اسلامی تعلیمات

باب 14 - قصہ آنے والے دن کا (1)

(قیامت کے حالات)

عزیز دوستو! آج تک آپ نے جو واقعات اور کہانیاں پڑھ رکھی ہیں ان کا تعلق گزرے ہوئے زمانے سے تھا۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا واقعہ بھی ہے جو ابھی تک وقوع پذیر تو نہیں ہوا مگر اس کی تمام تر تفصیلات ہمیں بتا دی گئی ہیں کہ وہ کب ہو گا…؟ کیسے ہو گا…؟ اور کس طرح ہو گا…؟ اس واقعہ کی جزئیات بتانے کا مقصد شاید یہ ہو کہ انسان غفلت میں نہ رہے اور جان لے کہ اسے اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے۔ آئندہ کے حالات سے آگاہ کر کے یہ بات اس پر چھوڑ دی گئی کہ وہ مجرم بن کر اپنے رب کے حضور جاتا ہے یا پھر انبیاء، شہداء اور صدیقین کا ہمراہی بن کر اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہوئے اور اپنا اعمال نامہ لوگوں کو دکھاتے ہوئے جانا پسند کرتا ہے۔

قرآن مجید نہایت واضح اور صریح الفاظ میں روز قیامت کی تفصیل بیان کرتا ہے۔

قرآن کے مطابق قیامت کا آغاز صور پھونکنے سے ہو گا۔جب پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو ایک زور دار جھٹکا آئے گا جس سے ہر چیز تباہ ہو جائے گی اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی۔

اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے، اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے۔ (سورہ نمل، 87،88)

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ (سورہ زمر، 68)

اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بے ہوش ہو جائیں گے مگر جنہیں اللہ چاہے۔

پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد زمینی نظام تباہ و برباد ہو جائے گا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور زمین ایک ہموار میدان بن جائے گی۔

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ یَنۡسِفُہَا رَبِّیۡ نَسۡفًا﴿۱۰۵﴾ۙ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفۡصَفًا﴿۱۰۶﴾ (سورہ طہٰ، 105، 106)

اور یہ لوگ ان پہاڑوں کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں پس آپ کہدیجیے میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا پھر اسے ہموار میدان بنا کر چھوڑے گا۔

جب سب کچھ برابر ہو جائے گا تو حضرت اسرافیل کو دوبارہ صور پھونکنے کا حکم ملے گا جس کے بعد تمام مردے زندہ ہو جائیں گے۔

ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ﴿۶۸﴾ (سورہ زمر، 68)

پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو اتنے میں وہ سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔

لیکن یہ نئی زندگی ایک نئی شکل میں ہوگی۔ تمام لوگوں کی شکلیں ان کے اعمال کے مطابق تبدیل کر دی جائیں گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

عَلٰۤی اَنۡ نُّبَدِّلَ اَمۡثَالَکُمۡ وَ نُنۡشِئَکُمۡ فِیۡ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۱﴾ (سورہ واقعہ، 61)

(اس دن) تمھاری شکلوں کو تبدیل کرکے (دوبارہ) تمہیں ایسی شکلوں میں پیدا کریں جنہیں تم نہیں پہچانتے۔

صور پھونکنے اور نئی شکلوں میں دوبارہ زندگی ملنے کے بعد اب نفسا نفسی کا عالم ہو گا ہر شخص اپنی پریشانی میں مبتلا ہو گا یہاں تک وہ ماں جو جان سے بھی زیادہ عزیز لاڈلے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اس بچے سے بھی غافل ہو جائے گی۔ لوگ اپنا ہوش و ہواس کھو بیٹھیں گے۔

جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ماں) اپنے شیر خوار کو بھول جائے گی اور تمام حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا بیٹھیں گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہو گا۔ (سورہ حج 2)

فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾ یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۳۴﴾ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِ ﴿ۙ۳۵﴾ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِ ﴿ؕ۳۶﴾ (سورہ عبس 33،36)

پھر جب کان پھاڑ آواز (قیامت) آئے گی تو جس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا نیز اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی زوجہ اور اپنی اولاد سے۔

اس پریشانی اور اضطراب کے عالم میں سب لوگوں کو ایک نشانی (میدان حشر) میں جمع ہونے کا حکم ملے گا۔ قبروں سے گروہ در گروہ نکلنے کے بعد آنکھیں جھکا کر سب میدان محشر کی جانب چل پڑیں گے۔ قرآن اس بارے میں کہتا ہے کہ:

جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے گویا وہ کسی نشانی کی طرف بھاگ رہے ہوں، ان کی آنکھیں جھک رہی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، یہ وہی دن ہو گا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

یَوۡمَ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمۡ اِلٰی نُصُبٍ یُّوۡفِضُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾ خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ ذٰلِکَ الۡیَوۡمُ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ﴿٪۴۴﴾ (سورہ معارج، 43،44)

اس دن ہر شخص کو دو فرشتے اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ ایک فرشتے کی ذمہ داری اسے عدالت کی طرف لے جانا ہو گا جب کہ دوسرے کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ اس شخص کا نامہ اعمال اس کے حوالے کرے تاکہ اس کا حساب کتاب شروع کیا جا سکے۔

خدا فرماتا ہے:

وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ﴿۲۱﴾ (سورہ ق 21)

اور ہر شخص ایک ہانکنے والے( فرشتے) اور ایک گواہی دینے والے( فرشتے) کے ساتھ آئے گا۔

اب تک تو تمام لوگ یکجا اور اکٹھے تھے مگر جب نامہ اعمال لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا تو قرآن مجید کے بقول وہ اپنے اعمال ہی کے ساتھ ہوں گے اور وہ سب تین گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

اصحاب تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

1۔اصحاب میمنہ (یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

2۔ اصحاب مشئمہ (یعنی بائیں ہاتھ والے لوگ) وہ لوگ ہیں جنہیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملے گا اور نحوست ان کا مقدر ہوگی۔

السابقون المقربون (ایمان کی طرف خصوصا سبقت لے جانے والے) (سورہ واقعہ، 7 تا 10)

ہر شخص کے نامہ اعمال میں اس کی زندگی کے تمام اعمال کا مکمل ریکارڈ موجود ہو گا۔ ان اعمال کی روشنی میں اس کی اخروی زندگی کا فیصلہ بھی درج ہو گا۔ اس لحاظ سے یہ تین گروہ بظاہر تو ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے مگر مراتب اور درجات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر جدا اور مختلف ہوں گے۔ یہاں سے ان کی راہیں جدا ہو جائیں گی۔ ارشاد ہوتا ہے:

پس جن کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (دوسروں سے) کہے گا، لو میرا نامہ عمل پڑھو، مجھے تو یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب کا سامنا کرنا ہو گا پس وہ ایک دل پسند زندگی میں ہو گا۔ بلند و بالا جنت میں، جس کے میوے قریب (دسترس) ہوں گے۔ خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو ان اعمال کے صلہ میں جنہیں تم گزشتہ زمانے میں بجا لائے، اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا’’ اے کاش مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا اور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش موت میرا کام تمام کر دیتی‘‘ (سورہ الحاقہ، 19، 27)

اگرچہ اس نامہ اعمال میں چھوٹا بڑا ہر عمل درج ہو گا مگر خالق کائنات فیصلہ سنانے سے قبل گواہوں کو گواہی کے لیے پیش کرے گا۔ یہ گواہ اس شخص کے وہ اعضاء ہوں گے جس سے اس نے نیکی یا برائی کی ہوگی۔ بدن کا ہر حصہ خود پکار پکار کر گواہی دے گا کہ اے میرے خالق! اس انسان نے مجھے فلاں نیک کام میں یا فلاں برے کام میں استعمال کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا:

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾ (سورہ یٰسین 65)

آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔

یَّوۡمَ تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۴﴾ (سورہ نور، 24)

اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