Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام حسن نے فرمایا، جس کے پاس ادب نہیں اس کے پاس عقل بھی نہیں بحارالانوارج75ص111، تتمہ کتاب الروضۃ، تتمۃ ابواب المواعظ والحکم،باب 19مواعظ الحسن بن علی ؑ
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

انقلاب حسینیؑ اور انقلاب خمینی میں مماثلت

آية الله سید علی خامنه ای

جو کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوا اس کا چھوٹا سا نمونہ امام خمینی رحمت اللہ کے زمانے میں بھی پیش آیا بس اس فرق کے ساتھ کہ وہاں پر نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا اور یہاں حکومت کی شکل میں ۔ یہ وہی چیز ہے ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا مقصد اور امام خمینی رضوان اللہ کا مقصد ایک ہی تھا ۔ یہ بات امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کی بنیاد اور شیعی نظریات و علوم کا ایک بڑا حصہ ہے یہ ایک اہم ستون اور اسلام کا ایک رکن ہے ۔ تو ہدف کا معنی ، اسلامی سماج کو اس کی صحیح پٹری پر لانا ہے ۔ کب ؟ جب راہ ، بدل دی جائے اور جہالت و ظلم و استبداد اور کچھ لوگوں کی غداری ، مسلمانوں کو گمراہ کردے اور حالات بھی سازگار رہیں ۔ البتہ تاریخی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی حالات سازگار ہوتے ہیں اور کبھی سازگار نہیں ہوتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالات سازگار تھے ہمارے زمانے میں بھی حالات سازگار تھے ۔ امام خمینی رضوان اللہ نے بھی وہی کام کیا ۔ مقصد ایک ہی تھا لیکن بات یہ ہے کہ جب انسان اس مقصد کی تکمیل کی راہ پر آگے بڑھتا ہے اور باطل حکومت و مرکز کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے ، تاکہ اسلام اور اسلامی نظام کو اس کے صحیح محور پر لے آئے ، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ حکومت تک پہنچ جاتا ہے ایک شکل تو یہ ہے _ ہمارے زمانے میں خدا کے شکر سے ایسا ہی ہوا _ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قیام حکومت پر منتج نہیں ہوتا ، شہادت ملتی ہے ۔ کیا اس صورت میں واجب نہيں ہے ؟ کیوں نہیں ؟ شہادت پر منتج ہو تب بھی واجب ہے ، کیا اگر قیام کا نتیجہ شہادت ہو تو اس صورت میں قیام کا کوئي فائدہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ اس قیام اور اس تحریک کا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ چاہے شہادت پر منتج ہو چاہے حکومت پر ، لیکن ہر ایک کا مختلف قسم کا فائدہ ہے ۔ اسے انجام دینا چاہئے ، آگے بڑھنا چاہئے ۔ یہ وہی کام تھا جسے امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ تھے جنہوں نے پہلی بار یہ کام کیا تھا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہيں کیا تھا کیونکہ ان سے قبل _ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے زمانے میں _ نہ تو ایسا انحراف تھا اور نہ ہی مناسب حالات تھے ۔ یا اگر کچھ مقامات پر انحراف نظر بھی آتا تھا تو حالات مناسب نہيں تھے۔امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں دونوں چیزیں تھی امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں یہ بنیادی عنصر ہے۔ تو اس طرح سے ہم مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تاکہ اس عظیم فریضے پر عمل کریں جس کا معنی اسلامی سماج میں بڑی گمراہی کے مقابلے میں قیام کرے اسلامی نظام اور سماج کی تعمیر نو ہے ۔ یہ کام قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہوتا ہے بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے البتہ اس فریضے پر عمل در آمد کبھی حکومت پر منتج ہوتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اس کے لئے تیار تھے ۔ کبھی یہ شہادت پر منتج ہوتا ہے امام حسین علیہ السلام اس کے لئے بھی تیار تھے ۔ ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ یہ نتیجہ ہم نے خود امام حسین علیہ السلام کی باتوں سے اخذ کیا ہے ۔ میں نے امام حسین علیہ السلام کے کلمات میں کچھ جملوں کا انتخاب کیا ہے _ البتہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو سب کے سب اسی معنی کو بیان کرتے ہيں _ پہلے مدینے میں ، جب مدینے کے حاکم ولید نے آپ کو بلوا کر کہا : معاویہ دنیا سے چلا گیا ہے اور آپ کو یزید کی بیعت کرنی ہے! امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: صبح تک انتظار کرو ، «ننظر و تنظرون اینا احق بالبیعة و الخلافه» ہم جاکر سوچيں گے دیکھیں ہمیں خلیفہ بننا چاہئے یا یزید کو خلیفہ بننا چاہئے ! دوسرے دن مروان نے آپ کو گلی میں دیکھا اور کہا : اے ابو عبد اللہ آپ خود کو موت کے حوالے کر رہے ہيں ! خلیفہ کی بیعت کیوں نہيں کرتے ؟ چلیں بیعت کریں ، خود کو موت کے منہ میں نہ ڈالیں ، خود کو پریشانی میں نہ ڈالیں ! امام حسین علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ جملہ فرمایا: : «اناللَّه و انا الیه راجعون و علىالاسلام السّلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید»؛ اب اسلام کو رخصت کر دینا چاہئے جب یزید جیسا حاکم بر سر اقتدار ہو اور اسلام یزيد جیسے حاکم میں پھنس جائے ! معاملہ صرف یزید کا نہيں ہے ، جو بھی یزید کی طرح ہو ۔امام حسین علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں اب تک جو کچھ تھا قابل برداشت تھا لیکن اب دین اور اسلامی نظام کے اصولوں کی بات ہے جو یزید جیسے حاکم کی حکومت میں تباہ ہو جائے گا ۔ آپ اپنے اس قول سے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس انحراف کا خطرہ سنجیدہ ہے ۔ اسلام کی جڑوں کے لئے خطرہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت بھی اور مکے سے نکلتے وقت بھی محمد بن حنفیہ سے کچھ باتیں کی ہیں ۔ میرے خیال میں یہ باتیں اس وقت سے متعلق ہیں جب آپ مکے سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے ۔ ذی الحجہ کے مہینے میں جب محمد بن حنفیہ بھی مکے گئے تھے اس وقت آپ نے ان سے کچھ باتیں کی تھیں ۔ آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کی شکل میں کچھ لکھ کر دیا تھا ۔ اس میں آپ نے خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی وغیرہ کے بعد لکھا ہے : «و انى لم اخرج اشرا ولا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً»؛ یعنی کچھ لوگ غلطی نہ کریں اور یہ مشہور نہ کریں کہ امام حسین بھی ادھر ادھر سے قیام کرنے والے کچھ دوسرے لوگوں کی طرح اقتدار کے لئے قیام کر رہے ہیں ۔ خود نمائی ، عیش و عشرت ظلم و بدعنوانی کے لئے جد و جہد شروع کر رہے ہیں ! ہمارا کام اس قسم کا نہیں ہے ۔ «و انّما خرجت لطلبالاصلاح فى امّة جدّى»ہمارے کام کا عنوان اصلاح ہے ۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ وہی فریضہ ہے جس پر امام حسین علیہ السلام سے قبل عمل نہيں ہوا تھا ۔