امام حسن علیہ السلامسیرت اھلبیت

سلطان صلح و ادب

آیت اللہ صافی گلپائیگانی

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شخصیت اتنی باعظمت ہے کہ مجھ جیسے حقیر کے بس میں نہیں کہ میں ان کی توصیف میں کوئی مقالہ لکھ سکوں، شیعہ علماء اور دانشوروں کے علاوہ بعض اہلسنت کے بزرگ علماء نے بھی امام حسن علیہ السلام کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں اور مختلف مقامات پر آپ کے فضائل و مناقب کو اپنی تفسیر ، کتب احادیث، اخلاقی کتب اور تراجم و رجال میں آپ کے فضائل و مناقب کو ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، طبقات ابن سعد ، سنن ابی داؤد ، خصائص نسائی،جامع الصغیر،مصابیح السنۃ ،اسعاف الراغبین، نورالابصار،تذکرۃ الخواص، الاتحاف، کفایۃ الطالب ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، مرآۃ الجنان، ملتقی الاصفیاء، نظم درر السمطین، فراید السمطین،سیرہ حلبیہ ،اسد الغابہ ، الاستیعاب، الاصابۃ، تاریخ الخلفاء، الفصول المہمہ وغیرہ جیسی کتابوں میں آپ کا ذکر پایا جاتا ہے ۔
ہم یہاں پر’’توفیق ابوعلم‘‘(۱)کی کتاب ’’اہل البیت‘‘کے کچھ حصہ کا ترجمہ بعض اضافات کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ، یہ کتاب سن ۱۳۹۰ہجری میں مصر میں لکھی گئی ہے۔
لا تعداد فضائل
شیعہ اور اہلسنت دونوں کا یہ عقیدہ ہے کہ امام حسن ؑ اصحاب کساء میں سے ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور متواتر حدیث ’’حدیث ثقلین‘‘ کے مطابق آپ قرآن کے ہم پلہ اور ان چار لوگوں میں سے ہیں جنہیں پیغمبر اکرمﷺ اپنے ہمراہ نجران کے نصاریٰ سے مباہلہ کرنے کے لئے لے گئے تھے ،’’اسامہ بن زید‘‘نے پیغمبر اکرم ؐسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
یہ دونوں (حسن و حسین) میرے فرزند ، میری بیٹی کے بیٹے ہیں ، خدایا! میں انہیں دوست رکھتا ہوں تو بھی انہیں دوست رکھ، اور جو انہیںدوست رکھے انہیں بھی دوست رکھ ۔
’’زید بن ارقم‘‘سےہی روایت ہے کہ پیغمبرﷺنے فرمایا :
مَنْ اَحبَّ هوُلاءِ فَقَدْ اَحَبَّنی، وَ مَنْ اَبْغَضَ هؤُلاءِ فَقَدْ اَبْغَضَنی (۲)
جو بھی انہیں ( علی ، فاطمہ ، حسن و حسین) کو دوست رکھے وہ مجھے دوست رکھے گا اور جو ان سے دشمنی کرے گا وہ مجھ سے دشمنی کرے گا۔
’’حضرت عائشہ ‘‘سے منقول ہے:
اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ کانَ یَأخُذُ حَسَناً فَیَضُمُْهُ اِلَیهِ ثُمَّ یَقُولُ:اللّهُمَّ إنَّ هذا ابْنی وَ اَنَا اُحِبُّهُ فَاَحِبَّهُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُحِبُّهُ (۳)
انس بن مالک کہتے ہیں:
حسن علیہ السلام پیغمبرﷺ کی خدمت میں آئے ، میں نے چاہا کہ انہیں پیغمبرﷺسے دور کر دوں لیکن پیغمبرﷺ نے فرمایا: افسوس ہے تم پر اے انس ، میرے بیٹے اور میوہ دل کو چھوڑ دو جو بھی اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو مجھے اذیت دے گا وہ خدا کو اذیت دے گا ۔
مکارم اخلاق
