امام علی علیہ السلامسیرت اھلبیت

فضا ئل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں

فضا ئل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں
محمد صادق نجمی

پہلی فضیلت: د شمنانِ علی دشمنانِ خد ا ہیں
۱۔ عن ابی ذرقال نزلت الآیۃ:ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ(۱) فی ستۃ مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَۃ وَ عُبَیدَۃ بنِ الحا رث،و شیبۃ بن ربیعۃ وعُتبۃ بن ربیعۃ والولید بن عتبۃ(۲)
ابوذر کھتے ہیں :
یہ آیت ’’ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ‘‘ دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں آپس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ آیت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی علیؑ ، حمزہ(ع)، عبیدہ بن حا رث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے۔
۲۔قیس بن عباد عن علیؑ؛ فینا نزلت ہٰذہ الآیۃ: ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ(۳)
قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :
آیہ:ٴ ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ
ہماری شان میں نازل ہوئی ۔
دوسری فضیلت : حضرت علیؑ کی محبت ایمان کی پہچان اور آپ کی دشمنی نفاق کی علامت ہے۔
۳۔عن عدی بن ثابت عن زر؛قال: قال علی(ع): والَّذی فلق الحبۃ و بریٴ النسمۃانہ لعھد النبیﷺ الا می الی، اَنْ لَایُحِبَّنِی اِلَّا مُوٴمِنٌ وَلاَیَبْغِضُنِی اِلَّا مُنَافِقٌ
عدی بن ثابت زر سے نقل کرتے ہیں :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :
قسم اس ذات وحدہ لاشریک کی جس نے دانہ کو شگافتہ اور مخلوق کو پیدا کیا کہ یہ رسولﷺ کا مجھ سے عہد و پیمان ہے کہ مجھے دوست نہیںرکھے گ ا سوائے مومن کے اور مجھ سے دشمنی نہیںکرے گ ا سوائے منافق کے۔(۴)
تیسری فضیلت :علیؑ کی نماز رسولﷺ کی نماز ہے:
عن مُطَرِّف بن عبداللہ عن عمران بن حصین؛ قال:صلی مع علی علیہ السلام بالبصرۃ، فقال: ذکرنا ہذا الرجل صلٰوۃ نصلیھا مع رسول اللہﷺ، فذکرانہ کان یکبرکلمارفع، وکلما وضع (۵)
مطرف بن عبد اللہ کھتے ھیں :
ایک مرتبہ عمران بن حُصَین نے بصرہ میں حضرت علی ؑکے پیچھے نماز پڑھی تو کہنے لگے : آج تو میں نے وہ نماز پڑھی ہی جو رسولﷺ کے پیچھے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ رسولﷺ بھی ایسے ہی رکوع و سجود نشست و برخواست میں تکبیر کھا کرتے تھے۔
چوتھی فضیلت:رسولﷺ کاحضرت علی ؑکو ابو تراب کالقب دینا
”… عن ابی حا زم؛ ان رجلاً جاء الی سھل بن سعد، فقال: ہٰذا فلان (امیرالمدینۃ) یدعوعلیاً عند المنبر، قال : فیقول: ماذا قال؟یقول لہ ابو تراب، فضحک، قال:واللہ ما سماہ الا النبی، وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔(۶)
ابو حا زم کھتے ہیں :
ایک مرد سہل ابن سعد کے پاس آیا اورکہنے لگا: فلاں شخص (امیر مدینہ)رسولﷺ کے منبر کے پاس حضرت علیؑ کو برا بھلا کھتا ہے، سہل بن سعد نے اس سے پوچھا : وہ کیا کھتا ہے؟ اس نے کھا : علیؑ کو ابوتراب کھتا ہے، سہل یہ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے : قسم بخدا یہ نام اور لقب انہیں رسول خداﷺ کے سوا کسی نے نہیں دیا اور حضرت علی ؑ اس لقب کو دیگر تمام لقبوں سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
