اسلامی تعلیمات

باب 10 - ضیاع وقت

تعریف

غیر ضروری اور بے فائدہ کاموں میں وقت صَرف کرنا ضیاع وقت کہلاتا ہے۔

اس دنیا میں ہر انسان عزت و کمال کا خواہاں ہے اور ہر ایک اس سعی و کوشش میں لگا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ کمال و رتبہ حاصل کرے۔ لیکن قانون قدرت کچھ ایسا ہے کہ جو جتنی محنت کرے گا وہ اس دنیا میں اتنا مقام پائے گا۔

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ (سورہ نجم 39)

اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔

اسی لیے اگر ہم واقعی دنیا وآخرت میں عزت چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت (وقت) کی قدر کرنی ہو گی اور اپنے وقت کو صحیح استعمال کرنا ہو گا اور اسے ضائع ہونے سے بچانا ہو گا کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا بلکہ چپکے سے گزر جاتا ہے اور اس کے گزرنے کے بعد پچھتاوے کے علاوہ اور کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی ہے۔

جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

اپنے فرصت کے اوقات سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ فرصت کے لمحے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے بادل آتے اور گزر جاتے ہیں۔

لہٰذا اس مختصر سی زندگی میں جتنے بھی فارغ لمحات نصیب ہوں انہیں غنیمت جاننا چاہیے اور انہیں فضول اور لغو کاموں میں نہیں گزارنا چاہیے۔

اسی لیے حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

مؤمن کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے اوقات مشغول ہوتے ہیں۔

ضیاع وقت دو طریقوں سے ممکن ہے

1۔ وہ کام جو شریعت میں ممنوع ہیں ان کو انجام دینا مثلا گانا سننا یعنی حرام امور کا انجام دینا۔

2۔ وہ کام جن کی انسان کو ایک مخصوص حد تک ضرورت ہوتی ہے ان کو حد سے زیادہ انجام دینا۔ مثلاً جسم کو تندرست رکھنے کے لیے ایک یا دو گھنٹے کی ورزش کی بجائے صبح و شام کھیل کود میں لگے رہنا۔ اسی طرح جسم کے لیے چوبیس گھنٹوں میں سے پانچ سے چھ گھنٹوں کی نیند کافی ہوتی ہے تو اگر انسان پندرہ گھنٹے سوتا رہے تو یہ ضیاع وقت شمار ہو گا۔

یاد رہے کہ جو لوگ حرام کام کے ذریعے وقت کا ضیاع کرتے ہیں ان کو دو عذاب ملیں گے۔

1۔ حرام کام کرنے کا

2۔ ضیاع وقت کا

وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیں بہت سی ایسی روایات ملتی ہیں کہ جن میں ہمیں وقت کی قدر کرنے اور اس کے صحیح استعمال کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے جیسا کہ حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ:

اے لوگو! تقویٰ اختیار کرو تمہیں فضول خلق نہیں کیا گیا ہے۔ کہ تم وقت ضائع کرتے رہو اور نہ ہی تمہیں بے لگام چھوڑا گیا ہے کہ اپنی من مانی کرو۔

ایک اور مقام پہ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

’’ضیاع وقت حماقت اور بیوقوفی کی خوراک ہے‘‘۔

اس روایت میں ضیاع وقت کو حماقت کی خوراک کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس میں حماقت کا درخت لگا چکا ہے اور ضیاع وقت اس کی خوراک ہے۔ جس کے ذریعے وہ درخت بڑا ہوتا جاتا ہے اور نتیجہ میں وہ ضیاع وقت کی وجہ سے بیوقوف بن جاتا ہے۔

اسی طرح منقول ہے کہ:

’’ضیاع وقت جہالت کا پھل ہے‘‘۔

یعنی وقت کا ضائع کرنا انسان کے جاہل ہونے کی علامت ہے اور صرف وقت کی اہمیت سے جاہل شخص ہی اس کو فضول کاموں میں صَرف کرتا ہے۔

اور ملتا ہے کہ:

’’سب سے بری زندگی وہ ہے جو فضول کاموں میں بسر ہو‘‘۔

عام طور پر وقت کہاں ضائع ہوتا ہے؟

1۔ حد سے زیادہ سونا یا کھیل میں مشغول رہنا

2۔ بے فائدہ گپ شپ کرنا

3۔ ایسے امور میں مشغول رہنا کہ جن سے انسان کو کوئی دائمی فائدہ ملنے کی امید نہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

’’ہر دن ایک نئی زندگی ہے‘‘۔

کیونکہ جو دن گزر گیا وہ اب دوبارہ ہاتھ میں نہیں آئے گا اور مستقبل کا انسان کو بھروسہ نہیں ہے کہ آیا وہ آنے والا دن دیکھے گا یا نہیں دیکھے گا؟ پس ہر دن کو اہمیت دو اور اس کے ہر لمحہ سے جس قدر ممکن ہو فائدہ اٹھاؤ۔

امامؑ سے مروی ہے کہ:

جس نے ایک دن ضائع کر دیا وہ یقین رکھے کہ اس نے ایک زندگی ضائع کردی، پس آنے والے دن کو اسی طرح اہمیت دو جیسے ایک زندگی کو اہمیت دیتے ہو۔ جس نے وقت کی قدر و منزلت کو جان لیا تو وہ ایک دن میں وہ کام بھی کر سکتا ہے جو اکثر لوگ ساری زندگی میں نہ کر سکے۔ پس اپنے وقت کو بچاؤ اور ہر ایک منٹ کو اتنی اہمیت دو جتنی تم ایک سال کو اہمیت دیتے ہو اور ایک منٹ کے گزر جانے پر اسی طرح فکر کرو جس طرح تم ایک سال کے گزرنے پر کرتے ہو۔ لہٰذا اپنی زندگی کا کوئی مختصر سا لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔

امام علی علیہ السلام سے ایک شعر منقول ہے کہ:

’’ماضی ختم ہو چکا ہے اور مستقبل کس نے دیکھا؟ پس اٹھو اور کمر ہمت باندھ لو۔ اور دو معدوم زمانوں (ماضی و مستقبل) کی درمیانی فرصت کو غنیمت سمجھو‘‘۔

اس شعر میں امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام گزرے وقت پر واویلا کرنے اور اسی کو سوچ سوچ کر وقت ضائع کرنے اور آئندہ زمانے پر امید رکھنے کو منع فرما رہے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ ماضی پر صرف پشیمانی کرکے اور مستقبل پر بھروسہ رکھ کر اپنے آپ کو برباد نہ کرو بلکہ زمانہ حال اور موجود لمحات کو غنیمت گردانتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھاؤ۔ پس صرف یہی سوچتے رہنا کہ ماضی میں کیا ہو چکا اور آئندہ کیا کرنا ہے درست نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ میں اس وقت کیا کر رہا ہوں۔ البتہ گزشتہ سے عبرت لینا اور آئندہ کے لیے مقصد و ہدف مقرر کرنا درست ہے اور اس سے منع نہیں فرمایا گیا ہے۔