امام حسن علیہ السلام کی پرورش خانہ وحی میں ہوئی مکتب توحید اور پیغمبر اکرمﷺ کی آغوش رحمت میں تربیت پائی، آپ خوش رفتاری اور حسن اخلاق اور نیک کرداری میں نمونہ تھے ، آپ کی غیر معمولی محبوبیت کا ایک سبب آپ کا کریمانہ اخلاق تھا جس کی بنیاد پر سبھی آپ کے ثناخواں بن جاتے تھے ۔ ادب ، حلم ، فصاحت ، صداقت ، سخاوت ، شجاعت ، تقویٰ ، عبادت ، زہد ، تواضع، اور دیگر صفات حمیدہ آپ کے اندر یکجا تھیں اور اخلاق محمدیﷺ آپ کے کردار سے جھلکتا تھا، آنحضرت کے صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ کے چند نمونہ ہم اس مضمون کی زینت کے لئے ذکر کر رہے ہیں۔
عذاب الٰہی کا خوف
امام حسن علیہ السلام اپنے زمانے کے سب سے بڑے عبادت گزار ، زاہد اور فاضل انسان تھے، حج کے لئے نکلتے تو پیادہ چلتے اور کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لئے نکلتے تھے، وضو کرتے وقت بدن کانپنے لگتا اور چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا، کسی بھی وقت ذکر خدا ترک نہیں کرتے تھے ، متقی پرہیزگار ، حلیم و بردبار تھے اور خدا کا خوف دل میں رکھتے تھے، روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت کے گریہ و مناجات کو سنا تو کہنے لگا :
کیا آپ کو عذاب الٰہی سے ڈر لگتا ہے جبکہ وسیلہ نجات آپ کے پاس ہے؟آپ پیغمبرﷺکے فرزند ہیں، حق شفاعت آپ کے پاس ہے ، اور رحمت الٰہی عام ہے اور ہر شے کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔
امام نے جواب دیا:
تم نے کہا کہ میں رسول خدا کا فرزند ہوں تو خداوند عالم کا ارشاد ہے :
فَاِذا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلا اَنْسابَ بَیْنَهُمْ(۴)
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو رشتہ داریاں نہ رہ جائیں گی۔
شفاعت کے لئے خداوند عالم فرماتا ہے :
مَنْ ذَاالَّذی یَشْفَعُ عِنْدَهُ اِلا بِاِذْنِهِ(۵)
کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے رحمت الٰہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ،
خداوند عالم کا ارشاد ہے :
فَسَاَکْتُبُها لِلَّذینَ یَتَّقُون (۶)
جسے میں عنقریب ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو خوف خدا رکھنے والے ہیں ۔
اس کے بعد حضرت نے فرمایا :
فَکَیْفَ الْاَمانُ یا أخَا الْعَرَب
اس طرح کس کے لئے امان ہے اے بھائی ۔
زہدامام
امام کے زہد کا یہ عالم تھا کہ دنیا اور اس میں پائی جانے والی تمام نعمتوں سے وابستگی کے تمام اسباب کو خیرباد کہہ دیا تھا اور صرف آخرت اور ابدی منزل کی جانب توجہ تھی جیسا کہ خود آپ نے فرمایا :
مَنْ عَرَفَ اللهُ اَحَبَّهُ، وَ مَنْ عَرَفَ الدُّنْیا زَهَّدَ فیها، وَ الْمُؤْمِنُ لایَلْهُو حَتّی یَغْفُلَ، اِذا تَفَکَّرَ حَزَنَ(۷)
جو خدا کو پہچان لے گا اس سے محبت کرے گا جو دنیا کو پہچان لے گا اس سے بے رغبت ہو جائے گا ، مومن لہوولعب میں مشغول ہو کر غافل نہیں ہوتا اور جب لہو و لعب کے بارے میں سوچتا ہو تو غمگین ہو جاتا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اسلام و مسلمین کی مصلحت کی خاطر دنیا کی حکومت سے چشم پوشی کی،جب بھی امام موت کے وقت انسان کی حالت کو ذہن میں لاتے تو ناخواستہ طور پر رونے لگتے ، اور جب بھی حشر و نشر اور پل صراط سے گزرنے کا خیال آتا تو گریہ کرتے ، اور جب خداوند عالم کے سامنے حساب و کتاب کے لئے حاضری کا تصور کرتے تو نالہ و شیون کرتے کرتے بیہوش ہو جاتے تھے۔
رحمت الٰہی کی نمائش
امام حسن علیہ السلام اپنے جد امجد پیغمبر اکرم ﷺکی طرح رحمت الٰہی کا مظہر تھے جو ناامید اور غمناک دلوں کو امید و رحمت سے بھر دیتے تھے ، کمزور لوگوں کو دیکھنے کے لئے جاتے تھے ، بیمار کی عیادت کرتے تھے ، تشییع جنازہ میں شریک ہوتے تھے ، مسلمانوں کی دعوت قبول کرتے تھے اور ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ کہیں کوئی آپ سے رنجیدہ خاطر نہ ہو جائے ، آنحضرت کی جانب سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی ، فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور برائی کا جواب اچھائی سے دیا کرتے تھے۔
حلم امام
امام حسنؑ انسان کامل کا حقیقی مصداق اور اخلاق پیغمبرﷺ کا کامل نمونہ تھے ، غیض و غضب کے عالم میں کنٹرول نہیں کھوتے تھے اور زندگی کی مشکلات آپ کو پریشان نہیں کرتی تھی ، غصہ میں کوئی کام انجام نہیں دیتے تھے ، اور آپ کا ہر عمل ان آیات کاکا مل مصداق تھا۔
وَ الْکاظِمینَ الْغَیْظَ وَالْعافینَ عَنِ النّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ (۸)
اورغصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
وَلا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلاَالسَیِّئَةُ، اِدْفَعْ بِالَّتی هِی اَحْسَنُ (۹)
نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی لہٰذا تم برائی کا جواب بہترین طریقہ سے دو۔
آنحضرت اپنے دشمنوں کی جانب سے ہونے والے ہر اقدام کا جواب صبر و عفو کے ذریعہ دیتے تھے ، یہاں تک کہ مروان بن حکم جو کہ اہلبیت علیہم السلام کا سخت ترین دشمن ہے ، اس نے امام کو حلم اور بردباری کا پہاڑ کہا ہے ، وہ اپنے جد امجد کی طرح حلم و صبر و عفو میں نمونہ عمل تھے ، تاریخ کے دامن میں آپ کے اخلاق کے بہت ہی نادر نمونہ جات محفوظ ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صاحبان اخلاق کے سردار اور عالم اسلام میں ادب و اخلاق کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔
بے نظیر سخاوت
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا کرم اور سخاوت بھی عجیب تھا ، حقیقی سخاوت کا مطلب نیک نیتی سے نیک کام کرنا اور احسان کے ارادے سے احسان کرنا ہے، یہ صفت امام حسن علیہ السلام کا امتیاز تھی اور خدا اس صفت کو دوست رکھتا ہے، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے اندر یہ صفات بحد کمال موجود تھیں اس طرح کہ آپ کو ’’ کریم اہل البیت‘‘کا لقب دیا گیا ہے، امام حسن علیہ السلام اپنے جود و سخاوت ، غریبوں کی مدد اور امت کی مدد اور راہ خدا میں انفاق کی وجہ سے عام شہرت کے حامل تھے، امام کی نظر میں مال دنیا کی کوئی قیمت نہ تھی ، اور اسے کوئی اہمیت نہ دیتے تھے مگر یہ کہ اس کے ذریعہ کسی بھوکے کا پیٹ بھر جائے ، یا کسی بے لباس