عرض موٴلف
جیساکہ متن حدیث میں آیا ہے کہ لقب ِ ابو تراب وہ لقب تھا جس سے امیرالمومنین ؑخوش ہوتے اور اس پر افتخار کرتے تھے،لیکن دشمنان علیؑ کو یہ لقب بھی گراں گزرا ،لہٰذا چونکہ اس سے انکار نہیں کرسکتے تھے اس لئے انھوں نے اس میں ایسی تحریف کردی کہ حضرت امیر لمومنین ؑکی اس لقب سے فضیلت ظاہر نہیں ہوتی،چنانچہ اس لقب کے عطا کرنے کے بارے میں انہوں نے ایسی روایات جعل کیں جن سے امام المتقین حضرت امیرؑ کی منقصت ظاہرہو تی ہے، انشاء اللہ جلد سوم میں ہم اس حدیث کے اور ان دیگر احادیث پر جن سے مولا علیؑ کی قدح ظاہر ہوتی ہے، کے اسبابِ جعل پر اگر خدا نے توفیق عنایت کی تو بحث کریں گے ۔
پانچویں فضیلت : علیؑسب سے زیادہ قضاوت سے آشنا تھے
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:
حضرت عمر نے کہا: حضرت علی ؑہم میں سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا ہیں ۔” وَاَقْضَاْنَاْعَلِیٌّ “(۷)
عرض موٴلف
خلیفہ ٴ دوم کا اعتراف خود اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ رسولﷺ اسلام نے بارہا اس جملہ کو لوگوں کے سامنے فرمایا تھا کہ علی ؑاصحا ب میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں اور کبھی آپ فرماتے تھے کہ علیؑاس امت میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں ۔(۸)
بھر حال قابل توجہ نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ مسئلہ قضاوت میں تقواو پرہیزگاری کے علاوہ وسیع معلومات اور کافی آگاہی کاہونا ضروری ہے اورجب تک ان علو م سے آشنا نہیں ہو سکتا قضاوت کرنا ناممکن امر ہے ، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا بقول مرسل اعظم علم قضاوت میں سب سے زیادہ آشنا ہونا اس بات کی دلیل ہے آپؑ سب سے زیادہ علم و آگاہی رکھتے تھے، گویا ”اَقْضَاْھُم “ کا جملہ ” اَعْلَمُھُمْ“ او ر ”اَتَقَاْہُمْ “ وغیرہ …کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔
چھٹی فضیلت
علیؑ خدا و رسولﷺ کو دوست رکھتے تھے اور خدا و رسولﷺ آپؑ کو”… عن سھل بن سعد؛ قال: قال النبیﷺ: یوم خیبر” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ “ فبات الناس لیلتھم ایھم یُعطٰی؟ فغدَوْا کلھم یرجوہ فقالﷺ: این علی(ع)؟ فقیل :یشتکی عینیہ، فبصق فی عینیہ ،ودعی لہ، فبرء کاٴن لم یکن بہ وجع،فاعطاہ، فقال(ع): اٴُقاتلھم حتی یکونوا مثلنا ؟ فقال: انفذ علی رِسْلِکَ حتیٰ تَنْزِلَ بِساحَتِھم، ثم ادعھم علی الاسلام، واخبرھم بما یجب علیھم ،فواللہ لِاٴَن یھدی اللہ بک رجلا،خیرٌ لک من ان یکون لک حمر النعم۔(۹)
سہل بن سعد نے رسول اسلامﷺ سے نقل کیا ہے:
”رسول خدﷺا نیجنگ خیبر کے دن یہ ارشاد فرمایا:
لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ
کل میں ایسے مرد کو علم دوں گا جو اللہ و رسول ﷺکو دوست رکھتا ہو اور اللہ و رسول ﷺاسے دوست رکھتے ہوں، سہل کھتے ہیں: اس شب تمام لشکر اسلام کو چین کی نیند نہ آئی، کیونکہ ہر شخص اسی انتظارمیں تھا کہ کل مجھے علم اسلام مل جائے لیکن رسولﷺ نے ارشاد فرمایا : علیؑ کہاں ہیں ؟
