اسلامی تعلیمات

باب 20 - تقیہ

تقیہ کا معنی بچنا اور بچانا کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں تقیہ کا مطلب یہ ہو گا کہ جان و مال اور عزت و ناموس کے خطرے کی وجہ سے اپنے عقیدے کو چھپانا تاکہ اس کی جان و مال اور عزت و ناموس محفوظ رہے جبکہ عقیدے کو ظاہر کرنے سے دین کے لیے کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہوتا ہو۔

تقیہ ایک دفاعی ڈھال:

یہ صحیح ہے کہ انسان کبھی بلند مقاصد، شرافت کے تحفظ اور حق کی تقویت اور باطل کے تزلزل کے لیے اپنی جان قربان کر سکتا ہے۔ لیکن کیا کوئی عقلمند شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ بغیر کسی خاص مقصد کے انسان اپنی جان کو خطرے میں ڈالے؟ اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر انسان کی جان، مال یا عزت خطرے میں ہو اور انسان ہٹ دھرم اور متعصب افراد کے چنگل میں پھنس جائے کہ جہاں حق کا اظہار کرنے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو تو وقتی طور پر حق بات کا اظہار نہ کرے بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے ایسے موقع پر حق مخالف عقیدے کا اظہار بھی کر سکتا ہے تاکہ وقتی طور پر اس کی جان چھوٹ جائے لیکن اپنے دل میں ایمان کو باقی رکھے۔

قرآن مجید میں واضح طور پر ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جان و مال اور عزت کے خطرہ میں پڑجانے کی صورت میں جب اسلام کا اظہار کرنے سے کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہوتا ہو تو انسان حق بات کو چھپا سکتا ہے اور زبان سے باطل نظرئیے کا اظہار کر سکتا ہے۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بَالْاِیْمَانِ (سورہ نحل106)

جو شخص بھی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے سوائے اس شخص کے کہ جس کو کفر پر مجبور کر لیا جائے جب کہ اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو۔

اس آیت کے شان نزول میں شیعہ سنی مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت عمار یاسرؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت عمار یاسرؓ کو مشرکین نے پکڑ لیا اور ان پر تشدد کیا قریب تھا کہ ان کو جان سے مار دیتے مگر مشرکین نے کہا اگر تم اسلام سے بیزار ی کا اظہار کرو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ حضرت عمار یاسرؑ نے جب دیکھا کہ جان بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں ہے تو جو باتیں مشرکین کہتے تھے وہ باتیں حضرت عمارؑ نے زبان سے کہہ ڈالیں اور جب حضرت عمارؑ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خوف خدا کی وجہ سے روتے ہوئے آرہے تھے (اور یہ واقعہ بیان کیا) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا:’’اگر دوبارہ ان کے ہاتھوں میں آجاؤ تو جو وہ کہیں کہہ ڈالا کرو‘‘ اور ساتھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عمار یاسرؑ کے آنسو بھی صاف کر رہے تھے۔

ایک اور جگہ قرآن مجید میں آل فرعون میں سے ایک شخض کی خداوند کریم نے تعریف و مدح فرمائی کہ جو اپنا ایمان فرعونیوں سے چھپا کر رکھتا تھا اور اسے مؤمن کہہ کر یاد فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہ (سورہ مؤمن:28)

اور آل فرعون میں سے ایک مؤمن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا۔

گذشتہ قرآنی آیات کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات ہیں کہ جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جب انسان کی جان خطرے میں پڑ جائے اور حق عقیدہ کا اظہار کرنا کوئی خاص مقصد اور فائدہ بھی نہ رکھتا ہو تو فقط زبانی طور پر انسان اپنے ایمان کو چھپا سکتا ہے۔

عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اگر ہٹ دھرم افراد کے سامنے اسلام اور حق کا اظہار کیا جائے اور وہ لوگ ایسے شخص کو مار ڈالیں تو سب عقلمند لوگ کہیں گے کہ اسلام کا اظہار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر اسلام کا اظہار نہ کرتا تو کوئی نقصان نہ ہوتا۔ لیکن جب اسلام کو چھپانے اور حق عقیدہ کا اظہار نہ کرنے سے اسلام کو خطرہ ہو، اسلام کے مٹ جانے کا ڈر ہو یا عقیدہ حق کے مٹ جانے کا ڈر ہو تو اس صورت میں تمام عقلاء اپنی جان قربان کر دینے کو عظیم مقصد کہتے ہیں۔ جبکہ اسلام کا اظہار نہ کرنے اور حق بات نہ بتانے کو بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ تقیہ کرنا جائز نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات واجب ہوتا ہے بعض اوقات مباح اور بعض اوقات تقیہ کرنا حرام بھی ہوتا ہے اور یہی صورتحال ہمیں اوائل اسلام میں نظر آئی ہے کہ اگر حضرت بلالؑ جیسے لوگ اسلام کا اظہار نہ کرتے اور اپنی جان بچانے کی فکر کرتے تو اسلام کو خطرہ تھا پس حضرت بلال کا تکلیفیں برداشت کرنا اور اسلام کا کھلم کھلا اظہار کرنا اسلام کی خاطر تھا۔ جس طرح حضرت امام حسینؑ اگر حق کا اظہار نہ کرتے تو اسلام نہیں بچ سکتا تھا۔ بلکہ اسلام کے تمام قوانین مٹ جاتے۔ حلال اور حرام میں فرق نہ رہتا۔ پس اگر ایسی صورتحال بن جائے کہ حق کا اظہار نہ کرنے سے حق کو خطرہ اور حق و باطل کے ایک ہو جانے کا ڈر ہو تو پھر تقیہ کرنا حرام ہے۔ لیکن اگر اسلام کا اظہار کرنے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو پھر اپنی جان بچانا واجب ہے اور تقیہ کرنا بھی واجب ہے۔ یہ بات پوری دنیا میں رائج ہے کہ مجاہدین اور جنگجو لوگوں کی اقلیت، ظالم اور جابر اکثریت کا تختہ پلٹنے کے لیے عام طور پر خفیہ طریقے پر عمل کرتی ہے اور انڈر گراؤنڈ کچھ لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے اور پوشیدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پس اس صورت میں حق کو چھپایا جاتا ہے۔ چونکہ عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مجاہدین کی تھوڑی سی تعداد حق کا اظہار کرکے اپنے آپ کو مروا بیٹھے اور کوئی فائدہ بھی حاصل نہ ہو بلکہ ایسے افراد کو اپنی افرادی قوت کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ جب پھر پوری افرادی قوت حاصل کر لیں اور پھر حق کا اظہار کریں تو حق کا اظہار کرنے کا کوئی فائدہ بھی ہو۔