کو لباس مل جائے ، یا کسی مصیبت زدہ کے کام آ جائے یا اس مال کے ذریعہ کسی قرضدار کا قرض ادا ہو جائے، سخاوت امام کی ذات کا حصہ تھی ، اگر چہ امام کے دروازے پر محتاج اور نادار افراد کا سیلاب امنڈ آتا تھا لیکن آپ کی باران سخاوت ان سب پر برستی اور کوئی سوالی آپ کے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا، آنحضرت سے پوچھا گیا : ’’کس طرح آپ کے در سے کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں جاتا ہے ؟ ‘‘جواب دیا :’’ میں خود درگاہ الٰہی کا سائل ہوں ، مجھے شرم آتی ہے کہ خود سائل ہو کر کسی سائل کو خالی ہاتھ لوٹا دوں‘‘۔
لوگوں سے محبت
امام علیہ السلام شیرین بیان ، خوش رفتار اور لوگوں کی نظر میں محبوب تھے ، بوڑھے ، جوان سبھی آپ کو آپ کے اخلاق حمیدہ اور پسندیدہ صفات کی وجہ سے دوست رکھتے تھے ، ہمیشہ لوگوں کو ہدایا اور بخشش سے نوازتے،چاہے لوگ تقاضا کریں یا نہ کریں، نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک تعقیبات میں مشغول رہتے، پھر جن کے پاس جانا ہوتا وہاں جاتے اور ان کے ساتھ مہر و محبت کا مظاہرہ کرتے ، اور نماز ظہر ادا کرنے کے بعد مسجد میں بیٹھتے اور لوگوں کو علم و ادب کی تعلیم دیتے تھے، یہ ہے امام حسن علیہ السلام کے فضائل و مناقب کے بحر ذخار کا ایک قطرہ کہ جس سے زیادہ کچھ بیان کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے ، کہ جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہے اور الفاظ ان کی توصیف سے عاجز ہیں ۔
صَلَّی اللهُ عَلی جَدِّه وَ عَلی اَبیهِ وَ اُمِّهِ وَ عَلَیْهِ وَ عَلی اَخیهِ، وَ عَلَی الاَْئِمَّةِ التِّسْعَةِ مِنْ ذُرِّیَّةِ الْحُسَیْنِ عَلَیْهِمُ السَّلامِ ۔
فرامین امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
۱۔اپنا علم لوگوں کو سکھاؤ اور دوسروں کے علم سے فائدہ حاصل کرو تاکہ تمہارا علم مستحکم و مضبوط ہو اور جس کو علم نہ ہو، وہ سیکھ لے۔(۱۰)
۲۔بے شک تم اس خاندان کے بچے ہو ، اور بہت جلد ایک دوسرے خاندان کے بزرگ بن جاؤ گے، علم سیکھو۔ تم میں سے جو مطالب کو حفظ کرنے پر طاقت نہیں رکھتا۔ وہ لکھ کر اپنے گھر رکھ لے۔(۱۱)
۳۔کسی گروہ نے بھی مشورہ نہیں کیا مگر یہ کہ اُس مشورہ کی وجہ سے اپنے ہدایت کے راستے کی رہنمائی حاصل کرلی۔(۱۲)
۴۔میں تعجب کرتا ہوں ایسے شخص سے جو اپنی کھانے کی چیزوں کے متعلق تو فکر کرتا ہے لیکن جن علوم کو وہ سیکھتا ہے، اُن میں فکر نہیں کرتا تاکہ اپنے پیٹ کو تکلیف دینے والی غذاؤں سے بچا سکے، اور اپنے سینہ کو ہلاک کرنے والی چیزوں سے دور رکھ سکے۔(۱۳)
۵۔تم پر فکر کرنا واجب ہے کیونکہ فکر عقلمند انسان کے دل کی زندگی ہے اور دانائی و حکمت کے دروازوں کی چابی ہے۔(۱۴)
۶۔دنیا کی ایسی چیز کہ جس کے حصول کا تو طلبگار تھا، لیکن حاصل نہ کرسکا، اُسے ایسے سمجھ جیسے تو نے اُس کے متعلق کبھی سوچا بھی نہ تھا۔(۱۵)
۷۔اے آدم کے بیٹے! جب سے تو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، اُس وقت سے تیری عمر ختم ہورہی ہے،جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، اُسے آخرت کیلئے بچا کر رکھ، مومن آخرت کیلئے بچاتا ہے اور کافردنیا ہی میں فائدہ حاصل کرلیتا ہے۔(۱۶)
۸۔خدا نے کسی شخص پر سوال کرنے کا دروازہ نہیں کھولا مگر یہ کہ جواب دینے کا دروازہ اُس کیلئے ذخیرہ کرلیا گیا، اور بندے نے عمل کرنے کا دروازہ نہیں کھولامگر یہ کہ قبول کرنے کا دروازہ اُس کیلئے جمع کرلیا گیا، اور شکر کرنے کا دروازہ بندے پر نہیں کھولاگیا مگر یہ کہ نعمت کی زیادتی اُس کیلئے ذخیرہ کرلی جاتی ہے۔(۱۷)
۹۔تیز ترین آنکھیں وہ ہیں جو نیکی اور اچھائی میں کھلی ہوں۔ زیادہ سننے والا کان وہ ہے جو نصیحت سنے اور اس سے فائدہ حاصل کرے۔ محفوظ ترین اور سالم ترین دل وہ ہیں جو شبہ سے پاک ہوں۔(۱۸)
۱۰۔لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی گزارو اور میل جول رکھو جس طرح تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ میل جول رکھیں۔(۱۹)
۱۱۔بھائی چارہ یہ ہے کہ مشکل اور آسانی میں وفا کی جائے۔(۲۰)
۱۲۔جب نوافل واجبات کو نقصان پہنچائیں تو نوافل کو ترک کردو۔(۲۱)
۱۳۔جو شخص دربارِ خداوندی میں کھڑا ہوتا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس کا چہرہ زرد ہو اور جسم کے اعضاء کانپ رہے ہوں۔(۲۲)
۱۴۔جب تک خدا کی نعمتیں موجود ہوتی ہیں، پہچانی نہیں جاتیں اور جب یہ نعمتیں منہ موڑ لیتی ہیں تو تب معلوم ہوتی ہیں۔(۲۳)
۱۵۔رزق کے طلب کرنے میں زیادہ کوشش کرنیو الے کی طرح کوشش نہ کر اور خدا کی قضاء و قدر پر کمزورانسان کی طرح بھروسہ و اعتماد نہ کر، رزق کے پیچھے جانا خدا کی سنت اور رزق کے طلب کرنے میں اختصار کرنا پاکدامنی ہے، پاکدامنی رزق کیلئے رکاوٹ نہیں ہے، طمع و لالچ کو قریب کرنے والی نہیں ہے، رزق تقسیم ہوچکا ہے اور لالچی ہونا گناہ کا سبب ہے۔(۲۴)
۱۶۔فرصت بہت جلد ہاتھوں سے نکل جاتی ہے اور آہستہ آہستہ واپس لوٹتی ہے۔(۲۵)
۱۷۔ہنسنا انسان کے رعب و دبدبہ کو ختم کردیتا ہے۔ جو چپ رہتا ہے، وہ سب سے زیادہ رعبدار ہوتا ہے۔(۲۶)
۱۸۔نزدیک وہ شخص ہے جس کو دوستی قریب کرے، اگرچہ رشتہ داری دور کی ہو اور دور وہ شخص ہوتا ہے جس کو دوستی دور کرے، اگرچہ رشتہ داری نزدیک کی رکھتا ہو۔(۲۷)
۱۹۔ایسی اچھائی اور نیکی جس میں شر اور برائی نہ ہو، نعمت کے ساتھ شکر کرنا اور مشکلات میں صبر کرنا ہے۔(۲۸)
۲۰۔خدا تعالیٰ کی نعمتیں امتحان کا وسیلہ ہیں۔ اگر ان پر شکر کرو تو نعمتیں ہیں اور اگر انکار کرو تو بجائے نعمت کے عذاب ہوں گی۔(۲۹)
۲۱۔جو کوئی بھی اللہ سے ڈرتا ہے اور تقویٰ اختیا رکرتا ہے، خدا تعالیٰ اُس کیلئے فتنوں سے نکلنے کیلئے راستہ کھول دیتا ہے، اور اُس کے کاموں میں اُس کی تائید کرتا ہے۔ ہدایت کا راستہ اُس کیلئے آمادہ رکھتا ہے اور اُس کی حجت اور دلیل کو غالب کرتا ہے۔ اُس کے چہرے کو نورانی اور اُس کی اُمیدوں کو پورا کرتاہے، اور یہ شخص ایسے لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر خدانے اپنی نعمتیں کی ہیں اور وہ نبیوں میں سے ، سچوں میں سے، شہداء میں سے اور نیک لوگوں میں سے ہیں، اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔(۳۰)
