Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، جس کا فعل اس کے قول کے مطابق ہو وہ اُس کی نجات کا سبب ہوتا ہے اور جس کا فعل اس کے قول کے مطابق نہ ہو تو اس کا ایمان غیر مستقل ہوتا ہے۔ اصول کافی باب فی علامۃ المُعار حدیث1، المحاسن باب الاخلاص حدیث 274
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

دین، قائد انقلابِ اسلامی کے نقطہ نگاہ سے

آية الله سید علی خامنه ای

دین سب سے پہلے مرحلے میں تو ایک علم اور معرفت ہے۔ اس دنیا کی معرفت و شناخت، بشر کی شناخت، منزل و ہدف اور راستے کی شناخت، یہ ساری معرفتیں دین کے ستون ہیں۔ دین انسان کو کائنات کے محور کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسان وہ بے نظیر ہستی ہے جو اپنی فکری کوششوں سے سربستہ راز کھول اور نئے نئے میدانوں کو سر کر سکتا ہے۔ دنیا، دین کے پیغام، کارکردگي اور فرائض کی ادائگی کا میدان ہے۔ دین اس عظیم اور گوناگوں صفات کی حامل کائنات میں آکر انسانی زندگی اور سرگرمیوں کو نظم و ترتیب اور ہدف و سمت عطا کرتا ہے، انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے دین و دنیا ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ان کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دین کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے دنیا کے علاوہ کوئي میدان نہیں مل سکتا اور دنیا، دین کے تعمیری اور تخلیقی کردار کے بغیر ایسی جگہ بن جائے گی جہاں نہ معنویت ہوگی نہ روحانیت، نہ حقیقت ہوگی نہ محبت، نہ زندگی ہوگي نہ روح، یعنی دین کا عنصر نہ ہو تو انسانی زندگی جنگل راج کی مصداق بن کر رہ جائے گی۔ اس عظیم اور بے کراں وادی میں انسان کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معنوی اور روحانی تکامل اور بلندی کا سفر طے کر سکے۔ ان چیزوں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا مطلب ہوگا زندگی، سیاست اور معیشت کو روحانیت سے عاری بنا دینا، اس کا مطلب ہوگا عدل و انصاف اور روحانیت کی نابودی۔ دنیا کو اگر انسانی زندگی کے اہم ترین اور سنہری مواقع اور جا بجا بکھری نعمتوں، پر کشش اور حسین مناظر اور تلخیوں اور رنج و آلام کی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ انسانی کاملیت اور سربلندی کا وسیلہ ہے۔ دین کی نگاہ میں یہ ایسے وسائل ہیں جن کے سہارے انسان منزل کمال کی سمت رواں دواں رہ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کو نمایاں کر سکتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے ودیعت کر دی ہیں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھا جائے تو اسے دین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں دنیا کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اسلام میں دنیا کو نفسانی خواہشات، خود غرضی اور ھوا و ہوس کا اسیر ہو جانے اور دوسروں کو اپنی ھوا و ہوس کا شکار بنانے کے معنی میں بھی متعارف کرایا گيا ہے۔ روایات میں منفور دنیا یہی ہے جو دین کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