اسلامی تعلیمات

ملاقات مؤمن - حصہ دوم

عیادت

ایک مؤمن کا دوسرے مؤمن پر یہ بھی حق ہے کہ جب بھی اس کا کوئی مؤمن بھائی مریض ہو تو اس کی بیمار پرسی اور عیادت کے لیے ضرور جائے۔ ویسے تو عیادت مؤمن کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں کہ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ ’’ایک مسلمان کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ جب اس سے ملاقات کرئے تو اسے سلام کرے اگر مریض ہو جائے تو اس کی عیادت کرے اور اگر دنیا سے رحلت کر جائے تو اس کی تشییع جنازہ میں شریک ہو‘‘۔

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے جہاں ایک مؤمن کے تیس حقوق کو بیان فرمایا ہے تو ان میں سے ایک یہ بھی بتایا ہے کہ ’’جب وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت کرے اور اس کی مزاج پرسی کرے‘‘۔

فوائد

اس کے علاوہ کئی روایات میں مؤمن کی عیادت کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس کے بہت سے فوائد ذکر کئے گئے ہیں۔ ان سے ہم بعض کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

1۔ عیادت کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے مترادف ہے چنانچہ رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ ’’جب کوئی مسلمان اپنے مریض مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم پاک و پاکیزہ رہو اور تمہارا راستہ بھی صاف ستھرا ہے تم نے جنت میں اپنے لیے ایک گھر بنا لیا ہے‘‘۔

2۔ فرشتے اس شخص کے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ ’’جب کوئی مرد مؤمن کسی مریض کی عیادت کے لیے صبح کو جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں اور جب وہ اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے تو رحمت الہی اسے گھیر لیتی ہے۔ یہ فرشتے اس کے لیے شام تک استغفار کرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو صبح تک یہی صورت حال رہتی ہے۔

3۔ خداوند متعال قیامت کے دن اس شخص سے شکایت کرے گا کہ جو اپنے مؤمن بھائی کی عیادت نہ کرے اور فرمائے گا کہ ’’میرے عزت و جلال کی قسم! اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے نزدیک ہی پاتا اور میں تیری حاجات کا ضامن ہوتا اور تیرے لیے ان کو پورا کرتا‘‘۔

4۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا عرصہ آسانی سے گزرتا ہے جب حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ’’پروردگار! مریض کی عیادت کرنے والے کا کیا ثواب ہے؟ تو پروردگار عالم نے جواب دیا: میں اس کے لیے ایک فرشتہ معین کرتا ہوں جو قبر سے محشر تک اس کی عیادت کرتا رہے گا۔

5۔ عیادت کی وجہ سے انسان کی اپنی حاجات قبول ہوتی ہیں جیسا کہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ ’’جو شخص خدا کی خوشنودی کے لیے کسی مریض کی عیادت کرتا ہے اور مریض اس کے لیے کوئی دعا کرتا ہے تو خداوند عالم اسے ضرور قبول کرتا ہے‘‘۔

6۔ عیادت کرنے سے مؤمنوں کے درمیان رشتہ الفت مزید گہرا ہوتا ہے۔

7۔ عیادت کے سبب جنت میں جگہ ملتی ہے۔

شریعت مقدسہ میں ان فوائد و تشویق پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عیادت کرنے کے آداب و طریقے بھی بیان کئے گئے ہیں کہ کس طرح کسی مؤمن مریض کی عیادت کی جائے؟ ان آداب میں سے اہم طور و طریقے یہ ہیں۔

1۔ عیادت کے لیے جاتے وقت مریض کے لیے کوئی ہدیہ لے جایا جائے تا کہ اس سے مریض کا دل خوش ہو۔

2۔ عیادت کا دوسرا ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے کیونکہ مریض عام طور پر درد و تکلیف سے دو چار ہوتا ہے اور اسے آرام کی سخت ضرورت ہوتی ہے اسی لیے اتنی زیادہ دیر نہ بیٹھا جائے کہ اسے تھکان ہونے لگے۔ اسی وجہ سے رسول اکرمؐ سے منقول ہے کہ ’’بہترین عیادت وہ ہے جو بالکل مختصر ہو‘‘۔

3۔ مریض کی مزاج پرسی کرے اور اس کی صحت وسلامتی کے لیے دعا کی جائے۔

4۔ مریض کو تسلی دینا اور اس کے ارادہ و نفسیات کو مضبوط کرنا بھی عیادت کا ایک رکن شمار کیا جاتا ہے۔

5۔ مریض کی عیادت کرتے وقت مریض سے یا اس کے اہل خانہ سے اپنی مہمانداری و پذیرائی کی امید نہ رکھے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں اس کام سے منع کرے۔

