مقالاتکربلا شناسی

ولادت پیغمبر اکرمؐ اور حقیقی و اصطلاحی مسلمان

(ثاقب اکبر)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے۔ ہم ان کی برکت سے اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ یہ فخر کرنا بھی چاہیے، تاہم اس بات پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں۔ کیا کہیں ہم فقط اصطلاحی مسلمان تو نہیں۔ آیئے اُس قرآن کی روشنی میں اپنے مسلمان ہونے کا جائزہ لیتے ہیں، جو آنحضرتؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور اسی طرح اپنے آپ کو آنحضرتؐ کے فرمودات کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اِدھر اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے اور سمجھتے رہیں اور جب روز محشر حساب کا موقع آئے تو یہ دو آئینہ ہائے مصفیٰ کو باری باری ہمارے سامنے رکھ دیا جائے اور ہمارے دعویٰ و فہم کی نفی ہو جائے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ الفاظ پہلے مرحلے میں تو روزمرہ کی ضروریات کے لئے ایجاد ہوتے ہیں۔ چیزوں کے مرحلے سے گزر کر خاص اعمال و افعال کے لئے خاص الفاظ ایجاد ہونے لگتے ہیں۔ پھر خاص فکری، نظری اور عقیدتی مفاہیم کے لئے بھی لفظ مختص ہو جاتے ہیں۔ لفظ لغوی معانی سے نکل کر اصطلاحی معانی میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ بعض الفاظ اصطلاحوں کے لئے ایسے مختص ہو جاتے ہیں کہ لغوی معنی سے یا تو ان کا رابطہ ہی منقطع ہو جاتا ہے یا پھر ان میں استعمال کئے گئے الفاظ کو قرینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایسے ہی الفاظ میں سے ایک لفظ ’’مسلمان‘‘ بھی ہے۔

آج ہم خاص نظریئے اور عقیدے کے حامل فرد کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن اگر ہم قران و سنت کی طرف لوٹ جائیں تو مسلم، مسلمان اور اسلام جیسے الفاظ کثرت سے اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہی حال کفر اور کافر جیسے الفاظ کا ہے۔ آیئے چند مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں: قرآن کہتا ہے کہ تمھارے باپ ابراہیم نے تمھارا نام ’’مسلمان‘‘ رکھا ہے۔
ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (حج:۷۸)
کیا حضرت ابراہیمؑ نے انہی لوگوں کو مسلمان کہا جو آج اصطلاحی طور پر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہے: ’’نہیں‘‘ کیونکہ قرآن حکیم ہی بتاتا ہے کہ ابراہیمؑ نے اپنے بیٹوں اور پوتے یعقوب کو وصیت کی کہ مرو تو مسلمان ہو کر مرنا:
وَ وَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (بقرہ:۱۳۲)

اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور یعقوب کو وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لئے دین کو چن لیا ہے، پس جب مرو تو اس حالت میں مرنا کہ تم مسلمان ہو۔”
حضرت لوط کے گھر والوں کو بھی قرآن حکیم نے مسلمانوں کا گھر قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
فَمَا وَجَدْنَا فِیْہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الذاریات:۳۶)

اور اس (بستی) میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ ”
حضرت سلیمان ؑ کے روبرو بلقیس بھی اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے قرار دیتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:

فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ (النمل:۴۲)
جب وہ آ پہنچی تو پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے؟ اس نے کہا: گویا یہ تو ہوبہو وہی ہے اور ہمیں اس سے پہلے ہی(سلیمان کی عظمتِ شان) کا علم ہوگیا تھا اور ہم مسلمان ہیں۔”

آخری پیغمبر حضرت محمدؐ سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں نیز پہلے نبیوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے، اس پر ایمان لانے کا بھی اعلان کریں:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلآی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ(آل عمران:۸۴)
کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور جو صحیفے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اترے اور جو کتابیں موسٰی اور عیسٰی اور دوسرے انبیاء کو پروردگار کی طرف سے ملیں، سب پر ایمان لائے، ہم ان سب پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور مسلمان ہیں۔”
بعض اہل کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ O وَ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَO (القصص:۵۲و۵۳)
جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی، وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور جب قرآن انھیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے، بے شک وہ ہمارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور ہم تو اس سے پہلے کے مسلمان ہیں۔”

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں نے بھی اعلان کیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ اشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران:۵۲)
جب عیسٰی نے ان کی طرف سے نافرمانی کا احساس کیا تو کہا: کون ہے جو اللہ کے راستے میں میرا مددگار ہو؟ تو حواریوں نے کہا: ہم ہیں انصارِ خدا، اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہی دیں کہ ہم مسلمان ہیں۔”
کیا آج کے مسلمان پہلے نبیوں، ان کی امتوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو مسلمان کہتے ہیں اور کیا ان کے لئے لفظ مسلمان استعمال کیا جائے تو وہ اسے درست جانتے ہیں؟ اس سوال کا جواب خارجی حقائق کی روشنی میں دیا جائے تو پھر ’’نہیں‘‘ ہی کہنا پڑے گا۔ اگر یہ لفظ قرآن حکیم میں لغوی معنی میں آیا ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ اب یہ لفظ ایک خاص اصطلاحی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن حکیم میں یہ لفظ اصطلاحی معنی میں آیا ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ اب یہ اصطلاح محدود ہوچکی ہے۔ یہی حال لفظ اسلام کا ہے۔ آج جنھیں مسلمان کہا جاتا ہے، فقط ان کے دین کو اسلام کہا جاتا ہے، جبکہ قرآن حکیم میں یہ کلمہ اس سے وسیع تر معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسے کلمہ مسلمان وسیع تر معنی میں استعمال ہوا ہے۔

آیئے قرآن حکیم ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن حکیم کہتا ہے کہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ(آل عمران:۱۹)
قرآن حکیم یہ بھی کہتا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے حضور اسلام کے سوا کوئی اور دین لے کر آئے گا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (آل عمران:۸۵)
اور جس نے اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لیا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔”
اگر دین اللہ کے نزدیک صحیح و درست صرف اسلام ہے تو اس کے تمام نبیوں کا دین اسلام ہی ہے۔ اسی طرح اگر اسلام کے سوا کوئی دین اس کے نزدیک قابل قبول نہیں تو تمام نبیوں کا اسی ایک دین کا حامل ہونا ضروری ہے۔ لغت کے اعتبار سے لفظ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو مختلف علمائے لغت نے اسے اطاعت، عبادت میں خلوص اور سلامتی کے معنی میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ صاحب لسان العرب نے مادۂ ’’سلم‘‘ کے ذیل میں ’’اسلام‘‘ کے یہی معنی بیان کئے ہیں:

الاسلام فی اللغۃ: ھو الاستسلام والانقیاد، قال أبوبکر محمد بن بشار: یقال فلان مسلم وفیہ قولان: أحدھما ھو المستسلم لأمر اللہ، والثانی ھوالمخلص للہ العبادۃ۔
لغت میں اسلام تسلیم اور فرمانبرداری ہے۔ ابو بکر محمد بن بشار کہتے ہیں: جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں مسلم ہے تو اس کے بارے میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ وہ اللہ کے امر کو تسلیم کرتا، بجا لاتا اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اس کی عبادت کے لئے مخلص ہے۔
راغب اصفہانی نے المفردات میں لکھا ہے؛

والاسلام کذلک ھوالدخول فی السلم۔
اور اسی طرح سے اسلام سلامتی میں داخل ہونے کو کہتے ہیں۔
قرآن حکیم نے اسلام کے یہ تمام معنی استعمال کئے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات بھی اس کی شہادت دیتی ہیں۔
صلح و سلامتی اور اطاعت کے معنی اس لفظ کے مادہ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (انفال:۶۱)
اور اے نبی اگر یہ لوگ صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کے لیے آمادہ ہو جائیں۔”
نیز یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً(بقرہ:۲۰۸)
اے ایمان والو! تم پوری طرح سے اسلام اور حلقۂ فرمانبرداری میں داخل ہوجاؤ۔”
امیر المومنین حضرت علی ؑ نے بھی اسلام کا معنی بیان کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں اسے التسلیم ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
الاسلام ھوالتسلیم۔۔۔ (نہج البلاغہ، حکمت نمبر۱۲۵)

اگر ہم احادیث نبویؐ کی طرف رجوع کریں تو ہمیں دکھائی دے گا کہ ان میں بھی اسلام اور مسلمان کے کلمات لغوی معنی سے ہم آہنگ بیان کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر مسلمان ہونے کی شرائط کو قرآن حکیم اور احادیث نبوی کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر یہ امر واضح ہو جائے گا کہ قرآن اور رسول اللہ کا مسلمان اور ہے اور اصطلاحی مسلمان اور ہے۔ قرآن اور سنت رسول اس مسلمان کے لئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عموماً اگر ایک شخص مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام مسلمان معاشرے سے ہم آہنگ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر وہ جو کچھ بھی کرتا پھرے جب تک وہ کہے نہ کہ میں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے، اسے مسلمان ہی کہا جاتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ اسے مسلمان نہ کہا جائے، لیکن پھر یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ ضروری نہیں کہ اصطلاحی مسلمان حقیقی مسلمان بھی ہو۔ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کے آئینے میں اپنے آپ کو وہ لوگ بھی دیکھیں جو اپنے تئیں مسلمان سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو دوسروں کی تکفیر کرتے پھرتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button