۲۲۔تقویٰ توبہ کا دروازہ ، حکمت و دانائی کا آغاز اور ہر عمل کی شرافت ہے۔(۳۱)
۲۳۔جو کوئی بھی خدا کے اختیار کئے ہوئے اچھے کام میں توکل کرتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ جو حالت خدا نے اُس کیلئے اختیار کی ہے، اُس کے علاوہ کوئی اور حالت پیدا ہوجائے۔(۳۲)
۲۴۔لوگوں کے ساتھ اچھا میل جول رکھنا عقل کی ابتداء اور بہت اچھی سوچ ہے، عقل کے ذریعے سے دنیا اور آخرت ہاتھ میں آتی ہے، جو کوئی بھی عقل سے محروم ہوا تو وہ دونوں جہانوں سے محروم ہوا۔(۳۳)
۲۵۔جوانمردی یہ ہے کہ دین کی حفاظت کرنا ، اپنے آپ کو باوقار بنانا، مہربان ہونا، کام اچھے طریقے سے انجام دینا اور حقوق ادا کرنا۔(۳۵)
۲۶۔جوانمردی انسان کا اپنے دین میں طمع رکھنا، اپنے مال کی اصلاح کرنا(حرام سے پرہیز، حلال کمانا، خمس دینا) اور حقوق ادا کرنے کیلئے قیام کرنا ہے۔(۳۶)
۲۷۔خاموش رہنا اُن چیزوں کے لئے لباس ہے جو معلوم نہ ہوں۔ عزت و آبرو کی زینت ہے۔ جو شخص خاموش رہتا ہے، آرام پاتا ہے ، اور اُس کے ساتھ بیٹھنے والا اُس سے محفوظ ہے۔(۳۷)
۲۸۔وہ مومن کیسا مومن ہے جو اس حال میں ہے کہ خدا کی تقسیم سے ناراض ہے، اور خدا کے مقام و مرتبہ کو پست شمار کرتا ہے، حالانکہ خدا ہی اُس پر حکم کرنے والا ہے، اور میں ایسے شخص کی ضمانت دیتا ہوں جو اپنے دل میں خدا کی مرضی کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتا، اور خدا ایسے شخص کی دعا قبول کرتا ہے۔(۳۸)
۲۹۔جو بے عقل ہے، وہ بے ادب ہے، اور جو ہمت نہیں رکھتا، وہ جوانمردی نہیں رکھتا اور جو بے دین ہے، وہ بے حیا ء ہے۔(۳۹)
۳۰۔اے آدم کے بیٹے! خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچوتاکہ عبادت گزار بن سکو اور جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے، اُس سے راضی ہوجا تاکہ بے نیاز ہوجائے۔ اپنے ہمسایوں کے ساتھ نیکی کر اور مسلمان بن جا۔(۴۰)
۳۱۔کسی کی غلطی پر سزا دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ غلطی اور سزا کے درمیان معذرت خواہی کو قرار دو۔(۴۱)
۳۲۔جس وقت گناہ گار شخص پر معذرت کرنا سخت مشکل ہوتا ہے ، اُس وقت ایک مہربان اور کریم شخص کا معاف کرنا دیگر مواقع کی نسبت زیادہ اہم ہوتا ہے۔(۴۲)
۳۳۔بہترین حسن اچھا اخلاق ہے۔(۴۳)
۳۴۔بہترین بے نیازی قناعت اور بدترین فقر کسی کے آگے جھکنا ہے۔(۴۴)
۳۵۔حلم و بردباری غصے کو پی جانا اور اپنے نفس پر کنٹرول کا نام ہے۔(۴۵)
۳۶۔عطا کرنا اور راہِ خدا میں دینا حقیقتاً وہی ہے جو خوشحالی اور تنگدستی کی حالت میں ہو۔(۴۶)
۳۷۔تین چیزوں میں لوگوں کی ہلاکت ہے: تکبر و حرص و لالچ۔ تکبر دین کو تباہ کرنے والا ہے اور اسی تکبر کی وجہ سے ابلیس ملعون ٹھہرا۔ لالچ انسان کی دشمن ہے ، اسی وجہ سے آدم جنت سے نکلا اور حسد برائی کا رہنما ہے اور اسی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔(۴۷)
۸۔بخل یہ ہے کہ جو انسان نے خرچ کیا ہے، اُسے ضائع سمجھے اور جو ذخیرہ کیا ہے، اُسے عزت و شرف جانے۔(۴۸)
