سیرت اھلبیت

اہل بيتؑ سے محبت ايمان کامل کا تقاضا ہے

شيخ صدوق عليہ الرحمہ

حضرت امام جعفر صادق ؑروایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ﷺنے فرمایا جو شخص ہمارے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ بغض رکھے گا تو الله تعالیٰ اسے یہودی اٹھائے گا پوچھا گیا یارسول الله ؐ اگرچہ وہ شہادتین ہی کیوں نہ پڑھتا ہو؟فرمایا جی ہاں اس نے اپنی جان بچانے یا ذلیل و خوار ہو کر جزیہ کی ادائیگی سے بچنے کیلئے شہادتین کا اقرار کیا ہے مزید فرمایا ہمارے اہلبیت سے بغض رکھنے والے کو الله یہودی اٹھائے گا پوچھا گیا یا رسول الله ﷺیہ کس طرح ہو گا ؟ فرما یا اگر یہ لوگ دجال کا زمانہ پائیں تو اس کے مذہب کو اختیار کرکے اس پر ایمان لے آئیں گے۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے اس روایت کو حضرت امام جعفر صادق ؑ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول خدا ؐ کا ارشاد ہے کہ ہم اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو الله تعالیٰ قیامت والے دن ہاتھوں کے بغیر اٹھائے گا۔
فرمان الٰہی سے ہٹ کر عبادت کرنے والوں کی سزا
۱۔حضرت امام جعفر صادقؑارشاد فرماتے ہیں کہ
بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے ایک شخص نے اس قدر الله کی عبادت کی کہ سوکھ کر لکڑی کی مانند ہو گیا خدا نے اس زمانے کے نبی کی طرف وحی کی اور کہا کہ اس سے کہو کہ خدا نے فرمایا ہے مجھے اپنی عزت ، جلالت اور عظمت کی قسم اگر تم میری اتنی عبادت کرو کہ دیگ میں پڑی ہوئی چیز کی طرح گل سٹر کر پانی ہو جاؤ تو تب بھی میں اسے قبول نہ کروں گا مگر یہ کہ میرے فرمان کے مطابق عبادت کی جائے۔
امر الٰہی کو سبک سمجھنے کی سزا
۱۔حضرت امام جعفر صادق ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ
غفلت سے بچو غفلت کرنے والاخود سے غافل ہوتا ہے اور امر الٰہی کو سبک سمجھنا چھوڑ دو کیونکہ امر الٰہی کو سبک سمجھنے والے کو الله تعالیٰ قیامت والے دن ذلیل و خوا ر کرے گا۔
اہل بیت کے حق سے جاہل ہونے کی سزا
۱۔راوی کہتا ہے حضرت امام جعفر صادقؑ نے مجھے فرمایا
اے معلی اگر کوئی بندہٴ خدا رکن و مقام کے درمیان سو سال تک الله کی عبادت کرتا رہے،دن میں روزے رکھے اور راتیں قیام و سجود میں گزار دے یہاں تک کہ اس کے آبرو آنکھوں تک لٹک آئیں ، کمر جھک جائےاور وہ ہمارے حق کو نا پہچانتا ہو تو اس کے لئے کسی قسم کا ثواب و جزاء نہیں ہے۔
۲۔راوی کہتا ہے کہ حضرت امام زین العابدینؑنے مجھ سے دریافت کیا کہ
کونسی سی زمین افضل ہے میں نے عرض کی کہ خدا و رسولؐاور فرزند رسول ؐ بہتر جانتے ہیں حضرت نے فرمایا افضل جگہ رکن و مقام کا درمیانی علاقہ ہے فرمایا اگر کوئی شخص حضرت نوح ؑکی طرح نو سو پچاس سالہ زندگی پائے اور ساری زندگی دن میں روزے رکھے اور رات میں اس افضل زمین پر نمازیں پڑھتا رہے اور اگر ہماری ولایت کے بغیر بارگاہ خداوند میں حاضری دے گا تو اسے کوئی عمل بھی فائدہ نہ دے گا۔
۳۔راوی کہتا ہے کہ میں حضرت امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر تھا آپ کے سامنے چادر پر تقریباً پچاس آدمی بیٹھے ہوئے تھے ایک طویل خاموشی کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا
تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ شاید تم یہ خیال کر رہے ہو کہ میں الله کا نبی ہوں خدا کی قسم میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میری حضرت رسو ل خدا ﷺسے قرابت داری ہے اور میں انہی کی نسل سے ہوں جو شخص ہمارے ساتھ اچھائی کرے گا خدا اسکے ساتھ بھلائی کرے گا جو ہم سے محبت رکھے گا، خدا اس سے محبت رکھے گا اور جو ہمیں محروم رکھے گا تو خدا اسے محروم رکھے گا کیا جانتے ہو کہ کو نسا زمین کا حصّہ الله کے نزدیک مقام و منزلت کے لحاظ سے افضل ہے ؟
راوی کہتا ہے کہ ہم سب خاموش رہے حضرت نے جواب دیتے ہوئے فرمایا
یہی مکہ مکرمہ ہی تو ہے جسے الله نے اپنے لئے بہترین نقطہٴ زمین قرار دیا ہے یہاں اپنا حرم بنایا اور اسے اپنا گھر قرار دیا پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ مکہ کا کونسا حصہ محترم ہے؟ سب خاموش رہے تو آپ نے خود ہی جواب میں فرمایا مسجد الحرام، اسکا محترم ترین مقام ہے، پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ مسجد الحرام میں کونسی جگہ الله کے نزدیک زیادہ عظمت و حرمت کی حامل ہے ؟ سب خاموش رہے اور آپ نے خود ہی جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ جگہ رکن اسود ، مقام (ابراہیم) اور باب کعبہ کے درمیان ہے یہی جگہ حضرت اسماعیل کا حطیم تھی اسی جگہ اپنی قربانی کو عذا دی تھی اور نماز ادا کی تھی، خدا کی قسم اگر کوئی شخص اس جگہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر عبادت میں مشغول رہے ساری ساری رات نمازیں پڑھتا رہے اور جب دن ہو تو اسے روزے میں گزار دے یہاں تک کہ رات ہو جائے اور وہ ہمارا حق شناس نہ ہو اور ہم اہل بیت کی عظمت سے نا آشنا ہو تو کبھی بھی الله اسکے کسی عمل کو شرف قبولیت نہ بخشے گا۔
