اسلامی تعلیمات

باب 14 - صلہ رحمی و قطع رحمی

صلہ رحمی

اسلام نے جن معاشرتی اور سماجی حقوق کی تاکید کی ہے اور مسلمانوں کو ان کی پابندی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک اپنے عزیزوں و اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ اچھے اور بہترین روابط قائم رکھنا ہے اسی کو صلہ رحمی کہتے ہیں۔

لہٰذا ایک مسلمان و مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملاقات کرتا رہے اور ان کی مزاج پرسی کرے اور ہمیشہ ان سے اچھے تعلقات رکھے۔ اگر رشتہ دار غریب ہو یا کسی مشکل کا شکار ہوں تو ان کی مدد کرے۔ نیکی اور اچھے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔ اگر ان پہ کوئی مصیبت آ پڑے تو اس مصیبت میں ان کا شریک ہو جائے۔ اور اگر کبھی ان کی طرف سے کوئی غلط رویہ یا ناروا سلوک دیکھے تو بہت احسن اور خوبصورت طریقے سے انہیں نصیحت کرے۔ چونکہ خاندان اور رشتہ دار ہر انسان کے پشت پناہ ہوتے ہیں یعنی اگر کبھی کوئی مصیبت یا افتاد انسان پر آ پڑے تو اس کی نگاہیں اہل خاندان کی طرف ہی جاتی ہیں۔ اسی لیے ان کا حق بھی زیادہ اور بہت عظیم قرار دیا گیا۔

روایات میں صلہ رحمی کرنے کی زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اس معاشرتی مسئلہ کی اہمیت کو روز روشن کی طرح عیاں کیا گیا ہے نمونہ کے لیے چند روایات ملاحظہ ہوں کہ کس طرح اس فریضہ کو دین اسلام کا جز لا ینفک قرار دیا گیا ہے۔ جناب رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ ’’میں اپنی امت کے موجود اور غیر موجود حتیٰ کہ مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے ارحام میں موجود اور قیامت تک آنے والے شخص کو وصیت کرتا ہوں کہ اپنے اعزاء و اقرباء کے ساتھ صلہ رحمی کرے چاہے وہ ایک سال کی (پیدل مسافت) کے فاصلے پر کیوں نہ رہتے ہوں۔ کیونکہ یہ دین کا حصہ ہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ’’اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحمی کرو چاہے وہ تم سے قطع تعلق کر لیں‘‘۔

اسلام چونکہ ایک سہل اور آسان ترین طریقہ حیات ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی ایسا کام ضروری قرار نہیں دیا کہ جس کو انجام دینے کی طاقت اس میں نہ ہو اس لیے صلہ رحمی کے بھی بہت سے مرحلے بیان ہوئے ہیں کہ جو جس حد تک یہ فریضہ آسانی سے انجام نہ دے سکتا ہو اتنا انجام دے۔ چنانچہ رسول اکرمؐ سے منقول ہے کہ ’’اپنے اعزاء و اقرباء سے صلہ رحمی کرو چاہے ایک گھونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو اور صلہ رحمی کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو اذیت نہ دی جائے‘‘۔ اور آپؐ سے ہی منقول ہے کہ ’’اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو چاہے (ان کو) سلام (کرنے) کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

مذکورہ احادیث سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ اچھے تعلقات اور روابط کے استحکام میں صلہ رحمی کا بہت اہم کردار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کسی سے دوری کی بناء پر اس سے ملاقات نہ کر سکیں لیکن ٹیلی فون یا موبائل پر اس سے رابطہ رکھ سکتے ہیں یا اس کے نام ایک خط ہی آپ کی طرف سے اظہار محبت اور صلہ رحمی کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔

صلہ رحمی کے فوائد

جہاں شریعت مقدسہ اسلام میں صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے اور اس کو انجام دینے کے لیے اتنی زیادہ اخبار و احادیث وارد ہوئی ہیں وہیں اس ’’صلہ رحمی‘‘کے بہت سے دنیاوی اور اخروی فوائد کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو فقط وہی کام انجام دینے کا حکم دیتا ہے کہ جس میں لوگوں کی بھلائی اور ان کے لیے فائدہ موجود ہو۔ مختلف روایات میں صلہ رحمی کے یہ فوائد ذکر کئے گئے ہیں۔