۳۹۔حسد کرنے والے شخص کے علاوہ کسی ظالم کو مظلوم کے ساتھ زیادہ شباہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔(۴۹)
حوالہ جات
۱۔ مسجد سیدہ نفیسہ کے متولی اور عدلیہ کے وکیل اور ماہر عالم دین تھے ۔
۲۔ کشف الغمہ ، ج۲، ص۱۴۹
۳۔۔ پیغمبر اکرم ﷺ حسن کو اپنے سینے سے لگا کر فرماتے تھے، خدایا! یہ میرا بیٹا ہے میں اسے دوست رکھتا ہوں ، پس تو بھی اسے اور اس کے چاہنے والوں کو دوست رکھ ۔
۴۔سورہ مومنون، آیت۱۰۱
۵۔سورہ بقرہ، آیت۲۵۵
۶۔سورہ اعراف ،آیت۱۵۶
۷۔اہل البیت، توفیق ابوعلم، ص۲۹۶
۸۔سورہ آل عمران ، آیت۱۳۴
۹۔سورہ فصلت، آیت۳۴
۱۰۔کشف الغمہ، ج۱،ص۵۷۲۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۱
۱۱۔بحار،ج۲۲، ص۱۱۰
۱۲۔۱۔تحف العقول، ص۲۳۳۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۵
۱۳۔سفینۃ البحار، ج۱، ص۸۴
۱۴۔اعلام الدین، ص۲۹۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۵
۱۵۔کشف الغمہ،ج۱،ص۵۷۲۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۱
۱۶۔اعلام الدین، ص۲۹۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۶
۱۷۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۳
۱۸۔۱۔تحف العقول، ص۲۳۵۔۲۔بحار،ج۷۸، ص۱۰۹
۱۹۔نزہتہ الناظر، ص۷۹۔۲۔بحار،ج۷۸، ص۱۱۶
۲۰۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۳،۱۱۴
۲۱۔تحف العقول، ص۲۳۴۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۹
۲۲۔مناقب آل ابی طالب ، ج۳، ص۸۰۲۔بحار،ج۴۳، ص۲۳۹
۲۳۔علام الدین، ص۲۹۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۵
۲۴۔تحف العقول، ص۲۳۳۔۲۔بحار، ج۷۸،ص۱۰۶
۲۵۔عددالقویہ،ص۳۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۳
۲۶۔عددالقویہ،ص۳۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۲۳
۲۷۔تحف العقول، ص۲۳۴۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۶
۲۸۔تحف العقول، ص۲۳۴۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۶
۲۹۔عددالقویہ، ص۳۷۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۳
۳۰۔تحف العقول، ص۲۳۳۔۲۔بحارالانوار، ج۷۸،ص۱۱۰
۳۱۔تحف العقول، ص۲۳۲۔۲۔بحارالانوار، ج۷۸،ص۱۱۰
۳۲۔تحف العقول، ص۲۳۴۔۲۔بحارالانوار، ج۷۸،ص۱۰۶
۳۴۔کشف الغمہ، ج۱، ص۵۷۲۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۱
۳۵۔نزہۃ الناظر، ص۷۹۔۲۔مقصد الراغب، ص۱۲۸
۳۶۔تحف العقول، ص۲۳۵۔۲۔بحار، ج۷۸،ص۱۰۹
۳۷۔کشف الغمہ، ج۱، ص۵۷۲۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۱
۳۸۔کافی، ج۲،ص۶۲۔۲۔بحار، ج۳۴،ص۳۵۱
۳۹۔کشف الغمہ، ج۱،ص۵۷۲،۲۔بحار، ج۷۸،ص۱۱۱
۴۰۔کشف الغمہ، ج۱، ص۵۷۲۔ ۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۲
۴۱۔عددالقوید، ص۳۷۔۲۔نزہتہ الناظر، ص۷۲
۴۲۔اعلام الدین،ص۲۷۹۔۲۔نزہتہ الناظر، ص۷۸
۴۳۔خصال، ص۱۷۔۲۔ بحار،ج۷۱، ص۳۸۶
۴۴۔ عددالقویۃ،ص۳۸۔۲۔ بحار، ج۷۸، ص۱۱۳
۴۵۔بحار،ج۷۸، ص۱۰۲
۴۶۔بحار، ج۷۸، ص۱۱۴
۴۷۔کشف الغمہ، ج۱، ص۵۷۲۔۲۔بحار، ج۷۸،ص۱۱۱
۴۸۔عدد القویہ، ص۳۷۔۲۔بحار، ج۷۴، ص۴۱۷، ج۷۸، ص۱۱۳
۴۹۔کشف الغمہ، ج۱، ص۵۷۲۔۲۔ بحار، ج۷۸، ص۱۱۱

Related Articles

Back to top button