امام کی معرفت کے بغیر مرنے کی سزا
۱۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے حضرت رسول خدا ﷺ کے اس فرمان کے متعلق پوچھا کہ
اس کا کیا مطلب ہے ؟ جو شخص امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جہالت کی موت مرا ہے حضرت امام جعفر صادق ؑ نے ہاتھ کیساتھ سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا اسوقت تجھے اس معرفت امام علیہ السلام کی بہت زیادہ ضرورت ہو گی نیز فرمایا اس حوالے سے تیری سوچ عمدہ ہے۔
(۲) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
جن ائمہ کی اطاعت واجب ہے وہ ہم ہیں جو ان کا انکار کرے گا وہ یہودی اور نصرانی مرے گا۔ خدا کی قسم جب سے الله نے حضرت آدم علیہ السلام کی روح قبض فرمائی ہے زمین کو ہدایت کرنے والے امام علیہ السلام کے بغیر نہیں چھوڑا،یہ بندوں پر الله کی حجّت ہیں جنہوں نے ان کا دامن چھوڑا وہ ہلاک ہوئے اوجنہوں نے ان کی فرمانبرداری کی ، ان کی نجات کی ذمہ داری الله پر ہے۔
اس شخص کی سزا جس نے خدا کی طرف سے منسوب نہ ہونے والے ظالم پیشوا کی اطاعت کی
۱۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ؐ نے فرمایا کہ
الله تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ملت اسلام کا جو فرد اس ظالم پیشوا کی اطاعت کرے جو خدا کا بنایا ہوا نہیں ہے تو میں (خدا) اس پر حتماً عذاب نازل کروں گا خواہ اس ملت کے نیک اعمال ہوں اور وہ متقی ہوں اور ملت اسلام کا جو فرد اس امام کی اطاعت کرے جو ہادیِ خدا ہے تو میں خدا حتماً اسکو معاف کر دوں گا خواہ اسکے اعمال ظلم و گناہ پر مشتمل ہی کیوں نہ ہوں۔
اعلم اور افقہ کے ہوتے ہوئے قوم کی ذمہ داری سنبھالنے کی سزا
۱۔حضرت رسول خدا ﷺفرماتے ہیں کہ
جو شخص اعلم اور افقہ حضرات کی موجودگی کے باوجود قوم کی ذمہ داری اپنے کندھے پر ڈال لے تو قیامت والے دن اسکا معاملہ (جہنم کے) نیچے درجے میں ہوگا۔
نماز اور ذکر پیغمبرﷺکے وقت درود نہ بھیجنے کی سزا
۱۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس میں پیغمبر اسلامﷺ پر درود نہ بھیجے تو اسکی نماز جنت کے علاوہ کسی اور راہ پر ہوگی نیز حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا جب کسی کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ جہنم میں جائے گا اور رحمت خداوندی سے دور ہو گا نیز فرمایا جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے تو وہ جنت کی راہ گم کر بیٹھا ہے۔
امیر المومنینؑ کیساتھ دشمنی رکھنے اور انکی ولایت کا انکار یا شک کرنے کی سزا
۱۔حضرت امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیںکہ
مسلسل شراب پینے والا بت پرست کی مانند ہے اور آل محمد کا دشمن تو اس سے بھی بدتر ہے راوی کہتا ہے کہ میں آپ پر قربان جاؤں یہ بت پرستوں سے بدتر کیوں ہے ؟ فرمایا شاید شرابی کی کسی دن شفاعت ہو جائے لیکن اگر تمام اہل زمین و آسمان بھی اہل بیت کے دشمن کی شفاعت کرنا چا ہیں تو قابل قبول نہ ہوگی؟۔
۲۔حضرت امام جعفر صادق ؑاپنے آباؤ اجداد ؑسے روایت کرتے ہیں کہ
حضرت رسو ل خدا ؐنے فرمایا جب تک حضرت علی ؑکی محبت کا دم بھرنے والے اس دنیا میں ہیں، جنت انکی مشتاق ہے اور محبانِ علی ؑ کیلئے نور بڑھانے کی منتظر ہے۔ اس طرح جب تک (دشمنان علی علیہ السلام اس دنیا میں ہیں جہنم اپنی تیز اور خوفناک آوازوں کیساتھ شدّت سے ان کی منتظر ہے۔
۳۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
دشمن اہلبیت (علیہم السلام) جتنی عبادت و کوشش کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے کہ وہ اپنے عمل میں جتنی چاہے مشقت کرے وہ جائے گا بھڑکتی ہوئی آگ ہی میں ۔
۴۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
ہم اہلبیت (علیہم السلام)کیساتھ دشمنی رکھنے والا ناصبی نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں کوئی ایسا (بدبخت) انسان موجود نہیں ہے جو کہے کہ میں محمد وآل محمدﷺکیساتھ بغض و عدوات رکھتا ہوں بلکہ ناصبی وہ ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہو کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ تم ہمارے دوست اور پیرو کار ہو۔
۵۔حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں
اگر الله تعالیٰ کے خلق کیے ہوئے تمام فرشتے ، تمام برگزیدہ انبیاء تمام صدیق اور شہداء ہم اہلبیت (علیہم السلام) کے دشمن کی شفاعت کرنا چاہیں کہ الله اسے جہنم سے نکال دے تب بھی الله اسے کبھی جہنم سے نہ نکالے گا بلکہ الله تبارک و تعالیٰ نے تو قرآن میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے (جہنم) میں رہیں گے۔
۶۔حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
جو شخص ہمارے ساتھ ہونے والی بدسلوکی ، ہم پر ہونے والے ظلم اور ہمارا حق چھننے سے آگاہ نہیں ہے اور اسے غلط کام شمار نہیں کرتا تو وہ ہم پر ظلم وستم کرنے والوں کا ساتھی ہے۔
۷۔حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
الله تعالیٰ (مرجئہ) اور انکے پیشوا کو اندھا محشور کرے گا اور انہیں کافر دیکھ کر کہیں گے ساری امت محمدﷺاندھی محشور ہوئی ہے تو ان سے کہا جائے گا یہ امت محمدیہ کے پیرو کار نہیں ہیں انہوں نے تبدّل و تغییر کیا ہے لہذا یہ خود بھی تبدیل و متغیر ہوگئے ہیں۔
۸۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ
جس طرح الله تعالیٰ ہر نماز کے وقت اپنے نمازی معتقد اور مؤمن بندے پر رحمت نازل کرتا ہے اسی طرح بعض پر لعنت بھی کرتا ہے میں نے پوچھا آپ پر قربان جاؤں ان پر لعنت کیوں ہوتی ہے؟ فرمایا ہمارے حق کا انکار کرنے اور ہماری تکذیب کرنے کی وجہ سے ان پر لعنت ہوتی ہے۔
۹۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
قیامت والے دن ابلیس لعین اور اس امت کے گمراہ لوگوں کو نکیل ڈال کر لایا جائے گا جن کا حجم احد پہاڑ جتنا ہوگا انہیں اوندھے منہ جہنم میں ڈالاجائے گا اس سے جہنم کا ایک دروازہ بند ہوجائے گا۔
۱۰۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ
اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ کیا تجھ تک ختم کر دینے کا قصہ پہنچا ہے ؟ فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ قائم آل محمد (عج) تلوار سے انہیں ختم کر دیں گے میں نے عرض کی کہ اس آیت کا کیا معنی ہے کہ چہرے خوف سے لرزر ہے ہونگے فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ متواضع ہونگے اور روگردانی نہ کر سکیں گے عرض کی(عَامِلَۃ) کا کیا معنی ہے فرمایا ان کے اعمال فرمان الہی کے مطابق نہ ہونگے ، عرض کی (نَاصِبَۃ) کا کیا معنی ہے فرمایا جو ولی امر کے اذن کے بغیر منصوب ہوئے ہوں اور جو صلاحیت تو نہ رکھتے تھے لیکن ان کو امامت کے لئے منسوب کر دیا۔ عرض کی (تُصْلیٰ نَاراً حَامِیۃ)کا کیا معنی ہے فرمایا دنیا میں قائم آل محمد (عج) کی حکومت کے وقت آگ کی جنگ اور آخرت میں جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔
۱۱۔حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ
حضرت امام محمد باقر ؑنے فرمایا کہ خداوند متعال نے حضرت علیؑکو اپنے اور مخلوق کے درمیان ایک نشانی قرار دیا ہے ، الله اور مخلوق کے درمیان حضرت علی ؑ کے علاوہ کوئی اور نشانی (آیت ) نہیں ہے جس نے ان کی اتباع کی وہ مؤمن ٹھہرا، انکا منکر کافر اور انکی ذات میں شک کرنے والا مشرک ہے۔
۱۲۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
حضرت علی (علیہ السلام) ہدایت کا باب ہیں انکی مخالفت کرنے والا کافر اور انکا منکر جہنمی ہے۔
۱۳۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ
اگر تمام اہلیان زمین ولایت امیر المومنین علیہ السلام کے منکر ہو جائیں تو الله سب پر عذاب نازل کرے گا اور سب کو جہنم میں ڈالے گا۔
۱۴۔راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا کہ
تمھارا چچا زاد دیوانے اعرابی کی طرح میرے پاس آیا ، اس نے کھلے کھلے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ایک چادر کندے پر ڈال رکھی تھی اور جوتے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا مجھ سے کہنے لگا بعض لوگ آپ علیہ السلام کے متعلق کچھ باتیں کرتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کیا تم عرب نہیں ہو؟ کہنے لگا کیوں نہیں میں عرب ہوں میں نے کہا عرب تو حضرت علی علیہ السلام سے بغض نہیں رکھتے اور پھر میں نے اس سے کہا شاید تمھارا تعلق ان لوگوں سے ہے جو حوض کوثر کے منکر ہیں جان لو ! خدا کی قسم اگر اس سے بغض رکھتے ہوئے حوض کوثر پر جاؤ گے تو یقینا تشنگی سے مرجاؤ گے۔
۱۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت رسول خدا ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے یا محمدﷺ آپ پر سلام ہو اور خدا نے بھی سلام کہلا بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ساتوں آسمانوں اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے اور ساتوں زمین اور ان پر جو کچھ بھی ہے ان میں سے کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جو رکن و مقام سے بڑھ کر ہو اگر کوئی بندہ زمین و آسمان کی خلقت سے لیکر اب تک اس مقام پر دعا و مناجات کرتا رہے اور منکر ولایت علی علیہ السلام کی شکل میں مجھ سے ملاقات کرے تو میں یقینا اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالوں گا ۔
۱۶۔ راوی کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوا اور ان سے عرض کی میں آپ پر قربان جاؤں میرا ایک ہمسایہ ہے میں اسکی آواز سے بیدار ہوتا ہوں وہ قرآن پڑھتا رہتا ہے ، آیتوں کی مکرر تلاوت کرتا ہے اور تضرع و زاری کرتا ہے اور رو رو کر دعائیں مانگتا ہے میں نے مختلف لوگوں سے ظاہر اور پوشیدہ طور پر اسکے متعلق پوچھا ہے انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص تمام محارم خدا سے اجتناب کرتا ہے، حضرت نے مجھ سے فرمایا اے میسر کیا یہ تجھ جیسا عقیدہ و اعتقاد بھی رکھتا ہے ؟
میں نے عرض کہ خدا بہتر جانتا ہے ۔ بہر حال جب میں آئندہ سال حج پر گیا تو اس کے متعلق ایک شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا یہ ایسا کوئی عقیدہ نہیں رکھتا میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس شخص کے متعلق بتایا حضرت نے گذشتہ سال کی طرح دوبارہ وہی سوال کیا کہ کیا تجھ جیسا عقیدہ و اعتقاد رکھتا ہے؟ میں نے کہا نہیں حضرت نے فرمایا میسر بتاؤ محترم ترین نقطہٴ زمین کونسا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ خدا و رسول اور فرزند رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا اے میسر رکن و مقام کے درمیان بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور اسی طرح قبر رسول خدا ﷺ اور منبر کے درمیان بھی بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اگر خداوند متعال کسی شخص کی زندگی اتنی طولانی کر دے کہ وہ رکن و مقام اور قبر رسولﷺاور منبر کے درمیان ایک ہزار سال تک عبارت کرتا رہے اور قربانی کے خوبصورت جانور کی طرح بستر پر مظلومیت کی حالت میں قتل ہو جائے اور ہماری ولایت کے بغیر حق تعالیٰ سے ملاقات کرے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ الله اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے۔
۱۷۔ راوی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے فرماتے ہوئے سنا کہ جونہی دشمن علی علیہ السلام دنیا سے جاتا ہے تو اسے جہنم کے کھولتے ہوئے پانی کا گھونٹ پلایا جاتا ہے، دشمنِ علی میں فرق نہیں ہے خواہ نمازی ہو یا زانی۔
۱۸۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ
ہم اہل بیت (علیہم السلام) کیساتھ دشمنی رکھنے والے میں فرق نہیں ہے کہ وہ روزے رکھتا ہو ، نمازیں پڑھتا ہو یا زنا اور چوریاں کرتا ہو وہ حتماً جہنمی ہے وہ یقینا جہنم میں جائے گا۔
۱۹۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑسے پوچھا کہ
حضرت علی (علیہ السلام) کو گالیاں بکنے والے شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا خدا کی قسم اسکا خون حلال ہے ہاں البتہ ایسا کرنا کسی بے گناہ کے قتل کا سبب نہ بنے راوی نے تب عرض کی کہ یہ کس طرح ایک بے گناہ کے قتل کا سبب ہو سکتا ہے ؟ فرمایا اس کافر کے مقابلے میں کسی مؤمن کا قتل ہونا۔
۲۰۔حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہمارا دشمن جہنم کے گڑھے کے کنارے پر ہے اور بہر حال جہنم میں جائے گا اور جہنمی نابود ہونگے اور یہ انکا بُرا ٹھکانہ ہے جیسا کہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿یہ (جہنم) تکبر کرنے والوں کا بُرا ٹھکانہ ہے، کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ خدا نے جسے خیر و بھلائی عطا کی ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہو۔
۲۱۔حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں
یقینا ایک مؤمن اپنے ساتھی کی شفاعت کر سکتا ہے مگر یہ کہ ناصبی ہو کیونکہ اگر تمام انبیاء مرسل ، اور مقرب فرشتے کسی ناصبی کی شفاعت کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
۲۲۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی کشتی میں کتے اور خنزیر تک کو سوار کیا لیکن حرام زادے کو نہ بٹھایا اور دشمن اہل بیت (علیہم السلام) تو حرام زادے سے بڑھ کر ہے۔
۲۳۔راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر ؑ کی بارگاہ میں عرض کی کہ
میرا ایک ہمسایہ ہے جو محرمات خداوندی کا مرتکب ہوتا ہے یہاں تک بعض اوقات کہ نماز بھی نہیں پڑھتا اور اسکے علاوہ بھی اسکی کئی بد اعمالیاں ہیں بتائیں حضرت نے فرمایا سبحان الله کیا چاہتے ہو اس سے بھی بد تر انسان کے متعلق تمھیں بتاؤں، میں نے عرض کی جی ہاں فرمایا ہم سے دشمنی رکھنے والاشخص اس سے بھی بد تر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیک گفتار
حسین انصاریان

قرآن مجید کی متعدد آیات زبان کے سلسلہ میںہونے والی گفتگو، زبان کی عظمت اور گوشت کے اس لوتھڑے کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
زبان ہی کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت میں نجات پاتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ دنیا و آخرت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
زبان ہی کے ذریعہ انسان گھر اور معاشرہ میں چین و سکون پیدا کرتا ہے یا اسی زبان کے ذریعہ گھر اور معاشرہ میں تباہی و بربادی پھیلادیتا ہے۔
زبان ہی یا اصلاح کرنے والی یا فساد برپا کرنے والی ہوتی ہے،اسی زبان سے لوگوں کی عزت و آبرو اور اسرار کو محفوظ کیا جاتا ہے یا دوسروں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیا جاتا ہے۔
قرآن کریم تمام انسانوں خصوصاً صاحبان ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ صرف نیک گفتار میں کلام کرو۔
زبان کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے علاوہ بہت سی اہم احادیث بھی رسول اکرم ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے بیان ہوئی ہیں کہ اگر کتب احادیث میں بیان شدہ تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔
حضرت رسول خدا ۖ کا فرمان ہے:
‘اِذا اَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ اَصْبَحَتِ الْاَعْضائُ کُلُّھا تَسْتَکْفِی اللِّسانَ،اَیْ تَقولُ:اِتَّقِ اللّٰہَ فِینَا ،فَاِنَّکَ اِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنا ،وَاِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنا’۔(١)
‘جس وقت انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء و جوارح بھی صبح کرتے ہیں ، چنانچہ تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں: ہمارے سلسلہ میں تقویٰ الٰہی کی رعایت کرنا کیونکہ اگر تو راہ مستقیم پر رہے گی تو ہم بھی مستقیم رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے پن میں گرفتار ہو جائیں گے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘اَللِّسانُ میزانُ الْاِنْسانِ ۔(٢)
‘زبان انسان کی میزان ]اور ترازو ہے (یعنی انسان کی شرافت اور اس کی بزرگی یا پستی اس کی زبان سے سمجھی جاتی ہے)
حضرت رسول اکرم ۖ کا فرمان ہے:
یُعَذِّبُ اللہُ اللِّسانَ بِعَذابٍ لَایُعَذِّبُ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ فَیَقولُ:یارَبِّ عَذَّبْتَنِی بِعَذابٍ لَمْ تُعَذِّبْ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ ، فَیُقالُ لَہُ:خَرَجَتْ مِنْکَ کَلِمَۃ فَبَلَغَتْ مَشارِقَ الْاَرْضِوَمَغارِبَھا فَسُفِکَ بِھَا الدَّمُ الْحَرامُ ،وَانْتُھِبَ بِہِ الْمالُ الْحَرامُ، وَانْتُھِکَ بِہِ الْفَرْجُ الْحَرامُ۔(۳)
‘خداوندعالم زبان کو ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ کسی دوسرے حصہ پر ایسا عذاب نہیں کرے گا، اس وقت زبان گویا ہوگی:خدایا! تو نے مجھے ایسے عذاب میں مبتلا کیا ہے کہ کسی حصہ کو ایساعذاب نہیں کیا ہے، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تجھ سے ایسے الفاظ نکلے ہیں جو مشرق و مغرب تک پہنچ گئے ہیں جن کی وجہ سے بے گناہ کا خون بہا، بے گناہ کا مال غارت ہوا اور بے گناہ کی آبرو خاک میں مل گئی!
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
کَمْ مِنْ اِنْسانٍ اَھْلَکَہُ لِسان۔(۴)
‘کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
بہر حال ہمیں شب و روز اپنی زبان کی حفاظت کرنا چاہئے، اور اس کو بولنے کے لئے آزاد نہیں چھوڑدینا چاہئے، کس جگہ، کس موقع پر، کس کے پاس اور کس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری ہے، نیز ہر حال میں خدا اور قیامت پر توجہ رکھنا ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان زبان کے ذریعہ ایسا گناہ کر بیٹھے کہ اس سے توبہ کرنا مشکل اور ان کے نقصان کی تلافی کرنا محال ہو۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘مومن اور مخالف سے نیکی اور خوبی کے ساتھ گفتگو کرو، تمہاری گفتگو صرف نیک اور منطقی ہونا چاہئے۔
مومنین سے خنداں پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے، اور وہ بھی نیکی اور اچھائی سے، اور مخالفوں ]غیر شیعہ[ سے اس طرح گفتگو کرو کہ ان کے لئے ایمان کے دائرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار ہوجائے، اور اگر وہ ایمانی دائرے میں داخل نہ ہوسکے تو اس سے دوسرے مومنین حفظ و امان میں رہیں، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: دشمنان خدا کے ساتھ تواضع ومدارا ت سے پیش آنا، اپنے اور دوسرے مومنین کی طرف سے صدقہ ہے۔(۵)