لوگوں نے کھا: ان کی آنکھوں میں دردہے( آپ نے مولا علیؑ کو طلب فرما کر) آپ کی آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور دعا فرمائی:( اے اللہ علیؑ کو شفا یاب فرما دے)رسولﷺ کی دعا کے نتیجہ میں آپؑ کی آنکھیں ایسی ٹھیک ہوگئیں جیسے کہ آپ کی آنکھوں میں دردہی نہ تھا چنانچہ رسولﷺ نے علم اسلام کو آپ کے ہاتھوں میں دے دیا، آپؑ نے فرمایا: یا رسول اللہﷺ کب تک جنگ کروں؟ کیا اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ایمان وعمل میں ہماری جیسے نہ ہو جائیں ؟
رسولﷺ نے فرمایا:
اے علیؑ!اس لشکر کفار کی طرف حرکت کرو ،او رانہیںدعوت اسلام دو، انہیں قوانین اسلام سے آگاہ کرو، کیونکہ قسم بخدا اگر خدا نے تمہارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت فرمادی تو وہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بھتر ہوگا۔
مسلم نے اس حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بھی نقل کیا ہے :
عن ابی ھریرۃ؛ان رسول اللہ قال یوم خیبر:” لَاُعْطِیَنَّ ہٰذِ ہِ الرَّایَۃَ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یَفتح ا للّٰہُ عَلٰیَ یَدَیْہ“ قال عمر بن الخطاب:مااحببت الامارۃ الایومئذٍ، فتساورت لھارجاء ان ادعی لھا،فدعی رسول اللہ علی بن ابی طالب:فاعطاہ ایاھا،وقال امش ولاتلتفت حتی یفتح ا للہ علیک،قال:فسارشیئاًثم وقف ولم یلتفت، فصرخ یارسول اللہ !علی ماذا اقاتل الناس؟قال:وقاتلھم حتی یشھدواان لاا لٰہ الا اللہ و ان محمداًرسول اللہ،فاذافعلوا ذالک،فقدمنعوا منک دمائھم و اموالھم، الا بحقھا وحسابھم علی اللہ (۱۰)
ابوہریرہ نقل کرتےہیں :
رسولﷺ نے بروز جنگ خیبر یہ ارشاد فرمایا:
آج میں اسلام کا علم ایسے مرد کو دوں گا جو اللہ ا ور رسولﷺ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اس کے دونوں ہاتھوں پہ فتحیابی بخشے گا،حضرت عمر کھتے ہیں: جب رسولﷺ نے یہ اعلان کیا تو مجھے بھی علم لینے کا دوبارہ اشتیاق ہوا ،چنانچہ آپ کھاکرتے تھے: روز خیبر سے پھلے مجھے کبھی علم اسلام اٹھا نے کا شوق نھیں ہوا! لہٰذا جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں بھی( رسولﷺ کے پاس دوڑ کر گیا اور) علم کے ارد گرد گھومنے لگا!اس امید میں کہ (رسول ﷺمجھے دیکھ لیں اور ) علم مل جائے لیکن (افسوس) یہ افتخار علیؑ کو حا صل ہوااور رسولﷺ نے علیﷺ کو بلایا اور علم آپ کے ہاتھوں میں دینے کے بعد فرمایا : اے علیؑ ! دشمن کی طرف حرت کرو تاکہ خدا تمہارے ہاتھوں کے ذریعہ اس قلعہ کو فتح کرے ۔
حضرت عمر کہتے ہیں : علیؑ تھوڑی دور آگے بڑھے اور رک گئے، بغیر اس کے کہ اپنا چہرہ پیغمبرﷺ کی طرف گھماتے ، دریافت فرمایا: اے رسولﷺ! ان لوگوں سے کب تک جنگ کروں ؟ آپﷺ نے فرمایا :اے علیؑ! جنگ کرو جب تلک کہ یہ لوگ خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرارنہ کرلیں اور جب ان دوباتوں کو یہ لوگ قبول کرلیں تو ان کا خون ومال محفوظ ہوجائے گا اور ان کا حساب پھر خدا کے اوپر ہے ۔
ساتویں فضیلت : حضرت علیؑ کی رسولﷺ کے نزدیک وھی منزلت تھی جو ھارون کی موسیٰ کے نزدیک عن مصعب بن سعد عن ابیہ؛ ان رسول اللہﷺ خرج الی تبوک واستخلف علیاً ،فقال:اٴ تخلفنی فی الصبیان والنساء؟قال رسول اللہ:”اَلاَ ترَضِیْ اَنْ َتکُوْنَ ِمنیِّ بِمَنْزِلَۃِ ھاَرُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ،اِلاَّ اَنہَّ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ۔(۱۱)
