Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، امید ایک غمگسار دوست ہے غررالحکم حدیث1042، شرح نہج البلاغہ ج20ص340الحکم المنسوبۃ
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

دین، قائد انقلابِ اسلامی کے نقطہ نگاہ سے (حصہ سوم)

آية الله سید علی خامنه ای

قرون وسطی، یورپیوں کے لئے تاریکی و ظلمت کی صدیاں اور ہم مسلمانوں کے لئے آفتاب علم کی ضو فشانی کی صدیاں تھیں۔ یورپی اس حقیقت کو چھپاتے ہیں اور مغربی مورخین اسے زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کی باتوں کا اعتبار کر لیا ہے۔ انیسویں صدی جو مغرب میں علمی تحقیقات کے اوج کا زمانہ ہے وہ در حقیقت دین سے علاحدگي اور انسانی زندگی سے دین کی رخصتی کا زمانہ ہے۔ اس نظرئے کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑا اور ہماری یونیورسٹی حقیقت میں غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی۔ علما نے یونیورسٹیوں سے منہ پھیر لیا اور یونیورسٹی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز سے رشتہ توڑ لیا۔ جو افراد دین کی حمایت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں دین کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے انہیں خبر نہیں ہے کہ اسلام کے اقتدار اور احیاء کے عمل کے خلاف سامراجی طاقتوں کا تشہیراتی نعرہ یہی ہے۔ البتہ دین اور سیاست میں جدائی کا موضوع صدیوں سے زیر بحث ہے۔ پہلے ان استبدادی طاقتوں نے جو معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے تھیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتی تھیں، اس مسئلے کو اٹھایا، ظاہر ہے وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ اسلامی احکامات کی، حکومت کے امور میں کوئي دخل اندازی نہ ہو۔ اس بنا پر سلاطین اور شہنشاہ، دین و سیاست میں جدائي کے گمراہ کن نظرئے کے سب سے پہلے مروج ہیں۔