حضرت امام باقر علیہ السلام سے آیہ شریفہ (وَ قولوا لِلنَّاسِ حُسناً) کے ذیل میں روایت ہے کہ لوگوں سے اس طرح نیک گفتار کرو جس طرح تم اپنے ساتھ گفتگو کیا جانا پسند کرتے ہوکیونکہ خداوندعالم مومن اور قابل احترام حضرات کی نسبت بدگوئی اور نازیبا الفاظ پسند نہیں کرتا ]یعنی مومنین کو برا بھلا کہنے والوں کو دوست نہیں رکھتا[ اور باحیا، بردبار، ضعیف اور باتقویٰ لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔(۶)
حضرت رسول خدا ۖ کا فرمان ہے:
کَلامُ ابْنِ آدَمَ کُلُّہُ عَلَیْہِ لَا لَہُ اِلاَّ اَمْر بِالْمَعْروفِ ،وَنَھْی عَنِ الْمُنْکَرِ ،اَوْ ذِکْرُ اللہِ ۔(۷)
‘تمام لوگوں کی گفتگو ان کے نقصان میں ہے سوائے امر بالمعروف ،نہی عن المنکر اور ذکر خدا کے۔
سورہ بقرہ آیت ۸۳ کے لحاظ سے جس کی شرح گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکی ہے ماں باپ ، رشتہ داروں اورمساکین کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں سے نیک گفتار اور اچھی باتیں معنوی زیبائیوں میں سے ہیں، گناہ خصوصاً گناہ کبیرہ سے توبہ کرنے والے کے لئے اپنی توبہ ، عمل اور گفتار کی اصلاح کے لئے اس آیت کے مضمون پر پابندی کرنا ضروری ہے اور اس مذکورہ آیت میں بیان شدہ اہم مسائل پر خوشحالی اور نشاط کے ساتھ عمل کرے تاکہ اس کے اندر موجود تمام برائیاں دُھل جائیں اور اس کے عمل، اخلاق اور گفتار کی اصلاح ہوجائے۔
اخلاص
اخلاص اور خلوص نیت ایک بہت عظیم مسئلہ ہے جس پر قرآن مجید کی آیات اور روایات معصومین میں بہت زیادہ تازور دیا گیا ہے، صرف مخلص افراد ہی کی فکر و نیت ، عمل اور اخلاق قابل اہمیت ہے اور صرف وہی لوگ اجر عظیم اور رضوان الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں، اگر ہماری کوشش ، اعمال اور اخلاقی امور غیر خدا کے لئے ہوں تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور خدا کے نزدیک اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔
جو شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اس کو اپنی حالت اور گفتگو کی اصلاح کرنا چاہئے اور تمام امور میں خداوندعالم کی پناہ میں چلا جائے، اور اپنے دین اور تمام دینی امور میں خلوص خدا کی رعایت کرے، اور ریاکاری اور خودنمائی سے پرہیز کرے، اپنے دینی فرائض میں صرف اور صرف خدا سے معاملہ کرے، تاکہ اہل ایمان کی ہمراہی حاصل ہوجائے، اس سلسلہ میں درج ذیل آیہ شریفہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے:
لاَّ الَّذِینَ تَابُوا وََصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاﷲِ وََخْلَصُوا دِینَہُمْ لِلَّہِ فَُوْلَئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ وَسَوْفَ یُؤْتِ اﷲُ الْمُؤْمِنِینَ َجْرًا عَظِیمًا.(۸)
‘علاوہ ان لوگوں کے کے جو توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں اور خدا سے وابستہ ہوجائیں اور دین کو خالص اللہ کے لئے اختیار کریں تو یہ صاحبان ایمان کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب اللہ ان صاحبان ایمان کو اجر عظیم عطا کرے گا۔
( َلاَلِلَّہِ الدِّینُ الْخَالِصُ…).(۹)
‘آگاہ ہو جاؤ کے خالص بندگی اللہ کے لئے ہے۔
جو شخص ریاکاری ،خود نمائی اور شرک کا گرفتار ہو تو بارگاہ خداوندی سے اس کا کوئی سروکار نہیںہے۔
(… فَاعْبُدْ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّینَ ).(۱۰)
لہٰذا آپ (پیغمبر اکرم) مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں۔
جن لوگوں کے اعمال میں اخلاص نہیں ہوتا ان کے اعمال خدا کی نظر میں ہیچ ہوتے ہیں لیکن خلوص کے ساتھ اعمال انجام دینے والوں کے اعمال کا خریدار خداوندمہربان ہے۔
وَلَنَا َعْمَالُنَا وَلَکُمْ َعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُخْلِصُونَ.(۱۱)
(اے پیغمبرﷺ! بدکار اور مشرکین سے کہو) ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے تمہارے لئے اعمال اور ہم تو صرف خدا کے مخلص بندے ہیں۔
ریاکاری کی وجہ سے عمل باطل ہوجاتا ہے اور اس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، لیکن اخلاص سے عمل میں اہمیت پیدا ہوتی ہے اور اخلاص کے ذریعہ ہی آخرت میں جزائے خیر اورثواب ملنے والا ہے۔
توبہ کرنے والے کے لئے اپنی نیت کی اصلاح کرنا اور اپنے ارادہ کو خدا کی مرضی کے تابع قرار دینالازم و ضروری ہے تاکہ توبہ کا درخت ثمر بخش ہوسکے۔
اخلاص پیدا کرنے کا طریقہ خدا اور قیامت پر توجہ اور اولیاء الٰہی کے حالات پر غور و فکر کرنا ہے، اور انسان اس بات کا معتقد ہو کہ جنت و جہنم کی کلید خدا کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، اور انسان کی سعادت و شقاوت کا کسی دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حضرت رسول خدا ۖ اخلاص کے فوائد کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