مصعب بن سعد نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے:
جب رسول اسلامﷺ جنگ تبوک کیلئے خارج ہوئے اور آپ نے علیؑ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ،تو حضرت علی علیہ السلام نے دریافت کیا: یا رسول اللہ !آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیجا رہے ہیں؟ رسولﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا:
اے علیؑ !تمھاری میرے نزدیک وہی منزلت ہی جو ہارونؑ کی موسیؑ کے نزدیک تھی بس فرق اتنا ہے کہ وہ موسیٰؑکے بعد نبی تھے اور تم میرے بعد نبی نہیں ہو۔
عرض موٴلف
محتر م قارئین !مذکورہ حدیث شیعہ وسنی دونوں کے درمیان متفق علیہ ہے ، یہاں تک کہ آپ کے پکے دشمن معاویہ نے بھی اس حدیث سے انکار کرنے کی جراٴت نہیں کی ہے! اس حدیث میں رسولﷺ خدا نے علیؑ کو تما م چیزوں میں ہارون سے تشبیہ دی ہے اورصرف نبوت کو خارج کیا ہے یعنی ہارون اور علیؑ کے درمیان صرف نبوت کا فرق ہے بقیہ تمام اوصاف،کمالات، منصب اور مقام میں باہم شریک ہیں، کیو نکہ اگر فرق ہوتا تو رسولﷺ ننے جس طرح نبوت کو جدا کر دیا،اسی طرح دوسری جہت کو بھی جدا کر دیتے، لہٰذا رسولﷺ کا دیگر مناصب و کمالات سے استثنا ء نہ کرنا بیّن دلیل ہے کہ آپؑ میں ہارونؑ کے تمام اوصاف پائیجانے چاہیے تب تشبیہ صحیح قرار پائے گی اور جاننا چاہیے کہ جناب ہارون مندجہ ذیل منصب اور کمال پر فائز تھے، لہٰذا مولا علیؑ میں یہ اوصاف پائیجانے چاہیے تاکہ تشبیہ صحیح قرار پائے۔
۱۔ مقام وزارت:جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نبوت کے علاوہ تمام اوصاف علیؑ میں پائیجانے چاھیئے تب مذکورہ تشبیہ صحیح ہوگی، لہٰذا جس طرح حضرت موسیؑکے بھائی ھارونؑ آ پ کے وزیر تھیجیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا۔
وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْراً مِنْ اَھْلِیْ. ھَاْرُوْنَ اَخِیْ (۱۲)
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اسلامﷺ کے وزیر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ر سولﷺ نے متعدد جگہوں پر علیؑ کے لئے اپنی وزارت کا اظہار کیاہے۔
۲۔ مقام اخوت و برادری:جس طرح ہارون موسیؑ کے بھائی تھے ’’ہَاْرُوْنَ اَخِیْ‘‘ اسی طرح علیؑ بھی رسولﷺ کے( رشتہ اور روحا نی اعتبار سے) بھائی ہیں ۔
۳۔ مقام خلافت:جس طرح موسیؑنے ہارون کو کوہ طور پر جانے کے وقت اپنا خلیفہ بنایا:
وَقَاْلَ مُوْسیٰ ِلَاخِیْہِ ہَاْرُوْنَ اخْلُفنِْیْ فِیْ قَوْمِیْ (۱۳)
جناب ہارونؑ بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسیؑ کے خلیفہ اور جانشین قرار پائے اور حضرت موسیٰؑنے ہارون کی اطاعت کو بنی اسرائیل پر واجب قرار دیااور ہارونؑ کو وصیت کی کہ رسالت کی تبلیغ کریں اور میرے دین کو وسعت دیں، اسی طرح حضرت علیؑ رسول اسلامﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔
۴۔ مقام وصایت: جب تک موسیؑ زندہ تھے ہارون موسیٰ کے خلیفہ اور جانشین تھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰؑوفات پا جاتے تو یقینا حضرت ہارونؑہی ان کے وصی قرار پاتے، لیکن ہارونؑ کا انتقال جناب موسیٰ کی حیات میں ہو گیاتھا،بھرحال جس طرح حضرت موسیؑکے ہارونؑ وصی ہوتے اسی طرح حضرت علیؑ بھی مذکورہ حدیث کے مطابق پیغمبر ؐ کے وصی ہیں ۔
۵۔ مقام معاونت:جس طرح جناب ہارون حضرت موسی علیہ السلام کے قوت بازو اور امر رسالت میں معاون تھے ،جیساکہ قرآن میں جناب موسیؑ کی ہارونؑ کے بارے میں دعا اور اس کے قبول ہونے کے الفاظ آئےہیں :
اُشْدُدْ بِہ اَزْرِی.وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ .…قَاْلَ َقْد اُوْتِیت سُوْٴلَکَ یٰا مُوْسٰی (۱۴)
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی اس صریح حدیث کے مطابق رسولﷺ کے قوت بازو اور معاونِ رسالت تھے ،البتہ خلافت اور جانشینی کے اعتبار سے نہ نبوت کے لحا ظ سے ۔
بہرحال مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ رسولﷺ اسلام کی نظر میں آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے نزدیک سب سے بہترین اور خیر امت حضرت علیؑ تھے اور جس طرح بنی اسرائیل پر ہارون کی اطاعت واجب و لازم تھی، اسی طرح امت محمدی پر رسول ﷺکی زندگی میں احترام علیؑ واجب تھا اور رسولﷺ کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت واجب و لازم تھی کیونکہ رسولﷺ کی وفات کے بعد حضرت امیرؑ،افضل الناس ،ناصر رسولﷺاور آنحضرت ﷺکے حقیقی جانشین تھے ۔
ایک قا بل توجہ نکتہ
اس جگہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دینا لازم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بعض اہل سنت یہ سمجھتے ہیں کہ رسولﷺ نے حدیث ِمنزلت صرف جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمائی تھی( اس کے بعد کہیں نہیں فرمایا) لہٰذا حضرت علیؑ کی خلافت ایک زمانہ کے لئے مخصوص اور محصور ہے،برادرم ایسا نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی متعدد معتبر کتابوں کے مطابق رسولﷺ نے تقریباًچھ موارد پر یہ حدیث اختلاف زمان و مکان کے ساتھ ارشاد فرمائی ہے ، لہٰذا حدیث ِمنزلت کو ایک خاص زمانہ میں منحصر نہیںکیا جاسکتا ۔(۱۵)
آٹھویں فضیلت : علیؑ رسول ؐسے اور رسول ؐ علیؑ سے ہیں ۔
اَنْتَ مِنّیِ وَاَنَاْ مِنْکَّّ
حضرت رسالتمآبﷺ نے فرمایا:
اے علی! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
صحیح بخاری ،جلد ۵، کتاب فضایل الصحا بۃ، باب”مناقب علی“۔جلد۴،کتاب المغازی،باب(۴۱)”عمرۃالقضاء (صلح حدیبیہ)“ حدیث۴۰۰۵۔ کتاب الصلح ،باب(۶) ”کیف یُکتَبُ: ھذاماصالح فلان بن فلان“۲۵۵۲ ۔ مترجم
نویں فضیلت:رسول ﷺوقتِ وفات علی ؑسے راضی رخصت ہوئے حضرت عمر کا بیان ہے : جب رسول ﷺنے وفات پائی تو آپ حضرت علیؑ سے راضی تھے۔صحیح بخاری جلد ۵،کتاب فضائل الصحا بۃ ،باب” مناقب علیؑ(قبل از حد یث نمبر ۳۴۹۸)“ باب ”قصہ البیعۃ والاتفاق علی عثمان “حدیث ۳۴۹۷۔ مترجم
محترم قارئین!
جیساکہ آپ نے مولا علیؑکے فضائل صحیحین کی روشنی میں ملاحظہ فرمائے اور پھر قول حضر ت عمر بھی ملاحظہ فرمایا کہ رسولﷺ کی وفات جب ہوئی تو آپﷺ علیؑسے راضی تھے ،لیکن خود قائل کی پوزیشن کیا تھی؟معلوم نہیں،کیونکہ صحیح بخاری کے بموجب آنحضرتﷺ نے بوقت وفات جب قلم و دوات مانگی توحضرت عمر نے منع کردیا تھا جس کی وجہ سے رسولﷺ ناراض ہوگئے اور آپ نے حضرت عمر کو اپنے گھر سے باہر نکال دیا، چنانچہ محترم موٴلف صاحب نے بحث ”واقعہ قرطاس“ ص۶۲۲پر اس بات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیاہے۔
حوالہ جات
۱۔ سورہٴ حج آیت ۹،پ ۱۷۔
۲۔صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ: ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ حدیث۴۴۶۷۔
۳۔صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶ ،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ: ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ حدیث۴۴۶۷۔
۴۔صحیح مسلم جلد ۳ ،کتاب الایمان، باب(۳۳) ”ان حب الانصاروعلی(ع) من الایمان“ حدیث۷۸۔
۵۔ صحیح بخاری جلد ۱، کتاب الصلوٰۃ، باب” اتمام تکبیر فی الرکوع “حدیث۷۵۱، باب” اتمام التکبیر فی السجود“ حدیث۳۵۳۔ مترجم:(صحیح بخاری جلد۱،کتاب الصلوٰۃ،باب ”یکبر وھو ینھض من السجدتین“ حدیث۷۹۲۔) صحیح مسلم جلد۲، کتاب الصلوٰۃ، باب(۱۰) ” اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع“ حدیث ۳۹۳۔
۶۔صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب فضایل الصحا بۃ،باب”مناقب علی ابن ابی طالب(ع)“ حدیث۳۵۰۰۔ جلد ۱،کتاب الصلاۃ ابواب المسجد، باب”نوم الرجل فی المسجد“ حدیث۴۳۰، جلد۴، کتاب الادب، باب” التکنیّ بابی تراب“ حدیث۵۸۵۱۔ جلد۸ ،کتاب الاستئذان، باب” القائلہ فی المسجد“ حدیث۵۹۲۴۔ صحیح مسلم جلد۷، کتاب فضائل الصحا بۃ، باب” فضائل علی ابن ابی طالب علیہ السلام“ حدیث ۲۴۰۹۔
۷۔صحیح بخاری ،جلد ۶، کتاب التفسیر سورہ ٴ بقر ہ ،باب ”تفسیر ماننسخ من آیۃ“ (۱۰۶)حدیث۴۲۱۱۔
۸۔سنن ابن ماجہ جلد۱۔(اس کتاب میں حقیر نے اس جملہ کو نہیں دیکھا ہے۔مترجم۔) استیعاب جلد۱ ،حرف العین باب علی صفحہ ۸۔ (اس کتاب میں اقضانا اور اقضاہم آیا ہے ۔مترجم )
۹۔صحیح بخاری: جلد۴ ،کتاب الجھاد و السیر ، باب۱۲۱ ”ما قیل فی لواء النبیﷺ “ حدیث ۲۸۱۲، باب۱۴۳” فضل من اسلم علی یدیہ رجل“ حدیث۲۸۴۷،کتاب فضایل الصحا بہ، باب(۹)” مناقب علی ابن ابی طالب “حدیث۳۴۹۸،۳۴۹۹۔ صحیح مسلم :جلد۷ ،کتاب فضائل الصحا بۃ ،باب” فضائل علی ابن ابی طالب“ حدیث۰۵ ۲۴، کتاب الجھاد و السیر، باب(۴۵)” عزوہ ذی قرد وغیرھا“ حدیث۱۸۰۷۔
مترجم:(صحیح بخاری: جلد۴ ، کتاب الجھاد و السیر ،با ب” دعاء النبیﷺ الی الاسلام النبوۃ“حدیث۲۷۸۳۔کتاب فضائل الصحا بۃ باب ”عزوہ خیبر“حدیث۳۹۷۲،۳۹۷۳۔
مسلم نے ایک حدیث میں اس شعر کو بھی نقل کیا ھے جسے حضرت علیؑ نے مرحب کے مقابل پڑھا تھا:
اناا لذی سمّتنی امی حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ
۱۰۔صحیح مسلم جلد۷، کتا ب فضائل الصحا بۃ ،با ب(۴)” فضائل علی ابن ابی طالب“ حدیث ۲۴۰۵۔
۱۱۔صحیح بخاری :جلد۵،کتاب فضایل الصحا بۃ ،باب(۹) ”مناقب علی ابن ابی طالبؑ ‘‘ حدیث ۳۵۰۳۔
جلد ۵،کتاب المغازی، باب(۷۴) ”عزوہ تبوک “حدیث۴۱۵۴۔
صحیح مسلم جلد ۲ ،کتاب فضائل الصحا بۃ، باب” فضائل علیؑ“ حدیث۲۴۰۴
(یہ حدیث دیگر سند کے ساتھ بھی اس کتاب میں مذکور ہے)۔
۱۲۔سورہٴ طہ، آیت ۳۰، پ ۱۶۔ ۱۳۔سورہ ٴاعراف، آیت۱۴۲،پ۹۔
۱۴۔ سورہٴ طہ،آیت نمبر۳۱، ۳۲، ۳۶، پ ۱۶۔
۱۵۔تفصیل دیکھئے: کتاب ”المراجعات “ مصنفہ علامہ سید شرف الدین ، و ”کفایۃ الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص۲۸۱، باب (۶۰)”فی تخصیص علی بقولہﷺ انت بمنزلۃہارون من موسی …“ مطبوعہ:۱۳۹۰ “(اس کتاب کے ساتھ گنجی شافعی کی دوسری کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“بھی شائع ہوئی ہے۔ مترجم

Related Articles

Back to top button