اسلامی تعلیمات

باب 4 - نخوت و تکبر

اسلام مساوات اور بھائی چارہ کا مذہب ہے اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ذات پات، رنگ و نسل، خاندان اور زبان کے اضافی تمام اسباب تفاخر و مباہات کو ختم کر دیا ہے اور واضح اعلان کیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ان امور کی وجہ سے کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ ہاں! اگر کسی کے مرتبہ کو دیکھنا ہے تو اس کا معیار ذات الٰہی کی معرفت اور اس ذات سے خلوص کی وجہ سے کسی شخص کے تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے بڑائی کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے مختلف قسم کے درد ناک عذابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ تکبر بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جس کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے۔

تعریف

اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا تصور کرنا اور دوسروں پر اپنے آپ کو برتر ی دینے کا نام تکبر ہے۔ تکبر خود پسندی اور عجب کا نتیجہ ہوتا ہے کہ پہلے انسان اپنے آپ کو اہمیت دیتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مقابلے میں ہیچ و کم تر تصور کرنے لگتا ہے قرآن مجید اور روایات معصومین علیہم السلام میں اس گناہ کبیرہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے برے انجام کے بارے میں واضح الفاظ میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔

چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْن۔َ (سورہ زمر:60)

کیا مغروروں کے آرام کرنے کی جگہ دوزخ نہیں ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

فَادْخُلُوْآ اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ۔ (سورہ نحل:29)

دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ رہو گے تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

اَبٰی وَاسْتَکْبَرَوَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ۔ (سورہ بقرہ:34)

اس (شیطان) نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔

اور اگر ہم روایات معصومین علیہم السلام کی طرف رجوع کریں تو بے شمار ایسی روایات ملتی ہیں جن میں اس قبیح عمل سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’وہ شخص کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر پایا جاتا ہو ‘‘۔

اسی سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

’’عزت وکبریائی اللہ تعالیٰ کا لباس ہے جو اس میں سے کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا خدا اسے منہ کے بل دوزخ میں پھینک دے گا‘‘۔

قیامت کے دن مغرور و متکبر لوگوں کی ذلت و خواری کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا فقط یہ فرمان کافی ہے جس میں امامؑ سے مروی ہے کہ:

’’قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل میں محشور کیا جائے گا لوگ انہیں روندتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حساب سے فارغ ہو جائے گا‘‘۔

اسباب تکبر

مختلف روایات اور احادیث مبارکہ میں تکبر کرنے کی مختلف وجوہات کو بیان کیا گیا ہے ہم یہاں پر چند اہم وجوہات کو مختصرا ً ذکر کریں گے تاکہ ان امور سے بچ کر اس مہلک گناہ میں مبتلا ہونے سے بچا جا سکے:

1۔ احساس کمتری: بعض اوقات انسان احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنے اس عیب کو چھپانے اور ذہنی طور پر پُرسکون رہنے کے لیے تکبر کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

2۔ خود پسندی: جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ تکبر، خود پسندی اور عجب کے نتائج میں سے ہے۔

3۔ حسد: بعض اوقات انسان لوگوں سے حسد اور عناد کی وجہ سے ان کے سامنے خود کو بڑا اور قوی ظاہر کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔

4۔ ریا: خلوص کی کمی اور لوگوں کے سامنے دکھاوے کی عادت بھی انسان کو مغرور بنا دیتی ہے۔

نقصانات

گذشتہ آیات و روایات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ تکبر کتنے بھیانک قسم کے نقصانات کا موجب بنتا ہے ہم ان میں سے چند کو مختصراً بیان کرتے ہیں:

1۔ متکبر شخص معاشرے میں اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔

2۔ لوگوں کی نفرت کی وجہ سے متکبر شخص تنہا رہ جاتا ہے اور اس کے دوست بہت کم ہوتے ہیں۔

3۔ تکبر لوگوں کے درمیان بغض و عناد کا موجب بنتا ہے۔

4۔ تکبر کفران نعمت اور معصیت الٰہی کا موجب بنتا ہے۔

5۔ متکبر شخص اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

6۔ متکبر شخص چونکہ شیطان کی پیروی کرتا ہے لہٰذا وہ اس کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔

7۔ متکبر شخص کے دل پر اللہ تعالیٰ گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔

معاشرے میں نخوت و تکبر

معاشرے میں عام طور پر کسی شخص کو اگر کوئی نوکری مل جاتی ہے یا کسی طالب علم کو امتحان میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے یا کسی شخص کو ملک کی حکومت مل جاتی ہے یا جب کوئی شخص اچھا کاریگر یا انجینئر بن جاتا ہے تو انسان صرف اپنے اوپر اعتماد کرتا ہے اور اپنے خدا پر بھروسہ نہیں کرتا، کبھی تو یہ اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے اور کبھی انسان خود سے کہتا ہے کہ مثلاً نوکری کا حاصل کرنا یا طالب علم کا امتحان میں کامیاب ہونا یا اچھا کاریگر بننا وغیرہ یہ تمام کام میں نے خود اپنی محنت سے حاصل کئے ہیں اور خدا کی عنایت کو بھول جاتا ہے اور اگر کوئی غم آتا ہے یا کسی کاروبار میں نقصان ہوتا ہے یا انسان کو نوکری سے معطل کیا جاتا ہے یا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو فوراً انسان یہ کہتا ہے کہ یہ خدا کی مرضی تھی حالانکہ اگر کوئی شخص اچھا کام کرے تو اسے اس کی اچھائی اور کامیابی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دینی چاہیے یعنی یہ کہنا چاہیے کہ یہ کامیابی اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور جب کوئی نقصان ہو جائے تو انسان کو کہنا چاہیے کہ یہ نقصان میری کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہے۔

نخوت اور تکبر کا ایک واقعہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ والی خراسان مہلب بن ابی صغرۃ ایک دن قیمتی لباس پہنے ہوئے تھا اور وہ لوگوں کے سامنے غرور اور تکبر کے ساتھ چل رہا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ لوگوں کے سروں کو روندتے ہوئے جا رہا ہے۔ اسی اثنا میں ایک شخص اس کے سامنے آیا اور اس شخص نے مہلب بن ابی صغرہ کو کہا اے عبداللہ! آپ کے اس طرح چلنے سے اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ناراض ہوں گے۔ مہلب بن ابی صغرہ نے اس شخص کے جواب میں کہا۔ تجھ پر ویل ہو، کیا تو مجھے جانتا ہے کہ میں کون ہوں؟ اس شخص نے کہا میں تجھے جانتا ہوں کہ تیری انتہا نجس مردار ہے اور ابتداء میں تو ہڈیوں اور گوشت سے بنا ہوا مجسمہ ہے۔ تیرا آغاز کمزور نطفے سے جبکہ تیرا خاتمہ بے قیمت ہے اور تیر ی ساری زندگی اس خوراک کے سہارے ہے جو پاخانہ بن جاتی ہے یہ رہا تیر ا تعارف اب بتا تجھے کس پر تکبر ہے؟