نہج البلاغہ

نہج البلاغه: خطبه 33

[separator top=”-20″ bottom=”-40″ style=””]

خطبہ 33: جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا

امیر الموٴمنین جب اہل بصرہ سے جنگ کے لئے نکلے تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں مقامِ ذی قار میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں ۔ (مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابنِ عباس اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی ؟) میں نے کہا کہ اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی، تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پیش ِ نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا ہو تو تُم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے ۔ پھر آپ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں یہ خطبہ دیا۔

اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا ، اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے ۔ خدا کی قسم ! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورتِ حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے ۔ یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہر گیا۔ میں نے (اس کام میں ) نہ کمزوری دکھا ئی نہ بزدلی سے کام لیا۔ اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کے لئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلے سے نکال لُوں ۔ مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے ۔ خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی ، جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ورغلانے میں آ چکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مدّ ِ مقابل رہ چکا ہوں ، ویسا ہی آج ثابت ہو ں گا۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button