Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوجائیں تو عالم کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور بدعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو اُس پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ اصول کافی باب البدع والرأی حدیث2
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امام حسینؑ کے قیام کی عالمگیریت

آية الله سید علی خامنه ای

اب جہاں بھی اس قسم کی بدعنوانی ہوگی ، امام حسین وہاں زندہ ہیں اور اپنی روش اور عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ فریضہ یہ ہے ۔ اسی لئے امام حسین اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے کیونکہ کربلا کی یاد اس درس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسرے اسلامی ملکوں میں ، عاشور سے حاصل سبق کو اس طرح سے جیسا اس کا حق ہے ، پہچانا نہيں گیا ۔ یہ کام ہونا چاہئے ، ہمارے ملک میں اس کی معرفت تھی ۔ ہمارے ملک میں عوام ، امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی معرفت تھی اور ان میں حسینی جذبہ موجود تھا اسی لئے جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ محرم ایسا مہینہ ہے جس میں خون کو شمشیر پر فتح حاصل ہوتی ہے تو لوگوں کو تعجب نہيں ہوا ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی خون کو تلوار پر فتح حاصل ہو گئ - میں نے کئ برسوں پہلے یہی بات ایک نشست میں کہی تھی _ البتہ انقلاب سے قبل _ ایک مثال میرے ذہن میں آئی جس کا ذکر میں نے اس نشست میں کیا تھا وہ مثال ، اس طوطے کی ہے جس کا ذکر مولوی نے اپنی مثنوی میں کیا ہے ۔ ایک آدمی کے گھر میں ایک طوطا تھا _ البتہ یہ ایک مثال ہے اور مثال حقیقت بیان کرنے کے لئے ہوتی ہے _ جب وہ ہندوستان جانے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے رخصتی کے بعد طوطا کو بھی الوداع کہا ۔ اس نے طوطے سے کہا کہ میں ہندوستان جا رہا ہوں اور ہندوستان تمہاری سرزمین ہے ۔ طوطے نے کہا : فلاں جگہ جانا وہاں میرے دوست و رشتہ دار ملیں گے ۔ وہاں ان سے کہنا کہ تمہارے ایک ساتھی میرے گھر میں ہے ۔ ان سے میری حالت بیان کرنا اور کہنا کہ تمہارا ساتھی میرے گھر میں ایک پنجرے میں ہے ۔ بس تم سے مجھے اور کچھ نہيں چاہئے ۔ وہ سفر پر روانہ ہو گیا اور جب اس جگہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے ہيں ۔ اس نے انہیں پکار کر کہا : اے بولنے والے پیار طوطو! میں تمہارے لئے پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھی ہمارے گھر میں ہے ۔وہ بہت اچھی حالت میں ہے ، پنجرے میں ہے مگر بڑی اچھی حالت میں رہتا ہے اور اچھے اچھے کھانے ملتے ہیں اس نے تمہیں سلام کہا ہے ۔ اس تاجر کی بات جیسے ہی ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ شاخوں پر بیٹھے تمام طوطے پھڑپھڑا کر زمین پر گر گئے ۔ جب وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ سب کے سب مر گئے ہيں ! اسے بڑا افسوس ہوا اور سوچنے لگا کہ میں نے آخر کیوں ایسی بات کہی یہ بیچارے سب کے سب مر گئے !! لیکن اب تو وقت گزر چکا تھا اور کچھ نہيں کیا جا سکتا تھا ۔ تاجر واپس چل پڑا اور جب اپنے گھر پہنچا تو فورا پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہا کہ میں نے تمہارا پیغام پہنچا دیا ۔ اس نے کہا : ان لوگوں نے کیا جواب دیا ؟ تاجر نے کہا : تمہارا پیغام سنتے ہی سارے طوطے پیڑوں پر پھڑاپھڑانے لگے اور پھر زمین پر گر کر مر گئے! جیسے ہی تاجر کی بات ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا بھی پھڑاپھڑا کر پنجرے میں گرا اور مر گیا ! اسے بہت دکھ ہوا ۔ پنجرہ کھولا تو دیکھا کہ طوطا مر چکا ہے ۔ اب اسے رکھنا ممکن نہيں تھا ۔ اس کا پیر پکڑ کر چھت پر پھینک دیا لیکن طوطے نے ہوا میں ہی پر پھڑپھڑانا شروع کر دیا اور اڑ کر دیوار پر بیٹھ گیا ! اس نے تاجر سے کہا : اے میرے پیارے دوست تمہارا بہت بہت شکریہ ، تم نے میری رہائی کی سبیل کی ۔ میں مرا نہيں تھا ، مرنے کا دکھاوا کر رہا تھا اور یہ وہ سبق تھا جو ان طوطوں نے مجھے سکھایا ! وہ سمجھ گئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں لیکن وہ کس طرح سے مجھے بتاتے کہ میں رہائی کے لئے کیا کروں ؟ انہوں نے عملی طور پر مجھے بتا دیا کہ میں کیا کروں جس سے مجھے رہائی مل جائے ! _ مر جاؤ تاکہ زندگی مل جائے _ میں نے ان کا پیغام تہمارے ذریعے حاصل کیا اور یہ ایسا عملی سبق تھا جو اتنی دوری کے باوجود مجھ تک پہنچا اور ميں نے اس سبق سے فائدہ بھی اٹھایا ۔ میں نے اس وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کس زبان میں یہ بتاتے کہ آپ کا فریضہ کیا ہے ؟ حالات وہی ہیں ۔ زندگی کی نوعیت وہی ہے ، اسلام بھی وہی ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے عملی طور پر تمام نسلوں کو سبق دیا ۔ اگر امام حسین علیہ السلام کی ایک بات بھی ہم تک نہ پہنچتی تو بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ہمارا فریضہ کیا ہے ۔ جو قوم قید میں ہو ، جس قوم کے رہنما بدعنوان ہوں ، جس قوم پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوں تو اسے وقت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا فریضہ کیا ہے کیونکہ فرزند رسول ، ایک معصوم امام نے بتا دیا کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چاہئے ۔ زبان کے ذریعے ممکن نہيں تھا اگر وہ ہی بات سو زبانوں میں کہتے لیکن خود آگے نہ بڑھتے تو ممکن نہيں تھا کہ یہ پیغام تاریخ کو پار کرتا ہوا یہاں تک پہنچے ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہی باتیں تاریخ کو عبور نہيں کرتیں ۔ ہزاروں تفسیر و تاویلیں کر دی جاتی ہيں عمل ہونا چاہئے ۔ وہ بھی ایسا عظیم عمل ، ایسے سخت اور ایثار و قربانی کا عمل اتنا عظیم عمل ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ! حقیقت تو یہ ہے کہ عاشو ر کے جو مناظر ہماری نظروں کے سامنے ہيں اس کے سلسلے میں تو بہتر ہوگا ہم یہ کہیں کہ انسانی المیہ کی تاریخ میں اس کی کوئي مثال نہيں ملتی ۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، جیسا کہ امیر المومنین اور امام حسن علیھم السلام نے فرمایا _ جیسا کہ روایتوں میں ہے _ - «لایوم كیومك یا اباعبداللَّه»؛ کوئي دن تمہارے دن ، تمہارے روز عاشورا ، کربلا کے اور تمہارے ساتھ ہوئے واقعے کی طرح نہيں ہے.