Nasihatenکتب اسلامی

وسوسئہ شیطانی سے نجات

سوال ۴۸:۔ ہم کیا کریں کہ اپنے آپ کو وسوسئہ شیطانی سے نجات دیں؟
ابلیس جو انسان کا بیرونی دشمن ہے اور باہر سے حملہ آور ہوتا ہے، جب تک اندرونی ٹھکانہ نہ رکھتا ہو اور اندر سے کچھ چیزیں اس کی حمایت نہ کریں، وہ انسان پر کبھی اثر انداز نہیں ہو سکتا، شیطان کا کام زہر کو نکالنا اور انسان کے اندر ڈالنا ہے، جیسے کوئی چاہے کہ دوسرے کو زہر سے ختم کر دے تو اس کی جیب میں زہر ڈالے تو واضح ہے کہ زہر اثر انداز نہیں ہو گی اور اگر اسے زہر کھلا دے اور وہ قے کے ذریعے نکال دے تو بھی اثر انداز نہیں ہو گی، ضروری ہے کہ معدہ زہر کو قبول کرے اور اسے جذب کرے تو خون میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنا نقصان دہ اثر کرے گی، وساوس بھی اسی طرح ہیں، مختلف ہواوہوس اور شہوت رانیاںجن میں سے نازک ترین و ہلکی صورت میں جوانوں میں ہے اور سنگین ترین وبھاری صورت میں بزرگوں میں جاہ و مقام کی طمع کی صورت میں نظر آتی ہے، اس زہر کے اثر کرنے کی علامت ہے، فرمایا:
’’آخَرُ مَا یَخُرُجُ مِنْ قُلُوب الصَّدَّیقینِ حُبُّ الْجَاہ‘‘،
آخری وہ چیز جو صدیقین کے دلوں سے نکل جاتی ہے وہ جاہ و جلال کی محبت ہے۔
یعنی آخری گھاٹی کہ جس سے سیر و سلوک کے بزرگان اُن سے نجات حاصل کر تے ہیں وہ جاہ طلبی ہے۔

یعنی یہی کھیل جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہیں، اگر کوئی اپنی تعریف کئے جائے اور اسے جو القاب دیئے جاتے ہیںاس سے لذت حاصل کرتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ زہر نے اس کے بدن کے اندر اثر کیا ہے اور اگر ان باتوں سے لذت حاصل نہیں کرتا تو اس کو شکر کرنا چاہیے کہ اس کی مشینری نے اس زہر کو قبول نہیں کیا۔
حضرت امیر المومنینؑ مالکِ اشتر کو لکھے گئے عہد نامہ میں فرماتے ہیں:
شیطان ہمیشہ حملہ کرنے پر آمادہ ہوتا ہے لیکن جب لوگ تیری تعریف کرتے ہیں تو اس وقت آتشِ شیطان بہت قریب آجاتی ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ ُمواظبت و حفاظت کی جائے۔
اگر کوئی کسی کی بے عزتی کرتا ہے تو رات اس کو نیند نہیں آتی، کیوں؟ کیونکہ اس کے اندریہ آگ لگی ہے نہ کہ باہرسے، وہ جس قدر بھی نیند کی گولیاں کھائے اسے نیند نہیں آتی، جس قدر نرم بستر فراہم کرے، اسے نیند نہیں آتی، ایک وقت انسان نرم گدے پرلیٹتا ہے اور یہی گدا بلیڈوں سے پر ہے، وہ جس پہلو پر سونا چاہتا ہے، بلیڈ لگتا ہے اور جو بلیڈ انسان کو اندر سے زخمی کرتا ہے، نیند کی گولیوں سے برطرف نہیں ہوتا۔
چہ آسایدبہ ہر پہلو بغلتد
کسی کز خار سازد او نھالی
نہال یعنی گدا، اگر کوئی گدالے اور روئی کی بجائے اسے کانٹوں سے پر کرے تو جس پہلو سوئے گا، کانٹا چبھے گا، خدا نہ کرے اگر کوئی حاسد، ضدی، بد خواہ، کینہ رکھنے والاہو، وہ جس پہلو پر سوئے گا، کانٹا چبھے گا، پیامبرِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَعّدَی عَدُوِکَ نَفْسُکَ الَّتی بَیْنَ جَنْبَیْکَ (ا)
تمہارے نفس سے بڑا تمہارا کوئی دشمن نہیںجو تمہارے پہلو میں ہے
مگر بیرونی دشمن کیا کر تا ہے؟ ہٹلر وصدام کیا کرتے ہیں؟ وہ گھرکو جلانے اور انسان کو قتل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، بالآخر یہ سب کچھ جسم کی حدود میں ہے، اس کے بعد انسان شہید ہو جاتا ہے اور پر سکون ہو جاتا ہے، شہید کو کوئی نقصان نہیں ہوتا، مرحوم استاد علامہ طباطبائی ؒ فرماتے تھے، وہ شہید جو میدانِ جنگ میں گولی کھاتا ہے اور اپنے خون میں تڑپتا ہے، دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ جان کنی کی حالت میں ہے، درحالانکہ وہ گرمی زدہ شخص کی طرح ہے جو تالاب میں داخل ہو گیا ہے، اگر وہ بات کر سکتا تو کہتا یہ روح و ریحان ہے، یہ جان کنی نہیں، جان کنی یعنی انسان دنیا سے برزخ میں داخل ہو، موت دنیا سے برزخ کی طرف انتقال ہے، اگر انسان چاہتا ہو کہ دنیا سے برزخ میں منتقلی ہو، تو یہ سختی کے ساتھ ہے، کیوں؟ اوّلاً اس نے دنیا کے تمام مسائل سے وابستگی پیدا کر لی ہے، ثانیاً موت کا مطلب یہی ہے کہ انسان کی پسندیدہ چیزوں کو اس سے لے لیتے ہیں، ثالثاً متعلق و وابستگی باقی رہتی ہے، واقعاً دردِ فراق شروع ہو جاتا ہے مثلاً جب نشئی آدمی جیل میں آتا ہے تو اس کا درد شروع ہوتا ہے کیونکہ اوّلاً وہ منشیات سے دل لگا چکا ہے، ثانیاً : جب اسیر ہوتا ہے، یہ مواد اس سے چھین لیا جاتا ہے، ثالثاً : منشیات کے ساتھ اس کا تعلق اور عادت اس طرح باقی رہتی ہے، رابعاً : اگر تعلق ہو اور متعلق نہ ہو تو درد شروع ہو جاتا ہے، جو شخص مرتا ہے وہ ایسے ہی ہے یعنی اوّلاً وہ دنیا سے وابستہ ہے، ثانیاً موت کے وقت یہ سب اس سے چھین لیا جاتا ہے، ثالثاً : تعلق اور وابستگی باقی رہتی ہے، رابعاً متعلق کے نہ ہونے کے ساتھ تعلق و وابستگی کی بقا درد آور ہے ۔
بہتر ہے کہ انسان کسی ایسی چیز کے ساتھ دل لگائے جو اسے چھوڑ نہ دے، ایسی چیز سے دوستی کرے جو اس کے ساتھ باقی رہے اور اس سے الگ نہ ہو، اسی وجہ سے پیغمبراکرم ﷺ خداوندِمتعال کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ میری رسالت کی بہترین اجرت ولایت اہلِ بیتؑ ہے، یعنی آپ اولیاء کو دوست رکھیں اور تمہارا تعلق اس طرف ہو، کیونکہ یہ تم سے لی نہیں جا سکتیں، تعلق بھی محفوظ رہتا ہے اور متعلق بھی۔
البتہ جب انسان زندہ ہے، اس تعلق سے زیادہ استفادہ نہیں کرتا، کیونکہ مشاغل اسے سرگرم رکھتے ہیں، جب مرتا ہے تو وہ مشاغل چھوڑ جاتے ہیں اور یہ لذت آور محبت انسان کو فائدہ دیتی ہے اور موت اور دنیا سے برزخ کی طرف انتقال کی سختی کو ختم کرتی ہے۔
(حوالہ)
(۱)بحار الانوار ج۶۷،ص ۶۴

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button