Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، اے فاطمہ ؑ آپ کو خوشخبری ہو کہ مہدی ؑ آپ ہی (کی نسل)سے ہوں گے کنزالعمال حدیث34208
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

پیغمبر اسلامؐ کے فریضے کو امام حسینؑ کا نبھانا

آية الله سید علی خامنه ای

پیغمبر اسلام نے اس فریضے کو بیان کیا ہے ۔ قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لیکن پیغمبر اسلام اس فریضے پر عمل نہيں کر سکتے تھے ۔ کیوں نہيں کر سکتے تھے ؟ کیوں کہ اس فریضے پر اس وقت عمل کیا جاتا ہے جب سماج منحرف ہو جائے ۔ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے دور میں اس طرح سے منحرف نہيں ہواتھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں بھی کہ جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت تھی ، حالانکہ اس انحراف کی بہت سی علامتیں ظاہر ہو رہی تھی لیکن ابھی یہ انحراف اس حد تک نہيں پہنچا تھا کہ پورے اسلام کے لئے خطرہ لاحق ہو جاتا شاید کہا جا سکے کہ تھوڑے عرصے کے لئے یہ صورت حال بھی پیدا ہوگئ تھی لیکن اس وقت اس کام کو انجام دینے کا موقع نہيں تھا _ مناسب موقع نہيں تھا _ اس حکم کی اہمیت ، جو احکام الہی کا حصہ ہے ، خود حکومت سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ حکومت یعنی سماج کو چلانا ۔ اگر سماج دھیرے دھیرے پٹری سے اتر جائے ، منحرف ہو جائے بدعنوان ہو جائے اور خدا کے احکامات تبدیل کر دئے جائيں ، تو اگر حالات بدلنے اور تجدید حیات _ یا آج کے لفظوں میں انقلاب ، اگر انقلاب کا حکم _ نہ ہو تو یہ حکومت کس کام ہوگی ؟ تو سماج کو پٹری پر لانے سے متعلق جو حکم ہے اس کی اہمیت ، حکومت کی تشکیل کے حکم سے کم نہيں ہے ۔ شاید کہا جا سکتا ہو کہ اس کی اہمیت کفار سے جہاد سے کہیں زیادہ ہے ۔ شاید کہا جا سکے کہ اس کی اہمیت سماج میں عام سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زيادہ ہے بلکہ یہاں تک بھی شاید کہا جا سکے کہ اس حکم کی اہمیت بڑی عبادتوں اور حج سے بھی زیادہ ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کیونکہ در حقیقت یہ حکم ، موت کے دہانے پر پہنچنے یا مرنے کے بعد اسلام کی حیات نو کو یقینی بناتا ہے ۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اس حکم پر عمل در آمد کون کرے گا ؟ اس واجب کی بجاآوری کس کی ذمہ داری ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس جانشین پر جس کے زمانے میں یہ انحراف سامنے آیا ہو ۔ لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ حالات سازگار ہوں کیونکہ خداوند عالم نے ایسا کوئی کام واجب نہيں کیا ہے جس کا کوئي فائدہ نہ ہو ، اگر حالات سازگار نہ ہوں تو آپ جو کام بھی کریں اس کا کوئی فائدہ اور اثر نہيں ہوگا ۔ حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے ۔ البتہ حالات کے سازگار ہونے کے بھی دوسرے معانی ہيں ، نہ یہ کہ ہم کہيں چونکہ خطرات ہیں اس لئے حالات سازگار نہيں ہیں یہاں پر یہ مراد نہيں ہے ۔ حالات سازگار ہوں یعنی انسان کو علم ہو کہ یہ جو کام کر رہا ہے اس کے نتائج بھی بر آمد ہوں گے یعنی عوام تک اس کا پیغام پہنچے گا ، لوگوں کی سمجھ میں بات آ جائے گی اور وہ غلط فہمی میں نہيں رہيں گے ۔ یہ ، وہی فرض ہے جسے کسی ایک کو بجا لانا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ، اس طرح کا انحراف بھی تھا اور حالات بھی سازگار تھے تو امام حسین کے لئے قیام ضروری ہو گیا تھا کیونکہ انحراف پیدا ہو چکا تھا ۔ کیونکہ معاویہ کے بعد اقتدار جس نے سنبھالا وہ ایسا شخص تھا جس ظاہری اسلام کا بھی خیال نہيں رکھتا تھا ! شراب پیتا تھا اور غلط کام انجام دیتا تھا ۔ علی الاعلان جنسی بد عنوانی کرتا تھا ، قرآن کے خلاف بات کرتا تھا قرآن اور دین کی رد میں اشعار پڑھتا تھا اور کھل کر اسلام کی مخالفت کرتا تھا لیکن چونکہ اس کا نام مسلمانوں کے سردار کے طور پر لیا جاتا تھا اس لئے اسلام کے نام کو ہٹانا نہيں چاہتا تھا ۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا تھا نہ اس کے دل میں اسلام سے ہمدردی تھی بلکہ وہ اپنے اعمال سے ، اس گڑھے کی طرح ، جس سے ہمیشہ گندہ پانی نکلے اور اطراف کے پانی کو آلودہ کرے ، اسلامی سماج کو گندہ کر رہا تھا اس کے وجود سے پورا اسلامی سماج گندگی سے پر ہو جاتا ! بد عنوان حاکم ایسا ہوتا ہے ۔ کیونکہ حاکم ، چوٹی پر ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے ، وہیں پر نہيں ٹھہرتا _ عام لوگوں کے بر خلاف _ بلکہ نیچے گرتا ہے اور ہر جگہ چھا جاتا ہے !