مقالات

روزہ احترام وقت

403ramadan_17

یوں تو پروردگار نے نماز کو بھی کتاب موقوت یعنی وقت معین والی عبادت قرار دیا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نماز کے اول و آخر میں پابندی وقت کے باوجود درمیان میں بے حد وسعت پائی جاتی ہے۔ نماز وقت سے ایک سیکنڈ پہلے یا وقت گزار کر ایک سیکنڈ بعد پڑھنا حرام ہے اور وہ ایک ایک سکنڈ کی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ صبح کی دو رکعت کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ کی وسعت یا ظہرین اور مغربین کے لیے ۶،۶ گھنٹے کی وسعت انسان کو اس قدر آزاد بنا دیتی ہے کہ انسان اس پورے وقت کے اندر کسی وقت بھی نماز ادا کر سکتا ہے لیکن روزہ میں اس طرح کی کوئی وسعت نہیں ہے۔اس کا زمانہ ماہ رمضان معین ہے اور اس کے حدود اول و آخر سے محدود ہیں طلوع فجر سے غروب آفتاب یعنی زوال سرخی مشرق تک جس میں نہ ایک لمحہ کی کمی ہو سکتی ہے اور نہ زیادتی کہ اگر کوئی شخص اپنی نیت میں طلوع فجر سے ایک لمحہ بعد کا وقت شامل کر لے تو اس کے روزہ کو بدعت اور باطل قرار دے دیا جائے گا اور اس کے عمل کی کوئی قیمت نہیں ہو گی۔ روزہ رکھنا تو وقت کا مکمل احترام کرنا ہو گا اور اس کے سلسلہ میں کسی طرح کی غفلت یا تساہلی قابل معافی نہ ہو گی۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ نماز میں غفلت ہو جائے تو قضا کے طور پر دوبارہ نماز ہی ادا کرنا ہو گی اور دوسرا کوئی جرمانہ استغفار کے علاوہ نہ ہو گا لیکن روزہ میں ایک منٹ قبل افطار کرنے یا وقت معین کے ایک منٹ بعد سحری کھانے میں ایک غلام آزاد کرنا ہو گا یا ۶۰ روزے رکھنا ہوں گے یا ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا ۔ بلکہ وقت کی تحقیق کے بغیر لا پرواہی میں اقدام کیا ہے تو اس کی بھی سزا برداشت کرنا ہو گی تاکہ مرد مسلمان وقت کی قیمت پہچانے اور اس کا مکمل احترام کرے وقت کو ضائع اور برباد نہ کرے اور اس کے بارے میں غفلت اور تساہلی سے بھی کام نہ لے۔

Related Articles

Back to top button