اسلامی تعلیمات

باب 20 - موسیقی

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے توسط سے انسانوں کو جو تعلیم دی ہے وہ دنیا و آخرت دونوں میں ان کی سلامتی کی ضامن ہے انبیاء علیہم السلام انسانوں کے حقیقی رہنما تھے انہوں نے انسانوں کی خیر خواہی کی اور ان کو نقصان دہ چیزوں سے منع فرمایا۔ لیکن انسانوں کی بد نصیبی یہ رہی ہے کہ انہوں نے انبیاء علیہم السلام کی باتوں پر عمل نہ کیا اور ان کو انسانی آزادی میں رکاوٹ کہہ کر اس سے منہ موڑ لیا۔ اس کی واضح مثال موسیقی کی صورت ہمارے معاشرے میں موجود عفریت سے دی جا سکتی ہے۔

غنا اور موسیقی

غنا اور موسیقی ہر اس آواز کو کہا جا تا ہے جو لہو ولعب کی محفل کے لیے مخصوص ہو۔

اسلام نے اس کی حرمت اور گناہ کبیرہ ہونے کا کھلے لفظوں میں اظہار کیا ہے مگر ابھی بھی ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو اس کو ’’روح کی غذا‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ عصر حاضر میں نوجوانوں میں موجود اخلاقی بیماریوں میں سے ایک مہلک ترین مرض ہے اور یہ اس قدر عام ہو چکی ہے کہ لوگ اس کو سرے سے گناہ ہی تصور نہیں کرتے اگر کوئی گناہ کہتا بھی ہے تو ایک معمولی درجہ کا گناہ شمار کرتا ہے۔

لیکن جب ہم قرآن مجید اور روایات معصومین علیہم السلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے گناہ کبیرہ ہونے کا علم حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْر (حج 35)

بتوں کی ناپاکی اور لغو باتوں سے بچو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ اپنے مقرب بندوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ (سورہ فرقان:72)

(رحمٰن کے بندے) محفل زور میں شرکت نہیں کرتے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

’’قول زور اور محفل زور سے مراد غنا اور موسیقی کی محفل ہے اور غنا منافقت کا سر چشمہ ہے‘‘۔

اس برے کام کی مذمت میں آیات مبارکہ کی طرح بہت زیادہ احادیث بھی نقل ہوئی ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ ’’لہویات میں مشغول رہنا بھی گناہ کبیرہ ہے‘‘۔

روایات میں صرف گانا گانے کی ممانعت نہیں کی گئی بلکہ گانا سننے اس کے سازوں کو بنانے اور انہیں بجانے اور ان کی خرید و فروخت تک کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ

جو کسی بولنے والے کی آواز پر کان دھرتا ہے تو گویا وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اگر بولنے والا خدا کا پیغام پہنچا رہا ہے اور سننے والا اس پر دھیان دے رہا ہے تو گویا وہ اللہ کی عبادت کر رہا ہے اور اگر بولنے والا شیطان کا پیغام پہنچا رہا ہے اور سننے والا اس کی طرف کان لگاتا ہے تو گویا وہ شیطان کی عبادت کر رہا ہے۔

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

قیامت کے دن سارنگی بجانے والے کا منہ کالا ہو گا اس دن اس کے ہاتھ میں دوزخ کی آتشیں سارنگی ہوں گی اور ستر ہزار فرشتے فولادی گرز سے اس کے سر اور منہ پر ضربیں لگا رہے ہوں گے اور سارنگی بجانے والا جب قبر سے نکلے گا تو اندھا، بہرا اور گونگا ہو گا۔

ماضی میں انسان نے اپنی جہالت اور سرکشی کی وجہ سے آسمانی تعلیمات پر عمل نہیں کیا اور آج بھی آسمانی تعلیمات اس کی رگ و پے میں نہیں سما رہیں مگر میڈیکل سائنس نے بتا دیا ہے کہ آسمانی تعلیم جن چیزوں سے روکتی ہے وہ بلاشبہ انسانی صحت کے لیے مضر اور نقصان دہ ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ’’ولف ایڈلر‘‘ نے ثابت کیا ہے کہ موسیقی انسانی حافظے اور اعصابی نظام کو انتہائی کمزور کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر ایڈلر نے موسیقی کے نقصانات پر ایک مفصل رسالہ شائع کیا جس کی وجہ سے امریکہ میں بہت سے لوگوں نے موسیقی کو اپنے اوپر ممنوع قرار دیا ہے۔

نقصانات

روایات معصومین علیہم السلام میں موسیقی کے بے تحاشا نقصانات بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ جس گھر میں موسیقی کی محفلیں ہوتی ہوں وہ رسوائی سے محفوظ نہیں رہتا۔

2۔ ایسے گھروں میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوتے۔

3۔ایسے افراد کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔

4۔ ایسے افراد کا ایمان ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ نفاق لے لیتا ہے۔

5۔ ایسے افراد کی حیا ختم ہو جاتی ہے اور اگر لوگ ان کی عورتوں سے بد کاری کریں تب بھی ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔

6۔ ایسے افراد پر ایک شیطان مسلط ہو جاتا ہے اور وہی ان کو قابو کرتا ہے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے۔

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کی علامات بیان کرتے ہوئے امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس زمانے میں موسیقی کے ساز عام ہوں گے اور موسیقی عروج پر ہو گی اور کوئی کسی کو اس سے منع نہیں کرے گا اور اس پر آشوب دور میں کسی کو اس سے منع کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔

معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی ہمارے زمانے میں پوری ہو چکی ہے کیونکہ آج کل لوگ بےباکی کے ساتھ یہ گناہ کر رہے ہیں اور کوئی روکنے کے لیے تیار نہیں اور اگر کوئی یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لوگوں کے سب و شتم اور مذاق کا نشانہ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس پر آشوب دور کے فتنوں سے ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ (آمین)