اسلامی تعلیمات

باب17 - اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے

قرآن مجید کا موضوع ہدایت انسانی ہے۔ اس میں بشریت کی ہدایت کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ کبھی ترغیب دلائی ہے تو کبھی خوش خبری کا انداز اپنایا ہے جبکہ کبھی ڈرایا اور دھمکایا بھی ہے جبکہ بعض اوقات قصے اور کہانیوں کی صورت میں انسان کو صحیح راستے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ حق کی پیروی کریں اور باطل کو چھوڑ دیں۔ حق کی پیروی پر اکسانے کے لیے قرآن مجید نے نہایت دلچسپ انداز اپناتے ہوئے قیامت کے دن پیش آنے والے ایک واقعے کی تصویر کشی کی ہے۔جو دلچسپ بھی ہے اور باعث غور و فکر بھی۔

روز حساب، میزان پر اعمال تولے جانے کے بعد جنتیوں کو جنت میں اور مجرموں کو دوزخ میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔ گناہگار اور نیکوکار سب اپنے اپنے مقررہ مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ ایسے وقت میں اہل جنت اور اہل دوزخ کو آپس میں گفتگو کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس دوران وہ کیا گفتگو کریں گے۔ آئیے! قرآن مجید سے جانتے ہیں:

تم جہنم میں کیوں ہو:

سورہ مدثر میں اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل دوزخ کے ساتھ ہونے والی ان کی ایک گفتگو ذکر کی ہے۔ جس میں وہ اہل دوزخ سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ تم لوگ جہنم میں کیوں ڈالے گئے ہو؟ تم سے ایسی کون سی غلطی اور گناہ ہوا جس پر تمہیں عذاب دیا جا رہا ہے؟ جہنمی کیا جواب دیں گے، قرآن ہی سے جانتے ہیں:

مجرموں سے پوچھ رہے ہوں گے کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا ؟ وہ کہیں گے: ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے اور ہم بیہودہ بکنے والوں کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ (سورہ مدثر،41 تا 47)

دوستو! ان آیات میں جہنمی وہ کام گنواتے ہیں جن کی پاداش میں انہیں جہنم میں ڈالا گیا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ موت کے بعد عذاب خدا سے دور رہ سکیں۔

سناؤ! اللہ تعالیٰ کے وعدے کیسے پائے؟

انسان کس قدر ناداں ہے کہ اس کے رحیم و کریم رب نے اسے اچھی اور بری تمام باتوں سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کا نفع و نقصان اس کو سمجھا دیا ہے۔ پھر بھی اکثر اوقات وہ ایسی چیز کی طرف پہل کرتا ہے جو اس کی روح کے لیے تکلیف دہ بھی ہوتی ہے اور نقصاندہ بھی۔ وہ عارضی لذت کی خاطر اپنے خالق اکبر کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔ نہ جانے اس کو اپنے خالق کے اس وعدے پر اعتبار نہیں جو اس نے نیکوکاروں سے کر رکھا ہے یا پھر اس عذاب سے مطمئن ہے جو گناہ گاروں کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ اہل جنت قیامت کے روز ان کو اسی بات کا طعنہ دیں گے کہ کیا تمہیں اپنے رب کے وعدے پر اعتبار نہ تھا اور کہیں گے:

اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے: ہاں۔ تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (سورہ اعراف 44)

ہائے پیاس! پانی پلادوـ

قیامت کے روز جب نیکوکاروں کو ان کی محنت کا صلہ مل جائے گا تو انہیں دنیاوی مشکلات، آزمائشیں اور ابتلائیں جنت کی آسائشوں کے مقابلے میں کچھ بھی نظر نہ آئیں گی۔ اور وہ جنت کی ابدی نعمتوں میں غرق ہوں گے۔ عین اسی وقت اہل دوزخ بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دوزخ کی آگ، فرشتوں کی جھڑکیاں اور بھوک و پیاس۔ ہر طرح کا عذاب ان پر مسلط ہو گا۔ جب کچھ نہ بن پڑے گا تو جنتیوں سے ایک فریاد کریں گے:

وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾ (سورہ اعراف 50)

اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے! تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دویا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے (اور یہ تمہیں ہرگز نہیں مل سکے گا)۔

تذکر

عزیز دوستو! دنیا دارلعمل ہے ابھی وقت اور مہلت دونوں باقی ہیں۔ آئیے ان سے بھر پور استفادہ کر تے ہوئے اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل کر لیں تاکہ قیامت کے روز عذاب و فریاد سے نجات پائیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو!