اسلامی تعلیمات

باب 19 - قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)

اہل بیت علیہم السلام کی محبت اجر رسالت

قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ (سورہ شوریٰ 23)

کہہ دیجیے: میں اس (تبلیغ رسالت ) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔

اس آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو یہ باور کرایا ہے کہ اگر تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کی زحمتوں کا صلہ دینا چاہتے ہو تو وہ صرف تبھی دیا جا سکتا ہے کہ جب ان کے اہل بیت علیہم السلام تم سے راضی ہو جائیں اور تم ان سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرو۔ شیعہ سنی دونوں مکاتب فکر کی بنیادی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں کہ جن کی محبت ہم پر واجب ہو گئی ہے؟ فرمایا، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ لہٰذا جو کوئی رسالت کا حق ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اہل بیت رسول علیہم السلام سے محبت کا حق ادا کرے۔

اہل بیت علیہم السلام اصحاب اعراف ہیں

قیامت کے روز خداوند متعال اپنی مخصوص برگزیدہ ہستیوں کو جنت اور جہنم کا نظارا کروانے کا اہتمام کرے گا اور اس نظارے کے لیے جنت اور جہنم کے درمیان ایک مخصوص جگہ بھی بنائی گئی ہے جس کا نام مقام اعراف ہے۔ سورہ اعراف آیت 46 کے مطابق جب ان مخصوص شخصیات کو مقام اعراف پر پہنچنے کا اعزاز حاصل ہو گا تو یہ اہل جنت اور اہل دوزخ سے گفتگو بھی کریں گے۔

ارشاد رب العزت ہے:

(اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔ (سورہ الاعراف 46تا48)

اصحاب اعراف کے بارے میں متعدد آیات میں آیا ہے کہ پل صراط پر موجود اعراف نامی بلند مقام پر جو اصحاب جنت اور جہنم کا نظارا کرنے آئیں گے، ان سے مراد ’’آئمہ اہل بیت علیہم السلام‘‘ ہیں۔ مجمع البیان میں ہے کہ اہل سنت عالم ابوالقاسم جسکانی نے اسبع بن نباتہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے ابن الکواء کو بتایا کہ ہم ہی اصحاب اعراف ہیں۔

اہل بیت علیہم السلام اہل ذکر ہیں

عقلاء کی یہ روش ہے کہ وہ جس بات سے لاعلم ہوتے ہیں اس کے لیے ان لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس بات سے کاملاً باخبر ہوں۔ جیسے جاہل عالم کی طرف اور مریض ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتا ہے۔ خداوند متعال نے اپنی کتاب قرآن مجید میں لاعلمی کی صورت میں اہل الذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد قدرت ہے۔

فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ (سورہ نحل 43)

اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہل ذکر سے مراد کون لوگ ہیں؟

حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے:

نحن اھل الذکر و نحن مسٔولون۔ (اصول کافی، ج1، 210)

ہم اہل بیتؑ ہی اہل ذکر ہیں اور ہم سے سوال کیا جانا چاہیے۔

مستضعفین سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہیں

وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ (سورہ قصص 5)

اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

یہ آیت ایک طرف آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کو بیان کرتی ہے تو دوسری طرف نظام ولایت و حکومت کو ان کا حق بھی بتاتی ہے۔ بہت ساری روایات میں اس آیت سے اہل بیت علیہم السلام مراد لیا گیا ہے کہ مستضعفین (یعنی جنہیں بے بس کر دیا گیا ہے) سے مراد آئمہ اہل بیتؑ ہیں۔ اور نجعلھم الوارثین (یعنی جنہیں ہم وارث بنائیں گے) سے مراد امام زمانہ علیہ السلام ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ دنیا اپنی منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح سرکش اونٹنی اپنے بچوں کی طرف جھکتی ہیں۔ اس کے بعد آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

(نوٹ) عزیز دوستو! ان آیات کے علاوہ بھی قرآن مجید میں دسیوں آیات ایسی ہیں جن میں صریحاً اہل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی کی گئی ہے مگر ہم نے اس مختصر کتاب میں انہی آیات پر اکتفاء کیا ہے۔