ۔ہم اس ظاہری اسلام یعنی امریکی اسلام کو قطعاً قبول نہیں کرتے ہیں ۔
اسلام محمدی وہ اسلام ہے کہ ساری دنیا میں ابو جہلانہ طاقتیں اس سے خوف زدہ رہتی ہیں ۔ اگر کسی جگہ اسلام سے ابو جہل اور ابو سفیان کی موجودہ طاقتیں خوف زدہ نہ ہوتی ہوں تو ہمیں ایسے اسلام کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔ اگر کہیں مظلوم اور ناتواں افراد اسلام کی طرف پر امید نگاہوں سے نہ دیکھتے ہوں تو بھی ایسے اسلام کو اسلام نہیں کہا جا سکتا ۔
موجودہ متمدن بشریت ایک مصلح اور عالم مہدی ٴکے انتظار میں ہے ۔ امام مہدی ٴ کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ یہ ہے کہ یملآ ا? بہ الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً ( بحار الانوار ج ٥١ ، ص ١٢ ) یعنی خدا وند عالم امام مہدی ٴ کے توسط سے دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم و جور سے پر ہوگی ۔ لہذا وہ اسلام جس میں عدل و انصاف کا مادہ نہ پایا جاتا ہو کس طرح بشریت کا منظور نظر بن سکتا ہے ؟ بشریت اسی اسلام کی جانب قدم بڑھا سکتی ہے جس میں ظلم و جور و ناانصافی وغیرہ کا وجود نہ ہو اور ایسا اسلام وہی اسلام ہے جس میں مہدی موعود ٴ کا تصور موجود ہو ۔
یہی وہ راستہ ہے جس کی طرف امام خمینی ۲ نے بارہا اشارہ کیا تھا ۔ ایسا راستہ کہ جس میں اطمینان بھی پایا جاتا ہے اور امید بھی ۔ لیکن یہ راستہ با آسانی ہاتھ نہیں آسکتا۔ اس کے لئے سعی و کوشش کی ضرورت ہے ۔ اس راستہ کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرب خدا حاصل کیا جائے ۔
اسلام کی عادلانہ حاکمیت
حکومت اسلامی یعنی حکومت عدل و انصاف۔ ایک ایسی حکومت جو انسانی جسم کے ساتھ ساتھ روح ، جذبات ، اخلاق اور معنویات کے مواقع بھی فراہم کرتی ہو اس معنی میں کہ دنیا و آخرت کو باہم لے کر چلے ۔
حکومت اسلامی ، ظلم کے مقابلے میں ہے ، طاغوت کے مقابلے میں ہے ۔ حکومت طاغوت یعنی حکومت فساد و بد اخلاقی ، حکومت ظلم ۔ اس حکومت میں دین و دنیا کا ضیاع ہوتا ہے ۔
انسانیت کو اسلام محمد ی کی ضرورت
اگر چہ آج دنیا بھر کے تمدن و فرہنگ اسلام سے بہرہ ور ہیں اور بیشک بشر کے درمیان موجود تمام صفات و عالی مفاہیم ادیان الہی اور انبیائے کرام و آسمانی وحی سے مستفاد ہیں لیکن پھر بھی بشر کو معنویت ، تعالیم و معارف اسلامی کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے روز بروز دنیا کے مختلف خطوں کے افراد اسلام کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں ۔
اسلامی انقلاب اور دنیا کی بیدار ی
موجودہ اسلامی انقلاب چونکہ خدا کے نام پر عالم وجود میں آیا ہے لہذا ہمیشہ مختلف شیطانی طاقتوں سے جنگ آزما ہے ، چونکہ مظلوم اور ناتواں افراد کا حامی ہے لہذا ظالم و استکباری طاقتوں سے نبرد آزما ہے ، چونکہ انسانی اقدار کے لئے میدان عمل میں آیا ہے لہذا ہمیشہ ان افراد کی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے جو انسانی اقدار کے مخالف ہیں ۔
اسلامی انقلاب دور حاضر کا ایک ایسا انقلاب ہے جس نے دنیا کو بیدار کیا ہے ۔ ا س سلسلے میں فلسطین اور شمالی افریقہ جیسے ممالک کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جہاں اسلام نے اپنا پرچم گاڑ دیا ہے ۔
ایک زمانے سے کافر اور استکباری ثقافت و تہذیب کے مقابلے میں مسلمانوں کو کمزور اور ضعیف شمار کیا جاتا تھا لیکن آج اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے بعد حالات یکسرے بدل گئے ہیں ۔ کل تک جہاں لاکھوں مسلمان اپنی حکومتوں سے اپنا حق مانگتے ہوئے گھبراتے تھے آج اس انقلاب کی بدولت بلاخوف و خطر اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور حق طلبی کرتے ہیں ۔
آج اسلامی ممالک میں مساجد آباد ہو گئی ہیں ، نماز جمعہ کا اہتمام ہو گیا ہے لیکن کل تک ان مسجدوں میں فقط چند بوڑھے افراد ہی آیا کرتے تھے۔ اب مسجدوں میں فقط بوڑھے افراد نہیں بلکہ بڑی تعداد میں نوجوان اور جوان طبقہ بھی آتا ہے ۔ یہ جمہوری اسلامی کے موجودہ اسلامی انقلاب ہی کی برکات ہیں ۔
بندہ خدا بندہ انسان نہیں ہو سکتا
بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ نظریہ توحید بعد از مرگ زمانے سے مربوط ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ توحید پر اعتقاد اور یقین قبل از موت یعنی عالم دنیا کی تعمیر اور اصلاح کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ دور حاضر میں ہمیں بلکہ ساری امت اسلامیہ کو اسی نظریہ اور اعتقاد پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ جس قدر ہم توحید اور عبودیت خدا کی سمت قدم بڑھائیں گے اتنا ہی دنیا کی شیطانی اور استکباری طاقتوں سے محفوظ تر ہوتے جائیں گے ۔ جمہوری اسلامی کی مسلمان ملت نے جس حد تک توحید خدا وند عالم کو قبول کیا ہے اسی حد تک امریکہ اور دوسری استکباری طاقتوں کے شر سے محفوظ اور ان کی غلامی سے آزاد ہے ۔ یہ ہے توحید اور عبودیت خدا وندی کا خاصہ ۔
صرف مذہب ہی موجودہ دنیوی مسائل کا حل ہے
اگر مذہب موجود نہ ہو تو دنیا میں فقط استکبار اور ظلم باقی رہ جائے گا ۔لہذا فقط دین ہی اس طرح کے مسائل و مشکلات کا حل ہے ۔ آج تمام اسلامی ملتوں کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے کہ اسلام کو اپنی آماجگاہ بنائیں اور اسلام کی حاکمیت کو قبول کریں ۔ اتفاقاً اسلامی ملتوں کے علاوہ دوسری تمام ملتوں کے پاس ایسا کوئی عالی اور مقدس نظام حیات اور نظام حکومت نہیں ہے کہ جس کی طرف قدم بڑھائیں۔
یہی وجہ ہے کہ نیشنلزم ان کی قبر بنتا جا رہا ہے ، نیشنلزم نے بشریت کو کیا دیا ہے ؟ ممکن ہے کہ نیشنلزم ایک مختصر سے عرصے کے لئے اطمینان ، سکون اور جوش وغیرہ فراہم کر دے لیکن اس کا نتیجہ نہایت بدتر ہے اور وہ ہے بشریت کا خاتمہ ۔ خود ہمارے علاقے میں یہ کوشش کی گئی کہ اس علاقے کے مسلمانوں کو نیشنلزم کی بنیاد پر ایرانی ، ترکی ، عربی وغیرہ میں تقسیم کر دیا جائے اور نہ فقط بین الاقوامی پیمانے پر بلکہ قومی پیمانے پر بھی یہ کوشش کی گئی ، یہ ہے استعماری سازش ۔
بحمد ا? اسلامی انقلاب نے کسی حد تک اس خطے کے ان مسائل کا سد باب کیا ہے کیونکہ ایک مناسب اور صحیح نظام حکومت اور نظام حیات ہی ملت کو اس طرح کے مسائل سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ دوسرے ادیان و مذاہب اتفاقاً ایسا کوئی نظام حیات و حکومت نہیں رکھتے جو معاشرے کو ایک صحیح سمت میں لے جاسکے ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس طرح کے نظام حیات کے حامل ہیں ۔
ہمارا یعنی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ہم نظام اسلامی اور افکار اسلامی کی طرف ایک بار پھر پلٹیں تاکہ دنیا میں اپنا ایک مقام اور تشخیص قائم کر سکیں ۔ ایک ارب کی آبادی کم نہیں ہوتی ہے ۔ یہی آج کے موجودہ مسائل کا حل ہے اور یہی رسول اکرم کی بعثت کا بھی ہدف تھا اور اگر ایسا ہو گیا تو خلیج فارس میں موجودہ ہماری ان مخالف طاقتوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی ۔
اسلام محور اصلی
محور اسلام ہے ۔ ہمارا فریضہ ہے کہ فقط اسلام کی خاطر قدم اٹھائیں اور اسلام کے نام پر آگے بڑھیں ۔ آج جمہوری اسلامی ، اسلام کا بنیادی مرکز ہے ۔ آج سارے عالم اسلام کی نگاہیں جمہوری اسلامی کی طرف لگی ہوئی ہیں جبکہ دوسری جانب نیشنلزم میں کشش تو درکنار لوگ اس سے فرار کر اختیار کر رہے ہیں لیکن جمہوری اسلامی ہر شخص کو اپنی طرف جذب کر رہا ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ ایمان ، اسلام اور جہاد فی سبیل ا? ہے جس میں ظلم ، فساد ، بد اخلاقی سے جنگ اور آزادی و عدل و انصاف کی حمایت شامل ہے ۔ اسی بنا پر اقوام عالم جمہوری اسلامی کی طرف جذب ہو رہی ہے ۔
اسلامی معاشرہ لوگوں کی عزت کا سبب ہے
اگر ہم خدا کی جانب ایک قدم بڑھائیں تو خدا بھی ہماری نصرت کرے گا ۔’’ من کان ? کان ا? لہ ‘‘ ( بحار الانوار ج ٨٣ ص ٣١٩ ) اگر ہم نے
خالصتاًخدا کی راہ میں قدم اٹھایا تو خدا وند عالم بھی اپنے ارادے کو ہماری ترقی و ارتقائ میں قرار دے گا اور پھر ساری کائنات کے اصول و قوانین ہمارے ساتھ ہوں گے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو ہم بھی دنیا کی دوسری اقوام کی مانند ہو کر رہ جائیں گے ۔ اگر انسان خدا سے انس نہ رکھتا ہو ، خدا کے لئے زندگی نہ گذارتا ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ ایرانی ہو یا پاکستانی ، مسلمان ہو یا غیر مسلمان۔ یہ ضمانت ہمیں کون دے سکتا ہے کہ بالفرض اگر کوئی شخص اسلام پر اعتقاد رکھتا ہو اور کسی حد تک عبادت بھی انجام دیتا ہو تو اس کو دنیوی و اخروی عزت حاصل ہو جائے گی جبکہ ہم نے دیکھا بھی کہ گذشتہ صدیوں میں عزت و افتخار اسلامی ہمارے پاس نہیں رہا ۔
آج بھی ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ایسے افراد موجود ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کفار ان پر حاوی ہیں ، امریکہ ان پر حکومت کر رہا ہے ، مغربی دنیا کے نام نہاد متخصصین ان پر تجربات کر رہے ہیں ۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ مسلمان ہونا ہی کافی ہے تو ان سب کو باعزت و با افتخار زندگی بسر کرنی چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
پس اس طرح کہنا چاہیے کہ انسان کو عزت و افتخار، اصل اور حقیقی اسلام سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ فقط ظاہری مسلمان ہونے سے یعنی خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جانا ہی حقیقی مسلمان ہونے کے مترادف ہے ۔ ’’ الاسلام ھو التسلیم ‘‘ ( بحار الانوار ج ٦٥ ص ٣٠٩ ) یعنی سراپا تسلیم ’’ ان الدین عند ا? الاسلام ‘‘ ( آل عمران ١٩ )۔ دین یعنی خدا کے حضور سر تسلیم خم کر دینا ۔ ’’ و من یبتغ غیر الاسلام دینا ً فلن یقبل منہ ‘‘ ( آل عمران ٨٥ ) ۔الغرض معاشرہ کے ہر فرد کے لئے خواہ عوام الناس میں سے ہو یا خواص میں سے ، لازم ہے کہ بارگاہ خدا وندی میں سراپا تسلیم ہو مخصوصاً معاشرہ کے ذمہ دار افراد ۔
آئندہ زمانہ اسلام کا زمانہ ہے
ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج عالم اسلام میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور مسلمان اسلام کی حاکمیت کو قبول کر رہے ہیں ۔ مشرق سے مغرب تک چاروں جانب مسلمانان عالم اسلام کی طرف جذب ہو رہے ہیں ۔
شیطانی اور استکباری حکومتیں کب تک بعض اسلامی ممالک کے جوانوں کو عبادت حج سے روک سکیں گی ؟ کب تک مسلمانوں کو سفر مکہ و مدینہ سے باز رکھ سکیں گی ؟ آج اسلام شمالی افریقہ اور بعض دوسرے اسلامی ممالک کے سیاسی حالات میں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے ۔ کیا ممکن ہے کہ ان ممالک کے مسلمانوں کو بھی حج جیسی عظیم عبادت سے روکا جا سکے گا ؟ ہم حج اور زیارت حرمین شریفین کو اپنا مسلّم حق سمجھتے ہیں اور اپنی تمام تر قدرت و طاقت کے ساتھ اپنے اس حق کا آل سعود سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنھوں نے ہمارے اس مذہبی حق پر تصرف کر رکھا ہے ۔ انشائ ا… ہم ایک دن آل سعود سے اپنا یہ حق چھین کر رہیں گے ۔
موجودہ کفر یعنی استکبار کو سمجھ لینا چاہیے کہ آئندہ زمانہ اسلام کا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی بھی طاقت اسلام کی بڑھتی ہوئی قدرت اور عالم اسلام میں مسلمانوں کی مخالفت کرنے کی جرآت نہ کر سکے گی ۔
اسلام مسلمانوں کی خود شناسی کا سبب ہے
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام مخالف طاقتیں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت اور مسلمانوں کی روز افزوں بیداری سے متعلق باقاعدہ آگاہ ہو گئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ اسلام اخلاقی اقدار سے ماورائ ایک نظام حیات پیش کر سکتا ہے یعنی اسلام فقط اخلاقیات پر مبنی مذہب نہیں ہے ۔
دشمنان اسلام نے دیکھ لیا کہ اسلام ہی تھا جس کی بنا پر ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا ، اسلام کی بنیاد پر ہی ایک نظام حکومت کی بنا رکھی گئی ، اس دین کی بنا پر ایک ملت آگاہ اور بیدار ہوئی یعنی وہ اسلامی قوت ہی تھی جس نے اس ملت کو ذلت اور غلامی سے نکال کر آزادی اور خود اعتمادی بخشی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سارے دنیاوی وسائل و ہتھیار ان مسلمانوں کے آگے ہیچ ہو کر رہ گئے ۔
ہماراسب کچھ اسلام کی برکت سے ہے
ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اسلام کی برکت سے ہے ۔ ایران کا اسلامی انقلاب اسی اسلام کی برکت سے رونما ہوا ۔ اگر ہمارے پاس ایمان و اسلام نہ ہوتا تو قطعاً ممکن نہیں تھا کہ ظاہری اعتبار سے قوی اور قدرتمند شاہی حکومت کے مقابلے میں ہماری ملت استقامت کر پاتی ۔
انقلاب کے بعد ، عوام کا ثبات قدم ، جمہوری اسلامی کی عمیق ہوتی ہوئی جڑیں ، مختلف جہات سے ترقی و ارتقائ ،ایران عراق کی جنگ میں ایران کی استقامت ، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں ہماری فتح و کامیابیاں یہ سب کچھ اسی لئے ہوا کہ ہم راہ حق کے مسافر ہیں ۔ یہ سب کچھ اسلام اور اعتقادات اسلامی کا مرہون منت ہے ۔لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنی اس بیش بہا معنوی قدرت کی حفاظت کریں ۔ ہماری روز مرہ زندگی میں ، قول و فعل میں ، معاشرہ میں ، حکومتی پیمانے پر اس قدرت کا اظہار ہونا چاہیے ۔ ہماری تمام تر توجہ دین پر ہونی چاہیے ۔ ہمارے ذاتیات ، ہمارے جذبات و خواہشات کسی بھی صورت میں دین پر حاوی نہیں ہونے چاہئیں ۔ ہماری روز مرہ زندگی ، حکومت ، معاشرے کے فیصلے اوراہداف کا معیار دین اسلام ہونا چاہیے۔ اگر ہم نے مذکورہ روش اختیار کر لی اور باقی رکھ لی تب ہی ہم ترقی کر سکتے ہیں ۔
البتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں اسلام سے مراد اسلام محمدی ہے نہ امریکی اسلام یعنی وہ اسلام جو مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کی حمایت کرتا ہے نہ کہ قدرتمند اور اغنیائ افراد کا کھلونا ۔ دنیا میں ایسے افراد بھی ہیں جو مسلمان ہونے کا دعوی توکرتے ہیں لیکن ان کا اسلام ،اسلام محمدی نہیں بلکہ ابو جہل و ابو لہب کا اسلام ہے ، امریکی اسلام ہے ۔ ایسے افراد کا اسلام سے فقط اتنا ہی سروکار ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو کامیاب بنا سکیں ، اسلام سے سوئ استفادہ کر سکیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایسا اسلام ہے جس سے فقط سرمایہ دار اور صاحب ثروت افراد ہی کا فائدہ ہوتا ہے ۔ ہم اس اسلام کو کسی بھی قیمت اور کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے ہیں ۔
الغرض ہمارے پاس جو کچھ ہے اسلام کی وجہ اور اسلام کی برکت سے ہے یعنی خدا پر توکل و ایمان کی وجہ سے ہے۔ لہذا قرب خدا اور ارتباط خدا کو کسی بھی حال میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
اسلام مسلمان قوموں کی راہ نجات ہے
اگر اقوام اسلامی کی ترقی و عروج کے راز کی جستجو کی جائے تو تمام تر تاریخی مطالعات کے بعد خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی و عروج فقط اور فقط اسلام پر منحصر ہے ۔ دنیا کے کسی خطے کے مسلمان استکباری طاقتوں کے ذریعہ پیدا کی گئی مشکلات اور مسائل کا سامنا اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک راہ اسلام کو نہ اپنا لیں ۔جمہوری اسلامی نے ایسا ہی کیا اور راہ نجات حاصل کر لی ۔
اسلامی انقلاب یعنی صالح افراد کی تربیت
جمہوری اسلامی کا انقلاب اسی لئے عالم وجود میں آیا ہے کہ صالح افراد پیدا کر سکے ۔ انھیں صالح افراد کی بدولت ہمارا اسلامی انقلاب آج تک باقی ہے ۔ ہماری قوم صالح ہے لیکن ابھی اس سمت میں ہمیں ایک طویل راہ طے کرنی ہے ۔
احکام اسلامی کی پیروی
مسلمان ملت جس قدر اسلام کی پیروی کرے گی اسی حد تک دوام اور ترقی حاصل کرسکے گی۔ آج ساری دنیا بلکہ ہمارے مخالفین تک کیوں ہماری خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے ہیں ؟ اسی لئے کہ ہماری خارجہ پالیسی احکام اسلامی پر مبنی ہے ۔
اسلامی برکات
یہ اسلام ہی کی برکت تھی کہ ہم نے اپنے دشمن کو شکست دی ہے اور مایوس کیا ہے ۔ اسلام ہی تھا جس کی بنا پر ہم نے دشمن کے مختلف النوع حیلوں کو اپنے پیروں تلے روندا ہے ۔ یہ بھی اسلام ہی کی برکت تھی کہ ایران میں انقلاب آیا اور ہم نے اپنی تمام مادی و معنوی ترقی و ارتقائ کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے ۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اسلام کی وجہ سے ہے ، اسلام کی برکت سے ہے ، قرآن کی برکت سے ہے ۔ ہمارے تمام مسائل و مشکلات کا حل بھی اسلام اور قرآن کی پیروی سے حاصل ہو جائے گا ۔ عالم اسلام جس قدر اسلام سے نزدیک رہے گا اتنا ہی اس کی عزت میں اضافہ ہو گا اور مسلمان جس قدر متحد ہوں گے اتنا ہی اسلام سے استفادہ کا امکان بڑھ جائے گا ۔
اسلام عالمی استکبار کا شدید مخالف ہے
امریکہ اور اس کی حلیف طاقتیں اچھی طرح سمجھ گئی ہیں کہ مذہب اور معرفت دینی کی بقا کے ساتھ ساتھ دنیا پر حکومت نہیں کی جا سکتی ۔ ان استکباری قوتوں کی کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے کہ دنیا کو دین و مذہب سے دور رکھیں ، عوام کو بے دین ، بے عقیدہ ، بے ایمان بنا دیں ، ان سے مذہبی حمیت و غیرت چھین لیں ۔ امریکہ جیسے ممالک ایسا ہی معاشرہ چاہتے ہیں ۔ لہذا جب بھی اور کہیں بھی یہ دیکھتے ہیں کہ ایمان ، عمل ، جہاد وغیرہ کو رائج کیا جا رہا ہے تو فوراً اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں …. لہذا اگر عالم اسلام چاہتا ہے کہ ان استکباری طاقتوں کا مقابلہ کرے تو لازمی ہے کہ پہلے خود کو قوی کرے ۔
قرب خدا اور توکل بر خدا
ایک موحد اور خدا پرست قوم کی ترقی اور دوام اس وقت تک باقی رہ سکتا ہے جب تک وہ قرب خدا اور توکل بر خدا کے قانون پر عمل پیرا رہے ۔ اسی قوت نے ہمیں آگے بڑھنے کی طاقت عطا کی اور ہمیں کامیابی سے سرفراز کیا ہے ۔
یہی الہی قوت تھی جس نے ہمیں دشمنوں پر غالب کیا ، ٨ سال تک ایران، عراق جنگ میں ہمیں استقامت عطا کی ،ہمارے داخلی اور خارجی مسائل کا تدارک کیا ، اقتصادی ، سیاسی ، سماجی مشکلات سے ہمیں باہر نکالا ۔ہماری جگہ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کب کا اپنی راہ فراموش کر بیٹھتا ۔ یہی الہی قوت تھی کہ آج جس پر ہم فخر کر رہے ہیں اور باعزت زندگی گذار رہے ہیں ۔
آج اسلام کے ماسوا دوسری کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو دنیا کی موجودہ شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے ۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ایک بار پھر خورشید اسلام نے سارے عالم اسلام پر نور افشانی شروع کر دی ہے اور عالم اسلام ، اسلام کے پرچم تلے ان شیطانی طاقتوں سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو رہا ہے ۔
یہ ایک امید بخش اور فرحت افزا قدم ہے اور انشائ اللہ. عالم اسلام کی یہ بیداری امریکہ اور اس کی حلیف طاقتوں کو پسپا کر دے گی اور دنیا کو نجات بخشے گی ۔
آج تمام اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اسلام محمدی سے قریب ہوں ۔ اگر یہ حکومتیں واقعی اپنی عوام کی حامی ہیں تو فقط اسلامی احکام کی پیروی کے ذریعہ ہی اپنی عوام کو نجات دلا سکتی ہیں کیونکہ فقط اسلام ہی عزت ، افتخار ، استقلال اور قدرت عطا کر سکتا ہے ۔
اسلامی انقلاب کی بنیاد الہی اقدار پر ہے
جس وقت ایران کا اسلامی انقلاب رونما ہوا اس وقت دنیا سے الہی اقدار کا خاتمہ ہو چکا تھا اور مادیت نے انسانی زندگی کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں قید کر لیا تھا ۔ آج اگر مشاہدہ کیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مادیت کی بنیادیں متزلزل ہو گئی ہیں ۔ وہ انقلاب جس کی بنیاد مادیت پر رکھی گئی تھی یعنی مارکسزم اور سوشلزم آج ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے ۔
انقلاب سے قبل ایسا نہیں تھا ۔اشتراکیت خود کو اس قدر قوی اور قدرتمند سمجھتی تھی کہ فقط اپنی قدرت پر ہی اکتفا نہیں کی تھی بلکہ افغانستان پر فوجی حملہ کر دیاتھا تاکہ اس طرف سے بھی اشتراکی نظام کو وسیع کیا جا سکے ۔ آج حالت یہ ہے کہ اشتراکیت میوزیم کا حصہ ہے اور بس ۔ لطف اندوز بات تو یہ ہے کہ جن
ممالک میں اشتراکی نظام حکومت رائج تھا وہاں اس نظام کی مخالفت کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں تھی جو دین ، معنویت ، خدا ، عیسائیت کے پیرو تھے ۔ یہ تھی ایران کے اسلامی انقلاب کی نور افشانی ۔
جس وقت اسلامی انقلا ب رونما ہوا اس وقت اسلام کے بارے میں ایسا کوئی نظریہ نہیں تھا کہ اسلام ایک حیات بخش انقلاب بھی لا سکتا ہے حتی اسلامی ممالک میں بھی اگر کسی انقلاب کی بنیاد رکھی جاتی تھی تو اشتراکیت پر ، انقلابی یعنی اشتراکی۔ دنیا والوں نے اپنے زعم ناقص میں اسلام کو کمزور اور ضعیف کر دیا تھا ۔ ظاہری حالات یہ تھے کہ کوئی شخص مسلمان ہونے کے ناطے خود پرفخر نہیں کرتا تھا ۔ آج حالات مختلف ہیں ، جہاں بھی کچھ مسلمان یکجا ہو جاتے ہیں خواہ اقلیت میں ہی رہ کر ، اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ یہ سب کب سے ہوا ؟ اسلامی انقلاب کے بعد ۔
اسلامی انقلاب کی دوسری خصوصیت یہ رہی ہے کہ ظاہری اور مادی طاقتیں ، الہی اور معنوی اقدار کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں ۔ دنیا میں ایسے بہت کم افراد ہوں گے جو اس حقیقت سے آگاہ نہ ہوں۔ فقط وہی افراد اس حقیقت سے نا آشنا ہیں جو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا عمیق مطالعہ نہیں کرتے ہیں ۔ استکباری طاقتوں کی اہم ترین کمزوری اور شکست یہی ہے کہ آج بھی ایران میں انقلاب ، اسلام ، اسلامی حکومت باقی ہے اور روز بروز روبہ ترقی ہے ۔ ایک اسلامی حکومت کا عالم وجود میں آنا اور روز بروز ترقی کرنا دنیوی طاقتوں کی شکست کی علامت ہے کیونکہ یہ طاقتیں کسی بھی صورت میں اسلامی حکومت کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتیں ۔ دنیوی طاقتوں کی تو ہمیشہ خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ اسلامی اور معنوی نظام حکومت کو جس طرح ممکن ہو سکے ، نیست و نابود کر دیں ۔ ان شیطانی طاقتوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود آج بھی اسلامی انقلاب اور پیام اسلام اپنے مقام پر باقی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے ۔ ایشیا ، افریقہ اور دنیا کے دوسرے ممالک اس کی واضح مثالیں ہیں یعنی دشمنان اسلام میں اسلام سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔
معنویت اور نظام جمہوری اسلامی
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب معنویت اور روحانیت دنیا پر محیط ہوگی ۔ ناممکن ہے کہ امریکہ اور اس کی مانند دوسری قدرتیں دنیا سے الہی اقدار کو ختم کر دیں ۔ امریکہ ، جمہوری اسلامی کی تمام تر مخالفت کے باوجود اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ ہمارا اسلامی نظام حکومت اپنی اسی آب و تاب کے ساتھ باقی رہے گا جس آب و تاب کے ساتھ موجودہ حالت میں ہے بلکہ اس کی ضوفشانیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے ۔ امریکہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود اسلامی نظام نے ہر امریکی حملے کا پوری شدت سے جواب دیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

Back to top button