قرآن مجید کا موضوع ہدایت انسانی ہے۔ اس میں بشریت کی ہدایت کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ کبھی ترغیب دلائی ہے تو کبھی خوش خبری کا انداز اپنایا ہے جبکہ کبھی ڈرایا اور دھمکایا بھی ہے جبکہ بعض اوقات قصے اور کہانیوں کی صورت میں انسان کو صحیح راستے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ حق کی پیروی کریں اور باطل کو چھوڑ دیں۔ حق کی پیروی پر اکسانے کے لیے قرآن مجید نے نہایت دلچسپ انداز اپناتے ہوئے قیامت کے دن پیش آنے والے ایک واقعے کی تصویر کشی کی ہے۔جو دلچسپ بھی ہے اور باعث غور و فکر بھی۔
روز حساب، میزان پر اعمال تولے جانے کے بعد جنتیوں کو جنت میں اور مجرموں کو دوزخ میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔ گناہگار اور نیکوکار سب اپنے اپنے مقررہ مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ ایسے وقت میں اہل جنت اور اہل دوزخ کو آپس میں گفتگو کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس دوران وہ کیا گفتگو کریں گے۔ آئیے! قرآن مجید سے جانتے ہیں:
تم جہنم میں کیوں ہو:
سورہ مدثر میں اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل دوزخ کے ساتھ ہونے والی ان کی ایک گفتگو ذکر کی ہے۔ جس میں وہ اہل دوزخ سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ تم لوگ جہنم میں کیوں ڈالے گئے ہو؟ تم سے ایسی کون سی غلطی اور گناہ ہوا جس پر تمہیں عذاب دیا جا رہا ہے؟ جہنمی کیا جواب دیں گے، قرآن ہی سے جانتے ہیں:
مجرموں سے پوچھ رہے ہوں گے کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا ؟ وہ کہیں گے: ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے اور ہم بیہودہ بکنے والوں کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ (سورہ مدثر،41 تا 47)
دوستو! ان آیات میں جہنمی وہ کام گنواتے ہیں جن کی پاداش میں انہیں جہنم میں ڈالا گیا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ موت کے بعد عذاب خدا سے دور رہ سکیں۔
سناؤ! اللہ تعالیٰ کے وعدے کیسے پائے؟
انسان کس قدر ناداں ہے کہ اس کے رحیم و کریم رب نے اسے اچھی اور بری تمام باتوں سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کا نفع و نقصان اس کو سمجھا دیا ہے۔ پھر بھی اکثر اوقات وہ ایسی چیز کی طرف پہل کرتا ہے جو اس کی روح کے لیے تکلیف دہ بھی ہوتی ہے اور نقصاندہ بھی۔ وہ عارضی لذت کی خاطر اپنے خالق اکبر کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔ نہ جانے اس کو اپنے خالق کے اس وعدے پر اعتبار نہیں جو اس نے نیکوکاروں سے کر رکھا ہے یا پھر اس عذاب سے مطمئن ہے جو گناہ گاروں کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ اہل جنت قیامت کے روز ان کو اسی بات کا طعنہ دیں گے کہ کیا تمہیں اپنے رب کے وعدے پر اعتبار نہ تھا اور کہیں گے:
اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے: ہاں۔ تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (سورہ اعراف 44)
ہائے پیاس! پانی پلادوـ
قیامت کے روز جب نیکوکاروں کو ان کی محنت کا صلہ مل جائے گا تو انہیں دنیاوی مشکلات، آزمائشیں اور ابتلائیں جنت کی آسائشوں کے مقابلے میں کچھ بھی نظر نہ آئیں گی۔ اور وہ جنت کی ابدی نعمتوں میں غرق ہوں گے۔ عین اسی وقت اہل دوزخ بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دوزخ کی آگ، فرشتوں کی جھڑکیاں اور بھوک و پیاس۔ ہر طرح کا عذاب ان پر مسلط ہو گا۔ جب کچھ نہ بن پڑے گا تو جنتیوں سے ایک فریاد کریں گے:
اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے! تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دویا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے (اور یہ تمہیں ہرگز نہیں مل سکے گا)۔
تذکر
عزیز دوستو! دنیا دارلعمل ہے ابھی وقت اور مہلت دونوں باقی ہیں۔ آئیے ان سے بھر پور استفادہ کر تے ہوئے اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل کر لیں تاکہ قیامت کے روز عذاب و فریاد سے نجات پائیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو!
اسلامی تعلیمات
تعارف
اسلامی تعلیمات
انتساب
اپنی بات
تمہید
تقریظ
قرآنیات
کورس کا تعارف اور اہداف
قرآن مجید کا تعارف
فضائل قرآن بزبان قرآن
فضائل قرآن بزبان معصوم
آداب تلاوت قرآن مجید
ثوابِ تلاوت قران مجید
جمع قرآن
عدم تحریف قرآن
قرآن مجید کی جاذبیت
انسان قدم بقدم ترقی کی جانب گامزن
قرآنی چیلنج
انسان کی خلقت
عمل اور ردعمل
قرآن اور حیوانیات - Zoology
قرآن اور حیوانیات - Zoology 2
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ لوگ
قصہ آنے والے دن کا
قصہ آنے والے دن کا (2)
قرآن مجید دعوت فکر
اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (1)
قرآن اور اہل بیت علیہم السلام (2)
خدا پسند تمنائیں
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
تاریخ اسلام اور سیرت معصومینؑ
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
حضرت امام حسین علیہ السلام
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
عقائد
کورس کا تعارف اور اہداف
اصول دین
اثبات وجود خدا
خدا کی صفات اور توحید
توحید خدا پر دلائل
توحید کی اقسام
تجسیم خدا
عدل
قسمت کا کھیل
نبوت
معجزہ
قرآن مجید اور آسمانی کتابیں
امامت
محبت اہل بیت علیہم السلام
عقیدہ توسل
شفاعت
مہدویت
رجعت
قیامت
حساب و کتاب
تقیہ
اخلاقیات
کورس کا تعارف اور اہداف
اخلاق
جھوٹ
دوسروں کے مال کا استعمال
نخوت و تکبر
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ایک مفید ملاقات
غصہ اور گالی گلوچ
دعا
حسد
ضیاع وقت
مؤمن کی اہانت
ملاقات مؤمن حصہ اول
ملاقات مؤمن حصہ دوم
ضیافت و زیارت
صلہ رحمی و قطع رحمی
قطع رحمی
بخل و اسراف
بخل
اسراف
دوستی
احترام والدین
حقوق والدین
بری صحبت
موسیقی
احکام
کورس کا تعارف اور اہداف
احکام خمسہ
تقلید
نجاسات
مطہرات
وضو
وضو کی شرائط
واجب غسل
طریقہ غسل و تیمم
واجب نمازیں
واجبات نماز
مکروہات نماز
روزہ
احکام میت
نمار میت کا طریقہ
نماز جمعہ، نماز آیات، نماز عیدین
نگاہ
مسجد
کھانا کھانے کے آداب
سونے اور رفع حاجت کے آداب
بیت الخلاء کے احکام
تجوید کے احکام
تعریف اور حرکات
لحن
مخارج 1
مخارج 2
مخارج 3
صفات
نون ساکن اور تنوین کے احکام
میم ساکن کے احکام
سکون
وقف کے احکام
باب17 - اہل دوزخ اور اہل جنت کے مکالمے
قرآن مجید کا موضوع ہدایت انسانی ہے۔ اس میں بشریت کی ہدایت کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ کبھی ترغیب دلائی ہے تو کبھی خوش خبری کا انداز اپنایا ہے جبکہ کبھی ڈرایا اور دھمکایا بھی ہے جبکہ بعض اوقات قصے اور کہانیوں کی صورت میں انسان کو صحیح راستے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ حق کی پیروی کریں اور باطل کو چھوڑ دیں۔ حق کی پیروی پر اکسانے کے لیے قرآن مجید نے نہایت دلچسپ انداز اپناتے ہوئے قیامت کے دن پیش آنے والے ایک واقعے کی تصویر کشی کی ہے۔جو دلچسپ بھی ہے اور باعث غور و فکر بھی۔
روز حساب، میزان پر اعمال تولے جانے کے بعد جنتیوں کو جنت میں اور مجرموں کو دوزخ میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔ گناہگار اور نیکوکار سب اپنے اپنے مقررہ مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ ایسے وقت میں اہل جنت اور اہل دوزخ کو آپس میں گفتگو کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ اس دوران وہ کیا گفتگو کریں گے۔ آئیے! قرآن مجید سے جانتے ہیں:
تم جہنم میں کیوں ہو:
سورہ مدثر میں اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل دوزخ کے ساتھ ہونے والی ان کی ایک گفتگو ذکر کی ہے۔ جس میں وہ اہل دوزخ سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ تم لوگ جہنم میں کیوں ڈالے گئے ہو؟ تم سے ایسی کون سی غلطی اور گناہ ہوا جس پر تمہیں عذاب دیا جا رہا ہے؟ جہنمی کیا جواب دیں گے، قرآن ہی سے جانتے ہیں:
مجرموں سے پوچھ رہے ہوں گے کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا ؟ وہ کہیں گے: ہم نماز گزاروں میں سے نہ تھے اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے اور ہم بیہودہ بکنے والوں کے ساتھ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور ہم روز جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ (سورہ مدثر،41 تا 47)
دوستو! ان آیات میں جہنمی وہ کام گنواتے ہیں جن کی پاداش میں انہیں جہنم میں ڈالا گیا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ موت کے بعد عذاب خدا سے دور رہ سکیں۔
سناؤ! اللہ تعالیٰ کے وعدے کیسے پائے؟
انسان کس قدر ناداں ہے کہ اس کے رحیم و کریم رب نے اسے اچھی اور بری تمام باتوں سے آگاہ کر دیا ہے اور اس کا نفع و نقصان اس کو سمجھا دیا ہے۔ پھر بھی اکثر اوقات وہ ایسی چیز کی طرف پہل کرتا ہے جو اس کی روح کے لیے تکلیف دہ بھی ہوتی ہے اور نقصاندہ بھی۔ وہ عارضی لذت کی خاطر اپنے خالق اکبر کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔ نہ جانے اس کو اپنے خالق کے اس وعدے پر اعتبار نہیں جو اس نے نیکوکاروں سے کر رکھا ہے یا پھر اس عذاب سے مطمئن ہے جو گناہ گاروں کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ اہل جنت قیامت کے روز ان کو اسی بات کا طعنہ دیں گے کہ کیا تمہیں اپنے رب کے وعدے پر اعتبار نہ تھا اور کہیں گے:
اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے: ہاں۔ تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (سورہ اعراف 44)
ہائے پیاس! پانی پلادوـ
قیامت کے روز جب نیکوکاروں کو ان کی محنت کا صلہ مل جائے گا تو انہیں دنیاوی مشکلات، آزمائشیں اور ابتلائیں جنت کی آسائشوں کے مقابلے میں کچھ بھی نظر نہ آئیں گی۔ اور وہ جنت کی ابدی نعمتوں میں غرق ہوں گے۔ عین اسی وقت اہل دوزخ بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دوزخ کی آگ، فرشتوں کی جھڑکیاں اور بھوک و پیاس۔ ہر طرح کا عذاب ان پر مسلط ہو گا۔ جب کچھ نہ بن پڑے گا تو جنتیوں سے ایک فریاد کریں گے:
وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾ (سورہ اعراف 50)
اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے! تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دویا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے (اور یہ تمہیں ہرگز نہیں مل سکے گا)۔
تذکر
عزیز دوستو! دنیا دارلعمل ہے ابھی وقت اور مہلت دونوں باقی ہیں۔ آئیے ان سے بھر پور استفادہ کر تے ہوئے اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل کر لیں تاکہ قیامت کے روز عذاب و فریاد سے نجات پائیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو!