اسلامی تعلیمات

باب 6 - ایک مفید ملاقات

سعید: السلام علیکم!

عامر: وعلیکم السلام

سعید: سناؤ! آج سکول میں کیسا دن گزرا؟

عامر: عافیت رہی مگر آج کامران کو بہت ڈانٹ پڑی۔ اس کی عادتیں جو بہت بری ہیں اور وہ پورا دن شرارتوں اور گالی گلوچ میں ہی لگا رہتا ہے اور لڑائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔

سعید: چھوڑو یار، کسی کی غیبت کرنا اچھی بات نہیں ہوتی۔

عامر: لیکن میں تو اس کے بارے میں سچ ہی بتا رہا ہوں۔

سعید: یہی تو غیبت ہوتی ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا جو اس میں پائی جاتی ہو مگر وہ اپنے اس عیب کو سننا پسند نہ کرتا ہو اور اسے اس کے اظہار سے تکلیف ہوتی ہو۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ: ’’غیبت یہ ہے کہ تو اپنے دینی بھائی کا وہ عیب بیان کرے جسے خدا نے چھپا رکھا ہو‘‘۔

عامر: اوہ! میں تو اس بات کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا۔

سعید: ہاں! اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم لوگ اس گناہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور اس کو انجام دے کر نقصان اٹھاتے ہیں۔

عامر: یار غیبت کرنے کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

سعید: قرآن مجید کی آیات اور روایاتِ معصومینؑ میں غیبت کرنے کے بہت سے نقصانات بیان ہوئے ہیں۔

عامر: اچھا! قرآن مجید میں کیا کہا گیا ہے؟

سعید: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اِنْ یَأْکُل َلَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ (سورہ حجرات:12)

ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ (حالانکہ) اس سے تم ضرور نفرت کرو گے۔

یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے والے کے لیے بہت سخت عذاب ہونے کی خبر دی ہے۔

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (سورہ نور:19)

بے شک وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں برائی کو فروغ ملے تو ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔

عامر: اور احادیث میں اس کے کیا نقصانات بیان ہوئے ہیں؟

سعید: غیبت کی مذمت اور اس کے نقصانات کو بیان کرنے کے لیے تو بہت سی روایات ملتیں ہیں مگر جتنا مجھے یاد آرہا ہے میں فقط ان کا خلاصہ بیان کروں گا۔

عامر: چلو ٹھیک ہے۔

سعید: روایات میں ہمیں ملتا ہے:

1۔ غیبت کرنا کسی مردار کھانے سے بڑا گناہ ہے۔

2۔ روایات میں غیبت کو زنا سے بھی بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے کیونکہ اگر زانی توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے مگر غیبت کرنے والے کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ شخص اسے معاف نہ کرے کہ جس کی غیبت اس نے کی تھی۔ یعنی ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی ہے۔ (عامر: اوہ اچھا!)

3۔ اور روایات میں غیبت کو جہنم کے کتوں کی غذا کہا گیا ہے تو یقینی بات ہے کہ غیبت کرنے والے کا ٹھکانہ بھی جہنم ہو گا۔

4۔ غیبت میں جب کوئی دوسروں کے رازوں کو فاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کا پردہ چاک کر دیتا ہے اور وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

5۔ اور غیبت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس عمل قبیح کو انجام دے کر انسان اللہ تعالیٰ اور معصومینؑ کو ناراض کرتا ہے اور ان کی ناراضگی دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث بنتی ہے۔

عامر: اچھا غیبت کرنا تو حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص غیبت کر رہا ہو تو کیا اس کو سن سکتے ہیں؟

سعید: جی نہیں، جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم ؐسے منقول ہے کہ ’’غیبت سننے والا غیبت کرنے والے کے برابر ہے اور غیبت پر کان دھرنے والا غیبت کرنے والوں میں سے ہے‘‘۔

عامر: کیا کوئی ایسا مقام بھی ہے جہاں غیبت کرنا جائز ہو؟

سعید: ہاں! چند ایک مقامات ہیں۔

1۔ ایسا شخص جو کھلم کھلا گناہ کرتا ہو اسکی غیبت جائز ہے۔

2۔ اسی طرح ظالم کے ظلم کو بیان کرنے کے لیے اس کی غیبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

3۔ اگر کوئی مشورہ طلب کرے اور کسی کے بارے میں رائے مانگے تو اس شخص کے عیوب کو بیان کیا جا سکتا ہے کہ جس کے بارے میں مشورہ مانگا گیا ہو۔

4۔ اور ایسے شخص کے عیبوں سے پردہ اٹھانا جو خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہو۔

5۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے کی اصلاح کے لئے کسی کے عیوب بیان کرنا ضروری ہوں تو یہاں بھی درست ہے۔

عامر: بہت شکریہ سعید! مگر ایک بات ہے اگر کسی میں کوئی برائی پائی جاتی ہو تو اس کو بیان کرنے کا اتنا عذاب ہے لیکن اگر کسی میں کوئی برائی نہ ہو اور اس کے باوجود اس کی طرف کسی برائی کی نسبت دی جائے تو؟

سعید: ہاں! یہ تہمت کہلاتی ہے۔ یہ غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے اور انسان کو ان مقامات سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ شریعت اسلام نے مؤمن کو بہت اہمیت دی ہے اور جب اسلام اس میں موجود عیوب کو فاش کرنے سے منع کرتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی ایسی بات برداشت کرے جو مؤمن میں اصلاً پائی ہی نہ جاتی ہو۔

عامر: ہاں یار! یہ تو ہے۔

سعید: ہاں! یاد رہے کہ انسان کو ایسے مقامات سے بھی گریز کرنا چاہیے جہاں اس پر تہمت لگ سکتی ہو۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

’’جو شخص تہمت کے مقام پر جائے تو پھر اس پر لگنے والے الزامات سے اس کو ملامت نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

عامر: اچھا سعید! یہ چغل خوری کیا ہوتی ہے؟

سعید: ہاں! چغلی خوری یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے کسی کے بارے میں کوئی بری بات کہے اور آپ اس سے جا کر یہ کہیں کہ فلاں نے تمہارے بارے میں یہ کہا ہے تو یہ چغل خوری کہلائے گی۔

عامر: تو اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

سعید: ویسے تو اس کے بہت سے نقصانات ہے مگر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دو مؤمن بھائیوں کے آپس میں تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور ان کی آپس میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے اور قرآن کریم میں فتنہ و فساد کو قتل سے زیادہ برا کہا گیا ہے لہٰذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے اشخاص کے ساتھ کبھی دوستی نہ کریں۔

عامر: شکریہ دوست! آج آپ نے میری آنکھیں کھول دیں آئندہ میں کسی کی غیبت نہیں کروں گا۔ اور نہ ہی کسی پر تہمت لگاؤں گا اور ہمیشہ چغل خوری اور چغل خوروں سے بچوں گا۔

سعید: اللہ تعالیٰ ہمیں ان گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔

عامر: آمین! خدا حافظ