Nasihatenکتب اسلامی

عرفانی موسیقی

سوال ۴۱:۔ کیا عرفانی موسیقی ہمیں خدا کے نزدیک کر سکتی ہے، عارفانہ اشعار کیسے ہیں؟
انسان بصیرت و علم رکھتا ہے اورا گردانش، تمایلات، بصیرت، علم کے لحاظ سے بہت سے افراد کے لیے ممکن ہے کہ ترقی کریں، یعنی ہمارے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم اچھے برے کو سمجھ سکتے ہیں، یہ استعداد درس و بحث سے بیش تر وسیع ہوتی ہے، یہ ہماری بصیرت دانش سے مربوط ہے، اچھے برے کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مشترک حد رکھتے ہیں یعنی برائیوں کو بھی اچھی طرح تشخیص دیتے ہیں اور اچھائیوں کو بھی، لیکن تمایلات کے دائرے میں ایسا نہیں کہ ہم اچھے اور برے کے معاملہ میں یکساں تمایل رکھتے ہوں، ہم اچھے کاموں کی طرف مکمل تمایل رکھتے ہیں اور برے کاموں کی طرف بالکل تمایل نہیں رکھتے، یعنی ہمارے اندر اچھے اور برے کی طرف تمایل یکساں نہیں، پس اچھے برے کے بارے میں ہماری بصیرت یکساں ہے لیکن تمایلات اس طرح نہیں، مثال کے طور پر ہم اچھے، برے، مفید، مضر کھانے کو یکساں تشخیص دیتے ہیں، دونوں قسم کے کھانے کے بارے میں ہماری تشخیص مساوی ہے لیکن ہماری قوتِ ہاضمہ کی دونوں غذائوں کی طرف میل و رغبت یکساں نہیں۔
قوتِ ہاضمہ اچھی غذائوں کو آسانی سے ہضم و جذب کرتی ہے اور زہر آلود کھانے کو برداشت نہیں کرتی اور قے کے ذریعے باہر نکال دیتی ہے، مگریہ کہ بد آموزی اور غلط تربیت کی وجہ سے کوئی بری غذائوں کا عادی ہو چکا ہو۔
یہی حقیقت روح میں بھی موجود ہے، ہماری روح اچھے، برے اخلاق، عدل، ظلم، امانت، خیانت، سچ و جھوٹ کو یکساں تشخیص دیتی ہے لیکن ان کی طرف یکساں رغبت نہیں رکھتی، روح کی رغبت عدل، امانت، صدق کی طرف ہے، اسی وجہ سے جب بچہ پہلی مرتبہ جھوٹ بولنا چاہتا ہے تو اس کے بدن میں لرزہ طاری ہوتا ہے لیکن سچ کہتے وقت شجاعانہ بات کرتا ہے۔
ہماری عقل نظری، بصیرت و دانش کی تنظیم کے لیے ضروری ہے کہ برعانی راستے جیسے فلسفہ، ریاضی، حکمت، کلام، عرفان کو طے کریں اور تمایلات (عقلِ عملی) کی تنظیم کے لیے عملی کاموں کو انجام دیں۔
عقلِ عملی جس کا کام رغبت و تمایل ہے، وہ تمام ارادوں کا ذمہ دار ہے اور عزم، ارادہ، محبت، اخلاق، نیت وغیرہ جیسے کاموں کی مدیریت کرتا ہے، اگر ہم نے مدیر عامل کو نرم خو کر لیا تو پھر یہ خود سری نہیں کرتا اور عقلِ نظری کے احکام کے سامنے عاجزہو گا، یعنی جو کام بھی کرنا چاہے گا، عقل ِنظری سے پوچھ کر کرے گا، لیکن اگر یہ مدیر عامل سرکش ہو جائے تو اپنے علمی مرکز عقلِ نظری و دانش سے دستور طلب نہیں کرتا بلکہ شہوت و غضب سے دستور طلب کرتا ہے اور ان تمایلات کی بنیاد پر عمل کرتا ہے، اس وقت عقل عملی مدیر عامل و منتظم نہیں ہوتی بلکہ شیطنت ہوتی ہے۔
اس مدیر و منتظم کو نرم و ملائم کرنے کیلئے بہت سارے راستے موجودہیں، ان میں سے ایک راستہ وہی ہے جو دعائے کمیل میں مذکور ہے، ’’وسلاحہ البکاء‘‘ دشمن کے مقابلے کیلئے مومن کے پاس بیرونی ہتھیار پتھرولوہا وغیرہ ہے اور اندرونی اسلحہ آہ بکاو گر یہ ہے۔
بنابریں، اگر مومن کاباطن اشک و نالہ کے اسلحہ سے مسلح ہو تو وہ غضب و شہوت جیسی خواہشات کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور انکی پیروی نہیں کرتا، لیکن اگر مسلح نہ ہو تو تسلیم ہو جاتا ہے اور غصہ و شہوت کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، ایک گروہ کہتا ہے کہ میں جس کام کو چاہوں انجام دوں اور کسی سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ انسان روح کے فرہنگی و ثقافتی مرکز کی پیروی نہیں کررہا ہے اور وہ شہوت و غضب کی خواہشات پوری کرنے میں لگا ہے۔
موسیقی اور گانا بجانا ممکن ہے کہ عملی عقل (روح کا مدیر ومنتظم )پر اثر انداز ہو، جو شخص دعا، مناجات، گریہ، آہ بکاء سے اُنس رکھتا ہو، اسکی عملی عقل حقیقی طور پر نرم و ملائم ہو جاتی ہے، وہ عقل ِنظری کی پیروی کرتا ہے اور خدا کی رضاکے خلاف کوئی عمل انجام نہیں دیتا۔
اشعار یا دلچسپ نثر کو پڑھنا یا کہنا عقلِ عملی کو نرم کرنے میں مؤثر ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم ساز بجانے کی بجائے اشعار پڑھنے کی طرف توجہ کریں، چونکہ ساز بجانے اور آواز کے ساتھ پڑھنے میں ہو سکتا ہے کاذب وغیر حقیقی نرمی و گریہ واشک پیدا ہو جا ئے، جس طرح ہنسنا و مسکرانا صادق و کاذب یعنی حقیقی وغیر حقیقی وجود رکھتا ہے اسی طرح رونا و گریہ و زاری بھی صادق و کاذب وجود رکھتی ہے۔
کبھی ظریف ادبی طنز کہا جاتا ہے اورانسان اُسے سن کر ہنستا ہے، یہ ہنسنا صادق ہے کبھی کسی کو گد گدی کی جاتی ہے اور وہ شخص ہنستا ہے، یہ ہنسنا غیر حقیقی و کاذب و بے وقعت ہے، گریہ بھی اسی طرح ہے کبھی انسان امام حسین ؑکی مظلومیت کے لیے گریہ کرتا ہے یہ گریہ صادق و حقیقی ہے اور کبھی سانپ کو دیکھ کر روتا ہے اور کبھی میت کو بغیر پہچانے گریہ و زاری کرتا ہے، یہ اشک ِ کاذب ہے۔
ساز و آواز ممکن ہے اس طرح کے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو، یعنی کاذب اشک و نرمی وجود میں لائیں اور ہم یہ سمجھیں کہ ہماری عملی عقل نرم ہو گئی ہے، لیکن در حقیقت
ایسا نہیں ہے اور اس طرح کی موسیقی جنہیں عرفانی موسیقی کہا جاتا ہے، انکی بنیادی مشکل یہی ہے، دوسری اقسام کی موسیقی کہ جن کا یقینا منفی اثر ہوتا ہے اور جس کے سبب عملی عقل، نظری عقل کی نافرمانی کرتی ہے اور جو انسان کو گناہ میں مبتلا کر کے تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
مرحوم الٰہی قمشہ ای فرماتے ہیں: میں نے چیونٹی کو اذیت نہ دینے سے متعلق شعر کہا ہے بعض اُسے جناب فردوسی کے شعر سے زیادہ ظریف شمار کرتے ہیں، فردوسی نے فرمایا ہے:
میاز ار موری کہ دانہ کش است کہ جان داردوجان شیریں خوش است
مرحوم الٰہی قمشہ ای فرما تے ہیں
ہر کسی کہ دلی داردیک مورنیا زارد کان مورہم از دلبردار داثری بر دل
بعد میں فرمایا: ایک زمانے میں جبکہ میں خراسان گیا ہوا تھا خراسان کی ادبی انجمن والے میرے پاس آئے، میں نے اپنی دو غزلیں اُنہیں پیش کیں تا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کونسی غزل میری جوانی کے دور سے مربوط ہے اور کونسی غزل میرے بڑھاپے کے دور سے متعلق ہے۔
اُنہوں نے بالکل الٹ فیصلہ دیا، میں نے کہا آپ نے بالکل بر عکس قضاوت کی ہے، انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کی بڑھاپے کی شاعری میں عشق دردو وہیجان زیاد ہ ہے، میں نے کہا کہ ایسا ہی ہونا چاہیے شاعر جس قدر پیرو بوڑھا ہوتا جائے گا، زیادہ عاشق ہوتا جائے گا، جوانی میںہیجان و عشق خام ہوتا ہے، جب بوڑھا ہوتا ہے تو اس وقت متوجہ ہوتا ہے کہ اس کا حقیقی معشوق کوئی اور ہے۔
انسان جس قدر بلند پروازکرتا ہے،اسکی باتیں عاشقانہ تر اور شور انگیز تر ہو جاتی ہیں، اسوقت جس طرح اس نے سازو آواز کو پہلے مرحلہ پر ترک کردیا، سُر کے ساتھ پڑھنے کو بھی دوسرے مرحلے پر ترک کردیتا ہے، پڑھنا اگر غنانہ ہو، تو وہ بہترین نعمتوں میں سے ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ بہشت میں خوش الحان دائودی آواز (بہشت کے قاری ) نصیب ہو تو ضروری ہے کہ اپنی سماعت کی حفاظت کریں تا کہ ہر قسم کی آواز کو نہ سنیں، تیسرے مرحلہ پر ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ جس وقت وہ اخلاقی و عرفانی اشعار یا مطالب کا مطالعہ کرتا ہے تو اشک آنکھوں سے جاری ہو جاتے ہیں یہ مرحلہ،ساز بجانے اور آواز کے ساتھ پڑھنے کی نسبت بہت عظیم تر ہے۔

Related Articles

Back to top button