اسلامی تعلیمات

باب 7 - عدل

عدل کی تعریف

کسی بھی چیز کو اس کے اصلی مقام پر رکھنا عدل ہے۔

مثلاً ٹوپی کا مقام سر ہے اگر ٹوپی کو اپنے پاؤں میں رکھیں گے تو یہ عدل نہ ہو گا۔اسی طرح چور سزا کا سزاوار ہے۔ اگر چور کو انعام دے دیں تو یہ عدل نہ ہو گا۔ خداوند عالم عادل ہے۔ یعنی وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے کوئی برا کام ہوتا ہے۔ خدا کے تمام کاموں میں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ہے۔ خدا نیک اور اچھے کام کرنے والوں کو انعام سے نوازے گا۔ اور برے کام کرنے والوں کو عذاب دے گا۔ خدا کسی بھی بے گناہ اور بے قصور شخص کو جہنم میں نہیں ڈالے گا۔

عدل خدا پر عقلی دلائل

کسی کے ساتھ عدل نہ کرنا عیب ہے۔ خداوند کریم ہر قسم کے عیب سے پاک ہے۔ پس خدا عادل ہے۔ جو شخص ظلم کرتا ہے وہ تین وجہ سے ظلم کرتا ہے۔

1۔ جہالت کی وجہ سے

مثلا کوئی شخص کسی کو سزا دیتا ہے اور اس وجہ سے سزا دیتا ہے چونکہ وہ اسے قصور وار سمجھتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں وہ بے قصور ہے۔ چونکہ ظلم کرنے والا اور سزا دینے والا نہیں جانتا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ پس اسے سزا دیتا ہے۔

2۔ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے

مثلا دوسروں کے پاس مال و دولت ہے اور اس شخص کے پاس کچھ نہیں تو وہ دوسروں پر ظلم کرے گا تاکہ مال و دولت حاصل کر سکے۔

3۔ انتقام اور بدلہ لینے کے لیے ظلم کرتا ہے

خداوند کریم ان تینوں چیزوں سے پاک ہے چونکہ خدا ہر شخص کے دل کی نیت کو بھی جانتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا ہے۔ ہمارے اعمال خدا سے چھپے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی خدا کسی کا محتاج ہے خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ ہمیں رزق و دولت دینے والا خدا ہے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی شخص خدا کا کچھ بگاڑ سکتا ہے تاکہ خدا بدلہ یا انتقام لے۔ پس خدا کے ظلم کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ تو خدا ظلم کیسے کرے گا۔ عقل کے نزدیک یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خدا ظلم نہیں کرتا بلکہ خدا ہمیشہ عدل و انصاف ہی کرتا ہے۔ قرآن مجید بھی یہی کہتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ (سورہ یونس:44)

اللہ یقیناً لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لآٰ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا م بِالْقِسْطِ۔ (سورہ آل عمران،18)

اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی وہ عدل قائم کرنے والا ہے۔

اہم نکات

٭کسی پر ظلم کرنا اور انصاف و عدل نہ کرنا بہت بڑا عیب ہے۔ جبکہ خدا ہر قسم کے عیب سے پاک ہے۔

٭خدا کے ظلم کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

٭قرآن بھی خدا کے ظلم کی نفی کرتا ہے۔

٭انسان کی طاقت سے زیادہ تکلیف دینا بھی عدل خداوندی کے خلاف ہے۔ پس خدا انسان کو اس کی طاقت کے مطابق تکلیف دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کا اپنے اعمال میں مختار ہونا بھی۔

انسان کی آزادی

مذکورہ وجوہات کی بنا ء پر ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ذریعے اپنے کام انجام دیتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم کہیں کہ انسان جبر کی وجہ سے اپنے کام انجام دیتا ہے یعنی انسان مجبور ہے اپنے اختیار سے کوئی کام انجام نہیں دیتا بلکہ وہی کرتا ہے کہ جو خدا اس سے کرواتا ہے۔ تو سزا و جزا بھی عدل خداوندی کے خلاف ہے چونکہ اس صورت میں برے لوگوں کو سزا دینا ناانصافی ہو گا کیونکہ ان لوگوں نے برائی اپنی مرضی سے نہیں کی تو سزا کس بات کی۔

اسی طرح جو اچھے کام کرتے ہیں ان کو کوئی انعام بھی نہیں ملے گا کیونکہ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں۔ اس لیے انعام کے مستحق بھی نہیں ہوں گے۔ خدا کے حق میں یہ محال ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان کے کاموں پر مجبور کرے اور پھر غلط کام کرنے پر عذاب بھی دے۔ انسان اپنی مرضی سے اپنے اختیار سے اچھے اور برے کام کرتا ہے۔ اسی لیے سزا و جزا عدل خداوندی کے مطابق ہے اور درست ہے۔