‘مَا اَخْلَصَ عَبْدلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اَرْبَعِینَ صَباحاً اِلّا جَرَتْ یَنابِیعُ الْحِکْمَۃِ مِنْ قَلْبِہِ عَلیٰ لِسانِہِ’۔(۱۲)
‘جب کوئی بندہ چالیس دن تک خدا کے لئے اخلاص سے کام کرے تو خداوندمہربان اس کی زبان پر حکمت کا چشمہ جاری کردیتا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشادہے:
اِنَّ الْمُؤمِنَ لَیَخْشَعُ لَہُ کُلُّ شَیْئٍ وَیَھابُہُ کُلُّ شَیْئٍ ثُمَّ قالَ:اِذاکانَ
مُخْلِصاً لِلّٰہِ اَخافَ اللّٰہُ مِنْہُ کُلَّ شَیْئٍ حَتّیٰ ھَوامَّ الْاَرْضِ وَ سِباعَھاوَ طَیْرَ السَّمائِ؛(۱۳)
‘بے شک مومن انسان ‘کے لئے ہر چیز خاشع و خاضع ہے اور سبھی اس سے خوف زدہ ہیں، اس کے بعد فرمایا: جس وقت مومن انسان خدا کا مخلص بندہ بن جاتاہے تو خداوندعالم اس کی عظمت اور ہیبت کو تمام چیزوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ روئے زمین پر وحشی درندے اور آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:
سَبَبُ الْاِخْلاصِ الْیَقینُ۔(۱۴)
‘یقین وایمان کے ذریعہ اخلاص پیدا ہوتا ہے۔
‘اَصْلُ الْاِخْلاصِ الْیَأْسُ مِمّا فِی اَیْدِی النّاسِ۔(۱۵)
‘اخلاص کی اصل ،دوسروں کے پاس موجود تمام چیزوں سے ناامیدی ہے۔
مَنْ رَغِبَ فِیما عِنْدَ اللہِ اَخْلَصَ عَمَلَہُ۔(۱۶)
‘جو شخص خداوندعالم کی رحمت و رضوان اور بہشت کا خواہاں ہے اسے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہئے۔
صبر
قرآن و احادیث میں صبر و شکیبائی کے سلسلہ میں حکم دیا گیا ہے جو واقعاً ایک الٰہی ، اخلاقی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کو خداوندعالم پسند کرتا ہے، جو عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے. صبر حافظ دین ہے اور انسان کو حق و حقیقت کی نسبت بے توجہ ہونے سے روکتا ہے، صبر کے ذریعہ انسان کے دل و جان میں طاقت پیدا ہوتی ہے، نیز صبر انسان کو شیاطین (جن و انس) سے حفاظت کرنے والا ہے۔
اگر سخت حوادث و ناگوار حالات(جو دین و ایمان کو غارت کرنے والے ہیں)، عبادت و اطاعت اور گناہ کے وقت صبر سے کام لیا جائے تو انسان یہ سوچتے ہوئے کہ حوادث بھی قواعد الٰہی سے ہم آہنگ ہیں، ان کو برداشت کرلیتا ہے،اور اپنی نجات کے لئے دشمنان خدا سے پناہ نہیں مانگتا، عبادت و اطاعت خدا کے وقت اپنے کو بندگی کے مورچہ پر کھڑا ہوکر استقامت کرتا ہے، اور گناہ و معصیت سے لذت کے وقت لذتوں کو چھوڑنے کی سختی کو برداشت کرتا ہے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خداوندعالم کی صلوات و رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الَْمْوَالِ وَالَْنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ٭ الَّذِینَ ِذَا َصَابَتْہُمْ مُصِیبَۃ قَالُوا ِنَّا لِلَّہِ وَِنَّا ِلَیْہِ رَاجِعُونَ٭ ُوْلَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَات مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَۃ وَُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُہْتَدُونَ.(۱۷)
‘اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں . جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں .کہ ان کے لئے پروردگار کی طرف صلوات اور رحمت ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
وَالْمَلَائِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ٭ سَلَام عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ.(۱۸)
‘اور ملائکہ ان کے پاس ہر دروازے سے حاضر ی دیں گے .کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔
مَا عِنْدَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِنْدَ اﷲِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِینَ صَبَرُوا َجْرَہُمْ بَِحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ.(۱۹)
جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے۔
اُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ َجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا.(۲۰)
‘یہی وہ لوگ ہیں جن کو دہری جزادی جائے گی چونکہ انھوں نے صبر کیا ہے۔
حضرت رسول خدا ۖ کا ارشاد ہے:
مَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللہُ وَمَنْ یَسْتَعْفِفُ یُعِفَّہُ اللہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللہُ وَمَا اُعْطِیَ عَبْد عَطا ئً ھُوَ خَیْر وَ اَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ۔(۲۱)
‘جو شخص صبر سے کام لے تو خداوندعالم اس کو صبر کی توفیق عطا کرتا ہے، اور جو شخص عفت و پارسائی کو اپناتا ہے تو خداوندعالم اس کو پارسائی تک پہنچادیتا ہے اور جو شخص خداوندعالم سے بے نیازی طلب کرتا ہے تو خداوندعالم اس کو بے نیاز بنادیا ہے ، لیکن بندہ کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی چیز عطا نہیں ہوتی’۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
اَلْحَقُّ ثَقِیل،وَقَدْ یُخَفِّفُہُ اللہُ عَلیٰ اَقْوامٍ طَلَبُوا الْعاقِبۃَ فَصَبَرُوا نُفُوسَھُمْ ،وَوَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللہِ لِمَنْ صَبَرُوا ،اِحْتَسِبْ فَکُنْ مِنْھُمْ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ’۔(۲۲)
‘حق کڑوا ہوتا ہے لیکن خداوندعالم اپنی عاقبت کے خواہاںلوگوں کے لئے شیرین بنادیتا ہے، جی ہاں ، جو لوگ صبر کے سلسلہ میں دئے گئے وعدہ الٰہی کو سچ مانتے ہیں خدا ان کے لئے حق کو آسان کردیتا ہے، خدا کے لئے نیک کام انجام دو اور حقائق کا حساب کرو جس کے نتیجہ میں تم صبر کرو اور خدا سے مدد طلب کرو۔
نیز آپ کا ہی کا ارشاد ہے:
اِصْبِرْ عَلیٰ مَرارَۃِ الْحَقِّ ،وَاِیَّاکَ اَنْ تَنْخَدِعَ بِحَلاوَۃِ الْباطِلِ۔(۲۳)
صبر کے کڑوے پن پر صبر کرو اور باطل کی شیرینی سے فریب نہ کھائو۔
ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے کسی مسئلہ کے بارے میں نظر خواہی کی تو امام علیہ السلام نے اس شخص کے نظریہ کے برخلاف اپنی رائے کا اظہار فرمایا، اور امام نے اس کے چہرے پر بے توجہی کے آثار دیکھے تو اس سے فرمایا: ، حق پر صبر کرو، بے شک کسی نے صبر نہیں کیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے اس کے بدلے اس سے بہتر چیز عنایت فرمادی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
اَلْجَنَّۃُ مَحْفُوفَۃ بِالْمَکارِہِ وَالصَّبْرِ ،فَمَنْ صَبَرَ عَلَی الْمَکارِہِ فِی الدُّنْیا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَ جَھَنَّمُ مَحْفوفَۃ بِاللَّذّاتِ وَالشَّھَواتِ ،فَمَنْ اَعْطیٰ نَفْسَہُ لَذَّتھا وَشَھْوَتَھا دَخَلَ النّارَ۔(۲۴)
‘(جان لو کہ) جنت پر ناگواری اور صبر کا پہرہ ہے، جس شخص نے دنیا میں ناگواریوں پر صبر کیا و ہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اور جہنم پر خوشیوں اور حیوانی خواہشات کا پہرہ ہے چنانچہ جو شخص بھی لذات اور شہوات کے پیچھے گیا تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔
نیز آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
اَلصَّبْرُ صَبْرانِ:صَبْر عَلَی الْبَلائِ حَسَن جَمیل، وَأَفْضَلُ الصَّبْرَیْنِ الْوَرَعَ عَنِ الْمَحارِمِ۔(۲۵)
صبر کی دو قسمیں ہیں: بلاء و مصیبت پر صبر جو بہتر اور زیبا ہے ، لیکن دونوں قسموں میں بہترین صبر اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تمام چیزوں میں صبر اس لئیضروری ہے کہ انسان کا دین، ایمان، عمل اور اخلاق صحیح و سالم رہے، اور انسان کی عاقبت بخیر ہوجائے واقعاً انسان کے لئے کیا بہترین اور خوبصورت زینت ہے ۔
گناہوں سے توبہ کرنے والے انسان کو چاہئے کہ مشق و تمرین کے ذریعہ اپنے کو صبر سے مزین کرلے،گناہوں سے پاک رہنے کی کوشش کرے تاکہ ہوائے نفس ،شیطانی وسوسہ اور گناہوں کی آلودگی سے ہمیشہ کے لئے آسودہ خاطر رہے کیونکہ صبر کے بغیر توبہ برقرار نہیں رہ سکتی، اور اس کے سلسلہ میں رحمت خدا کا تدوام نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
۱۔محجۃ البیضا ء ج٥، ص١٩٣،کتاب آفات اللسان.
۲۔ غررالحکم ص٢٠٩،اللسان میزان ،حدیث ٤٠٢١.
۳۔ کافی ج٢،ص١١٥،باب الصمت و حفظ اللسان ،حدیث١٦؛بحار الانوار ج٦٨،ص٣٠٤،باب٧٨،حدیث٨٠.
۴۔غررالحکم ص٢١٣،حظہ اللسان واہمیتہ ،حدیث ٤١٥٩.
۵۔ تفسیر صافی ج١،ص١٥٢،ذیل سورۂ بقرہ آیت ٨٣ ؛بحار الانوار ج٧٢،ص٤٠١،باب ٨٧،حدیث ٤٢.
۶۔ تفسیرعیاشی ج١،ص٤٨،حدیث٦٣،؛تفسیرصافی ج١، ص١٥٢، ذیل سورۂ بقرہ آیت ٨٣؛بحار الانوار ج٧١،ص١٦١، باب ١٠، حدیث١٩.
۷۔مواعظ العددیہ ص٨٧. ۸۔سورۂ نساء آیت ١٤٦.
۹۔ سورۂ زمر آیت ٣. ۱۰۔سورۂ زمر آیت ٢.
۱۱۔ سورۂ بقرہ آیت ١٣٩.
۱۲۔ عیون اخبار الرضا ج٢،ص٦٩،باب ٣١،حدیث ٣٢١؛ بحار الانوار ج٦٧،ص ٢٤٢،باب ٥٤،حدیث ١٠.
۱۳۔ جامع الاخبار ص١٠٠،الفصل ٥٦فی الاخلاص؛بحار الانوار ج٦٧، ٢٤٨،باب ٥٤،حدیث٢١.
۱۴۔ غررالحکم :٦٢،فوائد الیقین ،حدیث٧٤٦.
۱۵۔ غرر الحکم :٣٩٨،الفصل التاسع ،حدیث ٩٢٤٩.
۱۶۔ غررالحکم :١٥٥،الاخلاص فی العمل ،حدیث٢٩٠٧.
۱۷۔ سورۂ بقرہ آیت ١٥٥۔١٥٧.
۱۸۔ سورۂ رعد آیت ٢٣۔٢٤.
۱۹۔ سورۂ نحل آیت ٩٦.
۲۰۔ سورۂ قصص آیت ٥٤.
۲۱۔ کنزل العمال حدیث٦٥٢٢.
۲۲۔ نہج البلاغہ ص٦٩٩،نامہ ٥٣؛تحف العقول ص١٤٢؛بحار الانوارج٧٤،ص٢٥٩،باب ١٠،حدیث ١.
۲۳۔ غررالحکم :٧٠،الصبر علی الحق ،حدیث ٩٩٣.
۲۴۔ کافی ج٢،ص٨٩،باب الصب ،حدیث ٧؛بحار الانوار ج٦٨، ص٧٢، باب ٦٢،حدیث ٤.
۲۵۔ کافی ج٢،ص٩١،باب الصبر،حدیث ١٤؛وسائل الشیعہ ج١٥، ص٢٣٧،باب ١٩،حدیث ٢٠٣٧١.

Related Articles

Back to top button