اسلامی تعلیمات

باب 4 - جمع قرآن

دشمنان اسلام نے قدیم زمانے سے ہی اپنی سازشیں اس بات پر مرکوز رکھی تھیں کہ قرآن کو مخدوش اور متنازعہ بنائیں۔ نہ صرف دشمنان اسلام بلکہ بد قسمتی سے خود امت مسلمہ کے بعض افراد فرقہ وارانہ تعصب کے باعث اس پروپیگنڈہ کو ہوا دینے میں دشمنوں کے ہمراہ ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں بنیادی طور پر دو متفق علیہ چیزوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور اختلاف عوام الناس میں پیدا کر دیے گئے۔ اور وہ دو موضوعات ’’تحریف القرآن‘‘ اور ’’ قرآن کی جمع بندی‘‘ ہیں۔ آج کے سبق میں ہم قرآن کی جمع بندی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

جمع قرآن

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو 23 سال کے عرصے میں رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی۔ اس بات میں تو کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ البتہ بحث اس بارے میں ہے کہ جو قرآن مجید 23 سال میں نازل ہوا اور آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے اس کو موجودہ کتابی شکل کب اور کس نے دی؟ باالفاظ دیگر! قرآن قلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کی طرف کس طرح منتقل ہوا؟

جواب: جب قرآن کی کوئی بھی آیت نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی تھی تو آپؐ فوراً دو قسم کے اہتمام فرماتے تھے:

1۔ حفظ آیات قرآنی

پہلا کام ان آیات کے امین یعنی حفاظ کرام کی تربیت تھا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن مجید کو امت کے سینوں میں منتقل کرنے کے لیے حافظان قرآن کی وسیع پیمانے پر تربیت فرمائی تا کہ قرآن ان کے سینوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے چنانچہ عصر رسولؐ میں ہی حافظان قرآن کی تعداد اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ نام بنام انہیں شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپؐ نہ صرف حفاظ کرام کی تربیت کا اہتمام فرماتے بلکہ بذات خود بھی نزول وحی کے وقت، وحی کے مکمل نازل ہونے سے قبل ہی اس آیت کی تلاوت شروع کر دیتے تھے تاکہ آیت رہ نہ جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بشارت نازل ہوئی کہ آپ اس قدر پریشان نہ ہوں ہم آپ کو پڑھائیں گے تو پھر آپ نہیں بھولیں گے۔

اور آپ پر ہونے والی اس وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے کی عجلت نہ کریں اور کہہ دیا کریں: پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما۔ (سورہ طہٰ 114)

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾ (سورہ قیامت 16 تا 17)

(اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقیناً ہمارے ذمہ ہے۔

2۔ کتابت آیات قرآن

آیات قرآنی کی حفاظت کا دوسرا اہتمام اس کی کتابت (لکھوائی) تھی۔ جب سر زمین عرب میں قرآن کا نزول ہو رہا تھا تو وہاں جہالت کا یہ عالم تھا کہ مکہ میں ْصرف سترہ افراد کتابت جانتے تھے۔ اور جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں آج کی طرح قلم و کاغذ میسر نہ تھا بلکہ زیادہ تر کھجور کی کھال، چمڑا، سفید باریک پتھر، ریشمی کپڑا اور لکڑی کے تختے کاغذ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ان حالات میں جب قرآن کا نزول شروع ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حفاظت قرآن کی خاطر کتابت کے مندرجہ بالا تمام تر وسائل بروئے کار لائے۔

کتابت قرآن عصر رسول اکرمؐ میں

یہ بات قطعی و یقینی طور پر ثابت ہے کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کاتب کو بلا لیتے اور لکھنے کا حکم فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ املاء کروانے کے بعد کاتب سے فرماتے تھے کہ جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھ کر سنائے، کاتب سنا دیتا۔ اور اگر کوئی غلطی سرزد ہوئی ہوتی تو آپؐ اس کی اصلاح فرما دیتے۔ مشرکین مکہ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن مجید کی آیات نزول کے فوراً بعد اپنے اصحاب کو لکھا دیا کرتے تھے۔ جس کا ثبوت اہل مکہ کی وہ باتیں ہیں جنہیں قرآن مجید نے نقل کیا ہے۔

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۵﴾ (سورہ فرقان 5)

اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ رکھی ہے اور جو صبح شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

قرآن کی کتابت آغاز وحی کے ساتھ ہی مکہ میں شروع ہو جانے پر خود قرآنی شواہد کے علاوہ بے شمار تاریخی شواہد بھی موجود ہیں۔ حضرت عمر نے اپنی بہن کے گھر میں دو صحیفے پائے جن پر قرآن لکھا ہوا تھا۔ ان صحیفوں کو کسی سے پڑھوایا اور انہیں سن کر اسلام قبول کیا۔

قرآن مجید کی آیات لکھنے والے دو طرح کے لوگ تھے۔ کچھ لوگ وہ تھے جو ذاتی طور پر اور اپنے لیے قرآن مجید کی آیات ساتھ ساتھ لکھتے رہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے کتابت کیا کرتے تھے۔ یعنی نسخہ محمدیؐ کی تدوین کی ذمہ داری انہی لوگوں کو دی گئی تھی اور یہی لوگ جو کہ (رسول اللہ کے لیے کتابت کرتے تھے) کاتبان وحی کہلاتے ہیں۔ کاتبان وحی کی تعداد میں اختلاف ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک یہ تعداد 43 سے 45 تک پہنچ جاتی ہے۔ (جو کہ قابل تحقیق ہے)۔

نہایت اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاتبان وحی کو صرف آیات کی کتابت کا حکم نہیں دیتے تھے بلکہ ساتھ ہی ترتیب بھی بتا دیتے تھے کہ اس آیت کو کس سورہ میں کس آیت کے بعد اور کس آیت سے پہلے رکھا جائے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ آیات کی موجودہ ترتیب بحکم خدا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے مقرر ہوئی۔ البتہ قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان سورتوں کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی ترتیب سے رکھوایا تھا یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اصحاب نے انہیں یہ ترتیب دی تھی؟

جمع و تدوین قرآن عصر رسول اکرمؐ میں

یہ بات تو واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کی تمام آیات کی کتابت (لکھوائی) کا کام عصر رسالتؐ میں ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی نگرانی میں بطریق احسن انجام دیا گیا جس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا موجودہ قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ہی جمع کرکے کتابی شکل میں تیار ہو گیا تھا یا پھر بعض لوگوں کے مطابق یہ کام عصر حضرت ابوبکر میں یا عصر حضرت عثمان میں انجام دیا گیا۔

جواب: اس بات پر بے شمار دلائل موجود ہیں کہ قرآن مجید عصر رسولؐ میں ہی کتابی شکل میں مدون ہو گیا تھا۔ ہم صرف چند دلائل پر اکتفاء کرتے ہیں۔

1۔ فضائل قرآن، تلاوت قرآن، آداب تلاوت قرآن، احکام ملحق اور دیگر قرآنی موضوعات کے بارے میں روایت کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن عصر رسالت میں ہی کتابت کی شکل میں مدون ہو گیا تھا۔ اور ہر شخص کی دسترس میں تھا۔ بعض احادیث نبویؐ میں قرآن مجید کا نسخہ اپنے پاس رکھنے کی تاکید کی گئی ہے، تو بعض میں قرآن مجید کو دیکھ کر تلاوت کرنے میں رغبت دلائی گئی ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مشرکین کے علاقوں میں قرآن مجید ہمراہ لے جانے سے منع کیا گیا ہے۔ ان تمام احادیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت قرآن مجید کتابی شکل میں موجود تھا تبھی یہ احادیث وارد ہوئی ہیں۔

2۔ خود قرآن مجید میں بھی قرآن کے لیے ’’کتاب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

وَ الطُّوۡرِ ۙ﴿۱﴾ وَ کِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍ ۙ﴿۲﴾ فِیۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍ ۙ﴿۳﴾

(سورہ طور 1 تا 3)

قسم ہے طور کی اور لکھی ہوئی کتاب کی، ایک کشادہ ورق میں۔

3۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات کے آخری لمحات کے دوران حضرت علی علیہ السلام کو جو وصیت فرمائی اس میں بھی قرآن مجید کے لیے ’’ کتاب‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

یا علی ھذا کتاب اللہ خذہ الیک، فجمعہ علی فی ثوب فمضیٰ الی منزلہ (بحارالانوار، ج40،ص155)

اے علی! یہ اللہ کی کتاب ہے اسے اپنے پاس لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت علیؑ اسے ایک کپڑے میں جمع کر کے اپنے گھر لے گئے۔