1۔ صلہ رحمی کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ صلہ رحمی کرنے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گی اور اس کا ثواب ملے گا وہیں پر اللہ تعالیٰ کی رضایت و خوشنودی بھی حاصل ہوگی۔

2۔ بہت سی روایات سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ صلہ رحمی سے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔

علماء اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مختلف قسم کی خاندانی پریشانیاں اور ناراحتیاں انسان کا جینا دشوار کر دیتی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان جلدی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مر جاتا ہے مگر صلہ رحمی کی وجہ سے کیونکہ یہ اصل وجہ اور جڑ مضبوط ہوتی ہے لہٰذا انسان پرسکون اور لمبی عمر گزارتا ہے۔

3۔ روایات معصومینؑ سے معلوم ہوتا ہے کہ صلہ رحمی کے نتیجہ میں انسان، سکرات موت اور شدائد موت سے محفوظ ہو جاتا ہے اور موت کی سختی بہت کم ہو جاتی ہے۔

4۔ صلہ رحمی، فقر و محتاجی سے مستغنی کر دیتی ہے اور کیوں نہ ہو جب اتنے زیادہ چاہنے والے اور خیال رکھنے والے موجود ہوں تو کوئی کیسے محتاج و فقیر ہو سکتا ہے۔

5۔ صلہ رحمی کی وجہ سے رزق میں اضافہ اور برکت ہوتی ہے۔ پس جو وافر رزق چاہتا ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

6۔ صلہ رحمی کے نتیجے میں انسان کی جان و مال محفوظ رہتے ہیں اور خاندان کی پشت پناہی کی وجہ سے لوگ انسان سے جھگڑا کرنے اور اسے نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد کتب اخلاق و احادیث میں ذکر ہوئے ہیں مگر ہم اختصار کی وجہ سے صرف انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔

قطع رحمی

ہمیں بخوبی معلوم ہو چکا ہے کہ ہمارے مذہب میں صلہ رحمی کی کیا اہمیت ہے لہٰذا یہ جاننا بھی مناسب ہو گا کہ اپنے عزیز و رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لینے کے بعد انسان کو کتنے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قطع رحمی اپنے عزیز و اقارب سے تعلقات و مراسم توڑ لینے کا نام ہے اور اس کی مذہب اسلام میں بہت مذمت کی گئی ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہے کہ:

اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورہ بقرہ:27)

جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا نقصان اٹھانے والے ہیں۔

اس آیت مجیدہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قطع رحمی کرنے والا اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے والا اور زمین پر فساد پھیلانے والے کے برابر و مساوی ہیں اور آپس میں تعلقات کو توڑنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے کسی قسم کی سعادت اور نجات کی امید فضول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیشہ بھائی چارے اور پیار و محبت کا حکم دیا ہے۔

قطع رحمی کے نقصانات

قطع رحمی کے نقصانات (ان فوائد سے ہٹ کر کے جو کہ صلہ رحمی کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتے ہیں) مختلف روایات میں جہاں صلہ رحمی کے فوائد کا ذکر ہوا ہے وہیں قطع رحمی کی مذمت اور اس کے بہت سے نقصانات کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جن کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

1۔ جو قوم قطع رحمی کو رواج دیتی ہے یا ان میں سے کوئی ایک فرد بھی قطع رحمی کرتا ہے تو ان سب پر رحمت الٰہی نازل نہیں ہو سکتی۔

2۔ قطع رحمی کرنے والا جنت کی خوشبو (کہ جو ہزار سال کی مسافت سے سونگھی جا سکے گی) تک نہیں سونگھ سکے گا۔

4۔ قطع رحمی کے نتیجے میں انسان کی عمر گھٹ جاتی ہے۔

5۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس قوم پر نازل نہیں ہوتے کہ جن میں سے کوئی ایک قطع رحمی کرنے والا ہو۔

6۔ اللہ تعالیٰ قاطع رحم کو اس کے اس عظیم گناہ کی سزا اس دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی اسے سزا ملے گی یعنی قطع رحمی کرنے والا اس دنیا میں عذاب لیتے ہوئے مرے گا۔

7۔ قاطع رحم کا ٹھکانہ جہنم ہے اور بے شک یہ بہت برا مسکن ہو گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صلہ رحمی اختیار کرنے اور قطع رحمی اور اس کے مہلک نتائج سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے۔( آمین)