ضیافت و زیارت

شریعت اسلام نے معاشرت اسلامی کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی بیان کیا ہے کہ مؤمنین باقاعدہ طور پر ایک دوسرے سے مربوط رہیں اور ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے رہیں تاکہ اس عمل کے ذریعے ان کے آپس میں پیار و محبت کا رشتہ برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ مزید پروان چڑھے اور اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلہ و مصیبت کا شکار ہو تو ان ملاقاتوں کے ذریعے دوسرے مؤمنین اس کی پریشانی سے آگاہ ہو سکیں اور اس کے مسئلہ کو حد الامکان حل کرنے کی سعی و کوشش کریں۔

اس معاشرتی مسئلہ کی تشویق کے لیے معصومین علیہم السلام کی متعدد روایات موجود ہیں کہ جن میں اس سادہ اور آسان عمل کے بہت سے فوائد بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ ’’جب کوئی مؤمن بغیر کسی کام کے اپنے مؤمن بھائی کے گھر جا کر اس کی زیارت کرتا ہے تو اس کا نام اللہ تعالیٰ کے زائرین میں لکھ دیا جاتا ہے اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے‘‘۔

اسی طرح آپؐ سے ایک اور مقام پر مروی ہے کہ

جب کوئی اپنے مؤمن بھائی کے گھر جا کر اس کی زیارت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میرا مہمان اور میرا زائر ہے پس اب تیری خاطرداری میرے ذمہ ہے اور تیری اپنے بھائی کے ساتھ اس محبت کی وجہ سے میں نے تیرے لیے جنت واجب قرار دے دی ہے۔

اسی ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

جو اللہ کے لیے کسی مؤمن بھائی کی زیارت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے میری زیارت کی اور اس کا ثواب دینا بھی میرے اوپر ہے اور میں تجھے جنت سے کم کوئی اور ثواب دینے پر راضی نہیں ہوں۔

اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں مہمان کو رحمت الٰہی کہا جاتا ہے اور اس کے اور بھی اور بہت سے فائدے ہیں کہ جن کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ مؤمنین کے درمیان الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

2۔ گھر میں مہمان آنے سے ملائکہ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔

3۔ گھر کی خیر و برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔

4۔ رضاء و خوشنودی الٰہی میزبان و مہمان دونوں کا مقدر بنتی ہے۔

5۔ جب مہمان گھر میں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب گھر سے جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہوں کو باہر پھینک جاتا ہے۔

شریعت مقدسہ اسلام نے جہاں اس عمل کو اتنی اہمیت دی ہے وہاں ضیافت کے آداب کو بھی ذکر کیا ہے ان آداب میں سے کچھ میزبان کے متعلق ہیں اور کچھ کا تعلق مہمان سے ہے ان کو اختصار کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:

1۔ ضیافت میں اسلامی اقدار و تہذیب کو ملحوظ رکھا جائے اور دعوت دیتے وقت خیال کیا جائے کہ باعمل اور باایمان افراد کو مدعو کیا جائے۔

2۔ دعوت کو قبول کرنے میں کسی کی امیری اور غریبی کو نہ دیکھا جائے اور اگر کوئی مؤمن بھائی دعوت دے تو اسے فوراً قبول کر لینا چاہیے۔

3۔ مہمان جس وقت دعوت میں پہنچے تو جس مقام پر بھی بیٹھنے کی جگہ ملے بیٹھ جائے اور لوگوں کو پھلانگ کر صدر مجلس تک جانے کی کوشش نہ کرے۔

4۔ میزبان کے لیے ضروری ہے کہ دستر خوان پر تمام ضروری سامان خود مہیا کرے تاکہ مہمان کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔

5۔ میزبان اس ضیافت کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کو مشقت میں نہ ڈالے۔

6۔ ضیافت کی ابتدا میں سب سے پہلے میزبان خود کھانا شروع کرے اور سب سے آخر میں ختم کرے تاکہ اس کے ہاتھ کھینچ لینے کی وجہ سے کوئی مہمان حیا کرکے کھانے سے ہاتھ نہ اٹھا لے۔

خلاصہ:

جہاں شریعت مقدسہ اسلام نے مؤمن کو اتنی اہمیت و مقام عطا کیا ہے وہیں اس دین نے اسے ملاقات کے آداب اور اس کو خوش رکھنے کے طور طریقے بھی بیان کیے ہیں اور ان آداب و طریقوں کو مؤمن کا ضروری حق قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مؤمن بھائیوں کے ان حقوق کو صحیح طرح ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین