Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام محمد باقر نے فرمایا، جو شخص بددیانت کو امین بنائے گا وہ خدا سے کسی قسم کی شکایت نہیں کرسکتا۔ وسائل الشیعۃ حدیث24217
سینتیسویں دعا

37۔ ادائے شکر میں کوتاہی کی دعا

بارالٰہا ! کوئی شخص تیرے شکر کی کسی منزل تک نہیں پہنچتا۔ مگر یہ تیرے اتنے احسانات مجتمع ہوجاتے ہیں کہ وہ اس پر مزید شکر یہ لازم و واجب کر دیتے ہیں اور کوئی شخص تیری اطاعت کے کسی درجہ پر، چاہے وہ کتنی ہی سرگرمی دکھائے، نہیں پہنچ سکتا اور تیرے اس استحقاق کے مقابلہ میں جو بر بنائے فضل و احسان ہے،قاصر ہی رہتا ہے۔ جب یہ صورت ہے تو تیرے سب سے زیادہ شکر گزار بندے بھی ادائے شکر سے عاجز اور سب سے زیادہ عبادت گزار بھی درماندہ ثابت ہوں گے۔
کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا کہ تو اس کے استحقاق کی بنا پر بخش دے یا اس کے حق کی وجہ سے اس سے خوش ہو۔ جسے تو نے بخش دیا تو یہ تیرا انعام ہے اور جس سے تو راضی ہوگیا تویہ تیرا تفضل ہے۔
جس عمل قلیل کو تو قبول فرماتا ہے اس کی جزا فرواں دیتا ہے اور مختصر عبادت پر بھی ثواب مرحمت فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ گویا بندوں کا وہ شکر بجا لانا جس کے مقابلہ میں تو نے اجر و ثواب کو ضروری قرارد یا اور جس کے عوض ان کو اجر عظیم عطاکیا، ایک ایسی بات تھی کہ اس شکر سے دست بردار ہونا ان کے اختیار میں تھا تو
اس لحاظ سے تو نے اجر دیا (کہ انہوں نے باختیار خود شکر ادا کیا ) یا یہ کہ ادائے شکر کے اسباب تیرے قبضہ قدرت میں نہ تھے (اور انہوں نے خود اسباب شکر مہیا کئے) جس پر تو نے انہیں جزا مرحمت فرمائی ( ایسا تو نہیں ہے) بلکہ اے میرے معبود ! تو ان کے جملہ امور کا مالک تھا، قبل اس کے کہ وہ تیری عبادت پر قادر و توانا ہوں اور تو نے ان کے لیے اجر و ثواب کو مہیا کر دیا تھا قبل اس کے کہ وہ تیری اطاعت میں داخل ہوں اور یہ اس لیے کہ تیرا طریقہ انعام و اکرام، تیری عادت تفضل و احسان اور تیری روش عفو درگذر ہے۔ چنانچہ تمام کائنات اس کی معترف ہے کہ تو جس پر عذاب کرے اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا اور گواہ ہے اس بات کی کہ جس کو تو معاف کر دے ، اس پر تفصیل و احسان کرتا ہے اور ہر شخص اقرار کرے گا اپنے نفس کی کوتاہی کا اس ( اطاعت) کے بجا لانے میں جس کا تو مستحق ہے۔ اگر شیطان انہیں تیری عبادت سے نہ بہکاتا تو پھر کوئی شخص تیری نافرمانی نہ کرتا اور اگر باطل کو حق کے لباس میں ان کے سامنے پیش نہ کرتا تو تیرے راستہ سے کوئی گمراہ نہ ہوتا ۔
پاک ہے تیری ذات۔ تیرا لطف و کرم ، فرمانبردار ہو یا گنہگار، ہر ایک کے معاملہ میںکِس قدر آشکار ہے۔ یوںکہ اطاعت گزار کو اس عمل خیر پر جس کے اسباب تو نے خود فراہم کئے ہیں جزا دیتا ہے اور گنہگار کو فوری سزا دینے کا اختیار رکھتے ہوئے پھر مہلت دیتا ہے۔ تو نے فرمانبردار و نافرمان دونوں کووہ چیزیں دی ہیں جن کا انہیں استحقاق نہ تھا اور ان میں سے ہر ایک پر تو نے وہ فضل و احسان کیاہے جس کے مقابلہ میں ان کا عمل بہت کم تھا اور اگر تو اطاعت گزار کو صرف ان اعمال پر جن کا سر و سامان تو نے مہیا کیا ہے جزا دیتا تو قریب تھا کہ وہ ثواب کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا اور تیری نعمتیں اس سے زائل ہوجاتیں ۔ لیکن تو نے اپنے جود و کرم سے فانی و کوتاہ مدت کے اعمال کے عوض طولانی و جاویدانی مدت کا اجر و ثواب بخشا اور قلیل و زوال پذیر اعمال کے مقابلہ میں دائمی و سرمدی جزا مرحمت فرمائی ۔ پھر یہ کہ تیرے خوان نعمت سے جو رزق کھا کر اس نے تیری اطاعت پر قوت حاصل کی اس کا کوئی عوض تو نے نہیں چاہا اور جن اعضاء و جوارح ے کام لے کر تیری مغفرت تک راہ پیدا کی اس کا سختی سے کوئی محاسبہ نہیں کیا اور اگر تو ایسا کرتا تو اس کی تمام منتوں کا حاصل اور سب کوششوں کا نتیجہ نعمتوں اوراحسانوں میں سے ایک ادنیٰ و معمولی قسم کی نعمت کے مقابلہ میں ختم ہوجاتا اور بقیہ نعمتوں کے لیے تیری بارگاہ میں گروی ہوکر رہ جاتا ۔ ( یعنی اس کے پاس کچھ نہ ہوتا کہ اپنے چھڑانا ) تو ایسی صورت میں وہ کہاں تیرے کسی ثواب کا مستحق ہو سکتا تھا ؟ نہیں ! وہ کب مستحق ہو سکتا تھا ۔
اے میرے معبود ! یہ تو تیری اطاعت کرنے والے کا حال اور تیری عبادت کرنے والے کی سرگزشت ہے اور وہ جس نے تیرے احکام کی خلاف ورزی کی اور تیرے منہیات کا مرتکب ہوا، اسے بھی سزا دینے میں تو نے جلدی نہیں کی تاکہ وہ معصیت و نافرمانی کی حالت کو چھوڑکر تیری اطاعت کی طرف رجوع ہو سکے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب پہلے پہل اس نے تیری نافرمانی کا قصد کیا تھا، جب ہی وہ ہرا س سزا کا جسے تو نے تمام خلق کے لیے مہیا کیاہے، مستحق ہوچکا تھا تو ہر وہ عذاب جسے تو نے اس سے روک لیا اور سزا و عقوبت کا ہر وہ جملہ جو اس سے تاخیر ڈال دیا ، یہ تیرا حق سے چشم پوشی کرنا اور استحقاق سے کم پر راضی ہونا ہے۔
اے میرے معبود! ایسی حالت میں تجھ سے بڑھ کے کون کریم ہوسکتا ہے اور اس سے بڑھ کے جو تیری مرضی کے خلاف تباہ و برباد ہو، کون بدبخت ہو سکتا ہے؟ نہیں! کون ہے جو اس سے زیادہ بدبخت ہو۔ تو مبارک ہے کہ تیری تو صیف لطف و احسان ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے اور تو بلند تر ہے اس سے کہ تجھ سے عدل و انصاف کے خلاف کا اندیشہ ہو۔
جو شخص تیری نافرمانی کرے تجھ سے اندیشہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تو اس پر ظلم و جور کرے گا اور نہ اس شخص کے بارے میں جو تیری رضا و خوشنودی کو ملحوظ رکھے تجھ سے حق تلفی کا خوف ہوسکتا ہے۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری آرزؤں کو برلا اور میرے لیے ہدایت اور رہنمائی میں اتنا اضافہ فرما کہ میں اپنے کاموں میں توفیق سے ہمکنار ہوں۔ اس لیے کہ تو نعمتوں کا بخشنے والا اور لطف و کرم کرنے والا ہے۔

 

 

 

فہرست صحیفہ کاملہ